Type Here to Get Search Results !

کیا الٹی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟


کیا الٹی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الٹی سے روزہ ٹوٹتا ہے یانہیں ؟
مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
سائل:- ریاض احمدراعینی محلہ ظفرپورہ محمدآباد۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
روزہ یاد نہ ہونے کی حالت میں کسی طرح کی قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اور اگر روزہ دار ہونا یاد ہے تو قے کی دوصورتیں ہیں اور دونوں کے احکام الگ الگ ہیں
1).روزے میں اگر خودبخود بلا قصد کتنی ہی قے(الٹی) آجائے اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا. ہاں اگر منہ بھر قے خود بخود بلا اختیار ہوئی مگر چنے کے برابر یا اس سے زیادہ واپس لوٹا دی تو روزہ ٹوٹ جائے اور اگر چنے سے کم لوٹی تو نہیں ٹوٹے گا.
2).اور اگر روزہ یاد ہونے کے باوجود خود ارادتاً(جان بوجھ کر) قے کی اور وہ منہ بھر ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا. اور اگر جان بوجھ کر قے کی مگر منہ بھر سے کم ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا.
یہ سارے احکام اس صورت میں ہیں جب قے کھانے یا پانی یا صفرا(کڑوا پانی) کی یا خون کی ہو۔
اور اگر بلغم کی قے ہے تو مطلقا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
“سنن ترمذی”میں حدیث پاک مذکور ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ ذَرَعَهُ القَيْءُ، فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے خود بخود قے آئی ہو اس پر قضا نہیں ہے اور جس نے جان بوجھ کر قے کی اس پر قضا ہے
(سنن ترمذی ج3 ح 720ص89 مطبوعہ مصطفی البابی الحلبی مصر)
“مصنف عبدالرزاق” میں ہے
وَعَنْ حَفْصٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَا: مَنِ اسْتَقَاءَ فَقَدْ أَفْطَرَ، وَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَمَنْ ذَرَعَهُ قَيْءٌ فَلَمْ يُفْطِرْ
فرمایا جس نے جان بوجھ کر قے کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور اس پر قضاہے اور جس خود بخود قے آئی ہو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا
(مصنف عبدالرزاق ج 4 کتاب الصیام ص215 مطبوعہ المجلس العلمی الہند)
“درمختار”میں ہے
وإن ذرعه القئ وخرج ولم يعد لا يفطر مطلقا ملا أو لا فإن عاد بلا صنعه ولو هو ملء الفم مع تذكره للصوم لا يفسد
وإن أعاده أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي أفطر إجماعا ولا كفارة.إن ملا الفم وإلا لا هو المختار.
وإن استقاء أي طلب القئ عامدا أي متذكرا لصومه إن كان ملء الفم فسد بالاجماع مطلقا وإن أقل لا عند الثاني وهو الصحيح، وهذا كله في قئ طعام أو ماء أو مرة أو دم
فإن كان بلغما فغير مفسدمطلقا.
اگر خود بخود قے ہوئی اور وہ منہ سے باہر نکل گئی اور لوٹی نہیں تو مطلقا روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے منہ بھر ہے یا نہیں اور اگر روزہ یاد ہونے کے باوجود وہ لوٹ کر چلی گئی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اور اگر اسے خود لوٹایا یا چنے کے برابر لوٹی تو بالاجماع روزہ جاتا رہا(صرف قضا ہوگی) کفارہ نہیں ہوگا اگر منہ بھر ہے ورنہ نہیں ٹوٹے گا یہی مختار قول ہے
اور اگر قصداً(جان بوجھ) کر منہ بھر قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہے تو مطلقاً روزہ جاتا رہا اور اگر اس سے کم کی تو(روزہ) نہیں(ٹوٹے گا)دوسری صورت میں اور یہی صحیح قول ہے
اور یہ سارا حکم اس صورت میں ہے جب قے کھانے یا پانی یا صفرا(کڑوا پانی) یا خون کی ہو. اگر قے بلغم کی ہے تو مطلقا وہ روزہ کو توڑنے والی نہیں ہے.
(الدرالمختار ‘‘،کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لایفسدہ، ص 148 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
“حاشیہ ابن عابدین المعروف فتاوی عالمگیری” میں ہے
وَإِنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ وَخَرَجَ وَلَمْ يَعُدْ لَا يُفْطِرُ مُطْلَقًا مَلَأَ أَوْ لَا فَإِنْ عَادَ بِلَا صُنْعِهِ وَلَوْ هُوَ مِلْءُ الْفَمِ مَعَ تَذَكُّرِهِ لِلصَّوْمِ لَا يَفْسُدُ خِلَافًا لِلثَّانِي وَإِنْ أَعَادَهُ أَوْ قَدْرُ حِمَّصَةٍ مِنْهُ فَأَكْثَرَ حَدَّادِيٌّ أَفْطَرَ إجْمَاعًا وَلَا كَفَّارَةَ إنْ مَلَأَ الْفَمَ وَإِلَّا لَا هُوَ الْمُخْتَارُ وَإِنْ اسْتِقَاءٌ أَيْ طَلَبَ الْقَيْءَ عَامِدًا أَيْ مُتَذَكِّرًا لِصَوْمٍ إنْ كَانَ مِلْءَ الْفَمِ فَسَدَ بِالْإِجْمَاعِ
اگر قے ہوئی اور وہ منہ سے باہر نکل گئی اور لوٹی نہیں تو مطلقا روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے منہ بھر ہے یا نہیں اور اگر روزہ یاد ہونے کے باوجود وہ خود بخود لوٹ کر چلی گئی اگرچہ منہ بھر ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا برخلاف دوسری صورت کے. اور اگر اسے خود لوٹایا یا چنے کی مقدار لوٹی تو بالاجماع روزہ ٹوٹ جائے گا اور(قضا ہوگی) کفارہ نہیں ہوگا (یہ بھی اس وقت ہوگا کہ)اگر وہ منہ بھر قے ہو ورنہ روزہ نہیں ٹوٹے گا اور یہی مختار ہے
اور اگر خود جان بوجھ کر(ارادتاً) روزہ یاد ہونے کے باوجود قے کی اگر وہ منہ بھر ہے تو بالاجماع روزہ فاسد ہو جائے گا.
(حاشیہ ابن عابدین ج 2 کتاب الصوم ص 414 مطبوعہ دارالفکر البیروت)
“بہار شریعت” میں ہے
قصداً بھر مونھ قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہے تو مطلقاً روزہ جاتا رہا اور اس سے کم کی تو نہیں اور بلا اختیار قے ہوگئی تو بھر مونھ ہے یا نہیں اور بہر تقدیر وہ لوٹ کر حلق میں چلی گئی یا اُس نے خود لوٹائی یا نہ لوٹی، نہ لوٹائی تو اگر بھر مونھ نہ ہو تو روزہ نہ گیا، اگرچہ لوٹ گئی یا اُس نے خود لوٹائی اور بھر مونھ ہے اور اُس نے لوٹائی، اگرچہ اس میں سے صر ف چنے برابر حلق سے اُتری تو روزہ جاتا رہا ورنہ نہیں ۔
(بہارشریعت حصہ 5 روزہ توڑنے والی چیزوں کا بیان ص 994 مکتبۃ المدینہ)
“وقار الفتاوی”میں ہے
خود بخود قے(الٹی)سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے منہ بھر کر ہو یا نہ ہو. قصداً(جان بوجھ کر) قے کرنے سے اور قے منہ بھر ہو تو بالاتفاق روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
(وقار الفتاوی جلد 2 کتاب الصوم ص 430 مطبوعہ بزم وقارالدین)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی 

خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔

 مورخہ 06/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 17/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area