(سوال نمبر 5192)
کیا رمضان میں دھماکہ والی حدیث صحیح ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ یہ جو حدیث شریف ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان المبارک میں دھماکہ سنائی دے اور یہ رمضان کے پندرھویں شب جمعہ کو ہوگا اس سال زلزلے کثرت سے ہوں گے اولے کثرت سے پڑیں گے پندرھویں شب صبح کی نماز کے بعد ایک چنگھاڑ سنائی دے گی اس تاریخ کو نماز صبح پڑھ کر گھروں میں داخل ہو جاؤ اور کواڑ بند کرلو گھر میں جتنے دروازے ہوں بند کرلو کپڑے اوڑھ لو کان بند کرلو پھر آواز سنو تو فوراً اللہ عزوجل کے لیے سجدہ میں گرو اور یہ کہو سبحان القنوص سبحان القنوص ربنا القنوص جو ایسا کرے گا نجات پا لے گا جو نہ کرے گا ہلاک ہو جاے گا
کیا مذکورہ حدیث شریف صحیح ہے ؟ حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:- محمد نورانی اکبر پور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ حدیث بعض کتب حدیث میں کچھ کمی و بیشی الفاظ کے ساتھ مرقوم یے پر یہ حدیث ضعیف ہے۔
مذکورہ حدیث کو ابن نعیم نے کتاب الفتن میں نقل کیا ہے، روایت درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ
(كتاب الفتن لنعيم بن حماد بن ج1 ص228 ط مكتبة التوحيد القاهرة )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر رمضان میں چیخ سنائی دے گی تو شوال میں شور شرابہ ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل کی بغاوت ہوگی اور ذی الحجہ میں خون بہے گا اور محرم کا مہینہ تو کیا ہی مہینہ ہوگا۔ ہم نے پوچھا؛ اے اللہ کے رسولﷺ!یہ چیخ کیسی ہوگی ؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا :نصف رمضان المبارک میں جمعہ کی رات کو ایک چیخ (یا دھماکہ ) ہوگا، جو سونے والوں کو بیدار کردے گی، کھڑے ہونے والوں کو بٹھادے گی، شریف زادیاں اپنی خلوت گاہوں سے نکل آئیں گی۔ اس سال زلزلے کثرت سے آئیں گے، جب تم جمعہ کے دن فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے گھروں میں داخل ہوکر دروازے اور کھڑکیاں بند کرلینا، اپنی چادریں اوڑھ لینا، اپنے کان بند کرلینا، اور جب تمھیں چیخ کا احساس ہو تو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا اور یہ پڑھنا سبحان القدوس یعنی پاک ہے وہ ذات جو تمام نقائص سے پاک ہے ربنا القدوس یعنی ہمارا رب، جو نقائص سے پاک ہے۔ جو ایسا کرے گا، وہ نجات پائے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا، وہ ہلاک ہوجائے گا۔
مذکورہ بالا روایت الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ تین طرق سے درج ذیل کتابوں میں ذکر کی گئی ہے۔
١/ المستدرك على الصحيحين ج:4،ص:563،ط:دارالکتب العلمیہ )
٢/ کنزالعمال ج:14 ص:570
٣/ مسند للشاشی: ج: 2 ص: 262،ط:مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة )
٤/ المعجم الأوسط للطبراني،ج: 1،ص:163، ط:دار الحرمين - القاهرة
٥/ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للهيثمي ج:7،ص310،ط: مكتبة القدسي
٦/ السنن الواردۃ فی الفتن للدانی، ج: 5، ص: 972، ط:دار العاصمة
سند کے اعتبار سےپہلی سند کی تحقیق
اس روایت کی سند میں دو راوی ہیں
1۔مسلمہ بن علی
2۔نعيم بن حماد
حافظ ابو عبداللہ حاکم مستدرک للحاکم میں فرماتے ہیں
مسلمة ممن لا تقوم الحجة به مسلمہ قابل حجت نہیں ہے۔
امام نسائی اور دارقطنی فرماتے ہیں: یہ متروک روای ہے۔
قال الذهبي: ومسلمةهذا هو ابن علي الخُشَني بضم الخاء، وفتح الشين المعجمة، ثم نون-، أبو سعيد الدمشقي، البلاطي، وهو متروك -كما قال الذهبي ... ، وكما في التقريب (2/ 249 رقم 1125) -، تفصیل کے لیے دیکھیے الكامل لابن عدي (6/ 2314)، والتهذيب (10/ 146 - 147 رقم 278).
۔نعيم بن حماد کے بارے محدثین کرام فرماتے ہیں:
صدوق يخطيء كثيراً.
سند کے اعتبار سےدوسری سند کی تحقیق
اس طرق میں تین علل ہیں:
1/ عبدالواحد اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔
2/ عبد الواحد بن قيس حافظہ کے اعتبار سے متكلم فیہ ہیں۔
3 / عنبسة بن أبي صغيرة امام اوزاعی سے نقل کرنے میں متفرد ہیں۔قال صالح بن محمد البغدادي:روى عن أبي هريرة، ولم يسمع منه وقال ابن حبان: "لا يعتبر بمقاطيعه، ولا بمراسيله، ولا برواية الضعفاء عنه. وهو الذي يروي عن أبي هريرة، ولم يره"، قال الذھبی : "لم يلق أبا هريرة، وإنما روايته عنه مرسلة".
(تفصیل کے لیے دیکھیے التهذيب (6/ 439 - 440).
سند کے اعتبار سےتیسری سند کی تحقیق
اس سند کا دارمدار شھر بن حوشب روای پر ہے۔
شھر بن حوشب کے بارے میں علامہ ابن حجر نے لکھا ہے:
شهر ابن حوشب الأشعري الشامي مولى أسماء بنت يزيد ابن السكن صدوق كثير الإرسال والأوهام۔ (تقريب التهذيب لابن حجر العسقلاني، ص:269،)
صدوق تو ہے، مگر کثیر الارسال والادہام ہے۔
ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: أن شَهْر بن حَوْشَب قد تركوه۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی،ج5 ص 59،ط: دارالکتب العلمیہ بیروت )
"محدثین نے شہر کو ترک کیا ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں شہر بن حوشب قوی نہیں ہے۔
ابن ابی حثیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور معاویہ بن صالح رحمۃ اللہ علیہ نے ابن معین سے روایت کی ہے کہ: وہ ثقہ ہے۔ امام احمد اس کے حسن الحدیث ہونے کے قائل ہیں۔
عَنْ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ: شَهْرٌ ثِقَةٌ، مَا أَحْسَنَ حَدِيْثَهُ ۔۔۔۔۔وَرَوَى: مُعَاوِيَةُ بنُ صَالِحٍ، وَأَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ.
(سير أعلام النبلاء للذهبي، ج:4، ص: 374،ط الرسالہ )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرچہ بعض ائمہ نے شھر بن حوشب کی توثیق کی ہے، لیکن ائمہ و محدثین کی اکثریت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/11/2023