Type Here to Get Search Results !

کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟


کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسلے کے متعلق کہ ایک آدمی کو دن میں انجیکشن کی ضرورت ہے اور وہ حالت روزہ میں ہے اور وہ اگر انجکشن لگواۓ تو کیا اس کا روزہ باقی رہے گا یا ٹوٹ جائے گا اب انجکشن ایک تو گوشت میں لگایا جاتا ہے اور دوسرا ۔رگ۔ یعنی نس میں دونوں کے متعلق جواب عنائت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
سائل:- محمد حنیف رضوی کشمیر۔
________💠⚜💠__________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
 انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے گوشت میں لگوائے یارگ میں کیوں کہ اس سلسلے میں حکم شرعی یہ ہے کہ قصداً کھانے پینے اور جماع کے علاوہ ایسی دوا یا غذا سے روزہ ٹوٹے گا جو پیٹ یا دماغ میں داخل ہو دوا تر ہو یا خشک 
جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مطبوعہ رحیمیہ صفحہ 104 میں ہے "
وفي دواء الجائفة والامّة اكثر المشايخ على ان العبرة للوصول إلي الجوف والدماغ لا لكونه رطبا أو يابسا حتى إذا علم أن اليابس وصل يفسد صومه ولو علم أن الرطب لم يصل إلى الجوف لم يفسد هكذا في العنايه .ا ھ"
 دماغ میں داخل ہونے سے اس لئے روزہ ٹوٹے گا کہ دماغ سے پیٹ تک ایک منفذ ہے جس کے ذریعے دوا وغیرہ پیٹ میں پہنچ جاتی ہے ورنہ درحقیقت پیٹ میں کسی چیز کا داخل ہو کر رک جانا ہی فساد صوم کا سبب ہے 
جیسا کہ بحر الرائق جلد 2 صفحہ 300 میں ہے:
"قال في البدائع و هذا يدل على أن استقرار الداخل في الجوف شرط لفساد الصوم وفي التحقيق أن بين الجوفين منفذا اصليا فما وصل إلى جوف الرأس يصل إلى جوف البطن كذا في العنايه"ا ھ ملخصا
گوشت میں انجکشن لگنے سے دوا پیٹ یا دماغ میں کسی منفذ کے ذریعے داخل نہیں ہوتی 
بلکہ مسامات کے ذریعے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے اور مسامات کے ذریعے کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ 104 میں ہے
"وما يدخل من مسام البدن من الدهن لا يفطر هكذا في شرح المجمع اھ"
 اسی طرح رگ میں انجکشن لگنے سے بھی دوا پیٹ یا دماغ میں منفذ سے داخل نہیں ہوتی بلکہ رگوں سے دل یا جگر میں پہنچتی ہے اور وہاں سے رگوں کے ذریعے ہی پورے بدن میں پھیلتی ہے ان رگوں کو شرائین یا آوردہ کہتے ہیں جو بالترتیب دل یا جگر سے نکلی ہوئی ہیں. 
جیسا کہ علامہ محمود چغینی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:"
اما العروق الضواريب التي تسمي الشرائين فهي نابتة من القلب في تجويفها روح كثير و دم قليل ومنفعتها أن تفيد الأعضاء قوة الحيلة التي تحملها من القلب .و امام العروق الغير الضوارب التي تسمى آورده فهي نابتة من الكبد فيها دم كثير او روح قليل و منفعتها ان تسقى الأعضاء الدم الذى تحمله من الكبد. اھ ملخصا "
(قانوچہ صفحہ 30)
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول صفحہ 344,345)
واللہ اعلم بالصواب
________💠⚜💠__________
 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:
محمد عالم گیر صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی گجرولہ امروہا
________💠⚜💠__________

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area