مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
جوش میں ہوش کھونا نقصان دہ
جوش میں ہوش کھونا نقصان دہ
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
(1)حالیہ دنوں میں بھارت کے دو اسٹیٹ کے چیف منسٹرس کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ان چیف منسٹرس کی اپنی پارٹیاں ہیں اور وہ پارٹیاں آج بھی ان ریاستوں میں برسر اقتدار ہیں۔
ایسی خطرناک صورت حال میں کوئی مسلمانوں سے کہ دے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو قوم مسلم خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے،حالاں کہ جو آپ کو دلاسہ دلا رہا ہے،وہ اپنے اپ کو بھی حکومتی مشینری سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ملک ہند کی اکثر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔بعض لوگ کھلے دشمن ہیں اور بعض چھپے دشمن اور جمہوری ملک میں مضبوط سیاسی پارٹیوں کی چلتی ہے۔اگر وہ پارٹی برسر اقتدار ہے تو تمام حکومتی شعبوں اور محکموں پر اس کی حکم رانی ہوتی ہے۔اپنے فیصلوں میں آزاد سمجھے جانے والے محکمے بھی مکمل آزاد نہیں ہوتے ہیں،نہ ہی وہ حکومت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
(2)دشمنان اسلام بھارت سے مدارس اسلامیہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور آسام سے یہ کاروائی شروع ہو چکی ہے،جیسے اتراکھنڈ سے یونیفارم سول کوڈ کی کاروائی شروع ہوئی اور کرناٹک سے حجاب کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تھی۔
مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے اور مدارس کے تحفظ وبقا کے لئے مدارس اسلامیہ میں بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کرنا ہی ہو گا۔مدارس اسلامیہ کو اسکولنگ سسٹم سے منسلک کرنا آسان ہے،بہت مشکل یا محال نہیں۔
موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 12:اپریل2014 کو ایک انٹرویو میں کہا تھا:
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹوپیاں پہنے ہوئے وہ لوگ جن کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے،ان کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہیے".
(3)اہل مدارس قوم مسلم سے مدارس کے اخراجات کے لئے رقم لیتے ہیں اور بہت سے مدارس میں متعدد انتظامی خامیاں ہوتی ہیں۔
مدرسین وملازمین کا مشاہرہ مہنگائی کے اعتبار سے بالکل غیر مناسب ہوتا ہے۔اساتذہ وطلبہ کے خورد ونوش کا صحیح انتظام نہیں ہوتا ہے۔بچوں کی تعداد کے مطابق ٹوائلٹ وباتھ روم نہیں ہوتا ہے۔قرآن خوانی کے سبب تعلیم متاثر ہوتی ہے۔
مدارس اسلامیہ الگ ہیں اور یتیم خانے الگ ہیں۔مدارس اسلامیہ میں طلبہ سے فیس لی جائے اور اچھے انتظامات کئے جائیں۔ہر سال جلسوں پر پانچ لاکھ خرچ نہ کیا جائے۔ایک ضلع کے تمام مدارس مل کر ایک جلسہ کریں اور اسی جلسہ میں اس ضلع کے تمام مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل بچوں کی دستار بندی ہو۔
بہت سے مدارس میں ہر سال دو جلسے ہوتے ہیں۔ایک جلسہ اہل مدارس کراتے ہیں اور ایک جلسہ طلبائے مدارس کراتے ہیں۔ان جلسوں کی رقم کو مدرسین کی تنخواہ،بچوں کے خورد ونوش اور اساتذہ و طلبہ کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔قیام مدارس کا مقصد عمارتیں بنوانا اور جلسے کرانا نہیں ہے۔
(4)اہل حکومت حکومتی محکمہ جات اور حکومتی وسائل کے ذریعہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ضلعی کورٹ،ہائی کورٹ،سپریم کورٹ یہ تمام حکومتی شعبے ہیں۔
(5)جمہوری نظام میں عوام کو ووٹ کا حق ضرور ہے۔وہ جسے چاہیں،کرسی پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں،کرسی سے گرا دیں،لیکن جس کو کرسی پر براجمان کر چکے ہوں،اگلے الیکشن تک اسے جھیلنا بھی پڑتا ہے۔درمیان میں کسی کو کرسی سے دھکیلنا بہت مشکل ہوتا ہے،لہذا اکثر سیاسی لیڈران صرف الیکشن کے وقت عوام کو اپنا درشن کراتے ہیں،پھر جیت جانے کے بعد ایسا غائب ہو جاتے ہیں کہ ان کا انتظار کرتے کرتے اگلا الیکشن آ جاتا ہے،تب وہ نمودار ہوتے ہیں۔اہسوں سے بھلائی کی امید رکھنا بہت بڑی بھول ہے۔
(1)حالیہ دنوں میں بھارت کے دو اسٹیٹ کے چیف منسٹرس کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ان چیف منسٹرس کی اپنی پارٹیاں ہیں اور وہ پارٹیاں آج بھی ان ریاستوں میں برسر اقتدار ہیں۔
ایسی خطرناک صورت حال میں کوئی مسلمانوں سے کہ دے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو قوم مسلم خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے،حالاں کہ جو آپ کو دلاسہ دلا رہا ہے،وہ اپنے اپ کو بھی حکومتی مشینری سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ملک ہند کی اکثر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔بعض لوگ کھلے دشمن ہیں اور بعض چھپے دشمن اور جمہوری ملک میں مضبوط سیاسی پارٹیوں کی چلتی ہے۔اگر وہ پارٹی برسر اقتدار ہے تو تمام حکومتی شعبوں اور محکموں پر اس کی حکم رانی ہوتی ہے۔اپنے فیصلوں میں آزاد سمجھے جانے والے محکمے بھی مکمل آزاد نہیں ہوتے ہیں،نہ ہی وہ حکومت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
(2)دشمنان اسلام بھارت سے مدارس اسلامیہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور آسام سے یہ کاروائی شروع ہو چکی ہے،جیسے اتراکھنڈ سے یونیفارم سول کوڈ کی کاروائی شروع ہوئی اور کرناٹک سے حجاب کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تھی۔
مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے اور مدارس کے تحفظ وبقا کے لئے مدارس اسلامیہ میں بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کرنا ہی ہو گا۔مدارس اسلامیہ کو اسکولنگ سسٹم سے منسلک کرنا آسان ہے،بہت مشکل یا محال نہیں۔
موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 12:اپریل2014 کو ایک انٹرویو میں کہا تھا:
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹوپیاں پہنے ہوئے وہ لوگ جن کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے،ان کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہیے".
(3)اہل مدارس قوم مسلم سے مدارس کے اخراجات کے لئے رقم لیتے ہیں اور بہت سے مدارس میں متعدد انتظامی خامیاں ہوتی ہیں۔
مدرسین وملازمین کا مشاہرہ مہنگائی کے اعتبار سے بالکل غیر مناسب ہوتا ہے۔اساتذہ وطلبہ کے خورد ونوش کا صحیح انتظام نہیں ہوتا ہے۔بچوں کی تعداد کے مطابق ٹوائلٹ وباتھ روم نہیں ہوتا ہے۔قرآن خوانی کے سبب تعلیم متاثر ہوتی ہے۔
مدارس اسلامیہ الگ ہیں اور یتیم خانے الگ ہیں۔مدارس اسلامیہ میں طلبہ سے فیس لی جائے اور اچھے انتظامات کئے جائیں۔ہر سال جلسوں پر پانچ لاکھ خرچ نہ کیا جائے۔ایک ضلع کے تمام مدارس مل کر ایک جلسہ کریں اور اسی جلسہ میں اس ضلع کے تمام مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل بچوں کی دستار بندی ہو۔
بہت سے مدارس میں ہر سال دو جلسے ہوتے ہیں۔ایک جلسہ اہل مدارس کراتے ہیں اور ایک جلسہ طلبائے مدارس کراتے ہیں۔ان جلسوں کی رقم کو مدرسین کی تنخواہ،بچوں کے خورد ونوش اور اساتذہ و طلبہ کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔قیام مدارس کا مقصد عمارتیں بنوانا اور جلسے کرانا نہیں ہے۔
(4)اہل حکومت حکومتی محکمہ جات اور حکومتی وسائل کے ذریعہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ضلعی کورٹ،ہائی کورٹ،سپریم کورٹ یہ تمام حکومتی شعبے ہیں۔
(5)جمہوری نظام میں عوام کو ووٹ کا حق ضرور ہے۔وہ جسے چاہیں،کرسی پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں،کرسی سے گرا دیں،لیکن جس کو کرسی پر براجمان کر چکے ہوں،اگلے الیکشن تک اسے جھیلنا بھی پڑتا ہے۔درمیان میں کسی کو کرسی سے دھکیلنا بہت مشکل ہوتا ہے،لہذا اکثر سیاسی لیڈران صرف الیکشن کے وقت عوام کو اپنا درشن کراتے ہیں،پھر جیت جانے کے بعد ایسا غائب ہو جاتے ہیں کہ ان کا انتظار کرتے کرتے اگلا الیکشن آ جاتا ہے،تب وہ نمودار ہوتے ہیں۔اہسوں سے بھلائی کی امید رکھنا بہت بڑی بھول ہے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:25:مارچ2024
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:25:مارچ2024