Type Here to Get Search Results !

فضائل و مسائلِ اعتکاف مستند دلائل کی روشی میں حصّہ اوّل


فضائل و مسائلِ اعتکاف مستند دلائل کی روشی میں حصّہ اوّل
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محترم قارئین کرام :
اعتکاف ماہ رمضان کی خصوصی عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔ ہر طرف سے منقطع ہوکر ، دل و دماغ کو دنیاوی کھیل تماشوں سے ہٹا کر اللہ عزوجل کے در پر دھرنا مار کر بیٹھ جانا اور فقط اپنے مہربان پرودگار جل جلالہ سے لو لگائے بیٹھ جانے کا نام اعتکاف ہے ، اس کا سب سے افضل وقت ماہ رمضان کا آخری عشرہ ہے ۔ اعتکاف کا جو اجر و ثواب آخرت میں ملے گا وہ تو وہیں بندہ دیکھے گا مگر جس بندے کو اعتکاف کی اصل روح نصیب ہو جائے ، مسجد میں قیام کی چاشنی نصیب ہو جائے اور اپنے رب کی محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہو جائے جس کے سامنے ساری نعمتیں اور لذتیں ہیچ ہیں اس بندے کا کیا کہنا ، یقینا وہ بندہ اللہ عزوجل کا حقیقی مہمان ہے ۔ اگر معتکفین پر اعتکاف کی اصل لذت منکشف ہو جائے تو ہماری مسجدیں رمضان میں معتکفین سے بھری رہا کریں ۔
اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے :
وَاَنتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 187)
ترجمہ : جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ۔
اس میں بیان ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزہ دار کےلیے بیوی سے ہم بستری حلال ہے جبکہ وہ معتکف نہ ہولیکن اعتکاف میں عورتوں سے میاں بیوی والے تعلقات حرام ہیں ۔
اعتکام کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور اس کی اقسام : ⏬
علامہ ابوبکر جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اعتکاف کا لغت میں معنی ہے : ٹھہرنا اور اصطلاح شرع میں اس کا معنی ہے : مسجد میں رہنا ‘ روزہ سے رہنا ‘ جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللہ عزوجل سے تقرب کی نیت کرنا ‘ اور جب تک یہ معانی پائے نہ جائیں شرعا اعتکاف متحقق نہیں ہوگا ‘ لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبار سے ہے ‘ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے ‘ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے ‘ البتہ بعض فقہاء نے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔
(احکام القرآن جلد 1 صفحہ 242 مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور 1400 ھ)
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں : ⏬
واجب : یہ وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے ۔
سنت مؤکدہ : رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف ۔
 نفلاعتکاف : جو اعتکاف سنت مؤکدہ ہے اس کی بھی وہی شرائط ہیں جو اعتکاف واجب کی ہیں ۔
اعتکاف کی شرائط : ⏬
(1) اعتکاف کی نیت کرنا شرط ہے ۔
(2) جس مسجد میں اذان اور اقامت ہو اور باجماعت نماز ہو ‘ اس میں اعتکاف کیا جائے ۔
(3) اعتکاف واجب میں روزہ شرط ہے ‘ اعتکاف نفل میں روزہ شرط نہیں اور نہ اس میں وقت کی تحدید ہے ۔
(4) اسلام ۔
(5) عقل ۔
(6) جنابت ‘ حیض اور نفاس سے پاس ہونا ضروری ہے ‘ بالغ ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں ہے اور نہ اور آزاد ہونا اور مرد ہونا شرط ہے۔ عورتیں گھر میں نماز کی جگہ کو اعتکاف کے لیے مخصوص کرلیں اور اس جگہ بیٹھیں ۔
اعتکاف سنت : ⏬
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے ۔ یعنی پورے شہر میں سے کسی ایک نے کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگا ، اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی مجرم ہوئے ۔ (بہار شریعت بیان اعتکاف)
رمضان کے اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف چلا جائے اور انتیس کے چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔ اگر غروب آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اعتکاف کی سنت موکدہ ادا نہ ہوئی بلکہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے ۔ (بہار شریعت)
اعتکاف کی نیت : ⏬
رمضان شریف کے اعتکاف کی نیت اس طرح کریں : نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالیٰ ۔ ترجمہ : میں ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا / کرتی ہوں ۔
اعتکاف نفل :⏬
اس کےلیے نہ روزہ شرط ہے ، نہ کوئی وقت کی قید ہے ۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں ، اعتکاف کی نیت کرلیں ۔ جب تک مسجد میں رہیں گے ، مفت بغیر محنت کے ثواب ملتا رہے گا ۔ جب مسجد سے باہر نکلیں گے، اعتکاف ختم ہوجائے گا ۔ اعتکاف کی نیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے ۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے ۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے ۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے ۔
اعتکاف کے فضائل :⏬
اس آیت میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ایک شرعی مسئلے کا بیان ہوا ، اسی مناسبت سے ہم یہاں اعتکاف کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک ، اعتکاف کے فضائل اور اعتکاف سے متعلق مزید مسائل بیان کرتے ہیں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دی اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کیا کرتیں۔
(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر ۔۔۔ الخ جلد ۱ صفحہ ۶۶۴ الحدیث : ۲۰۲۶)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا ، پھر ایک ترکی خیمہ میں رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا جس کے دروازے پر چٹائی لگی ہوئی تھی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ چٹائی ہٹائی اور خیمہ کے ایک کونے میں کر دی،پھر خیمہ سے سر باہر نکالا اور لوگوں سے فرمایا : میں اس رات (یعنی لیلۃ القدر) کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کرتا تھا،پھر میں درمیانی عشرہ میں اعتکاف بیٹھا ، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا تو میری طرف وحی کی گئی کہ یہ آخری عشرے میں ہے ، تم میں سے جس شخص کو پسند ہو وہ اعتکاف کرے ، چنانچہ لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر ۔۔۔ الخ صفحہ ۵۹۴ ، الحدیث : ۲۱۵(۱۱۶۷)،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ، ایک سال اعتکاف نہ کر سکے ، جب اگلا سال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔
(سنن ترمذی کتاب الصوم باب ما جاء فی الاعتکاف اذا خرج منہ جلد ۲ صفحہ ۲۱۲ الحدیث : ۸۰۳)
حضرت عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب الاعتکاف جلد ۲ صفحہ ۳۶۵ الحدیث : ۱۷۸۱،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کر دے گا اور ہر خندق مشرق و مغرب کے مابین فاصلے سے بھی زیادہ دور ہو گی۔
(معجم الاوسط باب المیم من اسمہ محمد جلد ۵ صفحہ ۲۷۹ الحدیث : ۷۳۲۶)
معتکف جتنے دن اعتکاف کرے گا اتنے دن گناہوں سے بچا رہے گا ۔ جو نیکیاں وہ باہر کرتا تھا مثلاً مریض کی عیادت ، جنازہ میں شرکت ، غرباء کی امداد ، علماء کی مجالس میں حاضری وغیرہ ، اعتکاف کی حالت میں اگرچہ ان کاموں کو نہیں کر سکتا لیکن اس قسم کے اعمال کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔
ایک حدیث میں آتا ہے : مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔
(کنز العمال کتاب الصوم الفصل السابع فی الاعتکاف و لیلۃ القدر جلد 8 صفحہ 244،چشتی)
ترجمہ : جس نے اللہ کی رضا کےلیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔
اس حدیث میں اعتکاف کرنے پر جن گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا ہے ان سے مراد گناہ صغیرہ ہیں ، کیونکہ گناہ کبیرہ کی معافی کیلیے توبہ شرط ہے ۔ اعتکاف کرنے والا جب مبارک ساعات میں خدا تعالیٰ کے حضور گِڑگڑاتا ہے ، آہ وبکا کرتا ہے اور اپنے سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے تو یقینی بات ہے اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں ، اس صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک میں گناہوں سے مراد کبیرہ بھی ہو سکتے ہیں جن کی معافی اعتکاف میں ہوتی ہے ۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ توبہ و استغفار کا ضرور اہتمام کیا کرے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے۔
(شعب الایمان الرابع والعشرین من شعب الایمان جلد ۳ صفحہ ۴۲۵ الحدیث : ۳۹۶۶،چشتی)
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو روزانہ ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
(شعب الایمان الرابع والعشرین من شعب الایمان جلد ۳ صفحہ ۴۲۵ الحدیث : ۳۹۶۸)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ۔۔۔ مَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ تَعَالٰى جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی جلد 5 صفحہ 279 رقم : 7326،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے ۔
ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہو گی ؟ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان کی مبارک گھڑیوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔
(صحیح بخاری باب تحری ليلۃ القدر في الوتر من العشر الأواخر جلد 1 صفحہ 270،چشتی)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو ۔
اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ نیز اس حدیث میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کےلیے آخری عشرہ کا اہتمام بتایا گیا ہے جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرہ کی طاق راتیں ہیں ۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اس آخری عشرہ کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کم از کم طاق راتوں کو تو ضرور عبادت میں گزارنا چاہیے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارتے تھے۔
(صحیح مسلم کتاب الاعتکاف حدیث نمبر ۲۷۸۲)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے دور رہتا ہے اور اسے نیکیوں کا اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے کہ گویا اس نے تمام نیکیاں کیں۔
(سنن ابن ماجہ باب فی ثواب الاعتکاف حدیث نمبر ۱۷۸۱)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا اس نے دو حج اور دو عمرے کیے ۔ (شعب الایمان باب فی الاعتکاف حدیث نمبر ۳۹۶۶)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔
(سنن ابن ماجه کتاب الصيام باب فی ثواب الاعتکاف جلد 2 صفحہ 376 رقم : 21781،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ ﷲ جَعَلَ ﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ ۔
ترجمہ : جو شخص اللہ عزوجل کی رضا کےلیے ایک دن اعتکاف کرتا ہے ، ﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے ۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
(طبرانی المعجم الاوسط جلد 7 صفحہ 221 رقم : 7326)
(شعب الإيمان جلد 3 صفحہ 425 رقم : 3965)
(مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 192)
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ ۔
ترجمہ : جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا ، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
(شعب الإيمان باب الاعتکاف جلد 3 صفحہ 425 رقم : 3966،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے رمضان المبارک میں (دس دن) کا اعتکاف کرلیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 425)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے کے لئے ہوتی ہیں (سنن ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 265)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (جامع الصغیر صفحہ 516)
اعتکاف کے آداب : ⏬
معتکف اچھی بات کے سوا اور کوئی بات نہ کرے ‘ رمضان کے دس دن اعتکاف کرے ‘ سب سے افضل مسجد میں اعتکاف کرے ‘ مثلا مسجد حرام ‘ مسجد نبوی اور جامع مسجد ‘ قرآن اور حدیث کی تلاوت اور فقہ کی کتابیں پڑھنے میں مشغول رہے ‘ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سیرت اور حکایات صالحین کے پڑھنے میں منہمک رہے ‘ اللہ عزوجل کا ذکر کرے ‘ استغفار کرے ‘ دورد شریف پڑھے ‘ زندگی کی قضا نمازیں اور نوافل پڑھے ‘ جن باتوں میں گناہ نہ ہو ان باتوں کے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ‘ اعتکاف کرنے والا خود کو دنیا کے مشاغل سے الگ کرکے بالکلیہ عبادت الہی کے سپرد کردیتا ہے اور اعتکاف کے ایام میں بندہ فرشتوں کے مشابہ ہوجاتا ہے ‘ جو اللہ کی بالکل معصیت نہیں کرتے ‘ اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور دن رات اس کی تسبیح کرنے میں مشغول رہتے ہیں ‘ نمازیں نماز پڑھ کر مسجد میں چلے جاتے ہیں لیکن معتکف اللہ کے گھرکو نہیں چھوڑتا اور دھرنا مار کر بیٹھا رہتا ہے سو اس کےلیے اللہ کی عطا اور نوال زیادہ متوقع ہے ۔
اعتکاف کے مفسدات : ⏬
بلاعذر شرعی مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ‘ بول وبراز کے لیے جانا اور جمعہ پڑھنے کے لیے جانا عذر شرعی ہیں ‘ وضو کے لیے جانا بھی عذر شرعی ہے ‘ کھانے ‘ پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے ‘ جان اور مال کو بچانے کے لیے مسجد سے جانا جائز ہے ‘ مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے ‘ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا ‘ مسجد سے سر باہر نکالنا تاکہ اس کے گھر والے سردھودیں جائز ہے ‘ (ٹھنڈک حاصل کرنے یا صفائی حاصل کرنے کےلیے مسجد سے غسل کرنے کےلیے جانا جائز نہیں ہے البتہ غسل جنابت کیلیے جانا جائز ہے) جماع کرنا ‘ بوسہ دینا ‘ لمس اور معانقہ کرنا یہ تمام اور ناجائز ہیں اور اعتکاف کیلیے مفسد ہیں ‘ بےہوش ہونے یا جنون سے بھی اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے ۔ (فتاویٰ شامی ، فتاویٰ عالمگیری ، فتاویٰ رضویہ ، بہارِ شریعت)
اعتکاف کے بعض ضرور مسائل : ⏬
اعتکاف میں عبادت سمجھ کر خاموش رہنا منع ہے لیکن زبان کے گناہوں سے بچنے کے لیے خاموش رہنا عظیم عبادت ہے ‘ جو چیز اعتکاف میں اعتکاف کی وجہ سے منع ہے مثلا جماع اور مسجد سے نکلنا اس میں عمد اور نسیان میں فرق نہیں ہے اور جو چیز اعتکاف میں روزے کی وجہ سے منع ہے ‘ مثلا کھانا پینا ان میں عمدا رتکاب کی وجہ سے اعتکاف فاسد ہوگا اور نسیانا نہیں ‘ اعتکاف میں خوشبولگا سکتا ہے اور سر میں تیل ڈال سکتا ہے ‘ اگر اعتکاف واجب فاسد ہوجائے تو اس کی قضا واجب ہے ‘ جب اعتکاف کی نذر مانے تو اس کو زبان سے کہنا ضروری ہے ‘ اگر مثلا تین دن یا دو دن اعتکاف کی نذر مانے تو اس میں راتیں شامل ہیں اور اگر مثلا تین یا دو رات اعتکاف کی نذر مانی تو اس میں دن شامل ہیں اور اگر صرف دن یا صرف ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تو یہ بھی جائز ہے ‘ اور اگر ایک دن اعتکاف کی نذر مانی تو اس میں رات شامل نہیں ہے ‘ فرض روزہ بلاعذر توڑنے میں قضا اور کفارہ واجب ہے اور نفل روزہ عمدا توڑنے میں صرف قضا واجب ہے۔ رمضان ‘ کفارہ قتل ‘ کفارہ ظہار ‘ کفارہ قسم ‘ کفارہ افطار رمضان اور نذر کے روزوں کو مسلسل رکھنا واجب ہے ۔ (عالم گیری جلد 1 صفحہ 214۔ 211 مطبوعہ مطبع امیریہ کبری بولاق مصر 1310 ھ)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہرچند کہ نفل ہے لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسد کردیا تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر پورے دس دن کی قضا لازم ہے اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر صرف اسی دن کی قضا لازم ہے ‘ اس کے برعکس نفل میں اگر کچھ دیر مسجد میں بیٹھ کر باہر نکل گیا تو اس پر قضا نہیں کیونکہ اس کے باہر نکلنے سے وہ اعتکاف ختم ہوگیا ۔ (رد المختار جلد 2 صفحہ 131 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت 1407 ھ،چشتی)
چونکہ آخری عشرہ کا اعتکاف شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے ‘ اس لیے ہم نے لکھا ہے کہ اس پر واجب کے احکام لاگو ہوں گے ۔ برطانیہ اور ہالینڈ وغیرہ میں لیز پر جگہ حاصل کرکے مساجد بنا لی جاتی ہیں ‘ وہ شرعا مساجد نہیں ہیں کیونکہ ان پر گورنمنٹ کی ملکیت ہوتی ہے ‘ ان میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب نہیں ہوگا اور نہ ان میں اعتکاف صحیح ہوگا ‘ شرعا مسجد اس وقت ہوگی جب کسی زمین کو اپنی صحیح ملکیت میں لے کر مسجد کے لیے وقف کردیا جائے اسی طرح ان ممالک میں بعض مسلمان حکومت سے بیروزگاری الاؤنس لیتے ہیں اور ان کو مقررہ تاریخ پر جا کر سائن کر کے الاؤنس لینا ہوتا ہے ‘ بعض دفعہ اعتکاف کے دوران وہ تاریخ آجاتی ہے اور وہ سائن کرنے چلے جاتے ہیں ‘ اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا ‘ لیکن ان پر صرف اس ایک دن کی قضا لازم ہوگی ۔
اعتکاف کے چند مسائل : ⏬
(1) مردوں کے اعتکاف کے لیے باقاعدہ شرعی مسجد ضروری ہے ۔
(2) معتکف کو مسجد میں کھانا، پینا، سونا جائز ہے ۔
(3) عورتوں کا اعتکاف ان کے گھروں میں مسجد ِ بیت میں جائز ہے اور فی زمانہ انہیں مسجدوں میں اعتکاف کی اجازت نہیں ۔
(4) واجب اور سنت اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔نفلی اعتکاف میں روزہ ضروری نہیں اور نفلی اعتکاف چند منٹ کا بھی ہوسکتا ہے۔ جب مسجد میں جائیں ، نفلی اعتکاف کی نیت کرلیں ۔
(5) واجب و سنت اعتکاف میں ایک لمحے کیلئے بلااجازت ِ شرعی مسجد سے نکلے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(بہارِ شریعت حصہ پنجم اعتکاف کا بیان جلد ۱ صفحہ ۱۰۲۰-۱۰۲۶،چشتی)
(6) مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کےلیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
(7) اعتکاف کےلیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے ۔ (ردالمحتار)
(8) اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کےلیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کےلیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔
مسجد کی حدود کا تعین : عموماً ہمارے اسلامی بھائی حدود مسجد کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے جب کسی اسلامی بھائی کا کسی مسجد میں اعتکاف کرنا کا ارادہ ہو تو سے سب سے پہلے یہ کام کرنا چاہئے کہ مسجد کے بانی یا متولی سے مسجد کے احاطہ کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرلیں اور خوب اچھی طرح حدود مسجد کا مطلب سمجھ لیں ۔
عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہونا ضروری نہیں بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو ۔ استنجا کی جگہ ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ ، امام و موذن اور خادم صاحبان کے حجرے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے ۔ بلکہ یہ خارج مسجد ہوتے ہیں ۔ وضو خانہ بھی مسجد کا حصہ نہیں ہوتا ، اس لئے معتکف کےلیے ضروری ہے کہ بغیر شرعی ضرورت کے وہاں نہ جائے ۔ اسی طرح مسجد میں جوتے اتارنے کی جگہ ، مسجد میں داخل ہونے کے زینے ، بعض مسجدوں کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے ، وہ حوض اور بعض مسجدوں میں نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے ، وہ جگہ یہ سب کے سب خارج مسجد کہلاتے ہیں ۔ (ماخوذ متفرق کتب فقہ)
(9) بعض مساجد میں اصل مسجد کے بالکل ساتھ ہی بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کےلیے مدرسہ بنایا جاتا ہے، اس جگہ کو بھی جب تک بانی مسجد نے مسجد قرار نہ دیا ہو، اس وقت تک معتکف کے لئے اس میں جانا جائز نہیں ۔ (عالمگیری)
(10) دوران اعتکاف مسجد کے اندر ضرورتاً دینوی بات کرنے کی اجازت ہے ، لیکن حتی الامکان دھیمی آواز کے ساتھ اور احترام مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی بات کرنی چاہیے ۔ (فتاویٰ رضویہ)
(11) صحن مسجد اور اس کی چھت دونوں مسجد کا ہی حصہ ہیں ، اس لئے چھت پر جانا اور صحن میں بیٹھنا جائز ہے ۔ مگر شرط یہ ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ مسجد کے اندر سے ہو اور اگر باہر سے ہے تو جائز نہیں ۔ اگر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا ۔ (فتاویٰ رضویہ)
نوٹ : فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے کہ یہ بے ادبی ہے۔
(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area