Type Here to Get Search Results !

علمائے کرام سے معاشرے کا رویہ اور ان کی تنخواہیں حصّہ اوّل


علمائے کرام سے معاشرے کا رویہ اور ان کی تنخواہیں حصّہ اوّل
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
محترم قارئین کرام :
مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے
اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے ‏:
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ۔ (سورہ توبۃ آیت نمبر 18)‏
ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نما ز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ‏۔
مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ ‏ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، اولیائے کرام ، علمائے کرام ، بزگانِ دین علیہم الرحمہ نے امامت فرمائی ۔ حدیث مبارکہ میں فرمایا : ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ۔
ترجمہ : روزِ قیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام) سے خوش تھے۔
(سنن ترمذی البر والصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح حدیث نمبر 1986)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام کےلیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) ۔
ترجمہ : امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے ، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما۔
(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 6996)‏
‏اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر بڑے سے بڑا ‏عہدے والا بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ منصب ہے جس پر انبیا علیہم ‏السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم فائز رہے ۔ اور شبِ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انبیا علیہم السّلام ‏کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو ‏دیکھ کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔ امامِ مسجد کا کردار ، رہن سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی طرف آئیں ۔ ‏ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے ۔ اور امام مسجد کو علمِ فقہ پر اور خصوصاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھر پور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں پیش ‏آنے والے مسائل ہیں ۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏: ⏬
امام کی عزت کرنا :‏ عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ‏ ۔
ترجمہ : حاملینِ قرآن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو ، جس نے ان کا اکرام کیا ، اس نے اللہ کا اکرام کیا۔
(كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2343،چشتی)‏
عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ۔
ترجمہ : حاملینِ قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں ، جس نے ان کی تعظیم کی ، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی ، اس ‏پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔
(كنز العمال جلد 1 صفحہ 523 حديث نمبر 2344)‏
آج کے اس پُرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا علیہم السلام سمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے ۔‏ جو لوگ عالمِ دین امام کو تنخواہ مقرر کر کے اس کو اپنا نوکر اور خادم سمجھتے ہیں اور اس پر حکومت دکھاتے ہیں ، ایسے لوگ عند اللہ کیسے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی نماز ہوگی یا نہیں ؟
جواب : یہ لوگ انتہائی بد تمیز ، بے ہودے ، ناخدا ترس ہیں جو عالم کو اپنا نوکر سمجھتے ہیں ۔ اس کا اندیشہ ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اپنا ایمان سلامت نہ لے جا سکیں ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے : من أبغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر ۔ نماز بہر حال ان کی بھی اس امام کے پیچھے ہو جائے گی ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
(فتاوی جامعہ اشرفیہ جلد نمبر ۵)(فتاوی شارح بخاری)
امام کی ٹوہ میں پڑنا :‏ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ‏ہے :
قالَ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ ، وَلَا اللَّعَّانِ ، وَلَا الْفَاحِشِ ، وَلَا الْبَذِيءِ ۔
ترجمہ : مسلمان لعن طعن کرنے والا ، ‏فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ 
(سنن ترمذی باب ما جاء فی اللعنۃ حدیث نمبر 1977)
امام کی تنخواہ ‏: امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ‏ایک شخص 20 / 30 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے ، بچوں کی فیس ، دودھ ، راشن ، شادی بیاہ میں جانا ، عید کی شاپنگ ، بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جن کو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کےلیے ‏چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کےلیے کہا کہ میرے بیٹے کےلیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے ‏امام صاحب نے دعا کی یا اللہ اِن کے بچے کی اتنی تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے ۔ لہٰذا ‏ مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ‏یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ، گرمی ، سردی ، طوفان و آندھی اس ‏طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ، لہٰذا ان امام و مؤذن و خادم کا معقول ‏وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ‏۔
امام کو تحفہ ، تحائف دینا اور اچھے کاموں کی تعریف : تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راوی کہ فرمایا : ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے ۔‏ (مرآۃ المناجیح جلد 4 حدیث نمبر 2327،چشتی)‏
اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو ان کے سامنے بیان کیا جائے اس سے بھی آپس میں ‏محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی ۔
امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ‏۔ ‏ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24 گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ‏ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی ان کو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی مسجد میں نماز ‏پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی ‏مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف نماز ہی تو پڑھانی ‏ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد ‏میں تو پڑھنا فرض نہیں پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ، کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز پڑھانے کا پابند کیوں ؟
امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور مناسب حل نکالنا :‏ ‏ اگر امام صاحب کا کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہو گئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں گروپ بندی کر کے ہجوم بنا کر امام ‏کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے ‏سے ، غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہو جائیں گے ‏۔
امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا انتظام کرنا ۔ عام معاشرے میں ایک انسان کےلیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی سہولیات دی جائیں ‏عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام ‏صاحب کا ہجرہ خستہ حالت میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں ، پنکھے ، اسپیکر وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے ۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے مطابق کھانا وغیرہ کا ‏اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسبِ حیثیت مالی تعاون کرنا اور تعزیت کےلیے ان کے پاس جانا ۔
امام کو مقرر کرنے میں خیال کرنا :‏ امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے ، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ‏ہے یا مسجد کی آمدن کم ہے تو گزارہ کرنے کےلیے کسی غریب ، مالی اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کر لیا جائے اور جب مسجد ‏عالیشان تعمیر ہو جائے تو اس بے چارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو لانا ہے تو شروع ہی سے ‏طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ‏ایک مسلمان کی دل آزاری سے ہم بچ جائیں گے ۔
مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت (یعنی مسجد کے امام) کا مطلب یہ ہے کہ : دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا۔
(بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 560 )
بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امامت کو سر انجام دیا ۔ اس کی چھ شرائط ہیں : اسلام ، بلوغ ، عاقل ہونا ، مرد ہونا ، قرائت ، معذورِ (شرعی) نہ ہونا۔
(بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 561،چشتی)
اگر کسی مسجد میں امام معین (مقرر) ہے تو امامِ معین امامت کا حق دا رہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم والا اور زیادہ تجوید والا ہو۔
(بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ 567)
جہاں امامِ معین (مسجد کے امام) کے اتنے مسائل اور اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو کہ مقتدیوں پر لازم ہیں : ⏬
امام کا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے ۔
امام کی غیبت ، چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہٰذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے ۔
 امام کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔
جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے ۔
مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔ جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں (Salary) ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔
مقتدیوں کو چاہیے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت (خیر خواہی ) کرتے رہنا چاہیے ۔
امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کےلیے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی (مثلاً شادی بیاہ) کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کےلیے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔
امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہو جائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ، کاہل ، کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔
جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔
فی زمانہ امامت ، اذان دینے ، قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم پڑھانے پرتنخواہ لینا جائز ہے ، البتہ اگر کوئی فقط پیسے کمانے کےلیے یہ کام کرتا ہے توان امور کا جو ثواب بیان ہوا ، وہ اسے حاصل نہ ہو گا ہاں اگر اصل مقصد دین کی خدمت ہے تنخواہ اس لیے لیتا ہے کہ اپنا اور اہل و عیال کا گزر بسر کر سکے اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا ۔
سنن ابوداؤشریف میں حدیث مبارکہ ہے : عن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : العامل علی الصدقۃ بالحق کالغازی فی سبیل اللہ حتی یرجع الی بیتہ ۔
ترجمہ : رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل کی رضا کی کےلیے حق کے مطابق صدقہ وصول کرنے والااپنے گھر لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ ميں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے۔
(سنن ابوداؤد جلد 2 صفحہ 59 مطبوعہ لاہور،چشتی)
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا ، دیکھو ان عاملوں کو پوری اُجرت دی جاتی تھی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا ۔ چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی ، حضرات خلفائے راشدین سوائے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا ، ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم ، اذان ، امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے ان شاءاللہ عزوجل ثواب بھی ضرور پائیں گے۔
(مراۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 18 مطبوعہ ضیاء القران)
علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں : قد يقال إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله فيأخذ الأجرة لئلا ليمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور بل يكون جمع بين عبادتين وهما الأذان والسعي على العيال وإنما الأعمال بالنيات ۔
ترجمہ : یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ (مؤذن) رضائے الہٰی کا قصد کرے لیکن اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کےلیے قدرِ کفایت روزی نہ کما سکے ۔ چنانچہ وہ اس لیے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اِس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا تو ایسا شخص بھی مؤذن کےلیے ذکر کردہ ثواب کا مستحق ہو گا بلکہ وہ دو عبادتوں کا جامع (یعنی جمع کرنے والا) ہو گا ، ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کےلیے سعی کرنا ، اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے۔
(رد المحتار مع درمختار جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ کوئٹہ)
(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area