Type Here to Get Search Results !

ہندوستانی قانون اور مدرسہ بورڈ کی محرکات کی عدلیہ کے موجودہ رپورٹ کے تناظر میں


مدارسِ ہند:
ہندوستانی قانون اور مدرسہ بورڈ کی محرکات کی عدلیہ کے موجودہ رپورٹ کے تناظر میں: قسط نمبر 1
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر اے اہل وفا
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
یہ بات سچ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ یہ اسلامی ثقافت و تہذیب کی محافظ ہیں۔ مدارس اسلامیہ دینی قلعے، قوم مسلم کی ثقافت و زبان کے پاسبان اور قرآن و حدیث اور مسلم تاریخ و معاملات کے ترجمان ہیں اور عالمی طور پر ورثہ علوم نبویہ اور محافظ شریعت و طریقت ہیں ۔ جو اپنے قیام کے اول روز سے اسی اصول و مقاصد کے ساتھ کاربند ہیں، اور انہیں مقاصد کے ساتھ چلتے رہنا، ان کی حیات ہونے کی دلیل ہے۔ 
لیکن افسوس آج کے اس پر فتن دور میں پوری دنیا میں قوم‌مسلم اپنی تمام تر مسائل میں چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ دیگرقومیں ان سے وابستہ ہر چیز پر سوالات اٹھا رہےہیں ، مدارس میں ترمیمات اور اس کی شکلوں کو مسخ کرنے کے لیے دیگر قومیں سب سے زیادہ اوتاولے ہیں۔ دہشت گردی اور تمام تر برائیوں کے ساتھ مدارس کا تعلق جوڑنے میں پیچھے نہیں ہٹ رہے ،ان سے وابستہ افراد و طلبا کو شب و روز ملک اور بیرون ممالک میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اور یہ بات واضح نہیں ہو پارہی ہے کہ ملک کی خاطر پیش کی گئی مدارس کی قربانیوں اور حکومت و ریاست کی چلن میں ان کے طلبا کی قائم شراکت داریوں کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟ 
23 مارچ، 2024 کو ایک ایسا نیا معاملہ جنم لیتا ہے کہ جس سے ایسا محسوس ہوا کہ ہندوستان کے صوبہ اترپردیش میں چلتے مدرسوں کی شہ رگ پر چھری رکھ دی گئی ہوں، اور اس کی شدت میں اتنی تلخی تھی کہ پورا ہندوستان اقلیتی برادری مسلم کمیونٹی سے منسلک افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اتر پردیش کا مرکزی عدلیہ عالیہ الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو مدرسہ تعلیمی ایکٹ، 2004، کو کچھ آئینی مفاہمت نا ہونے کی وجہ سے "غیر آئینی" ہونے کا اعلان کردیا، اور اپنی رپورٹ کاپی اترپردیش حکومت کو سپرد کردیا۔ 
اور اس کے در پردہ چند ایسی بنیادی چیزوں کو وسائل بنایا گیا جو ہر ہندوستانی شہری کی بنیادی حقوق کی حمایت کرتی ہے اور جس کی تسدید پر لورو کورٹ Lower Court سے لے کر ہائی کورٹ High Court اور سپریم کورٹ آف انڈیا Supreme court میں ہر انسان رٹ ( پیٹیشن) داخل کرسکتا ہے۔ جس کو قانونی تناظر میں ہوبس کورپس Hobbes Corpse کہا جاتا ہے ۔ اس رٹ کے تحت اگر کسی ہندوستانی شہری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو وہ ریاست کے ہائی کورٹ یا بلا واسطہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں اس کو چیلنجز کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور خاص اسی طرح کورٹ کا کوئی درجۂ ریاست یا ضلع، تنظیم یا جماعت کے کارکن کو بھی یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ افادیت عوام و صحت عامہ کے تناظر میں کورٹ میں اپیل داخل کرے اور گورنمنٹ و حکومت کو اس چیز کی خرابی و اچھائی سے باخبر کرے۔ 
کورٹ کے پاس کسی بھی قسم کی قانون و ایکٹ کو پاس کرنے اور ختم کرنے اختیار نہیں ہوتا، یہ حق پارلیمنٹ کو ہوتا ہے کہ پبلک ڈومین میں یا کسی اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود یا برای شئ دیگر قانون بنائے۔ ہاں کورٹ کو اس معاملہ میں ضرور آزادنہ طور پر یہ حق و دستور حاصل ہے کہ اگر پاس ہوئے قانون و ایکٹ میں کوئی خرابی ہے تو Judicial review کے تحت پارلیمنٹ کو راء دہندگی کا حق اسے حاصل ہے اور یہ دستور ریاستی اور مرکزی عدلیہ جات سبھی کو حاصل ہے۔ 
اب مزکورہ بالا نکات کی صورت میں اربابِ مدارس کو اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے دستور میں یہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحت داخل ہے کہ 86 ویں ترمیم ایکٹ سن 2002 کے تحت ہر شخص کو چھ سال سے چودہ سال تک لازمی و ضروری تعلیم فری میں مہیا کرایی جائے ۔ اور اس کے بارے میں بنیادی حقوق کا دفعہ 21 A بات کرتا ہے ۔ یہ ایکٹ رائٹ ٹو ایجوکیشن Right to Education کے نام سے بھی جاتا ہے۔ اور یہ ایکٹ ہندوستان کی مرکزی عدلیہ، حکومت، سرکاری و غیر سرکاری اداروں، مقامی حکام و افسران سبھی پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی شہری سے اس کا یہ بنیادی حق مسلوب نا ہو اور اگر ایسا ہوتا ہے تو محولہ بالا دائرہ کار کے تحت کسی بھی عدلیہ میں معاملہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ 
پورا موجودہ معاملہ یہ ہے جس کی بناء پر مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کوختم کرنے کی مانگ الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے کی گئی- اربابِ مدارس سے گزارش ہے کہ معاملہ کو باقاعدگی سے پہلے سمجھنے کی کوشش کریں، کوا کان لے کر بھاگ گیا، اسی کے پس پشت سب کو بھاگنے کی ضرورت نہیں، اور مذہب کی شدت اس قدر ہمارے نفس میں گھل گئی ہے کہ ہر قانونی کارروائی یا اپنے نفس ومرض کے خلاف دکھتا ہوا معاملہ عذابِ حیات اور خدا کی غضب ہی نظر آتی ہے، زاین قبل کہ قورمے کی خوراک میں گوشت کی تمییز نہیں ہوسکتی ہے۔ جملے اگر سخت ہوں تو معافی کا خواستگار ہوں ، لیکن جس طریقے سے موضوع پر بات نا کرکے أہل قلم کاران، عذابِ خدا پر تبصرہ کر رہے ہیں، وقت سے پہلے ہوش کے ناخن لیں ورنہ یہ ضرور تکلیف کا باعث ہوگا۔  
رائٹ ٹو ایجوکیشن میں تعلیم سے مراد :
یہ چیز سمجھنے کی ہے کہ دفعہ 21A میں جس تعلیم کی بات کی جارہی ہے اس سے مراد یونیورسل تعلیم ہے جس کو الہ آباد ہائی کورٹ کی رپورٹ میں یہ بار بار لفظ دہرایا گیا ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت جس تعلیم کی بات کی جارہی ہے کیا ان موضوعات کو مدرسہ بورڈ مان رہا ہے یا ایسے سبجیکٹ ان ریاستی معاون مدارس میں چل رہے ہیں جو یونیورسل ایجو کیشن سے ملاپ رکھتے ہیں، یونیورسل تعلیم کو مزید واضح کروں کہ اس کے تحت ہر بچے کو ایک باقاعدہ نظام و اصول کے تحت ایک ایسی معیاری تعلیم فراہم کی جائے، جو بچے کی ہمہ جہت ترقی کا سبب بنے، اس کے لیے یہ تعلیم آگے چل کر معیاری تعلیم کے حصول کے لیے اچھا زریعہ بنے۔
مدرسہ بورڈ جو اب تک رائٹ ٹو ایجوکیشن حکومتی پالیسی و دیگر سیاسی سازش کا مشترکہ ساجھے دار رہا ہے۔ 
      راہزن رہبر کی پوشاک میں رہا حاکم ع 
 اب کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب، بات پڑی، بورڈ خطرے میں تو نوکری خطرے میں چئیرمین و اراکین کی، اب جب خالی ہاتھ ہونے پر پڑے تو قوم و ملت کے لیے ساری بھلائی انہیں یاد آنے لگی۔
کیا اہل مدارس کو سن 2002 سے اتنا لمبا وقفہ ملنے کے بعد ان کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر وہ بچے جو چھ سال سے لے کر اور چودہ سال کے درمیان ہمارے مذہبی ادارے میں پڑھ رہے ہیں، ان کی معیار تعلیمی کی کوئی خبر، اور حیثیت کیسی ہے؟ اور کیا بورڈ جس چیز پر حکومت کا حامی و دست بیعت رکھے ہوئے تھا، کیا اس ایکٹ کی تعمیل طرف کوئی قدم اور کوشش اس کی طرف کیوں نہیں کی گئی؟ جس بورڈ کی مارکسیٹ سے اس ملک میں ایک پاس پورٹ نہیں بن سکتا تھا، چہ جائیکہ دیگر سرکاری کام، اس بورڈ کے اندر تعلیمی معیار اور اس بورڈ کی ان اداروں کی محافظت کے لیے کوشش و لائحہ عمل بنانے کے لیے تدابیر پر اربابِ مدارس کو ضرور سوچنا چاہئے کہ کتنی بڑی سازش آپ کے خلاف رچی جارہی تھی۔
حکومت کو سونپی گئی رپورٹ میں کورٹ بینچ بار بار اس چیز کو مدعا بناتا ہے کہ اتر پردیش میں تقریبا 25 لاکھ طالب علم جو 16،513 حکومت سے تسلیم شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور 8،449 حکومت سے غیر تسلم شدہ مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں، کیا ان رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جب کہ 500 سے زائد مدارس کو ریاستی حکومت مدد کے نام پر خطیر رقم دے رہی ہے، یہ کہا تک درست ہے؟
اور ان ساری قضیوں پر مدرسہ فنڈز کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا کہ مدرسہ بورڈ ایکٹ ، جو ہمیشہ اس ضابطے کے اندر ہونے کی بات کرتا ہے ، حالانکہ اس کا معاملہ دورخی ہے اور معاملہ اس سے دگر گوں ہے تو یہ امر فنڈز کمیشن ایکٹ، 1956 کے سیکشن 22 کے خلاف ہے۔ جس پر جلد از جلد قدغن لگنی چاہیے اور ایسے تعلیمی اداروں کو اسکولوں میں تبدیل کیا جانا چاہیے ۔ 
جاری
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- شاہ خالد مصباحی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area