(سوال نمبر 5129)
غیر مفتی کو فتویٰ دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
ککیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مفتی نہیں ہے اور وہ فتوئ دیتا ہے تو کیا اس کا فتوئ دینا درست ہے ؟ نیز ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
سائل:- محمد امانت رضا منظری متعلم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف انڈیا۔
غیر مفتی کو فتویٰ دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
ککیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مفتی نہیں ہے اور وہ فتوئ دیتا ہے تو کیا اس کا فتوئ دینا درست ہے ؟ نیز ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
سائل:- محمد امانت رضا منظری متعلم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بغیر علم کے فتوی دینا حرام و گناہ ہے اگرچہ جو فتوی دیا وہ سہی ہو ۔
فتوی دینا الگ چیز ہے اور کسی کو علماء اہل سنت کی کتب سے مسئلہ دیکھ کر ہوبہو بتانا الگ چیز ہے۔
پر بغیر علم کا فتوی یا مسئلہ بتانا سخت گناہ ہے
حدیث شریف میں ہے
جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
بغیر علم کے فتوی دینا حرام و گناہ ہے اگرچہ جو فتوی دیا وہ سہی ہو ۔
فتوی دینا الگ چیز ہے اور کسی کو علماء اہل سنت کی کتب سے مسئلہ دیکھ کر ہوبہو بتانا الگ چیز ہے۔
پر بغیر علم کا فتوی یا مسئلہ بتانا سخت گناہ ہے
حدیث شریف میں ہے
جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
(اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص۵۱۷ حدیث۸۴۹۱)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
سندحاصِل کرنا تو کچھ ضَرور نہیں ہاں باقاعِدہ تعلیم پانا ضَرور ہے مدرَسہ میں ہو یا کسی عالِم کے مکان پر اور جس نے بے قاعِدہ تعلیم پائی وہ جاہِلِ مَحض سے بدتر نِیم مُلّا خطرۂ ایمان ہو گا ایسے شخص کو فتویٰ نَوِیسی پر جُرأَت حرام ہے اور اگر فتویٰ سے اگر چِہ صحیح ہو، (مگر) وجہُ اللہ مقصود نہیں (یعنی دُرُست فتویٰ ہو تب بھی اگر اللہ کی رِضا مطلوب نہیں ) بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسراسَبَبِ لعنت ہے کہ آیاتُ اللہ کے عِوَض ثَمَنِ قَلیل حاصِل کرنے پر فرمایا گیا :
فتاوٰی رضویہ میں ہے
سندحاصِل کرنا تو کچھ ضَرور نہیں ہاں باقاعِدہ تعلیم پانا ضَرور ہے مدرَسہ میں ہو یا کسی عالِم کے مکان پر اور جس نے بے قاعِدہ تعلیم پائی وہ جاہِلِ مَحض سے بدتر نِیم مُلّا خطرۂ ایمان ہو گا ایسے شخص کو فتویٰ نَوِیسی پر جُرأَت حرام ہے اور اگر فتویٰ سے اگر چِہ صحیح ہو، (مگر) وجہُ اللہ مقصود نہیں (یعنی دُرُست فتویٰ ہو تب بھی اگر اللہ کی رِضا مطلوب نہیں ) بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسراسَبَبِ لعنت ہے کہ آیاتُ اللہ کے عِوَض ثَمَنِ قَلیل حاصِل کرنے پر فرمایا گیا :
اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۷) (پ۳ اٰل عمران ۷۷) (ترجَمۂ کنزالایمان)
آخِرت میں ان کا کچھ حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قِیامت کے دن ، اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔۔
(فتاوٰی رضویہ ج 23صَ 716)
فتاویٰ غوثیہ میں ہے
فتاوی ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ سے یہ ہے کہ مفتی شارح علیہ السلام کے نائب حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر فتوی نوشی کے اصول و قواعد باقاعدہ فن کی شکل دی گئی اور اس فن کو رسم المفتی سے تعمیر کیا گیا۔
فتوی مسلم معاشرہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اساس قرآن کریم کی درج ذیل آیت ہے۔
فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)
اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں.
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴)(ترجمہ کنزالایمان)
اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں.
یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں فتوی نویسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے چونکہ ایک مسلمان کو دینی اور دنیاوی معاملات میں جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے مسلم معاشرہ میں اس کی موجودگی بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ نبی کریم کے دور سے لے کر اب تک علماء نے اس اہم ذمداری کو نبھایا اور اس کے اصول و شرائط اور آداب پر بھی سیر گفتگو بھی حاصل کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فتویٰ اپنی زندگی میں صادر فرمائے۔ وہ جامع ترین احکام پر مشتمل تھے۔ اور مسائل کے استنباط کے سلسلے میں سر چشمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آخِرت میں ان کا کچھ حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قِیامت کے دن ، اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔۔
(فتاوٰی رضویہ ج 23صَ 716)
فتاویٰ غوثیہ میں ہے
فتاوی ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ سے یہ ہے کہ مفتی شارح علیہ السلام کے نائب حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر فتوی نوشی کے اصول و قواعد باقاعدہ فن کی شکل دی گئی اور اس فن کو رسم المفتی سے تعمیر کیا گیا۔
فتوی مسلم معاشرہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اساس قرآن کریم کی درج ذیل آیت ہے۔
فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)
اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں.
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴)(ترجمہ کنزالایمان)
اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں.
یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں فتوی نویسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے چونکہ ایک مسلمان کو دینی اور دنیاوی معاملات میں جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے مسلم معاشرہ میں اس کی موجودگی بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ نبی کریم کے دور سے لے کر اب تک علماء نے اس اہم ذمداری کو نبھایا اور اس کے اصول و شرائط اور آداب پر بھی سیر گفتگو بھی حاصل کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فتویٰ اپنی زندگی میں صادر فرمائے۔ وہ جامع ترین احکام پر مشتمل تھے۔ اور مسائل کے استنباط کے سلسلے میں سر چشمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(فتاوی غوثیہ ج ۱ ص ۲۲)
فتوی دینا حقیقۃً مجتہد کا کام ہے کہ سائل کے سوال کا جواب کتاب و سنت و اجماع و قیاس سے وہی دے سکتا ہے۔ افتاء کا دوسرا مرتبہ نقل ہے یعنی صاحب مذہب سے جو بات ثابت ہے سائل کے جواب میں اُسے بیان کر دینا اس کا کام ہے اور یہ حقیقۃً فتوی دینا نہ ہوا بلکہ مستفتی فتویٰ طلب کرنے والے) کے لیے مفتی (مجتہد) کا قول نقل کر دینا ہوا کہ وہ اس پر عمل کرے۔ مفتی ناقل کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ قول مجتہد کو مشہور و متد اول(رائج) و معتبر کتابوں سے اخذ کرے غیر مشہور کتب سے نقل نہ کرے۔
جو شخص فتوٰی دینے کا اہل ہو اُس کے لیے فتوی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ فتوی دینا لوگوں کو دین کی بات بتانا ہے اور یہ خود ایک ضروری چیز ہے کیونکہ کتمانِ علم (علم کا چھپانا) حرام ہے۔
(بہار شریعت ج ۲ ح ۱۲ ص ۹۱۱ ۔۹۱۴ ناشر مکتبہ المدینہ کراچی مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
فتوی دینا حقیقۃً مجتہد کا کام ہے کہ سائل کے سوال کا جواب کتاب و سنت و اجماع و قیاس سے وہی دے سکتا ہے۔ افتاء کا دوسرا مرتبہ نقل ہے یعنی صاحب مذہب سے جو بات ثابت ہے سائل کے جواب میں اُسے بیان کر دینا اس کا کام ہے اور یہ حقیقۃً فتوی دینا نہ ہوا بلکہ مستفتی فتویٰ طلب کرنے والے) کے لیے مفتی (مجتہد) کا قول نقل کر دینا ہوا کہ وہ اس پر عمل کرے۔ مفتی ناقل کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ قول مجتہد کو مشہور و متد اول(رائج) و معتبر کتابوں سے اخذ کرے غیر مشہور کتب سے نقل نہ کرے۔
جو شخص فتوٰی دینے کا اہل ہو اُس کے لیے فتوی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ فتوی دینا لوگوں کو دین کی بات بتانا ہے اور یہ خود ایک ضروری چیز ہے کیونکہ کتمانِ علم (علم کا چھپانا) حرام ہے۔
(بہار شریعت ج ۲ ح ۱۲ ص ۹۱۱ ۔۹۱۴ ناشر مکتبہ المدینہ کراچی مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/11/2023
16/11/2023