Type Here to Get Search Results !

دیکھ لیں! کہیں آپ کے یاروں کا مسلک تو نہیں بدل رہا ہے؟


دیکھ لیں! کہیں آپ کے یاروں کا مسلک تو نہیں بدل رہا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر:-خالد ایوب مصباحی شیرانی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
یہ کوئی پانچواں تجربہ ہے جب خاکم بدہن کسی کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کے جادہ اعتدال سے انحراف کرتے پایا ہے۔
(الف) کوئی چار سال پرانی بات ہوگی جب پھلیرا نامی مشہور ریلوے جنکشن میں ہمارے ایک ملنے والے نے ہمیں۔
(فقیر راقم الحروف اور مولانا عبد الرحمن قادری شیرانی)
خالص دعوتی اور تبیلغی کام کے لیے یہ کہتے ہوئے مدعو کیا: آپ لوگ تشریف لائیں اور یہاں کے لوگوں میں دینی کاموں کے تئیں بیداری پیدا کریں۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم قبل عشا آں موصوف کے گھر پہنچ گئے، عشا بعد شہر کے کچھ معزز افراد کے ساتھ خاص نشست ہونی تھی جس میں بنیادی طور پر ذہن سازی کا کام کرنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے نگاہوں سے ایک قیامت خیز حادثہ گزرا جس نے آج تک اپنا تاثر کم نہیں ہونے دیا اور وہ یہ کہ جب ہم اپنے میزبان کے ساتھ نماز عشا کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ دیکھ کر حواس باختہ ہو گئے، آں موصوف رفع الیدین کر رہے تھے، پہلی رکعت میں تو یقین نہیں آیا، لیکن آگے ماننا پڑا، تقدیر اپنا کام کر چکی ہے۔ اس حادثے کو پیشگی اسی وقت محسوس کیا جا سکتا تھا جب آں موصوف کا مہمان روم صحاح ستہ سمیت دیگر کتب احادیث سے لبریز تھا لیکن شاید ہو سکتا ہے اس وقت اس طرف بایں وجہ ذہن نہ گیا ہو کہ ہم عام طور پر خوش فہمیوں کے جنت کے باشندے ہوتے ہیں، آج بھی ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے تامل ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کے مطالعہ سے ہمارے عوام تقریباً یک لخت محروم ہیں اور ٹھیک یہی فرقہ اہل حدیث کے فروغ کا بنیادی سبب ہے۔
یہ صاحب وہ ہیں جن کو ہم نے اپنے سن شعور سے راجستھان کے ایک معروف خطیب کے دائیں بائیں اور سفر و حضر میں ان کی رفاقتوں میں دیکھا تھا، جب ہم نے اس حادثہ جاں کاہ کی خطیب موصوف کو اطلاع دی تو ایک دھچکا اور لگا کہ حضرت والا کو اپنے اس رفیق جانی کی اس تبدیلی مسلک کا بالکل علم نہ تھا۔
(ب) ایک خطیب سید زادے کے سفری رفاقتوں کے ایک امین کے ساتھ بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ ایک بار سید صاحب موصوف کے ساتھ ان کے اس خادم خاص کا جان لیوا ایکسیڈنٹ بھی ہوا جس سے اللہ اللہ کر کے جاں بری ہوئی لیکن آج اس خادم خاص کا مسلک سید صاحب سے بالکل جدا ہے اور اس حد تک کہ وہ عام طور پر دیوبندی مکتب فکر کے لوگوں کی طرح سنی ائمہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا بھی روادار نہیں۔ اس کے مطابق اس کی اس تبدیلی کے پیچھے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کا رول ہے، ایسے بیانات جن میں ایک عامی کو اس کی عقل کے مطابق شرک کی بو آنے لگتی ہے۔
(ج) اجمیر شریف سے متعلق ایک عیسائی نو جوان طالب علم نے اسلام قبول کیا، اتفاق سے اس کے حلقہ احباب میں اہل سنت کے خاندانی جاہل نو جوان تھے، وہ اپنے ان دوستوں کی وساطت سے پورے علمی شوق کے ساتھ سنی علما و ائمہ کی بارگاہوں میں حاضری دیا کرتا اور اس کے مطابق وہ اپنی عمر کے اعتبار سے بہت سے علما و ائمہ سے رابطے میں رہا لیکن اس نے صحاح ستہ سے استفادہ، احادیث سے استدلال اور قرآن و سنت سے اکتساب فیض کے وہ طریقے نہیں دیکھے، جو اسے اب اہل حدیث کے یہاں دست یاب ہیں بلکہ اس نے نوٹ کیا: اہل سنت کی ابتدا بزرگوں کے فرمودات، کھانے پینے کی سنتوں کے بیان اور چند دل چسپ واقعات سے ہوتی ہے اور انتہا شفاعت و توسل پر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی عقل سے یہ بھی سمجھا: اہل سنت کے یہاں مشکل کشائی، غریب نوازی اور دست گیری کے اتنے تذکرے ہوتے ہیں، جتنے توحید و رسالت کے حقوق کے نہیں ہوتے، اس لیے اس کے ضمیر نے فیصلہ کیا: رفع الیدین اور آمین بالجہر کے بنا نماز نا مکمل ہے اور طرز بالا کے مطابق گزرتی زندگی غیر اسلامی زندگی اور وہ آج اپنی اس تازہ روش پر اتنا ہی خوش ہے، جتنا علمائے اہل سنت سے ناراض ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو اس نو جوان نے بذات خود وہاٹس ایپ کے ذریعے فقیر راقم الحروف سے شیئر کیں اور وہ اب اس موضوع پر زیادہ گفتگو کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے الفاظ میں علمائے کرام کی حیثیت جانتا ہے اور عام علما و ائمہ کا معیار علم بھی خوب سمجھتا ہے۔
(د) شاہ پورہ، ضلع: بھیلواڑہ، راجستھان کے اہل سنت و جماعت کے فروغ کے لیے قائم کردہ دار العلوم میں ایک نیپالی کوتاہ خرد عالم دین شیخ الحدیث ہوا کرتا تھا جو آج نیپال میں جماعت اہل حدیث کا سرغنہ ہے اور یہ جماعت اسے نمونہ بنائے ڈھوتی رہتی ہے۔
(ھ) کچھ عرصہ قبل یہ خبر پا کر دماغ میں ایک کرنٹ سا لگا کہ ہمارے ایک رفیق درس مصباحی عالم دین رافضیت کا حصہ بن گئے۔
یہ پانچوں حادثے وہ ہیں جنھوں نے اپنے اپنے وقت پر دل و دماغ کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور جن کا نقش ابھی تک محو نہیں ہو پایا۔ اللہ نہ کرے، کبھی نہ کرے، ممکن ہے آپ کی زندگی میں بھی ایسے حادثے رو نما ہوئے ہوں۔ کیا ہم یہ تجزیہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا ہم دل بڑا کر کے یہ تسلیم کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں کہ اس طرح کے ایمان سوز واقعات میں میں کسی حد تک کہیں ہم بھی تو مجرم نہیں؟ یا کم سے کم کیا ہم اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ آئندہ ایسے حادثے نہ ہوں؟
اگر غیرت ایمانی کا جواب ہاں ہے تو نوٹ کیجیے:
(١) اپنے حلقے میں بیٹھنے اور رہنے والے ہر فرد کے ایمان کے متعلق یہ غلط فہمی پال کر نہ رکھیں کہ انھیں صدیقی اور نعمانی ایمان کا حصہ ملا ہے۔ آپ کے حلقہ یاراں میں جہاں بڑے غیور و متصلب ہو سکتے ہیں، وہیں متزلزل طبیعت کے مالک بھی ہو سکتے ہیں بلکہ آج کے دور میں بکثرت ہوتے ہیں، اس لیے قائد کا رول یہ ہونا چاہیے کہ جیسے کسی کے ایمان پر شک نہ کرے، ویسے ہی اس پر فتن دور میں کسی کے مذہب و مسلک کے تعلق سے حد سے زیادہ مطمئن بھی نہ ہو بلکہ گاہے گاہے اس زاویہ نگاہ سے جانچتا دیکھتا رہے اور مناسب تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہے۔
(٢) مذہبی طبقے کو بہر حال اپنے آپ کو مذہبی ہی بنا کر رکھنا چاہیے۔ کسی سے سماجی خدمات لینے یا معاشرتی تعلقات رکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سامنے والا آپ کی مذہبی حیثیت کو فراموش کر چکا ہے۔ بہت ممکن ہے آپ کے معاملات و کردار کا ذرا لوچ پر فتن زمانے میں آپ کے یار کا ایمان چھین لے۔
(٣) گفتگو چاہے ذاتی نوعیت کی ہو یا اجتماعی اور خطابی نوعیت کی، بہر صورت اس میں علمی رنگ، سنجیدہ مزاجی اور نفسیاتی پہلو ملحوظ ہونا چاہیے۔ بارہا ہماری یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں پہلے غلط فہمی اور پھر بے ایمانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ فقیر کی نظر میں قصبوں کے قصبے ایسے موجود ہیں جن میں بد عقیدگی کی ابتدا اسی نفسیات کی نا فہمی سے ہوئی تھی اور آج وہ غیروں کی آغوش میں ہیں۔
(٤) ایک بار جو بھی ہمارے رابطے میں آ جائے، ہمارا اخلاقی اور دعوتی فرض ہوتا ہے کہ ہم اس سے رابطے میں رہیں، اس کی خوشیوں اور غموں میں خود کو شریک کریں اور بالخصوص اس کی صحبتوں پر نظر رکھیں۔
(٥) دوران گفتگو اگر کسی کو دوسرے عقیدے یا مذہب کے متعلق متاثر باتیں کرتا پائیں تو اس پر اسپیشل توجہ مرکوز کریں اور اس سے اغماض یا ٹال مٹول سے کام لینے کی بجائے مطمئن کرنے اور مسلسل مطمئن رکھنے کی کوشش کریں کیوں کہ ایک بار جب کوئی ہاتھ سے نکل چکا ہو تو اس کا اعادہ آسان نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار ممکن بھی نہیں ہوتا۔
(٦) کوئی ضروری نہیں آپ کو ہر مذہب و مسلک کا ہر مسئلہ معلوم ہو، یا جو معلوم ہو، وہ مستحضر ہو، یا جو مسئلہ مستحضر ہو، اس کے دلائل بھی خیال میں ہوں، یا کسی مسئلے کے عقلی اور نقلی دلائل میں سے کسی ایک قسم کے دلائل معلوم ہوں تو دوسری قسم کے دلائل بھی معلوم ہوں، یا یہ سب معلوم بھی ہوں تو کوئی ضروری نہیں، آپ کا سائل آپ کے دلائل کو سمجھنے کے لائق بھی ہو، یہ سب مراتب علم ہیں اور سب کی اپنی جداگانہ حیثیت، اس لیے کسی مسئلے کے متعلق اپنی لا علمی کا اظہار برا نہیں بلکہ اہل علم کا شیوہ رہا ہے، ہاں! بنا معلوم ہوئے مسئلہ بتانے کی جسارت اخلاقی طور پر بھی مذموم ہے اور شرعی نقطہ نظر سے بھی گناہ، اس لیے خدارا کبھی بنا مضبوط علم و یقین کے مسائل بتا کر اپنی اور اپنے سائل کی عاقبت داؤں پر نہ لگائیں بلکہ کچھ بھی جواب دینے سے پہلے اطمینان کافی حاصل کر لیں تاکہ کوئی انہونی نہ ہو۔
(٧) انسانی طبیعت ہمیشہ اخلاق سے متاثر رہی ہے، مذہبی قائدوں کو اپنے اخلاق و کردار کا لوہا منوانا چاہیے۔ آج کے دور میں دعوتی اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ علما نو جوان طبقے بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے سے معقول حد تک بے تکلف لیکن لوجہ اللہ دوستی کریں اور اس کے ساتھ ہی ممکن ہو تو نو جوانوں کو اردو یا عربی زبان سکھانے کی کوشش کریں تاکہ انھیں آپ کی دوستی کی افادیت کا احساس رہے اور اسی کے ساتھ وہ خاموشی سے مذہبی لٹریچر سے جڑ جائیں۔ خیال رہے آج کے نو جوانوں میں زبان دانی اور مذہب فہمی کی بڑی للک ہے جسے کیش کر کے بڑا دعوتی کام کیا جا سکتا ہے۔
(٨) مولانا حضرات زندگی کے کسی بھی موڑ پر رسمی مولانا بن کر نہ رہیں، داعی اور مبلغ بنیں اور جہاں جیسے موقع ملے، اپنا یہ فریضہ انجام دیں اور پھر اس کی برکتیں بھی نوٹ کریں۔
(٩) سرمایہ دار یا دین بیزار طبقے کی ایسی قربتیں جو تملق کے درجے میں ہوں، آپ کی سماجی شخصیت کو بری طرح مجروح کرتی ہیں، اس لیے اس روش سے ہمیشہ کنارہ کش رہیں تاکہ جیسے آپ کی عظمت علم سلامت رہے، ویسے ہی آپ کی زبان بھی با وزن بنی رہے۔
(١٠) اس میں کوئی شک نہیں کہ خانقاہوں نے اسلام کی بڑی نمایاں خدمات کی ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اسپیشل روحانی قوت عطا فرماتا ہے لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کے تعلیم یافتہ نو جوانوں کا باغیانہ اور آزادانہ ذہن جیسے جنات اور بھوت پریت جیسی بدی کی قوتوں کو تسلیم کرنے کے لیے عملاً تیار نہیں، ایسے ہی بارہا اولیائے کرام اور بالخصوص موجودہ زمانے کے مشائخ کی کرامتیں بھی ان کی منطقی نفسیات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، سو ایمان کی جملہ شرطوں پر کھرے اترنے کے بعد ہمیں یہ اصرار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس طرح کی ما فوق الفطرت باتوں پر ایمان لائیں۔ خاص طور پر یہ طریقہ کبھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ان کو جھڑک دیں، یا گستاخ اور بے ادب کہہ دیں، کیوں کہ یہ رویہ جیسے ان کے لیے بد ظنی کے ساتھ آہستہ آہستہ سلب ایمان کا سبب بن سکتا ہے، ویسے ہی سبب بننے کی وجہ سے آپ کے لیے بھی اخروی خسران کا باعث ہو سکتا ہے۔
(١١) ہر چند کہ مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مذہب عقل سے ما ورا بھی نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ہمارے اسلاف نے اسلامی احکام، قوانین اور تعلیمات کی منطقی، نفسیاتی اور معقولی تشریح کی ہے اور اسلامی احکام میں پوشیدہ اسرار و رموز کی نقاب کشائی کی ہے۔ آج کے دور میں خطابی اور ذاتی ہر دو طرح کی گفتگو میں معقولیت کو بالالتزام زیادہ سے زیادہ جگہ ملنی چاہیے کیوں کہ موجودہ سائنسی علوم نے آج کی دنیا کا مزاج اسی تربیت پر استوار کیا ہے اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں۔ معجزات و کرامات سے زیادہ معمولات، اخلاقیات اور معاشرتی پہلوؤں کا ذکر کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عاجزی، غریبی، مکی زندگی کی مظلومیت اور تحمل کی جہاں معقولی تشریح ہو، وہیں صحابہ کرام کے ما فوق البشر مزاج محبت کا بھی معقول تذکرہ ہونا چاہیے تاکہ ذہنوں میں خاموش غلط فہمیاں پروان نہ چڑھیں۔
(١٢) آخری اور موجودہ حالات کے تناظر میں لازمی پہلو جس کا خیال بہت ضروری ہے یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات داروں کو اپنے حصار میں بند رکھنے یا ہمارے ذاتی یا باہمی مسائل میں الجھانے کی بجائے امت کے عالمی، اجتماعی اور بڑے مسائل کی طرف متوجہ کریں تاکہ جہاں خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ اجتماعیت کا تصور پیدا ہو، وہیں بارہا مسلکیات کے غیر ضروری مباحث میں الجھنے سے بچا جا سکے۔
یہ وہ تدبیریں جنھیں اپنا کر دعوت و خدمت کے بڑے کام بھی کیے جا سکتے ہیں اور ایک بڑے طبقے کے ایمان و عقیدے کو سلامت بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area