تقویتہ الایمان پہ چند حقائق قسط نمبر 2
_________(❤️)_________
از قلم:- عبید الرضا ارسلان قادری رضوی
از قلم:- عبید الرضا ارسلان قادری رضوی
آج مورخہ 5 فروری بروز سوموار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ہم نے کل ایک پوسٹ کی "تقویتہ الایمان" کے حوالے سے جسکا جواب دیتے ہوئے لئیق نے مزید اپنے لئے(دیوبندی کے لئے) لا ینحل کی گھتیاں کھولیں ہیں ان شاء اللّٰہ عزوجل جسے سلجھاتے سلجھاتے دیوبندیوں کی عمریں گزر جائیں گی۔
قارئین محترم!
ہمارے بارے میں لئیق اسماعیلی دیوخانی نے لکھا کہ:
لائیو کی تحریر:
ہم نے کل ایک پوسٹ کی "تقویتہ الایمان" کے حوالے سے جسکا جواب دیتے ہوئے لئیق نے مزید اپنے لئے(دیوبندی کے لئے) لا ینحل کی گھتیاں کھولیں ہیں ان شاء اللّٰہ عزوجل جسے سلجھاتے سلجھاتے دیوبندیوں کی عمریں گزر جائیں گی۔
قارئین محترم!
ہمارے بارے میں لئیق اسماعیلی دیوخانی نے لکھا کہ:
لائیو کی تحریر:
اب تک مختلف موضوعات پر عبید الرضا ارسلان نامی رضاخانی کے ساتھ مباحثوں سے یہ واضح ہوا ہے کہ موصوف انتہا درجہ کا بے شرم و ڈھیٹ آدمی ہے، مگر جناب کا کمال یہ ہے کہ خلط مبحث اور گول مول جلیبی کی طرح تحریر لکھ کر اسے جواب باور کرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ چنانچہ تقویت الایمان کے متعلق رضاخانی محققِ بے تحقیق جناب میثم عباس اور جناب غلام غوث کے جواب میں بندے کی لکھی پوسٹ کے ساتھ بھی موصوف نے یہی گل کھلایا۔ ہم جناب کی گول مول باتوں کا تجزیہ قارئین کی عدالت میں پیش کرتے ہیں قارئین خود فیصلہ کریں کہ جناب نے ہماری مدلل تحریر کا جواب دیا ہے یا فقط انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام درج کروا کر اپنا اور قارئین کا وقت برباد کیا ہے۔
تبصرہ:
یہاں جو کچھ موصوف کے اندر گند بھرا ہوا تھا اس نے اسے بخوبی باہر اگلا اس کے جتنے اوصاف تھے موصوف نے بخوبی گنوائے ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں بے شرمی و ڈھٹائی میں لئیق شیطان سے بھی چار قدم آگے ہے اس سے گفتگو کے سلسلہ میں جو بات ہم نے نوٹ کی ہے یہ عبارات سمجھنے سے قاصر، بے علم ہونے کے ساتھ ساتھ بے شرم و بے حیاء بھی ہے ہماری گزشتہ تحریر بھی موجود ہے لئیق کی تحریر بھی موجود ہے احباب مطالعہ فرما کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری تحریر کا جواب دینے کے لئے موصوف کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے مگر جواب اس سے نہ بن پایا۔ اب اس نے انگلی کٹوانا بھی گوارا نہ کیا منہ میں سرخ رنگ لے کر کلی کرکے حرام کی موت مرنے کا ڈرامہ رچا رہا ہے کہ عبید الرضا کے دلائل کی تاب لانا ممکن نہیں لہذا بہتر ہے کہ کہ زہر کھا کے مر ہی جاؤں اب اس نے ادھر ادھر کی ہانک کر جو جلیبی بنائی وہ اس کے حلق میں ہی پھنس چکی ہے جس کا شیرہ شاید اس کے منہ سے اب ٹپک رہا ہے اور یہ شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے بعد جناب لئیق نے گل افشانی کی کہ:
عبید نے خود کشی کرلی:
جناب نے پوری تحریر میں صرف ایک بات سلیقے کی لکھی ہے مگر اس میں بھی خود کشی کر گیا۔ چنانچہ لکھتا ہے
تبصرہ :-
الحمد للّٰہ ہماری پوری تحریر ہی لاجواب ہے پر یہاں دشمن بھی ہمارے بات کرنے کے سلیقے کو مان گیا اسے کہتے ہے الفضل ما شهدت به الأعداء
اب تمہاری تحریر میں کیا ہے مغالظات، لغو بیانی ، کذب بیانی افتراء پردازی اب خود کشی کس نے کی اسکا فیصلہ بھی قارئین فرما لیں گے
اسکے بعد لئیق نے ہماری تحریر نقل کر کے جو تبصرہ کیا وہ بھی ملاحظہ فرمائیں
شورش کرنے والے کون تھے؟
احمد رضا بجنوری لکھتا ہے:
"افسوس ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبا نوے فیصدی حنفی المسلک ہیں دو گروہ میں بٹ گئے ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسی خطے میں بھی ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔
(انوار الباری، جلد 13، ص 392 ، اداره تالیفات اشرفیه ملتان )
لیجئے جناب! یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ تقویتہ الایمان کی وجہ سے دو مسلمان گروہ الگ ہو گئے اور اس سے وہ اختلاف ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی
جواب:- جناب کے اس اصول و استدلال سے معلوم ہوا کہ شورش کا زمہ دار وہ ہے جو مسلمانوں کو دو گروہ میں بانٹنے والا ہو ، تو آئیے جناب کو اس کے گھر کی سیر کراتے ہیں۔مولوی احمد رضا خان کے متعلق اس کے شاگرد و خلیفہ و سوانح نگار لکھتے ہیں :
”مولانا احمد رضا خاں صاحب پچاس سال مسلسل اسی جد وجہد میں منہمک رہے یہاں تک کہ دو مستقل مکتبِ فکر قائم ہوگئے بریلوی اور دیوبندی“۔
تبصرہ:
یہاں جو کچھ موصوف کے اندر گند بھرا ہوا تھا اس نے اسے بخوبی باہر اگلا اس کے جتنے اوصاف تھے موصوف نے بخوبی گنوائے ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں بے شرمی و ڈھٹائی میں لئیق شیطان سے بھی چار قدم آگے ہے اس سے گفتگو کے سلسلہ میں جو بات ہم نے نوٹ کی ہے یہ عبارات سمجھنے سے قاصر، بے علم ہونے کے ساتھ ساتھ بے شرم و بے حیاء بھی ہے ہماری گزشتہ تحریر بھی موجود ہے لئیق کی تحریر بھی موجود ہے احباب مطالعہ فرما کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری تحریر کا جواب دینے کے لئے موصوف کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے مگر جواب اس سے نہ بن پایا۔ اب اس نے انگلی کٹوانا بھی گوارا نہ کیا منہ میں سرخ رنگ لے کر کلی کرکے حرام کی موت مرنے کا ڈرامہ رچا رہا ہے کہ عبید الرضا کے دلائل کی تاب لانا ممکن نہیں لہذا بہتر ہے کہ کہ زہر کھا کے مر ہی جاؤں اب اس نے ادھر ادھر کی ہانک کر جو جلیبی بنائی وہ اس کے حلق میں ہی پھنس چکی ہے جس کا شیرہ شاید اس کے منہ سے اب ٹپک رہا ہے اور یہ شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے بعد جناب لئیق نے گل افشانی کی کہ:
عبید نے خود کشی کرلی:
جناب نے پوری تحریر میں صرف ایک بات سلیقے کی لکھی ہے مگر اس میں بھی خود کشی کر گیا۔ چنانچہ لکھتا ہے
تبصرہ :-
الحمد للّٰہ ہماری پوری تحریر ہی لاجواب ہے پر یہاں دشمن بھی ہمارے بات کرنے کے سلیقے کو مان گیا اسے کہتے ہے الفضل ما شهدت به الأعداء
اب تمہاری تحریر میں کیا ہے مغالظات، لغو بیانی ، کذب بیانی افتراء پردازی اب خود کشی کس نے کی اسکا فیصلہ بھی قارئین فرما لیں گے
اسکے بعد لئیق نے ہماری تحریر نقل کر کے جو تبصرہ کیا وہ بھی ملاحظہ فرمائیں
شورش کرنے والے کون تھے؟
احمد رضا بجنوری لکھتا ہے:
"افسوس ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبا نوے فیصدی حنفی المسلک ہیں دو گروہ میں بٹ گئے ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسی خطے میں بھی ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔
(انوار الباری، جلد 13، ص 392 ، اداره تالیفات اشرفیه ملتان )
لیجئے جناب! یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ تقویتہ الایمان کی وجہ سے دو مسلمان گروہ الگ ہو گئے اور اس سے وہ اختلاف ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی
جواب:- جناب کے اس اصول و استدلال سے معلوم ہوا کہ شورش کا زمہ دار وہ ہے جو مسلمانوں کو دو گروہ میں بانٹنے والا ہو ، تو آئیے جناب کو اس کے گھر کی سیر کراتے ہیں۔مولوی احمد رضا خان کے متعلق اس کے شاگرد و خلیفہ و سوانح نگار لکھتے ہیں :
”مولانا احمد رضا خاں صاحب پچاس سال مسلسل اسی جد وجہد میں منہمک رہے یہاں تک کہ دو مستقل مکتبِ فکر قائم ہوگئے بریلوی اور دیوبندی“۔
(سوانح حیات اعلیٰ حضرت : ص 8 مطبوعہ امین برادرس ناشران و تاجران کتب آرام باغ روڈ کراچی)
پس جناب کے اصول و استدلال اور اس حوالے سے ثابت ہوا کہ شورش کا اصل زمہ دار مولوی احمد رضا خان ہے کیونکہ اس نے پچاس سال محنت کرکے دو مستقل فرقہ وجود میں لایا۔ جناب کی اس خود کشی پہ ایک شعر یاد آیا:
جو آنکھیں کھول کر دیکھے تو یہ معلوم ہو تجھ کو
رضا خود کش دھماکہ کر گیا خود ہی بریلی میں
الجواب :-
سچ کہتے ہیں سانپ کی جب موتی آتی ہے وہ شہر کا رخ اختیار کرتا ہے لئیق اس سے پہلے کئیوں سے الجھا ہو گا کئیوں سے اس نے مار کھائی ہو گی کئیوں کے دلائل سے عاجز آیا ہو گا اب اسکا پالا ہم سے ہوا ہم نے انوار الباری کا حوالہ پیش کیا یہ اسکے برعکس سوانح اعلی حضرت کا حوالہ پیش کرتا ہے حالانکہ دیوبندی اصول یہ ہے کہ:
"کہ ہم پر الزام تراشی اور جھوٹ بولنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے گھر کا گند صاف کریں"
(سفید و سیاہ پر ایک نظر ص 104)
اب لئیق کو چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتا تاکہ اسے شرم و حیاء آتی مگر جس کے بڑے شرم و حیاء سے عاری ہوں ان کا کیا اب چاہئے تو یہ تھا گھر کا گند صاف کرتا مگر اسے اس حوالے کو چھونے کی جسارت نہ ہوئی حالانکہ ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہ کہا تھا جو کچھ تھا انہی کے گھر کا تھا اسی کے تحت ہم نے کہا تھا۔
پھر موصوف نے سوانح اعلی حضرت کا حوالہ پیش کیا تو اول ہم نے تقویتہ الایمان پہ بات کی تھی جو کہ امام اہلسنت کی پیدائش سے بھی پہلے کی کتاب ہے
اسکے بارے میں احمد رضا بجنوری کا قول ہم نے پیش کیا تو وہ امام اہلسنت کی پیدائش سے پہلے کی ہی بات کر رہا ہے نہ کہ بعد کی تو جو کتاب امام اہلسنت سے برسوں پہلے کی تھی اس سے فتنہ و فساد ہوا اب امام اہلسنت کو بیچ میں لانا ہی اس کی بے شرمی و بے حیائی کی دلیل ہے
دیابنہ کا اصول ہے کہ جو کتاب پہلے لکھی جائے اس پہ پہلے بات ہو گی اسی پہ فیصلہ موقوف ہے۔
باقی سوانح حیات اعلی حضرت کا حوالہ بھی اسے مفید نہیں کیونکہ یہاں سے صاف مراد ہے کہ وہابیہ کے عبارات کا رد فرمایا جس سبب دیوبندی الگ ہوئے اگر بالفرض عبارت میں کوئی خرابی ہو بھی تو سرفراز خان گکھڑوی لکھتا ہے:
"بلا شک حضرت گنگوہی ہمارے صد احترام بزرگ ہیں لیکن استعارہ کی تفسیر اور تشریح میں دلائل الاعجاز تلخیص المفتاح مختصر المعانی اور مطول وغیرہ کی صریح عبارتیں ہی قابلِ اعتماد ہیں کیونکہ عبد القاهر الجرجانی اور علامہ تفتازانی وغیرہ اکابر اس فن کے امام ہیں اور بات انہی کی چلے گی"
(الشہاب المبین ص 80)
اب ہم بھی کہتے ہیں جو بات حقیقت تھی کہ تقویتہ الایمان سے فساد ہوا اور مسلمان دو گروہوں میں بٹے وہ ہم نے دلائل قاہرہ سے پیش کی جسے چھونے کی جرات بھی لئیق نہ کر سکا اور دیابنہ کا مسلمہ اصول ہے کہ حقیقت کے برعکس کوئی بات قبول نہیں جب گکھڑوی کے نزدیک گنگوہی کی بات قبول نہ ہوئی قابل اعتماد نہ ہوئی تو قاری احمد پیلی بھیتی کی بات ہمارے لئے کیونکر قبول ہو گی؟
اس کے بعد لئیق لکھتا ہے:
باقی جہاں تک بات ہے انوارلباری از مولانا بجنوری کے حوالے کی تو جواباً عرض ہے کہ مولانا بجنوری تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف ہی نہیں مانتے لہزا یہ حوالہ ہمیں مضر، نہ تمہیں مفید۔ ہاں اگر مولانا بجنوری تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف مانتے ہوئے یہ بات کہتے تو تمہیں ضرور مفید ہوتا۔ مگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ شاہ اسماعیل شہید نے شورش برپا کرنے کے لیے تقویت الایمان لکھی، جبکہ مولانا بجنوری صاحب تقویت الایمان کی نسبت کے ہی منکر گویا وہ بنیاد ہی اکھڑ گئی جس پہ عمارت قائم کرنی تھی لہزا تمہیں ہرگز مفید نہیں۔
الجواب :-
یہاں آپ موصوف کی مخبوط الحواسی کا مظاہرہ فرمائیں کہ بجنوری تقویتہ الایمان ہے بارے کہتا ہے یہ دہلوی کی تصنیف ہی نہیں تو یہ حوالہ تمہیں سور مند نہیں
ہنسی بھی آتی ہے رونا بھی آتا ہے کہ کون شخص ہمارا مخاطب ہے
اپنی گزشتہ تحریر میں موصوف نے لکھا کہ:
"تقویت الایمان کے شاہ شہید کی تصنیف ہونے پر چند ایک کو چھوڑ کر تمام علماء دیوبند کا اتفاق ہے، بلکہ تمام علماء بریلویہ کا بھی اتفاق ہے"
اب موصوف کے نزدیک اس امر پہ اتفاق ہے کہ یہ دہلوی کی ہی تصنیف ہے جب یہ دہلوی کی تصنیف ہوئی تو بجنوری کے نزدیک اس کتاب سے دو گروہوں میں اختلاف ہو گیا وہ بھی ایسا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔
ابو الکلام آزاد کا بیان ہم پیش کر چکے جسے چھونے کی جرات نہ ہوئی موصوف کو شمس الدین درویش کا حوالہ بھی ہم پیش کر چکے جو حیض کے چیتھڑے کی طرح موصوف چھپا گئے
پھر یہ کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ اپنے ہی اس کتاب کو دہلوی کی کتاب ماننے سے انکار کرتے ہیں؟
اسکے بعد موصوف لکھتے ہیں:
مزید عرض یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ :
”کسی کتاب کا معتقدین کے ہاں معتبر ہونا ایک بات اور اس کتاب کا اپنی حیثیت میں معتبر ہونا اور بات ہے۔ نیز کسی کتاب کے معتبر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو کچھ موجود ہے وہ تمام معتبر و مختار ہو ہرگز ایسا نہیں ہے۔
پس جناب کے اصول و استدلال اور اس حوالے سے ثابت ہوا کہ شورش کا اصل زمہ دار مولوی احمد رضا خان ہے کیونکہ اس نے پچاس سال محنت کرکے دو مستقل فرقہ وجود میں لایا۔ جناب کی اس خود کشی پہ ایک شعر یاد آیا:
جو آنکھیں کھول کر دیکھے تو یہ معلوم ہو تجھ کو
رضا خود کش دھماکہ کر گیا خود ہی بریلی میں
الجواب :-
سچ کہتے ہیں سانپ کی جب موتی آتی ہے وہ شہر کا رخ اختیار کرتا ہے لئیق اس سے پہلے کئیوں سے الجھا ہو گا کئیوں سے اس نے مار کھائی ہو گی کئیوں کے دلائل سے عاجز آیا ہو گا اب اسکا پالا ہم سے ہوا ہم نے انوار الباری کا حوالہ پیش کیا یہ اسکے برعکس سوانح اعلی حضرت کا حوالہ پیش کرتا ہے حالانکہ دیوبندی اصول یہ ہے کہ:
"کہ ہم پر الزام تراشی اور جھوٹ بولنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے گھر کا گند صاف کریں"
(سفید و سیاہ پر ایک نظر ص 104)
اب لئیق کو چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتا تاکہ اسے شرم و حیاء آتی مگر جس کے بڑے شرم و حیاء سے عاری ہوں ان کا کیا اب چاہئے تو یہ تھا گھر کا گند صاف کرتا مگر اسے اس حوالے کو چھونے کی جسارت نہ ہوئی حالانکہ ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہ کہا تھا جو کچھ تھا انہی کے گھر کا تھا اسی کے تحت ہم نے کہا تھا۔
پھر موصوف نے سوانح اعلی حضرت کا حوالہ پیش کیا تو اول ہم نے تقویتہ الایمان پہ بات کی تھی جو کہ امام اہلسنت کی پیدائش سے بھی پہلے کی کتاب ہے
اسکے بارے میں احمد رضا بجنوری کا قول ہم نے پیش کیا تو وہ امام اہلسنت کی پیدائش سے پہلے کی ہی بات کر رہا ہے نہ کہ بعد کی تو جو کتاب امام اہلسنت سے برسوں پہلے کی تھی اس سے فتنہ و فساد ہوا اب امام اہلسنت کو بیچ میں لانا ہی اس کی بے شرمی و بے حیائی کی دلیل ہے
دیابنہ کا اصول ہے کہ جو کتاب پہلے لکھی جائے اس پہ پہلے بات ہو گی اسی پہ فیصلہ موقوف ہے۔
باقی سوانح حیات اعلی حضرت کا حوالہ بھی اسے مفید نہیں کیونکہ یہاں سے صاف مراد ہے کہ وہابیہ کے عبارات کا رد فرمایا جس سبب دیوبندی الگ ہوئے اگر بالفرض عبارت میں کوئی خرابی ہو بھی تو سرفراز خان گکھڑوی لکھتا ہے:
"بلا شک حضرت گنگوہی ہمارے صد احترام بزرگ ہیں لیکن استعارہ کی تفسیر اور تشریح میں دلائل الاعجاز تلخیص المفتاح مختصر المعانی اور مطول وغیرہ کی صریح عبارتیں ہی قابلِ اعتماد ہیں کیونکہ عبد القاهر الجرجانی اور علامہ تفتازانی وغیرہ اکابر اس فن کے امام ہیں اور بات انہی کی چلے گی"
(الشہاب المبین ص 80)
اب ہم بھی کہتے ہیں جو بات حقیقت تھی کہ تقویتہ الایمان سے فساد ہوا اور مسلمان دو گروہوں میں بٹے وہ ہم نے دلائل قاہرہ سے پیش کی جسے چھونے کی جرات بھی لئیق نہ کر سکا اور دیابنہ کا مسلمہ اصول ہے کہ حقیقت کے برعکس کوئی بات قبول نہیں جب گکھڑوی کے نزدیک گنگوہی کی بات قبول نہ ہوئی قابل اعتماد نہ ہوئی تو قاری احمد پیلی بھیتی کی بات ہمارے لئے کیونکر قبول ہو گی؟
اس کے بعد لئیق لکھتا ہے:
باقی جہاں تک بات ہے انوارلباری از مولانا بجنوری کے حوالے کی تو جواباً عرض ہے کہ مولانا بجنوری تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف ہی نہیں مانتے لہزا یہ حوالہ ہمیں مضر، نہ تمہیں مفید۔ ہاں اگر مولانا بجنوری تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف مانتے ہوئے یہ بات کہتے تو تمہیں ضرور مفید ہوتا۔ مگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ شاہ اسماعیل شہید نے شورش برپا کرنے کے لیے تقویت الایمان لکھی، جبکہ مولانا بجنوری صاحب تقویت الایمان کی نسبت کے ہی منکر گویا وہ بنیاد ہی اکھڑ گئی جس پہ عمارت قائم کرنی تھی لہزا تمہیں ہرگز مفید نہیں۔
الجواب :-
یہاں آپ موصوف کی مخبوط الحواسی کا مظاہرہ فرمائیں کہ بجنوری تقویتہ الایمان ہے بارے کہتا ہے یہ دہلوی کی تصنیف ہی نہیں تو یہ حوالہ تمہیں سور مند نہیں
ہنسی بھی آتی ہے رونا بھی آتا ہے کہ کون شخص ہمارا مخاطب ہے
اپنی گزشتہ تحریر میں موصوف نے لکھا کہ:
"تقویت الایمان کے شاہ شہید کی تصنیف ہونے پر چند ایک کو چھوڑ کر تمام علماء دیوبند کا اتفاق ہے، بلکہ تمام علماء بریلویہ کا بھی اتفاق ہے"
اب موصوف کے نزدیک اس امر پہ اتفاق ہے کہ یہ دہلوی کی ہی تصنیف ہے جب یہ دہلوی کی تصنیف ہوئی تو بجنوری کے نزدیک اس کتاب سے دو گروہوں میں اختلاف ہو گیا وہ بھی ایسا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔
ابو الکلام آزاد کا بیان ہم پیش کر چکے جسے چھونے کی جرات نہ ہوئی موصوف کو شمس الدین درویش کا حوالہ بھی ہم پیش کر چکے جو حیض کے چیتھڑے کی طرح موصوف چھپا گئے
پھر یہ کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ اپنے ہی اس کتاب کو دہلوی کی کتاب ماننے سے انکار کرتے ہیں؟
اسکے بعد موصوف لکھتے ہیں:
مزید عرض یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ :
”کسی کتاب کا معتقدین کے ہاں معتبر ہونا ایک بات اور اس کتاب کا اپنی حیثیت میں معتبر ہونا اور بات ہے۔ نیز کسی کتاب کے معتبر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو کچھ موجود ہے وہ تمام معتبر و مختار ہو ہرگز ایسا نہیں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، ص 552 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)
پس اس اصول پر عرض ہے کہ انوارلباری ہمارے یہاں معتبر ہونا ایک بات ہے اور اس میں موجود ہر بات معتبر ہونا الگ بات ضروری نہیں کہ اس میں موجود ہر بات معتبر ہو، لہزا تقویت الایمان کے متعلق جو بات آپ نے پیش کی وہ جمہور کے خلاف متفرد ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔
الجواب :-
ہم نے تو انوار الباری کے معتبر و غیر معتبر ہونے کا کلام ہی نہ کیا یہ بھی لئیق کی مخبوط الحواسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس موضوع پہ ہم نے کلام ہی نہ کیا اسے زیر بحث لا رہا ہے اب یہاں آپ کو ہمارے اصول کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہم نے اپنی طرف سے کچھ پیش نہ کیا آپ کا قاعدہ پیش کر چکے کہ گھر کا گند گھر سے صاف کریں اپنے گریبان میں جھانکیں اور تفرد یا غیر معتبر کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی جسے آپ کے بڑوں نے عین اسلام کہا اس کے خلاف جانا اسلام کے خلاف جانا ہوا کہ ہوا؟
اس کے بعد موصوف نے ہمیں خیانت کا الزام دیا ملاحظہ فرمائیں:
عبید کی بدترین خیانت و بدیانتی:
بدیانت موصوف لکھتا ہے کہ :
پس اس اصول پر عرض ہے کہ انوارلباری ہمارے یہاں معتبر ہونا ایک بات ہے اور اس میں موجود ہر بات معتبر ہونا الگ بات ضروری نہیں کہ اس میں موجود ہر بات معتبر ہو، لہزا تقویت الایمان کے متعلق جو بات آپ نے پیش کی وہ جمہور کے خلاف متفرد ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔
الجواب :-
ہم نے تو انوار الباری کے معتبر و غیر معتبر ہونے کا کلام ہی نہ کیا یہ بھی لئیق کی مخبوط الحواسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس موضوع پہ ہم نے کلام ہی نہ کیا اسے زیر بحث لا رہا ہے اب یہاں آپ کو ہمارے اصول کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہم نے اپنی طرف سے کچھ پیش نہ کیا آپ کا قاعدہ پیش کر چکے کہ گھر کا گند گھر سے صاف کریں اپنے گریبان میں جھانکیں اور تفرد یا غیر معتبر کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی جسے آپ کے بڑوں نے عین اسلام کہا اس کے خلاف جانا اسلام کے خلاف جانا ہوا کہ ہوا؟
اس کے بعد موصوف نے ہمیں خیانت کا الزام دیا ملاحظہ فرمائیں:
عبید کی بدترین خیانت و بدیانتی:
بدیانت موصوف لکھتا ہے کہ :
اخلاق حسین قاسمی لکھتا ہے:
"ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد مولانا مخصوص اللہ رحمہ اللہ تعالی وغیرہ کو تقویۃ الایمان کے اسلوب سے اختلاف ہے کہ اس میں مولانا شہید نے شرک کی مشابہ چیزوں کو جو مکروہ کے درجہ کی ہیں انہیں شرک جلی کے درجہ میں داخل کر دیا"
(شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقد ص 73)
اب دیابنہ کا یہ کہنا کہ کسی امر کو (شاہ شہید نے) شرک جلی نہ کہا یہ ان کے منہ پہ طمانچہ ہے جیسا کہ افضال نے چیلنج کے ساتھ کہا۔
جواب : مسٹر بدیانت و خائن موصوف کو اگر افضال بھائی کا چیلنج اٹھانا ہی تھا تو کم از کم دیانت داری کا مظاہرہ کرتا مگر یہ موصوف کے بس کا روگ کہاں۔؟ قارئین مولانا اخلاق حسین قاسمی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
”ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد__مولانا مخصوص اللہ صاحب وغیرہ کو تقویت الایمان کے اسلوبِ بیان سے اختلاف تھا کہ اس میں مولانا شہید نے شرک کی مشابہ چیزوں کو جو مکروہ کے درجہ کی ہیں انہیں شرک جلی میں داخل کر دیا ہے۔ اور مولانا کے نزدیک یہ اسلوب تہدید و ترہیب کے پہلو کو سامنے رکھ کر اختیار کیا گیا ہے فتوئی شائع ہونے کے بعد وہ غلط فہمی دور ہو گئی اور مولانا نے اپنے قلم سے واضح کر دیا کہ مثلاً بوسہ قبر شرک جلی نہیں بلکہ شرک خفی اور احتمال شرک رکھنے کی وجہ سے اس فعل مکروہ پر شرک کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔خاندان کا جھگڑا ختم ہوگیا۔ لیکن میر محبوب کے بیان کے مطابق ہر دور کے گور پرستوں اور پیر پرستوں نے اس معاملہ کو اچھالا اور مولانا شہید کو بدنام کرنے کی نامبارک کوشش جاری رکھی جو آج تک جاری ہے۔“
قارئین، توجہ! مسٹر خائن نے مولانا اخلاق حسین قاسمی کی ادھوری عبارت نقل کرکے کیا تاثر دیا؟ کہ گویا اخلاق حسین قاسمی خود تسلیم کررہے ہیں کہ شاہ شہید نے شرک خفی کو شرک جلی لکھا، جبکہ مولانا قاسمی اسے مولانا مخصوص اللہ صاحب وغیرہ کی غلط فہمی میں شمار کر رہے ہیں مزید یہ کہ فتوی شائع ہونے کے بعد مولانا مخصوص اللہ کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ خاندان کا جھگڑا بھی ختم ہوگیا۔
اسی لیے بندہ (راقم) نے اپنی سابقہ پوسٹ میں لکھا تھا کہ جن بعض علماء نے شاہ شہید سے اختلاف کیا وہ خطا پر تھے، اور جب ان علماء پر حقائق کھلے تو انہوں نے رجوع کیا اور شاہ شہید کے ساتھ ہوگئے۔ ((اس پر مزید دلائل بھی ہیں))
الجواب: موصوف نے ہمیں خائن کہا بد دیانت کہا جبکہ اپنے ہی گھر کا اصول بھول گیا ابو عیوب پادری لکھتا ہے:
"تو اس کے جواب میں پہلی بات تو ہم اوکاڑوی صاحب سے یہ کہنا چاہیں گے کہ مصنف جہانس “ کی نقل کردہ عبارت کو نہ مان کر آپ نے جو مفصل عبارات نقل کی ہیں۔ ان سے بھی وہی نتیجہ نکلتا ہے جو مصنف جہانس نے اخذ کیا ہے۔ اور جب نتیجہ وہی بنتا ہے تو غیر ضروری عبارت کو نقل کرنے کا کیا مطلب؟ ہمارا مدعا جتنی عبارت سے ثابت ہوتا ہے وہ تو موجود ہے۔"
(سفید و سیاہ پر ایک نظر ص 77)
لیجئے جناب! جناب فاضل بریلوی اور ترک موالات کی عبارت میں جناب کے بڑوں نے بد دیانتی و خیانت کی تھی تو جناب کے گرو نے کہا جتنی عبارت سے ہمارا مدعا ثابت ہوتا ہے وہ تو موجود ہے اب یہاں بھی ہم دیوبندی اصول کے مطابق کہتے ہیں جتنی عبارت سے ہمارا مدعا ثابت ہوتا ہے وہ موجود ہے اصل خائن و بد دیانت خود لئیق ٹھہرا۔
پھر ہمیں بد دیانتی کا الزام موصوف تب دیتے جب ہم نے دیگر شواہد پیش نہ کئے ہوتے تقویتہ الایمان کی سبب مسلمانوں کا مختلف گروہوں میں بٹنا اس سے فتنہ و فساد ہونا ہم دیابنہ کے گھر سے ثابت کر چکے اسکے بعد اس عینی شاہد کی بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔
اس کے بعد لئیق لکھتا ہے:
(نمبر ۱) راقم نے غلام غوث کی طرف سے پیش کردہ ارواح ثلاثہ کی حکایت کے متعلق لکھا تھا کہ :
”چند منٹ کے لئے ہم مان کر چلتے ہیں کہ بالفرض یہ حکایت ہر اعتبار سے صحیح اور معتبر ہو۔“الخ....
اس پر عبید کا تبصرہ دیکھیں لکھتا ہے:
موصوف کا کہنا کہ مان لیتے ہیں کہ یہ حکایت درست ہے کافی نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ روایت و حکایت درست ہے۔ جس پہ آگے چل کر ہم شواہد پیش کریں گے۔
قارئین، یہاں عبید نے کہا حکایت کی صحت پر ”آگے چل کر ہم شواہد پیش کریں گے“ مگر پوری تحریر میں جناب نے "شواہد" تو دور ایک شاہد بھی پیش نہیں کیا۔۔۔۔شاید بھول گیا ہوگا بیچارہ۔
تبصرہ :-
ہم نے پوسٹ میں کب کہا تھا مزید شواہد ہم پیش کرے گے اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ اسی پوسٹ میں ہم اس پہ مزید کلام کریں گے
اس روایت کا صحیح ہونا ہم دو حوالوں سے ثابت کر چکے تھے "غلغلہ اور ابو الکلام آزاد کی کہانی" سے تیسرا حوالہ ہم نے قاسمی کا پیش کیا تھا اب اسی کتاب میں قاسمی لکھتا ہے:
"ارواح ثلثہ کی ایک حکایت کے مطابق مولانا شہید نے خود اپنے اسلوب بیان کی شدت کو تسلیم کیا ہے ۔
" میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشد د بھی ہو گیا ہے ، مثلاً ان امور کو جو شرک خفی تھے شرک جلی لکھ دیا گیا ہے گو اس سے شورش ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائے گا"
(شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقد ص 23)
لیجئے جناب! آپ کے گھر والوں کو بھی یہ روایت قبول ہے اور دہلوی کا بیان کہ شرک خفی کو شرک جلی لکھا مجرم کا اقراری بیان ہے اور موصوف لئیق تو اقراری بیان سے نجانے کس کس کو بریلوی بنا چکے اب یہاں اپنا استدلال استعمال کریں کہ دہلوی کا اقراری بیان ہے کہ اس سے شورش ہو گی مگر کیا ہوا لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائیں گے ایسا طمانچہ ہے جس کا جواب پوری ذریت وہابیہ سے بھی ممکن نہیں۔
اس کے بعد لئیق نے لکھا:
(نمبر۲) بحث کا موضوع یہ تھا کہ تقویت الایمان کے نام پر جو شورش برپا ہوئی اس کا زمہ دار کون؟ راقم نے اسی کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ: ”بالفرض شاہ شہید نے اگر یہ کہا بھی ہو کہ تقویت الایمان کی اشاعت سے شورش ہوگی تو ان کی مراد یہ ہوگی کہ شورش برپا کرنے والے اہل بدعت روافض ہوں گے، نہ کہ سنی مسلمان! اور واقعہ بھی یہی ہوا شورش اہل بدعت نے ہی برپا کی اور آج تک وہی برپا کررہے ہیں۔“
یہاں جناب نے جواب دینے کے بجائے خلط مبحث کرتے ہوئے یہ بحث چھیڑ دیا کہ لئیق سنی نہیں بدعتی، وہابی ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے :
((”لئیق کا خود کو سنی کہنا بھی عوام الناس کو دھوکہ دینا ہے کیونکہ اس کے بڑے اقرار کر چکے ہیں وہ وہابی ہیں“)) پھر جناب نے فضول میں وقت برباد کرتے ہوئے لمبے چوڑے حوالے دینے کے بعد لکھا : ((”لیجئے جناب ...ہم نے آپ کا سنی نہ ہونا اور بدعتی ہونا آپ کے گھر سے ہی ثابت کر دیا“))
واہ بھئی واہ! خلط مبحث کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔
ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ وہابی و بدعتی کی بحث میں بھی جناب نے کوئی نئی بات نہیں کی وہی پرانے گھسے پٹے تردید شدہ مواد کو پیش کیا۔ ہم اس وقت اس بحث کو اس لیے اگنور کرتے ہیں کہ یہ موضوع سے متعلق نہیں بے جا طول ہوگا۔
الجواب :-
یہ موضوع سے متعلقہ تھے یا غیر متعلقہ قارئین اندازہ لگا چکے ہوں گے کیونکہ لئیق نے کہا تھا کہ تقویتہ الایمان کی وجہ سے اہل بدعت و روافض نے شورش کی اور سنیوں نے نہ کی سابقہ پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں
ہم نے دلائل قاہرہ سے دیابنہ کا سنی نہ ہونا بلکہ وہابی و بدعتی ہونا ثابت کیا جس کا جواب موصوف سے نہ بن سکا تو خلط مبحث کا الزام دے کر کنی کترائی۔
ہم نے دلائل سے ثابت کیا کہ شورش کی وجہ دہلوی تھا جس نے ایسی گستاخانہ کتاب لکھی پھر انگریزوں نے اسے نہ صرف چھپوایا بلکہ مفت تقسیم کرایا تو اصل وجہ انتشار دہلوی بنا۔
اس کے بعد موصوف نے لکھا کہ:
(نمبر ۳) راقم نے فتاویٰ رضویہ، جلد 7، ص 552 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، کا حوالے سے استدلال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
”جب بڑے بڑے ائمہ کی کتب میں سے کوئی کتاب بھی ایسی نہیں کہ جس کے بعض مقامات قابل تنقید و تنقیح نہ ہوں تو اگر یہی خامی تقویت الایمان میں بھی بعض اہل علم کو نظر آئی اور انہوں نے تنقید و تردید کردی تو اس میں ہلّہ مچانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیونکہ مولوی احمد رضا خان خود اپنی کتب کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ اس میں سب کچھ درست نہیں۔“
جناب نے یہاں عجیب بات کہی لکھتا ہے کہ:
((”اول تو یہ بات امام اہلسنت نے باب الاختلاف میں ذکر فرمایا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات پہ تھانوی صاحب کہتے ہیں یہ تو ظاہر ہے کہ باہم اکابرواصاغر و اوساط میں اختلاف رائے رہا اور ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان اختلافات کی وجہ سے باہم اعتراضات بھی ہوئے
(اشرف السوانح ج 3 ص 226)
اب جو بات امام اہلسنت نے کی وہی بات تھانوی نے کی لہذا اسے پیش کرنا دیوبندی قواعد کی رو سے عبث ہوا۔
لگتا ہے جناب آپا کھو چکے ہیں تبھی سمجھ نہیں آیا کہ گفتگو کیا چل رہی ہے، ایسے موقعوں پر مجھے پروفیسر مسعود ہی یاد آتے ہیں مگر خیر۔۔۔۔ جناب کا کہنا ہے کہ احمد رضا خان نے یہ بات باب الاختلاف میں ذکر فرمایا، تو جان من! ہم نے کون سا اس حوالے کو باب الاتفاق میں پیش کردیا؟؟؟ بات تو اختلاف، انتشار، شورش کی ہی چل رہی تھی اور اسی کے مطابق ہم نے حوالہ دیا تھا۔ مگر رضاخانی عقل ہی عجیب ہوتی ہے کہ سوال ہو چنے کا جواب دیں گندم کا۔
تبصرہ :-
اب اس جاہل کو کیا معلوم کہ تقویتہ الایمان فروعی معاملات کی کتاب ہے یا اعتقادی امور کی
جو فروعی معاملات کو کھینچ کر اعتقادات میں گھسیٹتا ہے تو تھانوی کی بات یاد آتی ہے کہ سب احمق چھانٹ چھانٹ کر اسی کے حصہ میں آ گئے۔
اب یہ بتائے لئیق کہ تقویتہ الایمان سے فروعی اختلاف ہوا کہ اعتقادی ؟
اس کی بعد لئیق لکھتا ہے:
(نمبر۴) بندہ نے ایک اصولی بات کی تھی کہ اگر بعض علماء نے شاہ شہید کو خطا پر سمجھ کر ان کا رد کیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعی شاہ شہید ہی خطا پر تھے معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اپنی اس بات کو مضبوط کرنے کے لئے میں نے رضاخانی غزالی زماں احمد سعید کاظمی کا حوالہ نقل کیا تھا۔ اب قارئین دیکھیں کہ اتنی اصولی اور مضبوط بات کے جواب میں عبید نے کیسی بونگی ماری، لکھتا ہے کہ:
"ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد مولانا مخصوص اللہ رحمہ اللہ تعالی وغیرہ کو تقویۃ الایمان کے اسلوب سے اختلاف ہے کہ اس میں مولانا شہید نے شرک کی مشابہ چیزوں کو جو مکروہ کے درجہ کی ہیں انہیں شرک جلی کے درجہ میں داخل کر دیا"
(شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقد ص 73)
اب دیابنہ کا یہ کہنا کہ کسی امر کو (شاہ شہید نے) شرک جلی نہ کہا یہ ان کے منہ پہ طمانچہ ہے جیسا کہ افضال نے چیلنج کے ساتھ کہا۔
جواب : مسٹر بدیانت و خائن موصوف کو اگر افضال بھائی کا چیلنج اٹھانا ہی تھا تو کم از کم دیانت داری کا مظاہرہ کرتا مگر یہ موصوف کے بس کا روگ کہاں۔؟ قارئین مولانا اخلاق حسین قاسمی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
”ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد__مولانا مخصوص اللہ صاحب وغیرہ کو تقویت الایمان کے اسلوبِ بیان سے اختلاف تھا کہ اس میں مولانا شہید نے شرک کی مشابہ چیزوں کو جو مکروہ کے درجہ کی ہیں انہیں شرک جلی میں داخل کر دیا ہے۔ اور مولانا کے نزدیک یہ اسلوب تہدید و ترہیب کے پہلو کو سامنے رکھ کر اختیار کیا گیا ہے فتوئی شائع ہونے کے بعد وہ غلط فہمی دور ہو گئی اور مولانا نے اپنے قلم سے واضح کر دیا کہ مثلاً بوسہ قبر شرک جلی نہیں بلکہ شرک خفی اور احتمال شرک رکھنے کی وجہ سے اس فعل مکروہ پر شرک کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔خاندان کا جھگڑا ختم ہوگیا۔ لیکن میر محبوب کے بیان کے مطابق ہر دور کے گور پرستوں اور پیر پرستوں نے اس معاملہ کو اچھالا اور مولانا شہید کو بدنام کرنے کی نامبارک کوشش جاری رکھی جو آج تک جاری ہے۔“
قارئین، توجہ! مسٹر خائن نے مولانا اخلاق حسین قاسمی کی ادھوری عبارت نقل کرکے کیا تاثر دیا؟ کہ گویا اخلاق حسین قاسمی خود تسلیم کررہے ہیں کہ شاہ شہید نے شرک خفی کو شرک جلی لکھا، جبکہ مولانا قاسمی اسے مولانا مخصوص اللہ صاحب وغیرہ کی غلط فہمی میں شمار کر رہے ہیں مزید یہ کہ فتوی شائع ہونے کے بعد مولانا مخصوص اللہ کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ خاندان کا جھگڑا بھی ختم ہوگیا۔
اسی لیے بندہ (راقم) نے اپنی سابقہ پوسٹ میں لکھا تھا کہ جن بعض علماء نے شاہ شہید سے اختلاف کیا وہ خطا پر تھے، اور جب ان علماء پر حقائق کھلے تو انہوں نے رجوع کیا اور شاہ شہید کے ساتھ ہوگئے۔ ((اس پر مزید دلائل بھی ہیں))
الجواب: موصوف نے ہمیں خائن کہا بد دیانت کہا جبکہ اپنے ہی گھر کا اصول بھول گیا ابو عیوب پادری لکھتا ہے:
"تو اس کے جواب میں پہلی بات تو ہم اوکاڑوی صاحب سے یہ کہنا چاہیں گے کہ مصنف جہانس “ کی نقل کردہ عبارت کو نہ مان کر آپ نے جو مفصل عبارات نقل کی ہیں۔ ان سے بھی وہی نتیجہ نکلتا ہے جو مصنف جہانس نے اخذ کیا ہے۔ اور جب نتیجہ وہی بنتا ہے تو غیر ضروری عبارت کو نقل کرنے کا کیا مطلب؟ ہمارا مدعا جتنی عبارت سے ثابت ہوتا ہے وہ تو موجود ہے۔"
(سفید و سیاہ پر ایک نظر ص 77)
لیجئے جناب! جناب فاضل بریلوی اور ترک موالات کی عبارت میں جناب کے بڑوں نے بد دیانتی و خیانت کی تھی تو جناب کے گرو نے کہا جتنی عبارت سے ہمارا مدعا ثابت ہوتا ہے وہ تو موجود ہے اب یہاں بھی ہم دیوبندی اصول کے مطابق کہتے ہیں جتنی عبارت سے ہمارا مدعا ثابت ہوتا ہے وہ موجود ہے اصل خائن و بد دیانت خود لئیق ٹھہرا۔
پھر ہمیں بد دیانتی کا الزام موصوف تب دیتے جب ہم نے دیگر شواہد پیش نہ کئے ہوتے تقویتہ الایمان کی سبب مسلمانوں کا مختلف گروہوں میں بٹنا اس سے فتنہ و فساد ہونا ہم دیابنہ کے گھر سے ثابت کر چکے اسکے بعد اس عینی شاہد کی بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔
اس کے بعد لئیق لکھتا ہے:
(نمبر ۱) راقم نے غلام غوث کی طرف سے پیش کردہ ارواح ثلاثہ کی حکایت کے متعلق لکھا تھا کہ :
”چند منٹ کے لئے ہم مان کر چلتے ہیں کہ بالفرض یہ حکایت ہر اعتبار سے صحیح اور معتبر ہو۔“الخ....
اس پر عبید کا تبصرہ دیکھیں لکھتا ہے:
موصوف کا کہنا کہ مان لیتے ہیں کہ یہ حکایت درست ہے کافی نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ روایت و حکایت درست ہے۔ جس پہ آگے چل کر ہم شواہد پیش کریں گے۔
قارئین، یہاں عبید نے کہا حکایت کی صحت پر ”آگے چل کر ہم شواہد پیش کریں گے“ مگر پوری تحریر میں جناب نے "شواہد" تو دور ایک شاہد بھی پیش نہیں کیا۔۔۔۔شاید بھول گیا ہوگا بیچارہ۔
تبصرہ :-
ہم نے پوسٹ میں کب کہا تھا مزید شواہد ہم پیش کرے گے اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ اسی پوسٹ میں ہم اس پہ مزید کلام کریں گے
اس روایت کا صحیح ہونا ہم دو حوالوں سے ثابت کر چکے تھے "غلغلہ اور ابو الکلام آزاد کی کہانی" سے تیسرا حوالہ ہم نے قاسمی کا پیش کیا تھا اب اسی کتاب میں قاسمی لکھتا ہے:
"ارواح ثلثہ کی ایک حکایت کے مطابق مولانا شہید نے خود اپنے اسلوب بیان کی شدت کو تسلیم کیا ہے ۔
" میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشد د بھی ہو گیا ہے ، مثلاً ان امور کو جو شرک خفی تھے شرک جلی لکھ دیا گیا ہے گو اس سے شورش ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائے گا"
(شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقد ص 23)
لیجئے جناب! آپ کے گھر والوں کو بھی یہ روایت قبول ہے اور دہلوی کا بیان کہ شرک خفی کو شرک جلی لکھا مجرم کا اقراری بیان ہے اور موصوف لئیق تو اقراری بیان سے نجانے کس کس کو بریلوی بنا چکے اب یہاں اپنا استدلال استعمال کریں کہ دہلوی کا اقراری بیان ہے کہ اس سے شورش ہو گی مگر کیا ہوا لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائیں گے ایسا طمانچہ ہے جس کا جواب پوری ذریت وہابیہ سے بھی ممکن نہیں۔
اس کے بعد لئیق نے لکھا:
(نمبر۲) بحث کا موضوع یہ تھا کہ تقویت الایمان کے نام پر جو شورش برپا ہوئی اس کا زمہ دار کون؟ راقم نے اسی کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ: ”بالفرض شاہ شہید نے اگر یہ کہا بھی ہو کہ تقویت الایمان کی اشاعت سے شورش ہوگی تو ان کی مراد یہ ہوگی کہ شورش برپا کرنے والے اہل بدعت روافض ہوں گے، نہ کہ سنی مسلمان! اور واقعہ بھی یہی ہوا شورش اہل بدعت نے ہی برپا کی اور آج تک وہی برپا کررہے ہیں۔“
یہاں جناب نے جواب دینے کے بجائے خلط مبحث کرتے ہوئے یہ بحث چھیڑ دیا کہ لئیق سنی نہیں بدعتی، وہابی ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے :
((”لئیق کا خود کو سنی کہنا بھی عوام الناس کو دھوکہ دینا ہے کیونکہ اس کے بڑے اقرار کر چکے ہیں وہ وہابی ہیں“)) پھر جناب نے فضول میں وقت برباد کرتے ہوئے لمبے چوڑے حوالے دینے کے بعد لکھا : ((”لیجئے جناب ...ہم نے آپ کا سنی نہ ہونا اور بدعتی ہونا آپ کے گھر سے ہی ثابت کر دیا“))
واہ بھئی واہ! خلط مبحث کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔
ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ وہابی و بدعتی کی بحث میں بھی جناب نے کوئی نئی بات نہیں کی وہی پرانے گھسے پٹے تردید شدہ مواد کو پیش کیا۔ ہم اس وقت اس بحث کو اس لیے اگنور کرتے ہیں کہ یہ موضوع سے متعلق نہیں بے جا طول ہوگا۔
الجواب :-
یہ موضوع سے متعلقہ تھے یا غیر متعلقہ قارئین اندازہ لگا چکے ہوں گے کیونکہ لئیق نے کہا تھا کہ تقویتہ الایمان کی وجہ سے اہل بدعت و روافض نے شورش کی اور سنیوں نے نہ کی سابقہ پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں
ہم نے دلائل قاہرہ سے دیابنہ کا سنی نہ ہونا بلکہ وہابی و بدعتی ہونا ثابت کیا جس کا جواب موصوف سے نہ بن سکا تو خلط مبحث کا الزام دے کر کنی کترائی۔
ہم نے دلائل سے ثابت کیا کہ شورش کی وجہ دہلوی تھا جس نے ایسی گستاخانہ کتاب لکھی پھر انگریزوں نے اسے نہ صرف چھپوایا بلکہ مفت تقسیم کرایا تو اصل وجہ انتشار دہلوی بنا۔
اس کے بعد موصوف نے لکھا کہ:
(نمبر ۳) راقم نے فتاویٰ رضویہ، جلد 7، ص 552 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، کا حوالے سے استدلال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
”جب بڑے بڑے ائمہ کی کتب میں سے کوئی کتاب بھی ایسی نہیں کہ جس کے بعض مقامات قابل تنقید و تنقیح نہ ہوں تو اگر یہی خامی تقویت الایمان میں بھی بعض اہل علم کو نظر آئی اور انہوں نے تنقید و تردید کردی تو اس میں ہلّہ مچانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیونکہ مولوی احمد رضا خان خود اپنی کتب کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ اس میں سب کچھ درست نہیں۔“
جناب نے یہاں عجیب بات کہی لکھتا ہے کہ:
((”اول تو یہ بات امام اہلسنت نے باب الاختلاف میں ذکر فرمایا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات پہ تھانوی صاحب کہتے ہیں یہ تو ظاہر ہے کہ باہم اکابرواصاغر و اوساط میں اختلاف رائے رہا اور ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان اختلافات کی وجہ سے باہم اعتراضات بھی ہوئے
(اشرف السوانح ج 3 ص 226)
اب جو بات امام اہلسنت نے کی وہی بات تھانوی نے کی لہذا اسے پیش کرنا دیوبندی قواعد کی رو سے عبث ہوا۔
لگتا ہے جناب آپا کھو چکے ہیں تبھی سمجھ نہیں آیا کہ گفتگو کیا چل رہی ہے، ایسے موقعوں پر مجھے پروفیسر مسعود ہی یاد آتے ہیں مگر خیر۔۔۔۔ جناب کا کہنا ہے کہ احمد رضا خان نے یہ بات باب الاختلاف میں ذکر فرمایا، تو جان من! ہم نے کون سا اس حوالے کو باب الاتفاق میں پیش کردیا؟؟؟ بات تو اختلاف، انتشار، شورش کی ہی چل رہی تھی اور اسی کے مطابق ہم نے حوالہ دیا تھا۔ مگر رضاخانی عقل ہی عجیب ہوتی ہے کہ سوال ہو چنے کا جواب دیں گندم کا۔
تبصرہ :-
اب اس جاہل کو کیا معلوم کہ تقویتہ الایمان فروعی معاملات کی کتاب ہے یا اعتقادی امور کی
جو فروعی معاملات کو کھینچ کر اعتقادات میں گھسیٹتا ہے تو تھانوی کی بات یاد آتی ہے کہ سب احمق چھانٹ چھانٹ کر اسی کے حصہ میں آ گئے۔
اب یہ بتائے لئیق کہ تقویتہ الایمان سے فروعی اختلاف ہوا کہ اعتقادی ؟
اس کی بعد لئیق لکھتا ہے:
(نمبر۴) بندہ نے ایک اصولی بات کی تھی کہ اگر بعض علماء نے شاہ شہید کو خطا پر سمجھ کر ان کا رد کیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعی شاہ شہید ہی خطا پر تھے معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اپنی اس بات کو مضبوط کرنے کے لئے میں نے رضاخانی غزالی زماں احمد سعید کاظمی کا حوالہ نقل کیا تھا۔ اب قارئین دیکھیں کہ اتنی اصولی اور مضبوط بات کے جواب میں عبید نے کیسی بونگی ماری، لکھتا ہے کہ:
اول تو یہاں ہم موصوف کو بتا دیں کہ ہمارے گھر کا حوالہ ان کو معتبر نہیں کیونکہ ہم نے جو کچھ پیش کیا ان کے گھر سے پیش کیا اور دیابنہ کا اصول ہے گھر کا گند گھر سے ہی صاف کریں پھر ان کا یہ اصول بھی ہے کہ
ہمارے اصول ہمارے لئے ہیں۔
قارئین خود فیصلہ کریں یہ جواب ہے یا بلنڈر؟؟؟ پھر وہ رضاخانی جو عبید کی بونگیوں پر تالی بجاتے نہیں تھکتے زرا بتائیں کہ اسی کا نام جواب ہے؟
باقی رہا جناب کا یہ کہنا کہ جن علماء نے تقویت الایمان کا رد کیا بقول گنگوہی صاحب عین اسلام کا رد کیا، تو کیا عین اسلام کا رد کرنا صرف خطا ہے؟ تو جواباً عرض ہے کہ عقل سے پیدل ہوکر ہر دفعہ پروفیسر مسعود کی تصدیق نہ کیا کریں۔ تقویت الایمان میں جو آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ درج ہیں وہ عین اسلام ہیں باقی شاہ شہید نے جو اپنا تبصرہ لکھا ہے بعض علماء نے اس سے اختلاف کیا ہے اور اسی کو ہم نے خطا کہا ہے۔
تبصرہ :-
واقعی تھانوی کی بات کی ہر جگہ تصدیق ہوتی ہے ہم اس کو اس کے گھر سے جواب دینے آئے اسے بلنڈر لگا گویا سب دیوبندی بلنڈر ماسٹر ہوئے۔
اب موصوف نے یہ بھی کہہ دیا کہ تقویتہ الایمان میں جو آیات و احادیث ہیں جس سے واضح ہوا کہ اس کی تشریحات واضح طور پہ قرآن و حدیث کے خلاف ہیں ان کو عین اسلام کہنے والا دجال ہے
مزید لکھتا ہے کہ:
(نمبر۵) راقم نے لکھا تھا کہ چند علماء نے تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف ماننے سے انکار کیا ہے تو یہ ان کا تفرد اور ذاتی آراء ہیں جو رضاخانی اصول سے ہرگز حجت نہیں۔(دست و گریباں کا تنقیدی جائزہ)
قارئین، واضح رہے کہ یہاں تفرد و ذاتی آراء حجت نہیں پر میں نے رضاخانی کتاب دست و گریباں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا تھا مگر عبید نے دجل و فریب کرتے ہوئے اس کا جواب ایسے انداز میں دیا جیسے میں نے اپنی طرف سے کہا ہو۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ :
ہمارے اصول ہمارے لئے ہیں۔
قارئین خود فیصلہ کریں یہ جواب ہے یا بلنڈر؟؟؟ پھر وہ رضاخانی جو عبید کی بونگیوں پر تالی بجاتے نہیں تھکتے زرا بتائیں کہ اسی کا نام جواب ہے؟
باقی رہا جناب کا یہ کہنا کہ جن علماء نے تقویت الایمان کا رد کیا بقول گنگوہی صاحب عین اسلام کا رد کیا، تو کیا عین اسلام کا رد کرنا صرف خطا ہے؟ تو جواباً عرض ہے کہ عقل سے پیدل ہوکر ہر دفعہ پروفیسر مسعود کی تصدیق نہ کیا کریں۔ تقویت الایمان میں جو آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ درج ہیں وہ عین اسلام ہیں باقی شاہ شہید نے جو اپنا تبصرہ لکھا ہے بعض علماء نے اس سے اختلاف کیا ہے اور اسی کو ہم نے خطا کہا ہے۔
تبصرہ :-
واقعی تھانوی کی بات کی ہر جگہ تصدیق ہوتی ہے ہم اس کو اس کے گھر سے جواب دینے آئے اسے بلنڈر لگا گویا سب دیوبندی بلنڈر ماسٹر ہوئے۔
اب موصوف نے یہ بھی کہہ دیا کہ تقویتہ الایمان میں جو آیات و احادیث ہیں جس سے واضح ہوا کہ اس کی تشریحات واضح طور پہ قرآن و حدیث کے خلاف ہیں ان کو عین اسلام کہنے والا دجال ہے
مزید لکھتا ہے کہ:
(نمبر۵) راقم نے لکھا تھا کہ چند علماء نے تقویت الایمان کو شاہ شہید کی تالیف ماننے سے انکار کیا ہے تو یہ ان کا تفرد اور ذاتی آراء ہیں جو رضاخانی اصول سے ہرگز حجت نہیں۔(دست و گریباں کا تنقیدی جائزہ)
قارئین، واضح رہے کہ یہاں تفرد و ذاتی آراء حجت نہیں پر میں نے رضاخانی کتاب دست و گریباں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا تھا مگر عبید نے دجل و فریب کرتے ہوئے اس کا جواب ایسے انداز میں دیا جیسے میں نے اپنی طرف سے کہا ہو۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ :
جن تیرے بڑوں نے انکار کیا اس میں ٹانڈوی و کشمیری بھی شامل ہیں ان کے مقابلے میں پہلے اپنی حیثیت تو واضح کر ؟ پھر دیوبندی اصول ہے کہ ذاتی رائے یا تفرد کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی حکم بتانا ہو گا؟ اب تسامح و کاتب کی غلطی و تفرد پہ افضال کی پوسٹ بھول گیا یا یاد کراؤں؟
حضرت ٹانڈوی و کشمیری کے مقابلے میں اپنی حیثیت واضح کرنے کی بات تو تب درست ہوتی جب میں نے اپنی طرف سے کچھ کہا ہوتا۔ مگر میں نے تو مسلماتِ خصم سے الزاماً کہا۔ ویسے جناب کے اس جواب نے ہمیں یہ کہنے کا موقع دے دیا کہ جو لنڈے کے محققین اپنے علماء کے حوالوں کو تفرد، شاذ، ذاتی موقف وغیرہ قرار دے کر فرار ہوتے ہیں وہ اپنی حیثیت واضح کریں۔
تبصرہ :-
لنڈے کے محقق یہ بات تو نے خود کہی تھی کہ ان کی ذاتی رائے یا تفرد کہنے سے پہلے اپنی حیثیت واضح کر گویا تو خود اپنی ہی تحریر کی روشنی میں لنڈے کا مححککک ثابت ہوا۔
ہمارے اصولوں میں چھپنے کی پھر کوشش کی جس کا جواب پہلے دیا جا چکا کہ سب کچھ تیرے گھر کا گند ہے۔
اس کے بعد لکھتا ہے:
(نمبر۶:) راقم نے رضاخانی محققِ بے تحقیق جناب میثم
عباس سے سوال کیا تھا کہ حدائق بخشش حصہ سوم کس عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔؟؟؟ اس کے جواب میں جناب عبید نے پھر پروفیسر مسعود کی بات ثابت کردی، لکھتا ہے کہ :
حدائق بخشش حصہ سوئم پہ "فیصلہ مقدسہ" اور "تحقیقات" میں جواب دیا جا چکا ہے۔
او جان من! ہوش میں ہیں یا نشے میں؟؟ میں نے پوچھا ہے کس عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے؟؟ کیا فیصلہ مقدسہ اور تحقیقات میں یہ جواب دیا ہے کہ فلانی عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے؟؟؟
(نمبر ۷:) فتاوی رضویہ جلد پنجم کے متعلق احمد رضا کے فرزند مصطفی رضا خان کا قول نقل کرتے ہوئے راقم نے سوال کیا تھا کہ اگر وہ ضائع ہوچکی تھی تو پھر کس رضاخانی عورت کے حیض کے چیتھڑوں سے دستیاب ہوئی؟؟؟ جناب نے اس کا نہایت ہی دانشمندانہ جواب دیا ہے لکھتا ہے کہ :
((”فتاوی رضویہ کے مخطوطات اگر ضائع ہوئے تو انہوں نے ضائع شدہ فتاوی کی اشاعت کا دعوی نہ کیا تاریخ میں کئی کتب ضائع ہو چکی ہیں اس پہ کیا کہو گے۔
یہاں بھی لگتا ہے موصوف نشے میں ہے۔ ”ضائع شدہ فتاوی کی اشاعت کا دعوی نہ کیا“ موصوف کی اس بات کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ آج مارکیٹ میں فتاوی رضویہ جلد پنجم جو دستیاب ہے وہ در اصل خان صاحب بریلوی کی لکھی ہوئی نہیں وہ تو ضائع ہوچکی، اس لیے ہم نے اپنی طرف سے جلد پنجم تیار کی اور اپنے مجدد کے کھاتے میں ڈال دیا۔
تبصرہ :-
جب عقل نہ ہو تو موجاں ہی موجاں لئیق پہ یہ بات صادق آتی ہے دوسروں کو نشئی کہنے سے پہلے اپنا نشہ تو اتار کے آتے منے
"حدائق بخشش حصہ سوئم" کی جو نسبت امام اہلسنت سے کی گئی اسکا جواب موجود ہے اور اسکی کھوپڑی میں یہ بات نہ آئی اور حیض کے چیتھڑے والی بات دو نمبری مولوی سرخراب گکھڑوی کی ہے اسے ہم پہ منطبق کرنا ہی اسکے نشئی ہونے کی دلیل ہے
فتاوی رضویہ جلد 5 کے مخطوطات اگر ضائع ہوئے تو ہم نے واضح کر دیا کہ ان ضائع شدہ مخطوطات کی اشاعت کا دعوی نہ کیا جو باقی فتاوی جات تھے ان سے جلد 5 تیار کی ایسے باقیات فتاوی رشیدیہ کے بارے جناب کیا ارشاد فرمائیں گے کہ کہاں کہاں سے گھڑ کر باقیات تیار کئے گئے؟
★★★
حضرت ٹانڈوی و کشمیری کے مقابلے میں اپنی حیثیت واضح کرنے کی بات تو تب درست ہوتی جب میں نے اپنی طرف سے کچھ کہا ہوتا۔ مگر میں نے تو مسلماتِ خصم سے الزاماً کہا۔ ویسے جناب کے اس جواب نے ہمیں یہ کہنے کا موقع دے دیا کہ جو لنڈے کے محققین اپنے علماء کے حوالوں کو تفرد، شاذ، ذاتی موقف وغیرہ قرار دے کر فرار ہوتے ہیں وہ اپنی حیثیت واضح کریں۔
تبصرہ :-
لنڈے کے محقق یہ بات تو نے خود کہی تھی کہ ان کی ذاتی رائے یا تفرد کہنے سے پہلے اپنی حیثیت واضح کر گویا تو خود اپنی ہی تحریر کی روشنی میں لنڈے کا مححککک ثابت ہوا۔
ہمارے اصولوں میں چھپنے کی پھر کوشش کی جس کا جواب پہلے دیا جا چکا کہ سب کچھ تیرے گھر کا گند ہے۔
اس کے بعد لکھتا ہے:
(نمبر۶:) راقم نے رضاخانی محققِ بے تحقیق جناب میثم
عباس سے سوال کیا تھا کہ حدائق بخشش حصہ سوم کس عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔؟؟؟ اس کے جواب میں جناب عبید نے پھر پروفیسر مسعود کی بات ثابت کردی، لکھتا ہے کہ :
حدائق بخشش حصہ سوئم پہ "فیصلہ مقدسہ" اور "تحقیقات" میں جواب دیا جا چکا ہے۔
او جان من! ہوش میں ہیں یا نشے میں؟؟ میں نے پوچھا ہے کس عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے؟؟ کیا فیصلہ مقدسہ اور تحقیقات میں یہ جواب دیا ہے کہ فلانی عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چھپی ہے؟؟؟
(نمبر ۷:) فتاوی رضویہ جلد پنجم کے متعلق احمد رضا کے فرزند مصطفی رضا خان کا قول نقل کرتے ہوئے راقم نے سوال کیا تھا کہ اگر وہ ضائع ہوچکی تھی تو پھر کس رضاخانی عورت کے حیض کے چیتھڑوں سے دستیاب ہوئی؟؟؟ جناب نے اس کا نہایت ہی دانشمندانہ جواب دیا ہے لکھتا ہے کہ :
((”فتاوی رضویہ کے مخطوطات اگر ضائع ہوئے تو انہوں نے ضائع شدہ فتاوی کی اشاعت کا دعوی نہ کیا تاریخ میں کئی کتب ضائع ہو چکی ہیں اس پہ کیا کہو گے۔
یہاں بھی لگتا ہے موصوف نشے میں ہے۔ ”ضائع شدہ فتاوی کی اشاعت کا دعوی نہ کیا“ موصوف کی اس بات کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ آج مارکیٹ میں فتاوی رضویہ جلد پنجم جو دستیاب ہے وہ در اصل خان صاحب بریلوی کی لکھی ہوئی نہیں وہ تو ضائع ہوچکی، اس لیے ہم نے اپنی طرف سے جلد پنجم تیار کی اور اپنے مجدد کے کھاتے میں ڈال دیا۔
تبصرہ :-
جب عقل نہ ہو تو موجاں ہی موجاں لئیق پہ یہ بات صادق آتی ہے دوسروں کو نشئی کہنے سے پہلے اپنا نشہ تو اتار کے آتے منے
"حدائق بخشش حصہ سوئم" کی جو نسبت امام اہلسنت سے کی گئی اسکا جواب موجود ہے اور اسکی کھوپڑی میں یہ بات نہ آئی اور حیض کے چیتھڑے والی بات دو نمبری مولوی سرخراب گکھڑوی کی ہے اسے ہم پہ منطبق کرنا ہی اسکے نشئی ہونے کی دلیل ہے
فتاوی رضویہ جلد 5 کے مخطوطات اگر ضائع ہوئے تو ہم نے واضح کر دیا کہ ان ضائع شدہ مخطوطات کی اشاعت کا دعوی نہ کیا جو باقی فتاوی جات تھے ان سے جلد 5 تیار کی ایسے باقیات فتاوی رشیدیہ کے بارے جناب کیا ارشاد فرمائیں گے کہ کہاں کہاں سے گھڑ کر باقیات تیار کئے گئے؟
★★★