صحیح البخاری،اور امام بخاری کا مختصر تعارف
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
فیضانِ بخاری سے ہوا ختمِ بخاری
یعنی شہِ کونین کا فیضان ہے جاری
فیضانِ بخاری سے ہوا ختمِ بخاری
یعنی شہِ کونین کا فیضان ہے جاری
یہ شمعِ ہدایت ہے ہر اک شخص کی خاطر
وہ کوئی نکو کار ہو، یا کوئی جواری
(خاکی بلگرامی)
تربیت کے وقت والدین نصیحت کیا کرتے تھے:
کہ وقت ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی ریت کی طرح ہے; لیکن ۲۰۲۳ء کچھ اس طرح سے گزارا کہ بے ساختہ منہ سے نکل پڑا وقت ریت نہیں بلکہ پانی کے بلبلوں جیسا ہے، سطحِ آب پر اُبھرتے ہی فنا ہوجاتا ہے۔جسم و روح کو جھنجھوڑ دینے والا یہ احساس اس لیے بھی کچھ حیرت انگیز ہے کہ ۲۰۲۳ء کے شروع ( شوال ۱۴۴۴ھ) میں جب ہم تعلیمی دور کے آخری پڑاؤ کی تکمیل کے لیے جامعہ کے احاطے میں داخل ہوئے تھے، تو ایک شیریں احساس جسم و روح کو تر و تازگی بخش رہا تھا، چونکہ تعلیمی سال کے اس ابتدائی پڑاؤ میں ہم "اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح البخاری" یعنی بخاری شریف کا درس لینے والے تھے۔ یہ احساس اس وقت اور بھی راحت بخش ہو جاتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ایک ولیِ کامل اس عظیم کتاب کا درس دے گا،یعنی نور نظر حضور مفتئ اعظم ہند حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد صالح صاحب قبلہ(شیخ الحدیث جامعتہ الرضا)۔
تعلیمی سال نَو کے ابتدائی ایام جہاں مسرت و شادمانی کا سماں باندھے ہوئے تھے، وہیں اس سال کے آخر (رواں شعبان المعظم) کا یہ گزرتا ہوا ایک ایک لمحہ دل و جاں پر وار ہے، چونکہ نہ ہی تو اب قال اللہ، قال الرسول کی وہ صدائیں سننے کو میسر ہوں گی،اور نہ ہی ولی صفت استاذ محترم کی دلکش و دلنشیں شیریں آواز ہماری تربیت فرماتی ہوئی ہماری حوصلہ افزائی فرمائے گی۔
بخاری شریف،قرآن مجید فرقان حمید کے بعد دیگر کتب کائنات میں منفرد و ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔صحیح بخاری ٩٧ کتاب اور ۳۴۵۰ باب پر مشتمل ہے،اور ابن صلاح کے مطابق تکراری احادیث کو شمار کیا جائے تو ٧٢٧٥ احادیث اور اگر انھیں الگ کیا جائے تو ۴۰۰۰ احادیث پر مشتمل ہے۔
مولی نے کتاب ان پہ جو قرآن اتاری
بعد اس کے بڑا مرتبہ تیرا ہے بخاری
(خاکی بلگرامی)
اس کتاب کا پورا نام:-
تعلیمی سال نَو کے ابتدائی ایام جہاں مسرت و شادمانی کا سماں باندھے ہوئے تھے، وہیں اس سال کے آخر (رواں شعبان المعظم) کا یہ گزرتا ہوا ایک ایک لمحہ دل و جاں پر وار ہے، چونکہ نہ ہی تو اب قال اللہ، قال الرسول کی وہ صدائیں سننے کو میسر ہوں گی،اور نہ ہی ولی صفت استاذ محترم کی دلکش و دلنشیں شیریں آواز ہماری تربیت فرماتی ہوئی ہماری حوصلہ افزائی فرمائے گی۔
بخاری شریف،قرآن مجید فرقان حمید کے بعد دیگر کتب کائنات میں منفرد و ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔صحیح بخاری ٩٧ کتاب اور ۳۴۵۰ باب پر مشتمل ہے،اور ابن صلاح کے مطابق تکراری احادیث کو شمار کیا جائے تو ٧٢٧٥ احادیث اور اگر انھیں الگ کیا جائے تو ۴۰۰۰ احادیث پر مشتمل ہے۔
مولی نے کتاب ان پہ جو قرآن اتاری
بعد اس کے بڑا مرتبہ تیرا ہے بخاری
(خاکی بلگرامی)
اس کتاب کا پورا نام:-
الجامع المستند الصحيح المختصر من امور رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وسننه وأيامه۔
حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بزرگوں نے لکھا ہے: اگر کسی مشکل میں ” صحیح بخاری “ کو پڑھا جائے تو وہ مشکل دور ہو جاتی ہے، اور یہ کتاب جس کشتی میں ہو وہ ڈوبتی نہیں ہے، خشک سالی(یعنی بارش نہ ہونے کے دنوں میں)اس کو پڑھا جائے تو بارش ہو جاتی ہے۔حضرت امام اصیل الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اور دوسروں کی مشکلات و پریشانیوں کے لیے ” صحیح بخاری کا ۱۲۰/بار ختم کیا پس ساری مرادیں اور ضرورتیں پوری ہوئیں، یہ ساری برکتیں سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ہیں۔ (مرقاة،۵۴)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مصیبتوں میں ختم بخاری کیا جاتا ہے، جس کی برکت اور اللہ پاک کے فضل سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔(مرآۃ المناجیح)
صحیح بخاری کو صحیح بخاری کیوں کہتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے اپنے قارئین کرام کے مطالعہ کی میز پر فقیر ایک اقتباس کا کچھ حصہ پیش کرتا ہے جو مجھے بہت پسند آیا،ملاحظہ فرمائیں!
"قاضی ابوبکر ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ امام بخاری کی شرط یہ ہے کہ اولاََ حدیث کو دو صحابی روایت کریں یا پھر ہر صحابی سے دو شخص روایت کریں۔ پھر ان میں سے ہر ایک سے دو دو شخض روایت کریں لیکن قاضی ابوبکر کا یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں جو پہلی حدیث” انما الاعمال بالنيات" درج کی ہے وہ صرف حضرت عمر سے مروی ہے اور حضرت عمر سے صرف علقمہ نے روایت کی اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراہیم نے اور ان سے صرف یحیی بن سعید نے۔
ان وجوہات میں سے ایک یہ بھی وجہ جس کی بنیاد پر بخاری شریف کو صحیح کہا جاتا ہے۔ جن میں امام بخاری کا حدیث لینے میں کمالِ احتیاط اور مشکل شرائط مَیں وجہ بن کر موجود ہیں۔"
امام بخاری نے قبول حدیث کے لیے لقا کی شرط لگائی ہے، اگرچہ محدثین نے اس شرط پر بھی کلام کیا ہے مگر یہ ایک ایسی شرط ہے کہ جس کی وجہ سے بخاری شریف کا مرتبہ افزوں تر ہوجاتا ہے۔
بخاری شریف لکھنے کا مہتم بالشان انداز ؟
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے جب بھی اپنی کتاب ( صحیح بخاری) میں کوئی حدیث لکھنے کا ارادہ کیا تو اس سے پہلے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی،میں نے اس کتاب میں موجود حدیثوں کو چھ لاکھ حدیثوں میں سے منتخب کیا، سولہ سال کے عرصے میں اس کتاب کو لکھا اور یہ کتاب میرے اور اللہ کریم کے درمیان محبت(یعنی دلیل) ہے۔ (المتطرف،۴۰)
اسناد میں اعلی ہیں سبھی اس کی حدیثیں
اس واسطے پلہ ہے بخاری کا ہی بھاری
(خاکی بلگرامی)
حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بزرگوں نے لکھا ہے: اگر کسی مشکل میں ” صحیح بخاری “ کو پڑھا جائے تو وہ مشکل دور ہو جاتی ہے، اور یہ کتاب جس کشتی میں ہو وہ ڈوبتی نہیں ہے، خشک سالی(یعنی بارش نہ ہونے کے دنوں میں)اس کو پڑھا جائے تو بارش ہو جاتی ہے۔حضرت امام اصیل الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اور دوسروں کی مشکلات و پریشانیوں کے لیے ” صحیح بخاری کا ۱۲۰/بار ختم کیا پس ساری مرادیں اور ضرورتیں پوری ہوئیں، یہ ساری برکتیں سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ہیں۔ (مرقاة،۵۴)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مصیبتوں میں ختم بخاری کیا جاتا ہے، جس کی برکت اور اللہ پاک کے فضل سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔(مرآۃ المناجیح)
صحیح بخاری کو صحیح بخاری کیوں کہتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے اپنے قارئین کرام کے مطالعہ کی میز پر فقیر ایک اقتباس کا کچھ حصہ پیش کرتا ہے جو مجھے بہت پسند آیا،ملاحظہ فرمائیں!
"قاضی ابوبکر ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ امام بخاری کی شرط یہ ہے کہ اولاََ حدیث کو دو صحابی روایت کریں یا پھر ہر صحابی سے دو شخص روایت کریں۔ پھر ان میں سے ہر ایک سے دو دو شخض روایت کریں لیکن قاضی ابوبکر کا یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں جو پہلی حدیث” انما الاعمال بالنيات" درج کی ہے وہ صرف حضرت عمر سے مروی ہے اور حضرت عمر سے صرف علقمہ نے روایت کی اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراہیم نے اور ان سے صرف یحیی بن سعید نے۔
ان وجوہات میں سے ایک یہ بھی وجہ جس کی بنیاد پر بخاری شریف کو صحیح کہا جاتا ہے۔ جن میں امام بخاری کا حدیث لینے میں کمالِ احتیاط اور مشکل شرائط مَیں وجہ بن کر موجود ہیں۔"
امام بخاری نے قبول حدیث کے لیے لقا کی شرط لگائی ہے، اگرچہ محدثین نے اس شرط پر بھی کلام کیا ہے مگر یہ ایک ایسی شرط ہے کہ جس کی وجہ سے بخاری شریف کا مرتبہ افزوں تر ہوجاتا ہے۔
بخاری شریف لکھنے کا مہتم بالشان انداز ؟
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے جب بھی اپنی کتاب ( صحیح بخاری) میں کوئی حدیث لکھنے کا ارادہ کیا تو اس سے پہلے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی،میں نے اس کتاب میں موجود حدیثوں کو چھ لاکھ حدیثوں میں سے منتخب کیا، سولہ سال کے عرصے میں اس کتاب کو لکھا اور یہ کتاب میرے اور اللہ کریم کے درمیان محبت(یعنی دلیل) ہے۔ (المتطرف،۴۰)
اسناد میں اعلی ہیں سبھی اس کی حدیثیں
اس واسطے پلہ ہے بخاری کا ہی بھاری
(خاکی بلگرامی)
حضرتِ امام بخاری فرماتے ہیں:
میں نے جب بھی اپنی اس کتاب لکھنے کا قصد کیا تو اس سے پہلے غسل کیا اور پھر دو رکعت نماز ادا کی۔
قارئین کرام! حضرتِ امام بخاری کے اس عمل سے بخاری شریف کی اہمیت و فضیلت کا اندازا ہوتا ہے کہ یہ کتاب کتنی قدر و منزلت کی حامل ہے۔لہذا ہم کو چاہیے کہ جب بھی اس کا درس لینے کے لیے بیٹھیں یا اس کتاب سے استفادہ کرنے کا ارادہ کریں،تو کم سے کم وضو کرلیں۔تاکہ اس کے فیوض و برکات سے مالامال ہو سکیں۔
بخاری شریف تاجدارِ کائنات کی بارگاہ میں مقبول ہوئی-
حضرت سیدنا امام ابو زید مروزی رَحْمَةُ الله علیہ فرماتے ہیں: میں ایک مرتبہ مکہ شریف میں مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان سو رہا تھا کہ میرا نصیب جاگا اور خواب میں دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والہ وسلم فرما رہے ہیں : اے ابو زید! کتاب شافعی کا درس کب تک دو گے ، ہماری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے ؟ آپ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری جان آپ (صلى الله عليه وسلم ) پر قربان ! آپ (صلى الله علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب کون سی ہے ؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جامع محمد بن اسماعیل یعنی امام بخاری کی کتاب "بخاری شریف ۔ (بستان المحدثین ،۲۷۵)
اے حضرتِ عبد اللہ سعادت یہ مبارک
مقبولِ درِ شاہ، بخاری ہے تمھاری
(خاکی بلگرامی)
قارئین کرام! توجہ دیں کہ اس کتاب کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا جس کے پڑھنے اور درس دینے کی تلقین خود تاجدارِ کائنات کریں۔
اس طرح کی بے شمار فضیلت اس کتاب کو حاصل ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔لہذا ہم کو چاہیے کہ ہم اس کتاب کو ہر طرح سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔
بخاری شریف کتنی مدت میں لکھی گئی؟
امام بخاری نے بخاری شریف کو سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مقام ومرتبہ حاصل ہے اور اسے چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے،اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے،یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
حضرت امام بخاری کا مختصر تعارف:-
حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مشہور شہر بخارا میں ۱۳/ شوال المکرم ۱۹۴ھ بروز جمعہ بعد نمازِ عصر ہوئی۔ حضرت سیدنا امام بخاری رحمة الله عليه کا نام محمد اور کنیت ابو عبد الله ہے۔
قارئین کرام! حضرتِ امام بخاری کے اس عمل سے بخاری شریف کی اہمیت و فضیلت کا اندازا ہوتا ہے کہ یہ کتاب کتنی قدر و منزلت کی حامل ہے۔لہذا ہم کو چاہیے کہ جب بھی اس کا درس لینے کے لیے بیٹھیں یا اس کتاب سے استفادہ کرنے کا ارادہ کریں،تو کم سے کم وضو کرلیں۔تاکہ اس کے فیوض و برکات سے مالامال ہو سکیں۔
بخاری شریف تاجدارِ کائنات کی بارگاہ میں مقبول ہوئی-
حضرت سیدنا امام ابو زید مروزی رَحْمَةُ الله علیہ فرماتے ہیں: میں ایک مرتبہ مکہ شریف میں مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان سو رہا تھا کہ میرا نصیب جاگا اور خواب میں دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والہ وسلم فرما رہے ہیں : اے ابو زید! کتاب شافعی کا درس کب تک دو گے ، ہماری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے ؟ آپ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری جان آپ (صلى الله عليه وسلم ) پر قربان ! آپ (صلى الله علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب کون سی ہے ؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جامع محمد بن اسماعیل یعنی امام بخاری کی کتاب "بخاری شریف ۔ (بستان المحدثین ،۲۷۵)
اے حضرتِ عبد اللہ سعادت یہ مبارک
مقبولِ درِ شاہ، بخاری ہے تمھاری
(خاکی بلگرامی)
قارئین کرام! توجہ دیں کہ اس کتاب کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا جس کے پڑھنے اور درس دینے کی تلقین خود تاجدارِ کائنات کریں۔
اس طرح کی بے شمار فضیلت اس کتاب کو حاصل ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔لہذا ہم کو چاہیے کہ ہم اس کتاب کو ہر طرح سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔
بخاری شریف کتنی مدت میں لکھی گئی؟
امام بخاری نے بخاری شریف کو سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مقام ومرتبہ حاصل ہے اور اسے چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے،اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے،یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
حضرت امام بخاری کا مختصر تعارف:-
حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مشہور شہر بخارا میں ۱۳/ شوال المکرم ۱۹۴ھ بروز جمعہ بعد نمازِ عصر ہوئی۔ حضرت سیدنا امام بخاری رحمة الله عليه کا نام محمد اور کنیت ابو عبد الله ہے۔
آپ رَحْمَةُ الله عَلَيْہ کا سلسلہ نسب یہ ہے :-
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پردادا مغیرہ کھیتی باڑی کرنے والے اور غیر خدا کی عبادت کرنے والے تھے لیکن بعد میں حاکم بخارا ” یمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ حضرت سیدنا امام بخاری رحمة الله عليہ نے تقریباً باسٹھ (٦٢) سال کی عمر پائی اور یکم شوال/ ٢٥٦ ہجری بروز ہفتہ عید الفطر کی رات بیماری کی حالت میں وصال ظاہری فرمایا-سمر قند ( ازبکستان) سے کچھ فاصلے پر ”خر تنگ“ نامی بستی میں آپ رحمة الله عليہ کا عالیشان مزارِ مبارک ہے۔
(ارشاد الساري، ترجمة الامام بخاری)
حضرتِ امام بخاری کے مشہور القابات:-
(ارشاد الساري، ترجمة الامام بخاری)
حضرتِ امام بخاری کے مشہور القابات:-
امير المومنين فی الحديث ، حافظ الحديث، محدث ، مفتی حبر الاسلام وغیرہ
حضرتِ امام بخاری کے اساتذہ کی تعداد جہاں ایک ہزار اسی (۱۰۸۰) ہے۔(نزہۃالقاری ۱/ ۱۱۹)
وہیں آپ کے شاگردوں کی تعداد کا تذکرہ کرتے ہوئے مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان محدث بریلوی نے الملفوظ شریف میں ارشاد فرمایا: کہ حضرتِ امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوے ہزار (۹٠٠٠٠) شاگرد محدث ( علم حدیث کے جاننے والے) چھوڑے۔
حضرتِ امام بخاری کے اساتذہ کی تعداد جہاں ایک ہزار اسی (۱۰۸۰) ہے۔(نزہۃالقاری ۱/ ۱۱۹)
وہیں آپ کے شاگردوں کی تعداد کا تذکرہ کرتے ہوئے مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان محدث بریلوی نے الملفوظ شریف میں ارشاد فرمایا: کہ حضرتِ امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوے ہزار (۹٠٠٠٠) شاگرد محدث ( علم حدیث کے جاننے والے) چھوڑے۔
(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص۲۳۸)
حصول علم کے لئے سفر :-
حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چھ سال حجاز مقدس (یعنی عرب شریف کا وہ حصہ جس میں مکہ پاک، مدینہ پاک اور طائف کے علاقے شامل ہیں) میں رہ کر خوب علم دین حاصل کیا۔ علم دین حاصل کرنے کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی سفر اختیار فرمائے ، دو مرتبہ شام، مصر اور جزیرہ چار مرتبہ اور کئی دفعہ عراق کے شہر کوفہ اور بغداد بھی تشریف لے گئے۔
حضرت سیدنا محمد بن اسمعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب دس سال کے ہوئے تو ابتدائی اور ضروری تعلیم حاصل کر چکے تھے، اللہ پاک نے آپ کے دل میں علم حدیث حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا تو آپ نے ”بخارا میں ( علم حدیث حاصل کرنے کے لئے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا، علم حدیث انتہائی محنت سے حاصل کیا، سولہ سال کی عمر میں حضرت سیدنا امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ساتھ حج کرنے کے لیے مکہ مدینے میں حاضر ہوئے، والدہ اور بھائی تو حج سے فارغ ہونے کے بعد واپسی وطن آگئے مگر آپ نے مزید علم حاصل کرنے کے لئے وہیں رہے اور اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے وہیں پر ہی ایک کتاب تصنیف فرمائی۔
(ارشاد الساری، ترجمة الامام بخاری، ۵۶/۱ ملخصاً) (تذکرۃ المحدثین ، ص ۷۲ المحضا)
آپ کم سنی سے ہی علم دین کے حصول میں سرگرداں تھے اور آپ نے حصول علم کے لیے خوب سفر کیے، نہ صرف سفر کیے بلکہ اس سفر میں وہ فاقہ کشی فرمائی جو عصر حاضر میں ایک حصولِ علم دین میں مصروف طالب علم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طلب علم کے دوران بسا اوقات سوکھی گھاس کھا کر بھی وقت گزارا، آپ ایک دن میں عام طور پر صرف دو یا تین بادام کھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہو گئے تو طبیب نے بتایا کہ سوکھی روٹی کھا کھا کر ان کی آنتیں سوکھ چکی ہیں، اُس وقت آپ نے ارشاد فرمایا: ۴۰/ سال سے میں خشک روٹی کھا رہا ہوں اور اس عرصے میں سالن کو بالکل بھی ہاتھ نہیں لگایا۔
(تذکرۃ المحدثین، ۱۸۳ )
اللہ اکبر! کیسی کیسی قربانیاں ہمارے اسلاف نے پیش فرما کر ہر مقام پر علم کو ترجیح دی ہے لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی، ہر چیز کی فراوانی ہونے کے باجود بھی ذرا سی پریشانی کی وجہ سے علم دین حاصل کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔امام بخاری سے فیض کشید کرنے والے قارئین کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات سیکھنے اور سکھانے میں صرف کریں۔
پڑھ! اس کو احادیثِ صحیحہ میں ملے گا
سرکار نے کس طرح سے ہے زیست گزاری
آپ کا خاندان بھی پڑھا لکھا تھا،خود آپ کے والد محترم عظیم قابل عالم دین تھے۔حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد زبردست عالم دین تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ حضرت سیدنا عبد الله بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہتے تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ روایت کرنے والے اور علم حدیث کے جاننے والے تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سیدنا عبد الله بن مبارک حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہما، ان کے شاگردوں اور اُس زمانے کے علم حدیث جاننے والوں سے روایت کرتے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی تھیں، ایسے کہ بارگاہ الہی میں عرض کرتے کہ میری سب دعائیں دنیا ہی میں نہ قبول کرلے کچھ آخرت کے لیے رہنے دے۔ حلال کھانے کے ایسے پابند تھے کہ حرام تو حرام مشکوک چیزوں سے بھی بچتے تھے ، حتی کہ وصالِ ظاہری کے وقت فرمایا: میرے پاس جتنا بھی مال ہے اُس میں ایک درہم بھی شک و شبہ والا نہیں ہے۔
(نزهة القاری ۱/)
مفکرین و محقیقین نے جہاں بہت ساری وجوہات آپ کی مقبولیت کی بیان فرمائی ہیں،وہیں ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ آپ کے والدین نے ہمیشہ آپ کو حلال غذا کھلائی اور جب آپ سن بلوغ کو پہنچے اور شعور سنبھالا تو اپنے والدین کے نقش قدم پر چل کر خود رزقِ حلال کا اہتمام فرمانے کا عزم مصمم فرمایا۔لہذا دائمی ہمیں رزقِ حلال کی تلاش میں رہنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی سیدنا امام بخاری کے فیض و برکات سے مالامال ہوکر خدمتِ دین کے عظیم کارہائے نمایاں انجام دیں،اور ایک عالم کو علوم دین سے بہرہ مند فرمائیں۔
میری نیندیں حرام کیا ہوں گی
گھر میں رزق حلال آتا ہے
(محمد علی ساحل)
سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نصحیت فرماتے ہوئے یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:
اغْتَنِمْ فِي الْفَرَاغِ فَضْلَ الرَّكوعِ
فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مَوْنَكَ بَغْتَةً
کم صحیح رَأَيْتُ مِنْ غَيْرِ سَقَم
خَرَجَتْ نَفْسَهُ الصَّحِيحَةُ فَلْتَةً
ترجمہ : فراغت کے اوقات میں رکوع و سجود (یعنی نفل نماز ) کو غنیمت جان، عنقریب تجھے موت آ جائے گی۔
میں نے کتنے ایسے تندرست دیکھے ہیں جنہیں کوئی بیماری نہیں تھی اور اچانک ان کی روحیں پرواز کر گئیں۔
(مکاشفۃ القلوب ، ص 271)
آپ کا یوم وصال :-
حضرت عبد الواحد طَوَا وِیسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ ایک مقام پر کھڑے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام کا جواب عطا فرمایا۔ پھر میں نے کھڑے ہونے کا سبب معلوم کیا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: کہ ”میں محمد بن اسماعیل بخاری کا انتظار کر رہا ہوں۔کچھ دن کے بعد معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما گئے۔ تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ جس رات آپ کا وصال ہوا تھا اسی رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی تھی۔
(سیر اعلام النبلا،۳۱۹)
آپ کا وصال ایک شوال المکرم ۲۵۶ھ (چاند رات) کو ٦٢/ سال کی عمر میں وصال ہوا۔بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں ایک عرصے تک آپ کی قبر شریف سے مشک و عنبر سے زیادہ اچھی خوشبو آتی رہی۔ بار بار قبر شریف پر مٹی ڈالی جاتی مگر لوگ خوشبو کی وجہ سے تبرک کے طور پر اُٹھالے جاتے تھے۔(طبقات الشافعیہ الکبری) آپ کا مزار شریف سمر قند (ازبکستان) کے قریب خر تنگ نامی علاقے میں ہے۔
(سیر اعلام النبلا ۳۱۹)
قارئین کرام! ولی صفت زندگی کے لیے ولی صفت زندگی گزارنے کا ہم کو عزم مصمم کرنا ہوگا۔جو پڑھیں اس پر عمل بھی کریں تاکہ قرب و جوار میں رہنے والے ہمارے شب و روز سے اپنے لمحات زیست کو تابندہ کر سکیں۔حضرت امام بخاری کی قبر اطہر کی مٹی لوگ تبرک کے طور پر اٹھا کر لے جاتے تھے-کیوں اٹھا کر لے جاتے؟ چونکہ اس میں مشک و عنبر جیسی خوشبو آتی تھی۔خوشبو کیوں آتی تھی؟ چونکہ ان کے استقامت فی الدین کی وجہ سے اللہ عز و جل نے ان کی لحد کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنا دیا۔یہ ہمارے حق میں کب ممکن ہوگا؟ جب ہم رزقِ حلال کھانے کی کوشش کریں گے،اور استقامت فی الدین ہمارے اندر پیدا ہو جائے گی۔
اللہ عز و جل امت مسلمہ کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم و عمل کی دولت سے مالامال فرمائے۔
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
(محمود رامپوری)
حصول علم کے لئے سفر :-
حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چھ سال حجاز مقدس (یعنی عرب شریف کا وہ حصہ جس میں مکہ پاک، مدینہ پاک اور طائف کے علاقے شامل ہیں) میں رہ کر خوب علم دین حاصل کیا۔ علم دین حاصل کرنے کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی سفر اختیار فرمائے ، دو مرتبہ شام، مصر اور جزیرہ چار مرتبہ اور کئی دفعہ عراق کے شہر کوفہ اور بغداد بھی تشریف لے گئے۔
حضرت سیدنا محمد بن اسمعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب دس سال کے ہوئے تو ابتدائی اور ضروری تعلیم حاصل کر چکے تھے، اللہ پاک نے آپ کے دل میں علم حدیث حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا تو آپ نے ”بخارا میں ( علم حدیث حاصل کرنے کے لئے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا، علم حدیث انتہائی محنت سے حاصل کیا، سولہ سال کی عمر میں حضرت سیدنا امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ساتھ حج کرنے کے لیے مکہ مدینے میں حاضر ہوئے، والدہ اور بھائی تو حج سے فارغ ہونے کے بعد واپسی وطن آگئے مگر آپ نے مزید علم حاصل کرنے کے لئے وہیں رہے اور اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے وہیں پر ہی ایک کتاب تصنیف فرمائی۔
(ارشاد الساری، ترجمة الامام بخاری، ۵۶/۱ ملخصاً) (تذکرۃ المحدثین ، ص ۷۲ المحضا)
آپ کم سنی سے ہی علم دین کے حصول میں سرگرداں تھے اور آپ نے حصول علم کے لیے خوب سفر کیے، نہ صرف سفر کیے بلکہ اس سفر میں وہ فاقہ کشی فرمائی جو عصر حاضر میں ایک حصولِ علم دین میں مصروف طالب علم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طلب علم کے دوران بسا اوقات سوکھی گھاس کھا کر بھی وقت گزارا، آپ ایک دن میں عام طور پر صرف دو یا تین بادام کھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہو گئے تو طبیب نے بتایا کہ سوکھی روٹی کھا کھا کر ان کی آنتیں سوکھ چکی ہیں، اُس وقت آپ نے ارشاد فرمایا: ۴۰/ سال سے میں خشک روٹی کھا رہا ہوں اور اس عرصے میں سالن کو بالکل بھی ہاتھ نہیں لگایا۔
(تذکرۃ المحدثین، ۱۸۳ )
اللہ اکبر! کیسی کیسی قربانیاں ہمارے اسلاف نے پیش فرما کر ہر مقام پر علم کو ترجیح دی ہے لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی، ہر چیز کی فراوانی ہونے کے باجود بھی ذرا سی پریشانی کی وجہ سے علم دین حاصل کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔امام بخاری سے فیض کشید کرنے والے قارئین کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات سیکھنے اور سکھانے میں صرف کریں۔
پڑھ! اس کو احادیثِ صحیحہ میں ملے گا
سرکار نے کس طرح سے ہے زیست گزاری
آپ کا خاندان بھی پڑھا لکھا تھا،خود آپ کے والد محترم عظیم قابل عالم دین تھے۔حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد زبردست عالم دین تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ حضرت سیدنا عبد الله بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہتے تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ روایت کرنے والے اور علم حدیث کے جاننے والے تھے ، آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سیدنا عبد الله بن مبارک حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہما، ان کے شاگردوں اور اُس زمانے کے علم حدیث جاننے والوں سے روایت کرتے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی تھیں، ایسے کہ بارگاہ الہی میں عرض کرتے کہ میری سب دعائیں دنیا ہی میں نہ قبول کرلے کچھ آخرت کے لیے رہنے دے۔ حلال کھانے کے ایسے پابند تھے کہ حرام تو حرام مشکوک چیزوں سے بھی بچتے تھے ، حتی کہ وصالِ ظاہری کے وقت فرمایا: میرے پاس جتنا بھی مال ہے اُس میں ایک درہم بھی شک و شبہ والا نہیں ہے۔
(نزهة القاری ۱/)
مفکرین و محقیقین نے جہاں بہت ساری وجوہات آپ کی مقبولیت کی بیان فرمائی ہیں،وہیں ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ آپ کے والدین نے ہمیشہ آپ کو حلال غذا کھلائی اور جب آپ سن بلوغ کو پہنچے اور شعور سنبھالا تو اپنے والدین کے نقش قدم پر چل کر خود رزقِ حلال کا اہتمام فرمانے کا عزم مصمم فرمایا۔لہذا دائمی ہمیں رزقِ حلال کی تلاش میں رہنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی سیدنا امام بخاری کے فیض و برکات سے مالامال ہوکر خدمتِ دین کے عظیم کارہائے نمایاں انجام دیں،اور ایک عالم کو علوم دین سے بہرہ مند فرمائیں۔
میری نیندیں حرام کیا ہوں گی
گھر میں رزق حلال آتا ہے
(محمد علی ساحل)
سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نصحیت فرماتے ہوئے یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:
اغْتَنِمْ فِي الْفَرَاغِ فَضْلَ الرَّكوعِ
فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مَوْنَكَ بَغْتَةً
کم صحیح رَأَيْتُ مِنْ غَيْرِ سَقَم
خَرَجَتْ نَفْسَهُ الصَّحِيحَةُ فَلْتَةً
ترجمہ : فراغت کے اوقات میں رکوع و سجود (یعنی نفل نماز ) کو غنیمت جان، عنقریب تجھے موت آ جائے گی۔
میں نے کتنے ایسے تندرست دیکھے ہیں جنہیں کوئی بیماری نہیں تھی اور اچانک ان کی روحیں پرواز کر گئیں۔
(مکاشفۃ القلوب ، ص 271)
آپ کا یوم وصال :-
حضرت عبد الواحد طَوَا وِیسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ ایک مقام پر کھڑے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام کا جواب عطا فرمایا۔ پھر میں نے کھڑے ہونے کا سبب معلوم کیا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: کہ ”میں محمد بن اسماعیل بخاری کا انتظار کر رہا ہوں۔کچھ دن کے بعد معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما گئے۔ تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ جس رات آپ کا وصال ہوا تھا اسی رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی تھی۔
(سیر اعلام النبلا،۳۱۹)
آپ کا وصال ایک شوال المکرم ۲۵۶ھ (چاند رات) کو ٦٢/ سال کی عمر میں وصال ہوا۔بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں ایک عرصے تک آپ کی قبر شریف سے مشک و عنبر سے زیادہ اچھی خوشبو آتی رہی۔ بار بار قبر شریف پر مٹی ڈالی جاتی مگر لوگ خوشبو کی وجہ سے تبرک کے طور پر اُٹھالے جاتے تھے۔(طبقات الشافعیہ الکبری) آپ کا مزار شریف سمر قند (ازبکستان) کے قریب خر تنگ نامی علاقے میں ہے۔
(سیر اعلام النبلا ۳۱۹)
قارئین کرام! ولی صفت زندگی کے لیے ولی صفت زندگی گزارنے کا ہم کو عزم مصمم کرنا ہوگا۔جو پڑھیں اس پر عمل بھی کریں تاکہ قرب و جوار میں رہنے والے ہمارے شب و روز سے اپنے لمحات زیست کو تابندہ کر سکیں۔حضرت امام بخاری کی قبر اطہر کی مٹی لوگ تبرک کے طور پر اٹھا کر لے جاتے تھے-کیوں اٹھا کر لے جاتے؟ چونکہ اس میں مشک و عنبر جیسی خوشبو آتی تھی۔خوشبو کیوں آتی تھی؟ چونکہ ان کے استقامت فی الدین کی وجہ سے اللہ عز و جل نے ان کی لحد کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنا دیا۔یہ ہمارے حق میں کب ممکن ہوگا؟ جب ہم رزقِ حلال کھانے کی کوشش کریں گے،اور استقامت فی الدین ہمارے اندر پیدا ہو جائے گی۔
اللہ عز و جل امت مسلمہ کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم و عمل کی دولت سے مالامال فرمائے۔
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
(محمود رامپوری)
••────────••⊰❤️⊱••───────••
از قلم:- شمس تبریز خاکی ظہوری مرکزی
از قلم:- شمس تبریز خاکی ظہوری مرکزی
(متعلم جامعتہ الرضا بریلی شریف)
خانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف
رابطہ نمبر: 8630830445
خانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف
رابطہ نمبر: 8630830445