قمر عثمانی کو بھی یاد رکھیں !!
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ان دنوں مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری سرخیوں میں ہے۔
ان دنوں مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری سرخیوں میں ہے۔
ملت وملک کے سنجیدہ اور انصاف پسند لوگ ان کی حمایت میں ہیں اور رہائی کی اپیل کر رہے ہیں۔مختلف مشائخ اور اداروں سے ان کی حمایت میں بیانات بھی جاری ہوئے ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔اس موقع پر جب کہ عوام وخواص غیرت دینی سے سرشار نظر آرہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنی حمایت وتعاون میں محترم قمر غنی عثمانی کو بھی یاد کریں جو پچھلے دو سال سے گجرات ہی کی جیل میں قید وبند کی مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔
قمر غنی عثمانی جماعت اہل سنت کا وہ چہرہ ہیں جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت کا نعرہ اس وقت بلند کیا جب اس عنوان پر اس سنجیدگی اور شد و مد کے ساتھ بات کرنے کا عمومی مزاج نہیں تھا۔وہ قمر عثمانی ہی تھے جنہوں نے ناموس رسالت کے نام پر گرفتار کئے گیے مسلم نوجوانوں کے مقدمات لڑنے کا حوصلہ دکھایا۔اب تک ان جیسے کاموں کے لیے جمیعۃ علماے ہند ہی مشہور تھی۔افراد اہل سنت اکثر اس کا شکوہ کرتے تھے کہ کاش ہماری بھی ایسی تحریک ہوتی جو مظلوموں کی حمایت میں سڑک سے کورٹ تک کھڑی ہوتی، اس وقت قمر عثمانی نے جمود کو توڑا اور اپنی بساط سے بڑھ کر اہل سنت کی نمائندگی کی۔انہوں نے مختصر سے وقت میں تقریباً آدھا درجن مقدمات کی پیروی کا ذمہ اٹھایا۔سوشل میڈیا پر شان رسالت مآب میں ہونے والی گستاخیوں کے خلاف ایک ٹیم بنائی جو ایسے اکاؤنٹس اور افراد کی گستاخیوں کے خلاف آنلائن پولیس کمپلین کرتی تھی۔انہوں نے زمینی سطح پر درجنوں شہروں میں ایسے افراد تیار کر دئے تھے جو کسی بھی معاملے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔انہوں نے لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں جب کورونا پابندیوں کی بنیاد پر مختلف مسجدوں سے اماموں کو ہٹا دیا گیا یا تنخواہیں بند کر دی گئیں ایسے مشکل وقت میں قمر عثمانی ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر سیکڑوں ائمہ کو سامان ضرورت کے لیے ٹھیک ٹھاک اماؤنٹ ٹرانسفر کرایا۔یہ قمر عثمانی ہی کا حوصلہ تھا کہ کشمیر سے تریپورہ تک انہوں نے اہل سنت کی نمائندگی کا کام انجام دیا۔عثمانی صاحب کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے۔ان کا کام زمینی سطح کا تھا۔اچھے، ذی استعداد اور متحرک علما کو تلاشنا اور ان سے استعداد کے مطابق خدمات لینے کا مزاج تھا۔انہوں نے زمینی سطح پر ایسے افراد تیار کرنا شروع کر دئے تھے جو قومی مسائل پر جرأت ایمانی کے ساتھ کسی بھی صورت حال کو فیس کرنے کا مادہ رکھتے تھے۔عثمانی صاحب قدرے جذباتی ضرور تھے مگر یہ جذبات بھی مومنانہ غیرت کی بنیاد پر ہوتے تھے چند ایک معاملات کو چھوڑ دیں تو ان کے زیادہ تر کام غور وخوض اور استصواب رائے کے بعد ہی انجام پاتے تھے۔
قمر غنی عثمانی جماعت اہل سنت کا وہ چہرہ ہیں جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت کا نعرہ اس وقت بلند کیا جب اس عنوان پر اس سنجیدگی اور شد و مد کے ساتھ بات کرنے کا عمومی مزاج نہیں تھا۔وہ قمر عثمانی ہی تھے جنہوں نے ناموس رسالت کے نام پر گرفتار کئے گیے مسلم نوجوانوں کے مقدمات لڑنے کا حوصلہ دکھایا۔اب تک ان جیسے کاموں کے لیے جمیعۃ علماے ہند ہی مشہور تھی۔افراد اہل سنت اکثر اس کا شکوہ کرتے تھے کہ کاش ہماری بھی ایسی تحریک ہوتی جو مظلوموں کی حمایت میں سڑک سے کورٹ تک کھڑی ہوتی، اس وقت قمر عثمانی نے جمود کو توڑا اور اپنی بساط سے بڑھ کر اہل سنت کی نمائندگی کی۔انہوں نے مختصر سے وقت میں تقریباً آدھا درجن مقدمات کی پیروی کا ذمہ اٹھایا۔سوشل میڈیا پر شان رسالت مآب میں ہونے والی گستاخیوں کے خلاف ایک ٹیم بنائی جو ایسے اکاؤنٹس اور افراد کی گستاخیوں کے خلاف آنلائن پولیس کمپلین کرتی تھی۔انہوں نے زمینی سطح پر درجنوں شہروں میں ایسے افراد تیار کر دئے تھے جو کسی بھی معاملے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔انہوں نے لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں جب کورونا پابندیوں کی بنیاد پر مختلف مسجدوں سے اماموں کو ہٹا دیا گیا یا تنخواہیں بند کر دی گئیں ایسے مشکل وقت میں قمر عثمانی ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر سیکڑوں ائمہ کو سامان ضرورت کے لیے ٹھیک ٹھاک اماؤنٹ ٹرانسفر کرایا۔یہ قمر عثمانی ہی کا حوصلہ تھا کہ کشمیر سے تریپورہ تک انہوں نے اہل سنت کی نمائندگی کا کام انجام دیا۔عثمانی صاحب کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے۔ان کا کام زمینی سطح کا تھا۔اچھے، ذی استعداد اور متحرک علما کو تلاشنا اور ان سے استعداد کے مطابق خدمات لینے کا مزاج تھا۔انہوں نے زمینی سطح پر ایسے افراد تیار کرنا شروع کر دئے تھے جو قومی مسائل پر جرأت ایمانی کے ساتھ کسی بھی صورت حال کو فیس کرنے کا مادہ رکھتے تھے۔عثمانی صاحب قدرے جذباتی ضرور تھے مگر یہ جذبات بھی مومنانہ غیرت کی بنیاد پر ہوتے تھے چند ایک معاملات کو چھوڑ دیں تو ان کے زیادہ تر کام غور وخوض اور استصواب رائے کے بعد ہی انجام پاتے تھے۔
دو سال پہلے گجرات میں ہوئے ایک قتل میں انہیں ملزم بنا کر پابند سلاسل کردیا گیا، حالانکہ ان کا اس قتل میں کوئی رول نہیں تھا۔تب سے لیکر آج تک وہ جرأت و ہمت کے ساتھ قید کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے پاؤں میں ادنی سی بھی لغزش نہیں آئی ہے۔اس درمیان خانگی سطح پر انہیں بڑی تکلیفوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔دو چھوٹے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوگیے لیکن ابھی تک باپ کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔بوڑھی ماں دو سال سے اپنے جواں سال بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے، اب جب کہ ملت اسلامیہ میں محافظین ناموس رسالت کے متعلق بیداری آئی ہے تو تمامی احباب اہل سنت/مشائخ کرام/علماے کرام/ائمہ کرام اور اہل قلم سے گزارش ہے کہ وہ اپنی حمایت اور مطالبات میں مفتی سلمان ازہری کے ساتھ حضرت قمر عثمانی صاحب کو بھی یاد رکھیں۔ان کی رہائی کی بھی کوششیں کریں کہ ان کے جیسے متحرک وفعال انسان کی رہائی سے تحریکی وتنظیمی کاموں میں تیزی آئے گی۔
یاد رکھیں!
طریقہ کار اور رائے کے اختلاف کی بنیاد پر اپنوں کو اکیلا چھوڑ دینا کہیں نہ کہیں خود کو جماعتی سطح پر کمزور ہی کرنا ہے اس لیے اپنے نمائندہ افراد کا دل وجان سے ساتھ دیں اور ان کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ ہمارے دینی وجمہوری حقوق کو کوئی پامال نہ کر سکے۔
(عثمانی صاحب کے متعلق مزید معلومات کے لیے قاری محمد آصف رضوی سے 7977523489 رابطہ کر سکتے ہیں)
26 رجب المرجب 1445ھ
7 فروری 2024 بروز بدھ