(سوال نمبر 5101)
کیا مسجد کے کھیت کا پیسہ مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے گاؤں میں مسجد کا ایک کھیت ہے اُس کھیت کے جو پیسے آتے ہیں ہر سال وہ مدرسے کی تعمیر میں خرچ کرتے ہیں کیا مسجد کے کھیت کا پیسہ مدرسے میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں اور اگر جو پیسہ لا علم میں خرچ کر دیے اُنکے لیے کیا حُکم شرح ہوگا، مسجد کے کھیت کا پیسہ کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں یہ بھی ارشاد فرمادے ،قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد رحمت علی نظامی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مسجد کا کھیت جو خاص مسجد کے لئے وقف کیا گیا ہو باتیں طور کہ اس سے جو بھی فائدے آئیں گے سب مسجد میں خرچ ہوں گے پھر مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے کہ جو چیز جس مقصد کے لیے وقف کئے گئے ہوں اسی میں خرچ کرنا واجب ہے کسی غیر میں خرچ کرنا گناہ ہے ۔
٢/ اگر مسجد کا پیسہ مدرسہ میں خرچ کر دئے ہوں تو اتنی رقم مدرسہ سے لے کر مسجد کو لوٹا ضروری ہے۔
٣/ اور اگر مسجد کا کھیت اس طور پر خریدی گئی ہو یا وقف کی گئی ہو کہ اس کے منافع مسجد و مدرسہ امام و مؤذن کسی بھی رفاعی نیک کام میں خرچ کر سکتے ہیں پھر مدرسہ میں لگا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔
وقف کی ہوئی چیز کی مقصد وقف دیکھیں گے کہ حقیقت میں کس لئے وقف کی گئی یے اسی حساب سے رقم صرف کریں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہے
(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد، (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.
(قوله: اتحد الواقف والجهة) بأن وقف وقفين على المسجد أحدهما على العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح، والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الوقف متحدا لأن غرضه إحياء وقفه، وذلك يحصل بما قلنا عن البزازية وظاهره اختصاص ذلك بالقاضي دون الناظر۔
کیا مسجد کے کھیت کا پیسہ مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے گاؤں میں مسجد کا ایک کھیت ہے اُس کھیت کے جو پیسے آتے ہیں ہر سال وہ مدرسے کی تعمیر میں خرچ کرتے ہیں کیا مسجد کے کھیت کا پیسہ مدرسے میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں اور اگر جو پیسہ لا علم میں خرچ کر دیے اُنکے لیے کیا حُکم شرح ہوگا، مسجد کے کھیت کا پیسہ کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں یہ بھی ارشاد فرمادے ،قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد رحمت علی نظامی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مسجد کا کھیت جو خاص مسجد کے لئے وقف کیا گیا ہو باتیں طور کہ اس سے جو بھی فائدے آئیں گے سب مسجد میں خرچ ہوں گے پھر مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے کہ جو چیز جس مقصد کے لیے وقف کئے گئے ہوں اسی میں خرچ کرنا واجب ہے کسی غیر میں خرچ کرنا گناہ ہے ۔
٢/ اگر مسجد کا پیسہ مدرسہ میں خرچ کر دئے ہوں تو اتنی رقم مدرسہ سے لے کر مسجد کو لوٹا ضروری ہے۔
٣/ اور اگر مسجد کا کھیت اس طور پر خریدی گئی ہو یا وقف کی گئی ہو کہ اس کے منافع مسجد و مدرسہ امام و مؤذن کسی بھی رفاعی نیک کام میں خرچ کر سکتے ہیں پھر مدرسہ میں لگا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔
وقف کی ہوئی چیز کی مقصد وقف دیکھیں گے کہ حقیقت میں کس لئے وقف کی گئی یے اسی حساب سے رقم صرف کریں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہے
(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد، (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.
(قوله: اتحد الواقف والجهة) بأن وقف وقفين على المسجد أحدهما على العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح، والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الوقف متحدا لأن غرضه إحياء وقفه، وذلك يحصل بما قلنا عن البزازية وظاهره اختصاص ذلك بالقاضي دون الناظر۔
(کتاب الوقف، ج:4، ص:360، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:ل
في البزازية وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.(کتاب الوقف، وقف المسجد ایجون ان یبنی من غلتہ منارہ، ج:5، ص:233، ط:دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی امجدیہ میں نے
دینے والے جس مقصد کے لئے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے لئے اپنی جائداد وقف کرے اسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جا سکتی ہے۔دوسرے میں صرف کرنا جائز نہیں مثلاً اگر مدرسہ کے لئے ہو تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لئے ہو تو مسجد پر۔
البحر الرائق میں ہے:ل
في البزازية وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.(کتاب الوقف، وقف المسجد ایجون ان یبنی من غلتہ منارہ، ج:5، ص:233، ط:دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی امجدیہ میں نے
دینے والے جس مقصد کے لئے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے لئے اپنی جائداد وقف کرے اسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جا سکتی ہے۔دوسرے میں صرف کرنا جائز نہیں مثلاً اگر مدرسہ کے لئے ہو تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لئے ہو تو مسجد پر۔
(فتاویٰ امجدیہ ج 3 ص 42 مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)
فتاویٰ رضویہ میں ہے
سوال ہوا کہ ایک مخصوص مد میں جمع کیا جانے والا چندہ بچ گیا ہے کیا اسے مسجد میں خرچ کر سکتے ہیں ؟ تو آپ نے جواباً فرمایا چندہ جس کام کے لئے کیا گیا ہو جب اس کے بعد بچے تو وہ انھیں کی ملک ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے کما حققناہ فی فتاونا (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنی فتاوی میں کی ہے) ان کو حصہ رسد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں صَرف کیا جائے،اور اگر دینے والوں کا پتا نہ چل سکے کہ ان کی کوئی فہرست نہ بنائی تھی نہ یاد ہے کہ کس کس نے دیا اور کتنا دیا تو وہ مثل مال لقطہ ہے اسے مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
سوال ہوا کہ ایک مخصوص مد میں جمع کیا جانے والا چندہ بچ گیا ہے کیا اسے مسجد میں خرچ کر سکتے ہیں ؟ تو آپ نے جواباً فرمایا چندہ جس کام کے لئے کیا گیا ہو جب اس کے بعد بچے تو وہ انھیں کی ملک ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے کما حققناہ فی فتاونا (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنی فتاوی میں کی ہے) ان کو حصہ رسد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں صَرف کیا جائے،اور اگر دینے والوں کا پتا نہ چل سکے کہ ان کی کوئی فہرست نہ بنائی تھی نہ یاد ہے کہ کس کس نے دیا اور کتنا دیا تو وہ مثل مال لقطہ ہے اسے مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ ج 16 ص 247،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/11/2023
15/11/2023