(سوال نمبر 5108)
ایک خاوند اپنی بیوی سے غیر شرعی طریقے سے حق زوجیت پوری کرتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ ایک خاوند اپنی بیوی سے غیر شرعی طریقے سے حق زوجیت پوری کرتا ہے جس پر بیوی بہت پریشان ہے روکنے پر بھی باز نہیں آرہا تو ایسے میں اس بیوی کو کیا کرنا چاہیے اور اس پر کیا شرعی حکم ہے ۔۔
بینوا توجروا ۔۔
سائل:- محمد عبداللہ لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
غیر شرعی طریقے سے مراد اگر بیوی کو پیچھے کے مقام میں جماع کرتا یے تو یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے ملعون ہے توبہ کرے اور اس قبیح حرکت سے باز آ جائے ۔
اسے شرعی مسائل بتائے لعنت والی حدیث سنائے اگر وہ پھر بھی باز نہ ائے تو اپنے بڑوں کو کہ کر اس قبیح عادت کو چھڑائے اگر پھر بھی نہ مانے اور پیچھے ہی کے مقام میں ہمبستری کرنے پر بضد ہو تو کسی قاضی شرع کے پاس یہ کیس پیش کرے قاضی اسے اصلاح کریں گے اور وقت دیں گے سدھر جانے کا اگر ہر بھی نہ مانے تو قاضی اسے طلاق دینے کو کہیں گے اگر وہ طلاق دیدے فبہا ورنہ قاضی خود تفریق کردیں گے قاضی کی تفریق سے طلاق بائنہ واقع ہوگی عدت گزار کر عورت دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے ۔
یاد ریے مجبور ہو کر اسی حال میں ایسے شوہر کے ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے۔جو شریعت کو ان سنی کرکے اپنی ہوس کا شکار ہو۔خود بھی حرام کام کرے اور بیوی کو بھی اس میں ملوث رکھے ایسے شوہر سے طلاق لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے شرعا۔
سنن ابی داؤد میں ہے
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ملعون من أتى امرأة في دبرها".
(کتاب النکاح، باب في جامع النكاح: 1/ 311)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام۔
(كتاب الكراهية، الباب التاسع: 5/ 330)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے
حل الوطء في القبل لا الدبر... لقوله تعالى: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم"، أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل... وقوله صلّى الله عليه وسلم: ملعون من أتى امرأة في دبرها"، من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم".... لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر.
(القسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج: 9/ 6590،ط: دار)
اور اگر وہ حلال سمجھ کر ایسا کرتا ہے پھر خارج از اسلام ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
کافر بنانے والی چیزوں میں سے کسی ایسی چیز کو حلال بنالینا جس کی حرمت پر اجماع ہے مثلا شراب، لواطت خواہ اپنے مملوک سے ہو، الخ
ایک خاوند اپنی بیوی سے غیر شرعی طریقے سے حق زوجیت پوری کرتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ ایک خاوند اپنی بیوی سے غیر شرعی طریقے سے حق زوجیت پوری کرتا ہے جس پر بیوی بہت پریشان ہے روکنے پر بھی باز نہیں آرہا تو ایسے میں اس بیوی کو کیا کرنا چاہیے اور اس پر کیا شرعی حکم ہے ۔۔
بینوا توجروا ۔۔
سائل:- محمد عبداللہ لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
غیر شرعی طریقے سے مراد اگر بیوی کو پیچھے کے مقام میں جماع کرتا یے تو یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے ملعون ہے توبہ کرے اور اس قبیح حرکت سے باز آ جائے ۔
اسے شرعی مسائل بتائے لعنت والی حدیث سنائے اگر وہ پھر بھی باز نہ ائے تو اپنے بڑوں کو کہ کر اس قبیح عادت کو چھڑائے اگر پھر بھی نہ مانے اور پیچھے ہی کے مقام میں ہمبستری کرنے پر بضد ہو تو کسی قاضی شرع کے پاس یہ کیس پیش کرے قاضی اسے اصلاح کریں گے اور وقت دیں گے سدھر جانے کا اگر ہر بھی نہ مانے تو قاضی اسے طلاق دینے کو کہیں گے اگر وہ طلاق دیدے فبہا ورنہ قاضی خود تفریق کردیں گے قاضی کی تفریق سے طلاق بائنہ واقع ہوگی عدت گزار کر عورت دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے ۔
یاد ریے مجبور ہو کر اسی حال میں ایسے شوہر کے ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے۔جو شریعت کو ان سنی کرکے اپنی ہوس کا شکار ہو۔خود بھی حرام کام کرے اور بیوی کو بھی اس میں ملوث رکھے ایسے شوہر سے طلاق لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے شرعا۔
سنن ابی داؤد میں ہے
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ملعون من أتى امرأة في دبرها".
(کتاب النکاح، باب في جامع النكاح: 1/ 311)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام۔
(كتاب الكراهية، الباب التاسع: 5/ 330)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے
حل الوطء في القبل لا الدبر... لقوله تعالى: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم"، أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل... وقوله صلّى الله عليه وسلم: ملعون من أتى امرأة في دبرها"، من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم".... لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر.
(القسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج: 9/ 6590،ط: دار)
اور اگر وہ حلال سمجھ کر ایسا کرتا ہے پھر خارج از اسلام ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے
کافر بنانے والی چیزوں میں سے کسی ایسی چیز کو حلال بنالینا جس کی حرمت پر اجماع ہے مثلا شراب، لواطت خواہ اپنے مملوک سے ہو، الخ
(فتاوی رضویہ ج 11 ص 111)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/11/2023
15/11/2023