Type Here to Get Search Results !

فوریکس ٹریڈنگ میں خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 5033)
فوریکس ٹریڈنگ میں خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فوریکس ٹریڈنگ جو کہ ایک آنلائن مارکیٹ ہے (forex trading) میں ٹریڈ کرنا کیسا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ خرید وفروخت کے بنیادی اصول کیا ہے شکریہ جزاک اللہ خیرا 
سائل:- محمد آصف رضا مہاراشٹر (ناسک) انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
فاریکس ٹریڈنگ کسے کہتے ہیں؟
فاریکس ٹریڈنگ کرنسیوں کو خریدنے یا فروخت کرنے کا عمل ہے۔ بینک، مرکزی بینک، کارپوریشنز، اداراتی سرمایہ کار اور انفرادی ٹریڈرز مختلف وجوہات کی بنا پر غیر ملکی کرنسی کا تبادلہ، بشمول مارکیٹوں میں توازن پیدا کرنا، بین الاقوامی تجارت اور سیاحت میں سہولت فراہم کرنا یا منافع کمانے کے لئے تبادلہ کرتے ہیں
فاریکس ٹریڈنگ کے تحت کئی قسم کے کاروبار ہوتے ہیں ،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں 
1/ کیری ٹریڈنگ
اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک کم شرح سود والی کرنسی ادھار پر لے کر اس کے بدلے زیادہ شرح سود والی کرنسی خریدلی جائے,اس طریقہ کاروبار میں خریدار کا نفع وہ فرق ہے جو دونوں کرنسیوں کے درمیان پایا جاتاہے, یہ طریقہ بینک اوردیگر مالیاتی اداروں کے طریقہ کاروبار کے مشابہ ہے کہ وہ کم شرح سود پرقرضے لیتے ہیں اورزیادہ شرح پر لوگوں کو فراہم کرتےہیں اور دونوں کے درمیان کا فرق ان کا نفع ہوتا ہے۔
 اس کاروبار میں شرکاء تین قسم کے ہوتے ہیں:
1/ مختلف بینک: اکثر بڑے سودے بینک کرتے ہیں ,کرنسی کے اتار چڑھاؤ میں ان کے سودوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
 2/ مختلف ادارے جو لوگوں کی رقوم سے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں۔
3/ انفرادی خریدار جو اپنی ضرورت کے لیے کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر کاروبار کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تیل مختلف دھاتیں جیسے کاپر، لوہا وغیرہ اور مختلف اجناس جیسے گندم چاول وغیرہ بھی اسی فورم پر خریدی اور بیچی جاتی ہیں اس میں بھی عموماً وہی اصول اور ضوابط ہوتے ہیں جو فاریکس کرنسی ایکسچینج میں ہوتے ہیں ۔ ایک صارف اپنے تھوڑے سے سرمایہ سے بڑی لاٹ خرید سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص دس ہزار روپے سے اپنا اکاؤنٹ کھولتا ہے اور ایک لاکھ روپے کا خام تیل یا گندم کی لاٹ خرید لیتا ہے اور بطورِ بیعانہ محض دس ہزار روپے اد اکردیتا ہے۔ یہ تمام خریداری بروکر یا ڈیلر کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ اس کاروبارمیں بھی اسپاٹ ٹریڈنگ اورفیوچر ٹریڈنگ دونوں ہوتی ہیں
لاٹ خریدنے کے بعد اگر مبیع کی قیمت بڑھ رہی ہو تو صارف کا نفع ہوتا ہے اور مقررہ مدت آنے سے قبل بسا اوقات وہ اس لاٹ کو فروخت کردیتا ہے اور اگر مبیع کی قیمت گرنے لگے تو یہ صارف کا نقصان ہوتا ہے , اگر نقصان صارف کی جمع کرائی ہوئی رقم سے تجاوز کرنے لگے تو بروکر صار ف کو کہتا ہے یا تو آپ مزید رقم جمع کرائیں یا آپ کا سودا کینسل کردیاجاتا ہے۔اگرخریدارمزید رقم جمع نہ کرائے تو بروکر پورا سودا کینسل کردیتا ہے یعنی یہ کہ اسکرین پر جو سودا صارف کی ملکیت دکھایا جاتا ہے حقیقت میں اس کے خلاف ہوتا ہے، اور صار ف کی ملکیت صرف صارف کی جمع کرائی ہوئی رقم تک محدود ہوتی ہے۔
١/ کرنسی کی بیع شرعاً بیعِ صرف ہے، جس میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے یا نقد ہوتی ہے مگر عقد کے دونوں فریق یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض جانبین سے قبضہ نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔
٢/ مسلم طے شدہ اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد سے فاسد ہو جاتی ہے فاریکس کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً بیع بشرط الاقالہ میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
٣/ نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو مشتری کی رضا مندی کے بغیر بھی اقالہ کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ اقالہ میں جانبین کی رضامندی شرط ہوتی ہے۔
٤/ فیوچر سیل کی جو صورت اوپر بیان ہوئی وہ بیع ناجائز ہے؛ کیوں کہ بیع کا فوری ہوناضروری ہے مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔٥/ اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت بیع قبل القبض کی بھی ہے کیوں کہ ستر اسی فی صد لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتارچڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔
کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف نہیں ہوتی اور اس وجہ سے اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن اس میں بیع قبل القبض قبضہ سے پہلے فروخت کرنا بیع مضاف الی المستقبل مستقبل کی بیع اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائے جاتے ہیں جن کا اوپر بیان ہوا ۔نیز اس بیع میں بروکر کی جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے اگر اس میں نقصان ہو جائَے تو بروکر کو اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہےجب کہ شرعاً بروکر کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے بعد سودے میں کوئی حق اوراختیار نہیں ہوتا اوراگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع ونقصان اس کے ذمہ ہے نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو
البتہ جواز کی ایک صورت ہے کچھ قیود و شروط کے ساتھ 
خریدار / درآمد کنندہ مال پر اگر ایسا تصرف رکھتا ہو کہ جسے چاہے اور جس وقت چاہے فروخت کر سکے اور جہاں چاہے لے جا سکے تو ایسی خرید و فروخت قبضہ کے حکم میں ہو کر جائز ہوگی چاہے یہ خرید و فروخت انٹرنیٹ یا فیکس کے ذریعے کی جائے یا کسی اور ذریعے سے اگر انٹرنیٹ کے ذریعے ہونی والی خرید و فروخت اس طرح سے ہو کہ خریدار کو مال کے بارے میں بالکل علم نہ ہو اور وہ اس پر اختیار بھی نہ رکھتا ہو یعنی ساری خرید و فروخت ہَوا میں ہی ہو اور زمین پر اس کا کوئی وجود نہ ہو، بس روپے کو روپے سے ضرب دینے کا گورکھ دھندا ہی ہو تو ایسی تجارت شرعاً جائز نہیں ہے۔
یاد رہے کہ شرعی احکامات کے مطابق خریدار کا خریدی ہوئی شے پر قابض ہونا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
من اتباع طعاماً فلا يبعه حتی يقبضه.
(صحیح مسلم، 2 : 13)
جس نے کسی سے طعام (یا کوئی اور شے) خریدی تو اس وقت تک آگے فروخت نہ کرے جب تک اس پر قبضہ نہ حاصل کر لے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واحسب کل شيء بمنزلة الطعام.
اور میرے خیال میں ہر فروخت کی جانے والی شے بمنزلہ طعام ہے (یعنی خریدار کے لیے مال کو دیکھنا و پرکھنا اور اس پر قابض ہونا ضروری ہے)۔
آج کے جدید دور میں خرید و فروخت کے طریقہ کار تبدیل ہوگئے ہیں۔ لوگ دوسرے ممالک سے مال درآمد کرتے ہیں اور اپنے ملک میں مال لا کر دوسرے لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں اگر وہ مال کو اپنے قبضے میں کرنے کے بعد فروخت کریں تو ترسیل مال پر بہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں اور مال کو اسٹور کرنے کے لیے بھی وافر جگہ پر مشتمل گودام درکار ہوتے ہیں۔ جیسے گلگت کا رہنے والا کوئی تاجر یورپ سے اشیائے صرف درآمد کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مال کراچی کی بندرگاہ پر آئے گا۔ اب اگر وہ سارا مال پہلے گلگت منگوائے اور بعد میں اسے فروخت کرنے کے لیے حیدر آباد، خان پور، راولپنڈی، پشاور اور لاہور وغیرہ بھیجے تو بے پناہ اخراجات اٹھیں گے، جن سے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔اس لئے مذکورہ قیود کے ساتھ 
عقد بیع و شرا کے بنیادی ارکان میں ایجاب اور قبول کا عمل ہے۔ ایجاب و قبول کا کوئی خاص طریقہ اور الفاظ متعین ہیں نہ ہی ایجاب وقبول کے لیے کسی لفظ کا استعمال ضروری ہے،
بلکہ الفاظ کے علاوہ اشارہ کے ذریعے بشرطیکہ بولنے سے معذوری ہو سے بھی بیع وشراء کی پیشکش یا کو صادر یا قبول کیا جا سکتا ہے اسی طرح خط و کتابت کے ذریعے، نیز زبانی یا تحریری طور پر کچھ بولے لکھے بغیر عملا ًلینے دینے کے ذریعے بھی ایجاب و قبول کا عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔ جسے بیع التعاطی کہا جاتا ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area