Type Here to Get Search Results !

اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی قصیدہ گوئی


اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی قصیدہ گوئی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
از قلم: طفیل احمد مصباحی
قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے لغوی معنی " مغزِ غلیظ کے ہیں ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ قصیدہ لفظ قصدؔ سے نکلا ہے اور اس کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں ۔ اصطلاحاً قصیدہ اس مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور بقیہ اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں اور جس میں مدح یا ذم ، وعظ و نصیحت یا مختلف کیفیات و حالات وغیرہ کا بیان ہو ۔ قصیدے کے لغوی و اصطلاحی معنوں میں اول الذکر لغوی معنی کے اعتبار سے یہ مناسبت بتائی جاتی ہے کہ چوں کہ اس کے مضامینِ جلیل و متین ٬ ذائقۂ طبعِ سلیم کو لذت دیتے ہیں ، اس لیے اس کو قصیدہ کہتے ہیں ۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ چوں کہ قصیدہ اپنے مضامینِ نادر و بلند کے لحاظ سے جملہ اصنافِ سخن میں وہی فوقیت رکھتا ہے جو جسم انسانی میں مغزِ سر کو حاصل ہے ٬ اس لیے اس کو مغزِ سخن سے تعبیر کر کے قصیدے کا نام دیا گیا ۔ مؤخر الذکر لغوی معنی کی یہ مناسبت بیان کی جاتی ہے کہ اس صنفِ سخن میں مدح یا ذم یا کسی اور مضمون کی طرف رجوع کرنا ہی مقصودِ شعرا ہوا کرتا ہے ۔
قصیدے کی صنفی تشکیل میں اس کی ہیئت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ عربی کی قدیم شاعری ایسی نظموں پر مشتمل تھی جن کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور بقیہ اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے ۔ ہیئت کے اعتبار سے یہی ایک صنفِ سخن تھی ۔ مدح ، ہجو اور مرثیہ وغیرہ کی تقسیم موضوع کی بنا پر تھی ۔ ایران میں جب شاعری کا آغاز ہوا تو فارسی شعرا نے مدحیہ نظموں میں عربی شاعری کی اسی مروجہ ہئیت کو اپنایا ۔ فرق بس اتنا ہوا کہ عربی میں صرف قافیہ تھا ، فارسی شعرا نے اس پر ردیف کا اضافہ کر دیا ۔ بعد کے شعرا نے اسی کی تقلید کی اور یہ ہیئت قصیدے کے لیے مخصوص ہو گئی ۔ اردو میں بھی قصیدے کی اسی ہیئت نے جگہ پائی ۔ اگر چہ مدح اور ہجو کے مضامین کے لیے بعض دوسری ہیئتیں مثلاً : مثنوی ، مخمّس اور مسدّس وغیرہ بھی استعمال کی گئی ہیں ٬ لیکن قصیدے کا اطلاق اسی نظم پر ہوتا ہے جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔
یہ لازمی نہیں کہ ہر قصیدے میں ردیف بھی ہو ٬ لیکن مذکورہ قیود میں قافیے کا ہونا لازمی ہے ۔ مثنوی ، مخمّس اور مسدّس وغیرہ کو قصیدہ کہنا صریحاً غلط ہے ۔ قصیدے میں اشعار کی کم سے کم تعداد کسی نے سات ٬ کسی نے بارہ ٬ کسی نے پندرہ ٬ کسی نے بیس ، کسی نے اکیس اور کسی نے پچیس بتائی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اشعار کے لیے عام خیال ہے کہ کوئی حد نہیں ۔ لیکن بعض اہلِ قلم نے ان کی تعداد سو ، ایک سو بیس اور ایک سو ستّر لکھی ہے ۔ بالعموم دو سو اشعار تک کے قصائد ملتے ہیں ٬ لیکن مستثنیات کی کمی نہیں ۔ مثلاً نصرتی کا ایک قصیدہ دو سو بیس اشعار اور قدرؔ بلگرامی کا قصیدہ " آئینۂ محبوب " دو سو تیس اشعار کا ہے ۔ سوداؔ کے شاگرد کے ایک ہجویہ قصیدے میں آٹھ سو سے زیادہ اشعار ہیں اور شاطرؔ مدراسی کا قصیدہ " اعجازِ عشق " ۱۳۹۶ / اشعار مشتمل ہے ۔ قصیدے کا پہلا شعر تو مطلع ہوتا ہی ہے ٬ لیکن کچھ شعروں کے بعد درمیان میں بھی مطلع کہے جاتے ہیں ۔ طویل قصیدوں میں مطلعوں کی تعداد کبھی کبھی پانچ تک پہنچ جاتی ہے ۔ اکثر تازہ مطلع سے قصیدے میں ایک نیا لطف اور زور پیدا ہو جاتا ہے ۔ دو مطلعوں کے قصیدے کو " ذو مطلعین " اور دو سے زیادہ مطلعوں کے قصیدے کو " ذو المطالع " کہتے ہیں ۔
عربی کی ابتدائی شاعری میں قصیدے کا موضوع بہت وسیع تھا ۔ اس میں شعرا کی روز مرہ زندگی ، ذاتی تجربات ، وارداتِ عشق ٬ ملکی حالات اور مناظرِ فطرت وغیرہ کی روح کار فرما تھی ۔ زمانۂ جاہلیت کے قبائلی سماج میں شعرا بہت غیور ہوتے تھے ۔ افراد کی مدح و ستائش ان کا شیوہ نہ تھا ۔ عربی میں مدحیہ قصائد کا آغاز کافی بعد میں ہوا اور اس وقت بھی مدح و ستائش صلہ و انعام سے بے نیاز ہو کر کی جاتی تھی ، لیکن بے غرض مدح و ستائش کی یہ روش اپنی اصلی حالت پر قائم نہ رہ سکی اور قصیدے صلہ و انعام کے حصول کے لیے کہے جانے لگے ۔ رفتہ رفتہ خلفا و امرا کی مدح سرائی کر کے انعام و اکرام حاصل کرنے کا عام رواج ہو گیا ۔ یہی زمانہ تھا جب فارسی میں قصیدہ گوئی کی ابتدا ہوئی ۔ چنانچہ فارسی شعرا نے قصیدے کی بنیاد زیادہ تر سلاطین و امرا کی مدح و ستائش اور صلہ و انعام کے حصول پر رکھی ۔ جب مدح سے کام نہ نکلتا تھا تو ہجو پر کمر باندھتے تھے ۔ مختصر یہ کہ اردو تک پہنچنے سے پہلے قصیدے کا اصل موضوع مدح یا ہجو کی شکل میں متعین ہو چکا تھا ۔ اردو میں بالعموم اسی کی پیروی کی گئی اور اس میں بھی مدح کا پلہ بھاری رہا ۔ قصیدے کا تصور اگرچہ مدح اور ہجو کے ساتھ وابستہ ہے ٬ لیکن اس کے دوسرے موضوعات بھی ملتے ہیں ۔ فارسی میں بعض قصائد میں پند و موعظت اور اخلاق و حکمت وغیرہ کے مضامین نظم کیے گئے ہیں ۔ اردو میں کیفیتِ بہار ، گردشِ چرخ یا انقلابِ روزگار و غیرہ کو قصیدے کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ کلیمؔ دہلوی کا ایک قصیدہ " روضۃ الشعراء "  شعرا کے حالات پر مشتمل تھا ۔ سوداؔ نے ایک قصیدے میں نواب شجاع الدولہ اور حافظ رحمت خاں کی جنگ کا حال لکھا ہے ۔ سودا کے شاگرد کا ایک قصیدہ " برّشِ شمشیر " بظاہر مصحفؔی کی ہجو میں ہے ٬ لیکن اس قصیدے کا موضوع بڑی حد تک تنقیدِ شعر ہے ۔ اسی طرح کئی قصیدے اور ہیں جن میں مدح و ہجو سے قطع نظر کر کے شعرا نے دوسرے موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے ۔
 مولانا حالؔی نے قصیدے اور مرثیے کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ زندوں کی تعریف کو قصیدہ بولتے ہیں اور مردوں کی تعریف کو جس میں تاسف اور افسوس بھی شامل ہوتا ہے مرثیہؔ کہتے ہیں ۔ لیکن بزرگانِ دین کی شان میں جو قصائد ہیں ٬ ان کے پیش نظر یہ خیال پوری طرح صحیح نہیں ہے ۔ قصیدے اور مرثیے میں بنیادی فرق زندوں اور مردوں کی تعریف کا نہیں ٬ بلکہ یہ ہے کہ قصیدے میں مدح کی جاتی ہے اور مرثیے میں کسی کی موت پر اظہارِ افسوس کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک قصیدے کے اصل موضوع کا تعلق ہے تو یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ قصیدہ مدح یا ہجو تک محدود نہیں رہا ۔ جس طرح اردو شاعری میں مرثیے کا اصل موضوع واقعۂ کربلا تھا ٬ لیکن مرثیہ گویوں نے اس کو ایک خاص قسم کی نظم بنا دیا ٬ جس میں بہت سے ضمنی مضامین داخل ہو گئے ۔  اسی طرح قصیدے کا میدان بھی مدح یا ہجو سے زیادہ وسیع ہے ۔
( اردو میں قصیدہ نگاری ٬ ص : ۹ تا ۱۳ ٬ ناشر : تخلیق کار پبلشرز ٬ لکشمی نگر ٬ دہلی )
 تشبیب ٬ گریز ٬ مدح اور دعا و خاتمہ قصیدے کے چار مشہور اور لازمی اجزا ہیں ٬ جن کا قصیدے کے اندر پایا جانا ضروری ہے ۔ قصیدے کی متعدد قسمیں ہیں ۔ خطابیہ ٬ تمہیدیہ ۔ قصیدۂ خطابیہ میں تمہید یعنی تشبیب و گریز کا عنصر نہیں پایا جاتا ٬ بلکہ براہِ راست ممدوح کی توصیف سے قصیدے کا آغاز ہوتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کے نامور خلیفہ علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ( سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی ٬ علی گڑھ ) کامیاب قصیدہ گوئی کے اجزا و عناصر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : 
قصیدہ میں شاعر کا جوہر دو جگہ کھلتا ہے ۔ ایک تو مَخْلص یعنی گریزؔ جہاں سے مقصد شروع ہوتا ہے ۔ دوسری تشبیبؔ و مقصد میں توازن ولطف کا اس طرح قائم رکھنا کہ دونوں حصوں میں سے کوئی بھی بد مزہ ہونے پائے ........ شوکت و ندرتِ الفاظ ، مسائلِ علمیہ ، مقدماتِ حکمیہ ، دقائقِ سلوک و تصوف ، اصطلاحاتِ علومِ مختلفہ ، دقتِ معانی ، صنائع و بدائع لفظی و معنوی ، خصوصاً تجنیس و ترصیع ، بلند پروازی و مبالغہ وغیرہ ، قصائد نویسی کے زیور ہیں ۔ 
( مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت معروف بہ الانھار ، ص : ۹۶ ٬ ١٠٠ ٬ ناشر : مطبع انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ کالج ٬ علی گڑھ )
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کے کلامِ تصوف نظام میں اردو شاعری کی تقریباً ساری مروجہ اصناف پائی جاتی ہیں ۔ آپ نے حمد و مناجات ٬ نعت ٬ منقبت ٬ سلام ٬ مثنوی ٬ قصیدہ ٬ قطعہ اور تضمین وغیرہ کے غازوں سے عروسِ سخن کو سجایا ٬ سنوارا اور نکھارا ہے ۔ دنیا دار اور چاپلوس شعرا کی طرح آپ نے امرا و سلاطین کی جھوٹی تعریف سے اپنے دامنِ تقدس کو داغ دار نہیں بنایا ہے ٬ بلکہ اللہ و رسول اور بزرگانِ دین کی مدح سرائی کر کے دنیوی و اخروی سعادتیں اپنے نام کی ہیں ۔ " تحائفِ اشرفؔی " میں صرف ایک قصیدہ درج ہے ٬ جو غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی شان میں ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو دیگر اصناف کے علاوہ قصیدہ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا ۔ آپ کے اس قصیدے میں دو مطلعے ہیں ۔ زبان و بیان کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب قصیدہ ہے ۔ 
قصیده در مدحِ محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ
مطلع : 
پھرے جہاں میں نہ حاصل ہوئی کوئی تدبیر
 ملا نہ ایسا عمل جس کی دیکھتے تاثیر
حصولِ مقصدِ دل کا کہیں پتہ نہ لگا 
کہاں کہاں مجھے دوڑا کے لے گئی تقدیر
ہوا خیال یہ دل میں کہ ایسی جا پہنچوں 
جہاں سے پاتے ہوں مقصود ہر صغیر و کبیر 
 پکار اُٹھا دلِ مضطر کہ ان کے در پر چل
لقب ہے جن کا جہانگیرؔ شاہ اشرف پیر 
وہ بادشاہ تھے سمناں کے چھوڑ کر شاہی
ہوئے ہیں عشقِ خدا میں فقیرِ با توقیر 
 زمانہ میں وہی حاجت روائے عالم ہیں
وہی غریبوں کے ہو جاتے ہیں معین و نصیر 
 انہیں کے جود و سخا نے کیا غنی سب کو 
وہ ہیں امیرِ کبیر اور امیر ابنِ امیر  
انہیں کی نظروں میں تاثیرِ کیمیا دیکھی
انہیں کی خاکِ قدم کو سمجھتے ہیں اکسیر 
 جہاں میں جن و بشر ٬ وحش و طیر ہیں جتنے 
 مطیع ان کے ہیں ایسے ہیں صاحبِ تسخیر 
خدا نے اُن کو دیا ہے خطابِ محبوبی 
جہاں میں نام ہے روشن بہ شکلِ بدرِ منیر 
اثر کیا مری ترغیبِ دل نے جب مجھ پر
رواں دواں درِ اقدس پہ آ گیا یہ فقیر
 ہوا  خیال  کہ  اظہارِ  مدعا  میں  ذرا
نہ دیر چاہیے زیبا نہیں ہے اب تاخیر 
مطلعِ ثانی
تو عرض کرنے لگا اے جناب عرشِ سریر 
تمہاری خاکِ قدم سے بنا ہے میرا خمیر 
تمہارے سامنے کیا مجھ کو حاجتِ اظہار 
کہ تم پہ کھول دیا ہے خدا نے حالِ ضمیر 
ہمارا حال پریشاں ہے تم پہ سب روشن 
زباں کو اب نہیں یارا کہ کچھ کرے تقریر 
ہجوم و نرغۂ اعدا ہے کس طرف جاؤں 
ترے سوا نظر آتا نہیں معین و ظہیر 
کوئی بدی مری کرتا ہے اور کوئی ہجو 
طرح طرح سے کیا کرتے ہیں مری تحقیر 
عجیب ضیق میں ہوں کچھ نہیں مری چلتی 
نہ کوئی مونس و ہمدم نہ کوئی اپنا مشیر 
شہا یہ وقتِ مدد ہے طفیلِ نور العین 
عدو کو کیجیے دامِ بلا میں جلد اسیر 
ہوا جہاں میں مری کیفیت الم نشرح 
میں کس زباں سے کروں عرض حال بالتفسیر
یہ آرزو تھی غلامی میں عمر ہووے بسر 
 جوارِ درگہِ عالی میں گھر کیا تعمیر 
غرض یہ تھی کہ رہے میری زندگی جب تک 
نہ جائے پھر کہیں یہ بندۂ ذلیل و حقیر 
 گلیمِ کہنہ پہن کر ترے ہی در پہ رہوں 
اسی کو سمجھوں میں دیبا اسی کو جانوں حریر 
مگر عداوتِ اعدا سے ہوں سخت عاجز ہوں 
 ہمیشہ درپئے تخریب ہیں گروہِ شریر
 وہ میرے درپئے ایذا ہیں اور میں حسرت سے 
کھڑا ہوں بے حس و حرکت بہ صورتِ تصویر 
ذلیل و خوار کرو چاہو مجھ کو عزت دو 
یہی کہوں گا کہ میں ہوں غلامِ اشرفؔ پیر 
کرو  قبول  مری  عرضِ  مدّعا  شاہا 
طفیلِ  درِّ  یتیم  و  طفیلِ  شیخ  کبیر 
ہزار رنج و صعوبت ہو ان کو جھیلے گا 
 مگر نہ جائے گا درگاہ سے تری یہ فقیر 
یہ اشرفؔی کی تمنا ہے خاکِ در ہو جائے 
اگرچہ ہے وہ سراپا گناہ و پُر تقصیر

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area