Type Here to Get Search Results !

اویسی کی حمایت کو سیاست تک ہی محدود رکھیں

اویسی کی حمایت کو سیاست تک ہی محدود رکھیں
──────⊹⊱✫⊰⊹─────
✍️ شاداب امجدی اعظمی 
سیاست کے گلیاروں میں اس وقت بہار الیکشن کا خوب شور ہے، کوئی ہندوتوا کا کھلے عام پرچار کرکے اور اسلام دشمنی کو بنیاد بنا کر ووڑ مانگ رہا ہے تو کوئی سیکولرازم کی خول میں لپٹا ہوا تمام طبقات سمیت مسلمانوں کے خیر خواہی کا دعویٰ کر رہا ہے تو وہیں ایک پارٹی مسلم قیادت کے استحکام، اسلامی قوانین کی حفاظت کی بات کر رہی ہے ۔
میری آج کی اس تحریر کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اہل بہار کو مشورہ دوں کہ آپ کے ووٹوں کو صحیح حق دار کون ہے، نہ یہ میرا کام، نہ مجھے وہاں کے زمینی تجربے، اس لیے یہ اہل بہار پہ ہی منحصر ہے کہ ان کا سیاسی شعور کون سی بٹن دبانے کا فیصلہ کرتا ہے ۔
مجھے آج اس ضمن میں چند باتیں عرض کرنی ہیں کہ سیاسی قیادت، اپنا قائد کے خوش کن نعروں میں کسی بھی سنی کے ہاتھ سے تصلب فی الدین کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
آمدم برسر مطلب :
بیرسٹر اسد الدین اویسی کی ذاتی صلاحیت و لیاقت اور حاضر جوابی کے سب معترف ہیں، ان کی ولولہ انگیز تقریروں نے گزشتہ دس سال کے اندر مسلمانوں میں انقلاب نہ سہی تو بیداری تو ضرور پیدا کی ہے ۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ طلاق، حجاب، وقف و دیگر مسلم مسائل پہ انہوں نے کھل کر باتیں کیں ۔ ان سب کے باوجود ان کی متعدد باتوں سے اور نظریات سے شدید اختلاف بھی یے ۔
بہر حال! ہم ان کی ذاتی صلاحیت کے مخالف نہیں اور نہ ہی ان کی سیاسی حمایت کے پرچارک اور نہ ہی مخالف ۔
ہم اس عقیدت کے خلاف ہیں جو سیاست سے اوپر پہنچ چکی ہے، ہم اس اویسی واد کے خلاف ہیں جس کے نتیجے میں علما و مشائخ کے گریبان ہاتھوں میں لیے جارہے ہیں ۔ 
ادھر گزشتہ دس سالوں میں اویسی کا قائدانہ قد مسلم نوجوانوں میں بہت تیزی کے ساتھ بڑھا ہے، اور ان میں عقابی روح کے ساتھ ساتھ بے جا تشدد بھی کہیں کہیں پایا جاتا ہے ۔
اویسی کی حمایت جسے کرنا ہے کرے، مگر حمایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ پہلے اسے اوج ثریا پہ پہنچا دیں، اس کے لیے آسمان و زمین کے قلابے ملا دیں، علما و مشائخ کو اس کا نام لے کر عار دلائیں اور ان کی پگڑیاں اچھالیں ۔ ان امور کی طرف جائے بغیر بھی حمایت کی جاسکتی ہے ۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملکی اور قومی معاملات میں علما کی خاموشی پہ گالیاں دی جاتی ہیں، چوڑیا پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور بالخصوص ایسے وقت میں اویسی کو علما سے بہتر بتا کر علما کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ 
ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ کیا شریعت کے اصولوں کی روشنی میں ایک سنی متصلب عالم دین (جو اگرچہ بزدل ہو) جس نے ملکی و قومی معاملات میں خاموشی اختیار کی مگر تنگ دستی کے عالم میں اللہ کے دین کی خدمت انجام دے رہا ہے ایک ایسے شخص سے کم تر ہوگیا جو خود فاسق معلن، جے بھیم کے نعرے لگانے والا، گستاخان رسول دیوبندیوں، وہابیوں، دشمنانِ صحابہ رافضیوں و تفضیلیوں کی تعظیم و تکریم کرنے والا ہے ۔
رب کعبہ کی قسم! اس جیسے ہزار سیاسی لیڈر کو ایک پلڑے میں رکھ دو اور دوسرے پلڑے میں ایک عام متصلب سنی کو رکھ دو عند اللہ سنی ہی کا پلڑا بھاری ہوگا۔
خدارا! ہوش کے ناخن لیں، صلح کلیت کو عام کرنے میں نادانستہ کہیں آپ کی شرکت بھی نہ لکھ لی جائے۔ 
ایک صاحب کو سنا کہ انہوں نے بیرسٹر صاحب کو بڑے جذباتی انداز میں سچا عاشق رسول ثابت کردیا اور اپنے اس دعوے کی تائید میں یہ بات پیش کی کہ وہ نقش نعلین والی ٹوپی لگاتے ہیں ۔
کیا ہمارے علما کی نظریں اتنی موٹی ہوگئیں؟ کون سا عشق نظر آگیا؟ کیا نقش نعلین ٹوپی پہ بنوا لینا عشق کی علامت ہے؟ پھر چاہے وہ جے بھیم کے نعرے بلند کرے یا دیوبندی اکابر کی تعریف میں رطب اللسان رہے؟ اگر یہی عشق کا معیار ٹھہرا تو پھر دیابنہ اور وہابیہ میں اس سے بڑے ہزاروں عاشق رسول نظر آجائیں گے ۔ قوم کو کہاں لے جارہے ہیں؟ عاشق رسول ثابت کیے بغیر سیاسی حمایت نہیں ہوسکتی؟ اویسی کی پارلیمانی کارکردگی مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے پھر کیا ضرورت ہے کہ اس طرح کی بے تکی باتیں کی جائیں؟ 
آخر ایسے مقررین سادہ لوح عوام کو کس رخ پہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر سنی عوام نے اسے عاشق رسول مان کر اتباع شروع کردی تو صلح کلیت کا ایسا طوفان آۂے گا کہ تھامے نہ تھم سکے گا ۔ اس لیے ایک محض سیاسی لیڈر کو ہرگز ہرگز مذہبی لیڈر بنانے کی کوشش نہ کریں ورنہ انجام کار بڑا خطرناک اور ایمان کو غارت کرنے والا ہوگا ۔
ایک عالم دین نے لکھا کہ اویسی علما کا قدر دان ہے،(اور ) علماء سوء کیلۓ قہر ۔
اس جملے سے اندازہ لگائیں کہ کس قدر ہمارے سنی علما اویسی کی سیاست سے مرعوب ہیں، کم سے کم یہ لکھنے سے پہلے ربیع الاول شریف کے موقع پہ ہونے والے دار السلام (حیدر آباد) کے جلسے کا منظر ہی دیکھ لیتے ۔ کیا وہاں جن صاحبان جبہ و دستار کی جھک جھک کے اویسی تعظیم بجا لاتا ہے وہ سب علمائے حق ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ اکثر بد مذہب ہوتے ہیں ۔
پھر کس منہ سے یہ باتیں کہی جارہی ہیں؟ 
ذرا آنکھیں کھالیں، اپنی قوم کا مودی کے بھکتوں جیسا حال ہونے سے پہلے بیدار ہوجائیں ۔
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: إذا مُدِحَ الفاسقُ غضبَ الرَّبُّ واهتزَّ لذلِكَ العرش ۔ یعنی جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو رب عز و جل غضب فرماتا ہے اور اس کے سبب عرش الٰہی ہل جاتا ہے. 
ایک اور حضرت نے اختر الایمان کی روڈ کنارے نماز پڑھتے ہوئے ایک فوٹو نشر کی اور کیپشن میں لکھا: نماز سب سے اہم ہے ۔
ایک جاہل سنی ایسی تصویریں دیکھ کر متاثر ضرور ہوگا اور یہی تصویر اسے سنیت و دیوبندیت کی سرحد ختم کرنے پہ معاون ہوگی ۔ کچھ نہیں تو اتنا تو ہوگا کہ اس دیوبندی کے تعلق سے اس کے دل میں نرمی آئے گی، پھر وہ مزید نرمی کی طرف جائے گا، کیوں کہ دیوبندیوں کے حق میں تاویلیں کرنے والے اسی طرح کی حمایتوں سے شروع کرتے ہیں اور انجام کار حسام الحرمین کی تصدیق سے مکر جاتے ہیں ۔ خدا نہ کرے کہ کسی کا یہ حال ہو ۔
ہمارے آقا ﷺ تو فرماتے ہیں : أھل البدع کلاب أھل النار کہ بدمذہب جہنمیوں کے کتے ہیں ۔
کیا جہنمیوں کے کتوں کی نماز پہ صرف اس لیے رشک کیا جائے گا کہ وہ ہماری پارٹی کا ایک مضبوط نیتا ہے؟ 
یہ تین چار گرویدگی والی تحریر و پوسٹ سرسری طور پہ ذہن میں تھیں تو لکھ دیا، کیوں کہ یہ تمام باتیں باسند علما نے کی ہیں، اس لیے اس کا خطرناک ممکنہ پہلو پیش کرنا ضروری سمجھا سو پیش کیا ۔ اس سلسلے میں ہم نے عوامی بیان کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے، اگر وہ تلاش کیا جائے تو نہ جانے کیا کیا ملے ۔ 
تقسیم وطن سے پہلے کی ہندوستانی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، احکام اسلامی کا پختہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اسی سیاست کے نشے میں ایک گروہ نے گاندھی کو اپنا جب قائد بنایا تو یہاں تک کہہ دیا کہ خدا ان کو مُذَکِّر بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے، گاندھی کو پیشوا نہیں بلکہ قدرت نے تم کو سبق پڑھانے والا مدبر بنا کر بھیجا ۔ معاذ اللہ
اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کی باتیں تاریخ کے صفحات پہ موجود ہیں ۔
وہیں دوسری طرف ایک رافضی شخص محمد علی جناح کو مسلمانوں کا سیاسی پیغمبر بھی کہا گیا تھا ۔ ولایت کے درجے تک پہنچا دیا گیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن کی محبت میں آج تک پاکستان کے بعض سنی بھی جناح کے نام کے ساتھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں، رافضی تو دور اسے فاسق معلن بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ 
اگر اویسی کے تعلق سے علما کی یہ خطرناک گرویدگی ختم نہ ہوئی اور اس کی سیاسی کارکردگی کو مذہبی رنگ دینے کی کوششوں پہ بر وقت روک تھام نہ ہوۃی تو وہ وقت بھی آئے گا جب اویسی کو ولایت کے درجے پہ بٹھا دیا جائے گا ۔ اور اس کی کسی بھی حیثیت سے مخالفت کرنے والوں کو قوم کا غدار اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا جائے گا جیسے آج زعفرانیت زدہ قوم پورے ملک کے باشندوں کے ساتھ کر رہی ہے ۔
اور آج اگر اویسی کو مذہبی معاملات میں کلین چٹ دینا اور اس کی مذہبی ایمیج کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا صلح کلیت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
اس لیے اویسی کی سیاسی حمایت کو سیاست تک ہی محدود رکھیے، اور اپنے دین و مسلک پہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہیے ۔
اویسی کی حمایت میں سوشل میڈیا پہ جن قلم کاروں کی تحریریں نپی تلی اور بامقصد ہوتی ہیں ان میں حضرت مولانا زاہد مرکزی صاحب سر فہرست ہیں ۔ آپ کی تحریروں میں صرف سیاسی حمایت کا پہلو ہوتا ہے، نہ اس کے عشق رسول کا زبردستی تذکرہ، نہ علما پہ افضلیت، نہ اہل علم پہ طعن و تشنیع ۔ محض سیاسی حمایت ہوتی ہے ۔ اگرچہ کبھی کبھار ان کی بھی کسی رائے سے مجھے اختلاف رہتا ہے، مگر اتفاق کی شرح زیادہ ہے ۔
مگر ان سب سے پہلے آپ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کی کتاب لاجواب” المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ “ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ یقین مانیں آپ کو سیاسی بصیرت بھی حاصل ہوگی، سیاسی تبصرے کا مذہبی شعور بھی فراہم ہوگا ۔ 
اور اگر یہ کتاب نہیں پڑھے ہیں تو ہماری اس تحریر کا جواب دینے سے پہلے ایک بار ضرور مطالعہ کرلیں، ان شاءاللہ بہت حد تک آپ کے اعتراضات ختم ہوجائیں گے۔ 
شاداب امجدی اعظمی 
9 / جُمادَی الأولیٰ 1447 ھ 
31 / اکتوبر 2025 ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area