Type Here to Get Search Results !

کیا مسلمان ووٹ حکومت بناتا یا گراتا ہے ؟

کیا مسلمان ووٹ حکومت بناتا یا گراتا ہے ؟ 
مسلمانوں کے بَھرم کو بَھسم کرتی ایک تجزیاتی تحریر 
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین: تحریکِ علمائے بندیل کھنڈ
ہمارے بہت سے علمائے کرام اور دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ مجلس کے آنے سے دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو نقصان ہوتا ہے، نیز مسلم ووٹ ہی انڈین سیاست میں حکومت سازی کرتا ہے لیکن ان دونوں بڑے دعووں کو جب ہم نے کسوٹی پر رکھا تو معاملہ "کھودا پہاڑ نکلی چوہیا" والا ہوا ۔ تو چلیے دیکھتے ہیں کہ یہ دعوے ہاتھی کے دانت سے کتنے مشابہ ہیں ،جہاں کھانے اور دکھانے کا فرق صاف دکھائی دیتا ہے ۔
ہر انتخاب کے وقت میڈیا اور سیاسی پارٹیاں یہی نعرہ لگاتی ہیں کہ “مسلم ووٹ فیصلہ کرے گا”، لیکن پچھلے پچھتر برس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومتیں مسلم ووٹ سے نہیں بلکہ غیر مسلم ووٹ کے اتحاد یا جھکاؤ سے ہی بنتی آئی ہیں۔
1984 میں کانگریس کو قریب 49 فیصد ووٹ ملے اور 541 میں 414 نشستیں کانگریس نے جیتی تھیں ،وجہ تھی اندرا گاندھی کا قتل ۔ اس کے بعد ووٹ فیصد گھٹتا گیا اور بی جے پی نے جب 2014 میں حکومت بنائی تو 282 نشستوں پر اکیلے ہی کامیابی حاصل کی ، 2019 میں بڑھ کر 303 نشستیں حاصل کیں اور 2024 میں گھٹ کر 240 ہی رہ گئیں ۔
مسلمانوں کا ووٹ اگرچہ 14 فیصد ہے، مگر وہ جغرافیائی طور پر بکھرا ہوا اور سیاسی طور پر غیر مرکوز ہے، جبکہ غیر مسلم ووٹ نظریاتی طور پر منظم ہے۔ یا یہ کہ لیجیے کہ اپنی اپنی برادری کی پارٹیوں کو جاتا ہے اور وہ وہیں پہنچتے ہیں جہاں انھیں پہنچنا چاہیے ،یہی وجہ ہے کہ چند فیصد غیر مسلم ووٹوں کے جھکاؤ سے حکومت بدل جاتی ہے، مگر کروڑوں مسلم ووٹ ڈالے جانے کے باوجود نتیجہ وہی" ڈھاک کے تین پات" رہتا ہے۔
(1) اب ہم پچھلے چند لوک سبھا انتخابات میں ووٹ فیصد کا تقابلی خلاصا پیش کرتے ہیں تاکہ ہمارے پیارے بھائیوں کو بات اچھے سے سمجھ آ جائے ۔
کانگریس کو 2004 میں 26 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے، جو 2009 میں دو فیصد مزید اضافے کے ساتھ 28 فیصد سے کچھ زیادہ تھے۔
2014 میں بی جے پی کو قریب 32 فیصد ووٹ ملے، کل 282 نشستیں حاصل کیں اور بی جے پی نے اکیلے اپنے دم پر وزیراعظم بنا دیا۔ ایسا 1984 کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ۔
بی جے پی کو 2019 میں 37 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔ یعنی قریب 5 فیصد ووٹ کا اضافہ ہوا ۔
کانگریس جب حکومت میں تھی تو اوسطاً 25 سے 30 فیصد ووٹ لے کر اکثریت حاصل کرتی رہی۔
یعنی حکومت بنانے میں انڈیا الائنس اور این ڈی اے الائنس میں فرق صرف 3 سے 6 فیصد ووٹ ہی رہا ہے ۔ 14 میں یہ فرق تین فیصد ، 19 میں پانچ فیصد اور 24 میں 2.7 فیصد ۔
اب انڈیا الائنس اور این ڈی اے کے مجموعی ووٹ فیصد کے فرق کو بھی دیکھتے چلیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق این ڈی اے (NDA): 43.7٪ ووٹ ۔ بی جے پی اکیلی: 36.6٪ ۔
انڈیا الائنس (INDIA Alliance): 41.0٪ ووٹ ۔کانگریس اکیلی: 21.2٪ ۔
 این ڈی اے اور انڈیا الائنس میں ووٹ فیصد کا فرق صرف 2.7 فیصد یعنی پونے تین پرسینٹ رہا۔
 یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان ووٹ تو ہمیشہ کانگریس الائنس کو ہی جاتا رہا ہے، پھر ایسا کیا ہوا کہ انڈیا الائنس حکومت بنانے میں لگاتار ناکام رہی! تو وجہ صاف ہے کہ وہ غیر مسلم ووٹ جو انڈیا الائنس کو جاتا تھا وہ این ڈی اے الائنس کو ٹرانسفر ہو گیا اور حکومت بی جے پی کی بن گئ ۔ اب ذرا ہمارے دانشور یہ بتائیں کہ مسلم ووٹ کہاں فیکٹر رہا ؟
یہ تمام اعداد و شمار اس بات کے شواہد ہیں کہ: “ہندوستان میں حکومت بنانے یا گرانے کا اصل کردار غیر مسلم ووٹ ادا کرتا ہے، مسلم ووٹ نہیں۔” مسلمانوں کا ووٹ آبادی کے لحاظ سے اہم ضرور ہے، لیکن جب تک وہ سیاسی اتحاد اور ایک قیادتی سمت میں استعمال نہیں ہوگا وہ صرف دوسروں کے لیے ہی اقتدار کا زینہ بنا رہے گا۔
لہٰذا "مسلم ووٹ کی اہمیت" دراصل ایک سیاسی فریب ہے
اقتدار کی چابی ان چند فیصد غیر مسلم ووٹوں کے ہاتھ اور اتحاد میں ہے، نہ کہ بکھرے ہوئے مسلم ووٹ کے جذباتی نعروں میں۔ 
یہی وجہ ہے کہ انڈیا الائنس مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کیے رہتا ہے ، کیوں کہ پارٹیاں جذبات سے نہیں فیکٹ پر کام کرتی اور زندہ رہتی ہیں ۔ انڈیا الائنس کی زبان پر مسلمان لفظ اگر کبھی کبھار آتا ہے تو وہ صرف فریب کو خوبصورت چادر چڑھائے رکھنے کے لیے ہی آتا ہے ، تبھی تو انڈیا الائنس کی "محبت کی دوکان" کا دروازہ ہمیشہ بائیں طرف ہی کھلتا ہے ۔
رہی بات اویسی کے ووٹ کانٹے کی تو الیکشن کمیشن کے مطابق پچھلے دو اسمبلی انتخابات میں علی الترتیب 0.24 اور 0.49 فیصد ووٹ ملے ۔ یعنی آدھا فیصد سے بھی کم ۔ اب اویسی فیکٹر کہاں رہا ؟ مسلمانوں نے تو پوری طرح نکار دیا ۔ ع
اور پھر قتل کا الزام اُنھیں پر رکھ دو ۔
اگر ہم مجلس کو مخصوص نشستوں پر سپورٹ کریں تو ممکن ہے کہ قیادت بھی کھڑی ہو جائے اور سیکولر ازم بھی بچا رہے ، لیکِن صرف سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے کر ہم اپنا نقصان تو کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی اپنے اُوپر ظلم کے راستے بھی کھول رہے ہیں ۔ جب ہمارے ووٹ سے کچھ نہیں ہوتا تو پھر سیکولر ازم کا جنازہ کب تک ڈھوئیں اور کیوں ؟
پیارے! اگر بات سمجھ آگئی ہو تو ٹھیک ورنہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے ۔ آپ کو بھی ہم سے حق اختلاف ہے۔یہی انصاف ہے ،رہی لاف و گزاف تو وہ فقیر کی جانب سے معاف ہے ۔ فیصلہ بہر حال آپ کے ہاتھ ہے ۔ علما جب تک انڈین عوام میں سیاسی شعور بیدار نہ کریں تب تک یہی حالت اضطراب ہے ۔ اصل میں قیادت کی طرف آنا بھارتی مسلمانوں کے لیے وقت کی ضرورت اور رہ نجات ہے ۔
31/10/2025
8/5/1447

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area