(سوال نمبر 5029)
ایک لاکھ 20 ہزار بزنس کے لیے دیا پھر دس کنٹل ہر 1000 لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک لاکھ 20 ہزار بزنس کے لیے دیا پھر دس کنٹل ہر 1000 لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ اگر آپ ایک لاکھ بیس ہزار روپے روزگار کے لئے دے تو میں آپ کو ایک کلوگرام پر ایک روپیہ کا نفا دونگا اور ایک کنٹل پر سو روپیہ اور دس کنٹل پر ایک ہزار نفا دونگا تو کیا اس طرح نفا لینا درست ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ۔
سائل:- محمد خورشید رضا قادری بہرایچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
مذکورہ صورت میں منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے یہ سود ہے
کچھ قیود و شروط کے ساتھ جائز ہے۔
اگر آپ نے انویسٹمنٹ نفع نقصان کی شراکت کے ساتھ اس طرح کریں کہ جتنا نفع ہو گا اس میں سے اتنے فیصد آپ لیں گے اگر نقصان ہوا تو وہ بھی اتنے فیصد آپ برداشت کریں گے پھر انویسٹ کرنا درست ہے۔ لیکن اگر فکس ہے کہ
ایک لاک بیس ہزار دیا اب دس کنٹل پر 1000 دوں گا تو اسی کو ہی سود کہتے ہیں جو جائز نہیں ہے۔مثلا آپ نے ایک لاکھ کی انویسٹمنٹ اور طے کیا کہ 25 فیصد منافع میں سے ہر ماہ آپ لیں گے اور اگر نقصان ہوا تو اس میں بھی 25 فیصد آپ برداشت کریں گے اور اصل رقم آپ کی باقی رہے گی یہ درست ہے اس کے برعکس اگر آپ طے کریں کہ ایک لاکھ کا بیس ہزار ماہانہ آپ کو ملتا رہے یہ جائز نہیں ہے۔
مثلا اگر دو لاکھ روپے آپ نے دئیے ہیں وہ اس پر بطورِ قرض برقرار رہیں گے اور اس پر یہ نفع آپ کو ملتا رہے گا اور جب رقم لینا ہو تو مکمل رقم واپس مل جائے گی تو یہ سود کی صورت بنے گی۔ اگرچہ یہ رقم انویسٹمنٹ کے نام پر دی جائے اگرچہ فکس نفع سے بچنے کے لئے ماہانہ نفع کبھی کبھی کم زیادہ کر لیا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
مذکورہ صورت میں منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے یہ سود ہے
کچھ قیود و شروط کے ساتھ جائز ہے۔
اگر آپ نے انویسٹمنٹ نفع نقصان کی شراکت کے ساتھ اس طرح کریں کہ جتنا نفع ہو گا اس میں سے اتنے فیصد آپ لیں گے اگر نقصان ہوا تو وہ بھی اتنے فیصد آپ برداشت کریں گے پھر انویسٹ کرنا درست ہے۔ لیکن اگر فکس ہے کہ
ایک لاک بیس ہزار دیا اب دس کنٹل پر 1000 دوں گا تو اسی کو ہی سود کہتے ہیں جو جائز نہیں ہے۔مثلا آپ نے ایک لاکھ کی انویسٹمنٹ اور طے کیا کہ 25 فیصد منافع میں سے ہر ماہ آپ لیں گے اور اگر نقصان ہوا تو اس میں بھی 25 فیصد آپ برداشت کریں گے اور اصل رقم آپ کی باقی رہے گی یہ درست ہے اس کے برعکس اگر آپ طے کریں کہ ایک لاکھ کا بیس ہزار ماہانہ آپ کو ملتا رہے یہ جائز نہیں ہے۔
مثلا اگر دو لاکھ روپے آپ نے دئیے ہیں وہ اس پر بطورِ قرض برقرار رہیں گے اور اس پر یہ نفع آپ کو ملتا رہے گا اور جب رقم لینا ہو تو مکمل رقم واپس مل جائے گی تو یہ سود کی صورت بنے گی۔ اگرچہ یہ رقم انویسٹمنٹ کے نام پر دی جائے اگرچہ فکس نفع سے بچنے کے لئے ماہانہ نفع کبھی کبھی کم زیادہ کر لیا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
العبرة في العقود للمعاني لا للألفاظ
عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے الفاظ کا نہیں۔
عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے الفاظ کا نہیں۔
(فتاویٰ عالمگیری،5 / 2)
کاروبار کیلئے انویسٹمنٹ ہو تو شراکت کے بنیادی اصولوں کے تحت رقم لے کر لگائی جاتی ہے فریقین اپنے اپنے راس المال کا تعین کرتے ہیں کام شروع ہونے پر حساب کتاب رکھتے ہیں نفع و نقصان کے تحت شراکت چلتی ہے نقصان ہو تو شریک نقصان میں حصہ دار ہوتا ہے مزید بھی کئی شرائط ہیں جو پوری کی جاتی ہیں لیکن جب ان چیزوں سے غرض نہیں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ یہ شراکت اور کاروباری معاہدہ نہیں بلکہ قرض لے کر نفع دینے کا معاہدہ ہے اور ناجائز ہے۔
فتح القدیر میں ہے
فعساہ لا یخرج الا قدرالمسمی فیکون اشتراط جمیع الربح لاحدھما علی ذلک التقدیر اشتراطہ لاحدھما یخرج العقد من الشرکۃ الی قرض او بضاعۃ “ ہوسکتا ہے کہ جتنا نفع ایک کے لئے مقرر کیا ہے ٹوٹل نفع اتنا ہی ہو ، اس صورت میں یہ سارا نفع ایک شریک کے لئے مقرر کرنا ہوگا اور یہ عقد شرکت سے نکل کر قرض یا بضاعت میں چلا جائے گا۔ (فتح القدیر ، 5 / 402)
جائز صورت میرا پیسہ اور آپ کی محنت ہوگی اور نفع ہوا تو ہر ایک اتنے اتنے فیصد نفع کا مالک ہوگا ، فریقین باہمی رضامندی سے نفع میں جو چاہیں فیصد اپنے لئے مقرر کر لیں کوئی قید نہیں۔ ایک کی محنت اور دوسرے کے پیسے پر ہونے والا کام مُضاربت کہلاتا ہےجس کے پیسے ہیں اس کو رب المال اور جس نے صرف کام کرنا ہے اسے مضارب کہتے ہیں۔ لہٰذا جب یہ عقد مضاربت کا ہو تویہاں مضاربت کے اصول فالو کرنا ہوں گے۔ ایک آئٹم میں کیسے کام ہو سکتا ہے اس کی مثال یوں بنے گی کہ مثلاً آپ اس کو رقم دے دیں اور کہیں کہ اس رقم سے آٹے کا کام کرواس کا الگ سے حساب کتاب رکھو اتنے اخراجات ہوئے اور اتنا نفع ہوا وغیر ذٰلک۔واضح رہے کہ اگر اس میں نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان اولاً تو نفع سے پورا ہوگا اور اگر نفع سے بھی پورا نہ ہو تو پھر وہ نقصان آپ (رب المال) کو برداشت کرنا ہوگا۔
بہار میں ہے
مالِ مضاربت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا ، راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا۔ مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس روپے کا نفع ہوا اور دس روپے ضائع ہوگئے تویہ نفع میں منہا کئے جائیں گے یعنی اب دس ہی روپے نفع کے باقی ہیں ، اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اس کو پورا نہیں کرسکتا مثلاً بیس روپے نفع کے ہیں اور پچاس کا نقصان ہوا تو نقصان راس المال میں ہوگا۔ مضارب سے کل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگرچہ وہ نقصان مضارب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اس نے نقصان پہنچایا مثلاً شیشہ کی چیز قصداً پٹک دی اس صورت میں تاوان دینا ہوگا کہ اس کی اسے اجازت نہ تھی۔
کاروبار کیلئے انویسٹمنٹ ہو تو شراکت کے بنیادی اصولوں کے تحت رقم لے کر لگائی جاتی ہے فریقین اپنے اپنے راس المال کا تعین کرتے ہیں کام شروع ہونے پر حساب کتاب رکھتے ہیں نفع و نقصان کے تحت شراکت چلتی ہے نقصان ہو تو شریک نقصان میں حصہ دار ہوتا ہے مزید بھی کئی شرائط ہیں جو پوری کی جاتی ہیں لیکن جب ان چیزوں سے غرض نہیں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ یہ شراکت اور کاروباری معاہدہ نہیں بلکہ قرض لے کر نفع دینے کا معاہدہ ہے اور ناجائز ہے۔
فتح القدیر میں ہے
فعساہ لا یخرج الا قدرالمسمی فیکون اشتراط جمیع الربح لاحدھما علی ذلک التقدیر اشتراطہ لاحدھما یخرج العقد من الشرکۃ الی قرض او بضاعۃ “ ہوسکتا ہے کہ جتنا نفع ایک کے لئے مقرر کیا ہے ٹوٹل نفع اتنا ہی ہو ، اس صورت میں یہ سارا نفع ایک شریک کے لئے مقرر کرنا ہوگا اور یہ عقد شرکت سے نکل کر قرض یا بضاعت میں چلا جائے گا۔ (فتح القدیر ، 5 / 402)
جائز صورت میرا پیسہ اور آپ کی محنت ہوگی اور نفع ہوا تو ہر ایک اتنے اتنے فیصد نفع کا مالک ہوگا ، فریقین باہمی رضامندی سے نفع میں جو چاہیں فیصد اپنے لئے مقرر کر لیں کوئی قید نہیں۔ ایک کی محنت اور دوسرے کے پیسے پر ہونے والا کام مُضاربت کہلاتا ہےجس کے پیسے ہیں اس کو رب المال اور جس نے صرف کام کرنا ہے اسے مضارب کہتے ہیں۔ لہٰذا جب یہ عقد مضاربت کا ہو تویہاں مضاربت کے اصول فالو کرنا ہوں گے۔ ایک آئٹم میں کیسے کام ہو سکتا ہے اس کی مثال یوں بنے گی کہ مثلاً آپ اس کو رقم دے دیں اور کہیں کہ اس رقم سے آٹے کا کام کرواس کا الگ سے حساب کتاب رکھو اتنے اخراجات ہوئے اور اتنا نفع ہوا وغیر ذٰلک۔واضح رہے کہ اگر اس میں نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان اولاً تو نفع سے پورا ہوگا اور اگر نفع سے بھی پورا نہ ہو تو پھر وہ نقصان آپ (رب المال) کو برداشت کرنا ہوگا۔
بہار میں ہے
مالِ مضاربت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا ، راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا۔ مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس روپے کا نفع ہوا اور دس روپے ضائع ہوگئے تویہ نفع میں منہا کئے جائیں گے یعنی اب دس ہی روپے نفع کے باقی ہیں ، اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اس کو پورا نہیں کرسکتا مثلاً بیس روپے نفع کے ہیں اور پچاس کا نقصان ہوا تو نقصان راس المال میں ہوگا۔ مضارب سے کل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگرچہ وہ نقصان مضارب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اس نے نقصان پہنچایا مثلاً شیشہ کی چیز قصداً پٹک دی اس صورت میں تاوان دینا ہوگا کہ اس کی اسے اجازت نہ تھی۔
(بہارِ شریعت ، 3 / 19)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/07/2023
23/07/2023