Type Here to Get Search Results !

کیا وضو میں تنگ انگوٹھی اتارنا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 4942)
کیا جنبی یا حائضہ عورت چوٹی کھول کر غسل کرے گی؟
کیا وضو میں تنگ انگوٹھی اتارنا ضروری ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ الله وبركاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کیا جنبی یا حائضہ عورت غسل میں سر کے بالوں کی چوٹی کھول کر غسل کرے گی ؟ اگرنہ چوٹی نہ کھولے تو غسل ہوگا یا نہیں؟ اور کیا تنگ انگوٹھی کو وضو میں اتارنا ضروری ہے؟
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ 
سائلہ:-  بلقیس فاطمہ شہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ جنبی اور حائضہ عورت کے بالوں میں چوٹی اس طرح ہو کہ غسل میں پانی بالوں کی جڑ میں پہچ جائے تو گندھی ہوئی چوٹی کو کھولنا ضروری نہیں ہے۔ناک میں پانی کلی اور پورے جسم پر پانی بہ جائے اسی طرح بالوں کی جڑوں میں پانی پہچ جائے غسل ہوگیا اور اگر بالوں کی جڑ میں پانی بہ پہنچے تو چوٹی کھول کر بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچانا ضروری ہے اس کے بغیر غسل نہیں ہوگا کیونکہ پورے جسم پر پانی بہانہ فرائض غسل سے ہے بالوں کی جڑ سمیت بس بالوں کے اوپری حصہ معاف یے پر جڑوں تک پانی پہنچنا لازم ہے ۔
٢/ جو انگوٹھی پہننا جائز ہے خواہ تنگ ہو یا کشادہ ہو وضو میں اتارنا ضروری نہیں ،
اور جو انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے جیسے مرد کے لیے لوہے یا سونے کی انگوٹھی تو اگر تنگ ہے پھر اتارنا واجب ہے اور اگر کشادہ ہے پھر وضو میں حرکت دینا کافی ہے کہ پانی جڑ میں پہنچ جائے ۔
یاد رہے کہ عورت کے لئے سونے کی انگوٹھی، کنگن اور چھلے جنہیں عورت انگوٹھی کی جگہ پہنتی ہے ان سب کو حرکت دینا واجب نہیں کیونکہ عورت کے لیے ان سب کی اجازت ہے اگرجہ تنگ ہو۔ 
فتاوی رضویہ میں ہے 
عورت کو غسل میں گندھی چوٹی کھولنی ضرور نہیں بالوں کی جڑیں بھیگ جانا کافی ہے ہاں چوٹی اتنی سخت گندھی ہو کہ جڑوں تک پانی نہ پہنچے گا تو کھولنا ضرور ہے ۔
حاشیہ سفطی میں ہے
لایجب نزع خاتم الفضۃ الماذون فیہ ولا تحریکہ سواء کان واسعا اوضیقا واما المحرم کخاتم الذھب للرجل والمکروہ کخاتم الحدید والنحاس والرصاص فیجب نزعہ اذاکان ضیقا ویکفی تحریکہ ان کان واسعا علی المعتمد وکذا ماتجعلہ الرماۃ فی ایدیھم من عظم ونحوہ ومحل الکراھۃ فی خاتم الحدید مالم یکن لدواء ویدخل فی المأذون فیہ خاتم الذھب بالنسبۃ للمرأۃ والاساور والحدائد التی تلبسھا المرأۃ بمنزلۃ الخاتم علی المعتمد فلا یجب تحریکھا لانھا ماذون لھا فی ذلک کلہ کمافی حاشیۃ الخرشی واعتمدہ شیخنا فی تقریر الخرشی خلافالما فی شرح الاصیلی وزنۃ الخاتم الذی یجوز لبسہ للرجال من الفضۃ درھمان بالدرھم الشرعی۔
 
جس انگوٹھی کے پہننے کی اجازت ہے اسے اتارنایاحرکت دینا واجب نہیں خواہ کشادہ ہو یا تنگ اور جو حرام ہے جیسے مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی ، اور جو مکروہ ہے جیسے لوہے ، تا نبے ، رانگ کی انگوٹھی اسے اتارنا واجب ہے جب کہ تنگ ہو اور کشادہ ہو تو قول معتمد پر اسے حرکت دینا کافی ہے ۔
اسی طر ح تیرا انداز اپنے ہاتھوں میں جوہڈی وغیرہ لگا رکھتے ہیں اس کا بھی یہی حکم ہے ، اور لوہے کی انگوٹھی میں کراہت اس وقت ہے جب علاج کے لئے نہ ہو ، اور اجازت یافتہ ہی میں عورت کے لئے سونے کی انگوٹھی داخل ہے اور وہ کنگن اور چھلے بھی جنہیں عورت انگوٹھی کی جگہ پہنتی ہے یہی قول معتمد ہے تو ان سب کو حرکت دینا واجب نہیں کیونکہ عورت کے لیے ان سب کی اجازت ہے جیسا کہ حاشیہ خرشی میں ہے اور اسی پر ہمارے شیخ نے تقریر خرشی میں اعتماد کیا ہے اس کے بر خلاف جو شر ح اصیلی میں ہے اور مرد کے لئے چاندی کی جس انگوٹھی کا پہننا جائز ہے اس کا وزن دودرم شرعی ہے اھ۔
(حاشیہ سفطی علی مقدمہ عشما یہ)
(فتاویٰ رضویہ ج 1 ص 43 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
10/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area