(سوال نمبر 4906)
سود پر پیسہ دے کر پھر سود لے کر غربا میں پیسہ تقسیم کرنا اس طرح سود لینا دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میں سود پر پیسہ دیتا ہوں اور سود کھانا کھلانا لینا دینا وغیرہ یہ سب حرام ہے۔لیکن میں سود اس لیئے لیتا ہوں کہ تاکہ پیسہ لینے والا جلد سے جلد مجھے پیسہ دے سکے
اب جو میرے پاس بسود کے پیسے آئے ان پیسوں کا میں کیا کروں؟ وہ پیسے حلال میں تبدیلی کیسے ہوگا؟ یہ سب پیسے غریب غربہ یا مدرسہ وغیرہ کا حق ہوگا یا پھر اس سے کچھ مجھے بھی ملے گا ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد شباب عالم اتر پردیش یوپی الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ سود لینا دینا مطلق حرام ہے اور یہ نص قطعی سے ثابت ہے
مذکورہ صورت میں اپ ایسا نہیں کر سکتے سارے سود کے پیسے جس جس سے لئے ہیں اسے واپس کریں۔
٢/ تاکہ وہ قرض واپس کرے اس لئے لئے لیتے ہیں اس کی گنجائش ہے پر جب وہ قرض واپسی کرے تو سارے سودی پیسہ اسے واپس کرنا اپ پر فرض ہے ۔ورنہ سود لینے کا عتاب اپ پر ۔
٣/ اپ تمام پیسے سود دینے والے کو واپس کرے اگر وہ شخص نہ ملے پھر بدون اجر و ثواب فقراء و مساکین کو دے دیں۔ مسجد و مدرسہ میں نہیں دے سکتے اور نہ خود صرف کر سکتے ہیں۔
٤/ سود کا پسینہ حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے
البتہ اپ قرض دیتے وقت زیادہ لینے ہعنی سود لینے کی کوئی شرط نگائے پھر اگر وہ قرض واپس کرتے وقت اپنی مرضی سے کچھ دیدے تو یہ ہدیہ ہے پس اپ مانگ نہیں سکتے سوائے اپنے پیسے کے ۔
قال ابن عابدین نقلاً عن النہایة ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار: ۹/۴۷۰، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فيالبیع، ط، دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
سود پر پیسہ دے کر پھر سود لے کر غربا میں پیسہ تقسیم کرنا اس طرح سود لینا دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میں سود پر پیسہ دیتا ہوں اور سود کھانا کھلانا لینا دینا وغیرہ یہ سب حرام ہے۔لیکن میں سود اس لیئے لیتا ہوں کہ تاکہ پیسہ لینے والا جلد سے جلد مجھے پیسہ دے سکے
اب جو میرے پاس بسود کے پیسے آئے ان پیسوں کا میں کیا کروں؟ وہ پیسے حلال میں تبدیلی کیسے ہوگا؟ یہ سب پیسے غریب غربہ یا مدرسہ وغیرہ کا حق ہوگا یا پھر اس سے کچھ مجھے بھی ملے گا ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد شباب عالم اتر پردیش یوپی الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ سود لینا دینا مطلق حرام ہے اور یہ نص قطعی سے ثابت ہے
مذکورہ صورت میں اپ ایسا نہیں کر سکتے سارے سود کے پیسے جس جس سے لئے ہیں اسے واپس کریں۔
٢/ تاکہ وہ قرض واپس کرے اس لئے لئے لیتے ہیں اس کی گنجائش ہے پر جب وہ قرض واپسی کرے تو سارے سودی پیسہ اسے واپس کرنا اپ پر فرض ہے ۔ورنہ سود لینے کا عتاب اپ پر ۔
٣/ اپ تمام پیسے سود دینے والے کو واپس کرے اگر وہ شخص نہ ملے پھر بدون اجر و ثواب فقراء و مساکین کو دے دیں۔ مسجد و مدرسہ میں نہیں دے سکتے اور نہ خود صرف کر سکتے ہیں۔
٤/ سود کا پسینہ حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے
البتہ اپ قرض دیتے وقت زیادہ لینے ہعنی سود لینے کی کوئی شرط نگائے پھر اگر وہ قرض واپس کرتے وقت اپنی مرضی سے کچھ دیدے تو یہ ہدیہ ہے پس اپ مانگ نہیں سکتے سوائے اپنے پیسے کے ۔
قال ابن عابدین نقلاً عن النہایة ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار: ۹/۴۷۰، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فيالبیع، ط، دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/11/2023
07/11/2023