شیطانی فریب سے بچنے کا راز قسط : نہم
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم : شیرمہاراشٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا : محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
ازقلم : شیرمہاراشٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا : محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
_________(❤️)_________
ایک مرتبہ ایک اﷲ کے مقبول بندہ نے شیطان کو دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اے ابلیس! کیا کبھی تونے مجھ پر بھی اپنا داؤ چلایا ہے؟ شیطان نے کہا کہ ہاں! ایک مرتبہ آپ نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اور آپ پر اس روز نیند کا کچھ ایسا غلبہ ہوا کہ آپ رات کا وظیفہ پڑھے بغیر سوگئے۔ وہ بزرگ فرمانے لگے کہ خدا کی قسم آئندہ میں کبھی سیر شکم ہوکر کھانا نہ کھاؤں گا ۔ شیطان بولا افسوس ! میں نے اپنا راز بتا دیا مجھے بھی خدا کی قسم ہے آئندہ میں بھی کبھی آپ جیسے بزرگ کو نصیحت نہ کروں گا ۔
(روض الریاحین)
ابلیس کا ایک غار میں زارو قطار رونا
حضرت ذوالنون مصری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے دوران سفر ایک غار میں ابلیس کو روتے پایا جب کہ غار کے چشمے سے پانی ابل رہا تھا اس کا رنگ بدلا ہوا تھامیں نے ابلیس سے رونے کا سبب پوچھا تو وہ بولا میرے علاوہ کسی اور کو بھی رونے کا حق حاصل ہے؟ کیوں کہ میں تو مقربین الٰہ میں سے تھا اور اب راندۂ بارگاہ ہوں ۔
ایک مرتبہ ایک اﷲ کے مقبول بندہ نے شیطان کو دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اے ابلیس! کیا کبھی تونے مجھ پر بھی اپنا داؤ چلایا ہے؟ شیطان نے کہا کہ ہاں! ایک مرتبہ آپ نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اور آپ پر اس روز نیند کا کچھ ایسا غلبہ ہوا کہ آپ رات کا وظیفہ پڑھے بغیر سوگئے۔ وہ بزرگ فرمانے لگے کہ خدا کی قسم آئندہ میں کبھی سیر شکم ہوکر کھانا نہ کھاؤں گا ۔ شیطان بولا افسوس ! میں نے اپنا راز بتا دیا مجھے بھی خدا کی قسم ہے آئندہ میں بھی کبھی آپ جیسے بزرگ کو نصیحت نہ کروں گا ۔
(روض الریاحین)
ابلیس کا ایک غار میں زارو قطار رونا
حضرت ذوالنون مصری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے دوران سفر ایک غار میں ابلیس کو روتے پایا جب کہ غار کے چشمے سے پانی ابل رہا تھا اس کا رنگ بدلا ہوا تھامیں نے ابلیس سے رونے کا سبب پوچھا تو وہ بولا میرے علاوہ کسی اور کو بھی رونے کا حق حاصل ہے؟ کیوں کہ میں تو مقربین الٰہ میں سے تھا اور اب راندۂ بارگاہ ہوں ۔
میں نے سوال کیا مجھے بتائیے تمہیںﷲ تعالیٰ کے سامنے حکم عدولی کی جرأت کیسے ہوئی؟ بولا میرے حکم چلانے میں عنایات الٰہی شامل حال نہیں تھی پھر اس نے یہ آیت پڑھی { بَدالَھُمَ مِن مَّالَمْ یَکُوْنُوْایَحْتَسِبُونَ }ان کے لئے ظاہر ہوا جس کا وہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے اور ابلیس یہ اشعار پڑھنے لگا محض ترجمہ نقل ہے اصل اشعار نزہتہ المجالس جلد دوم صفحہ ۱۷۳؍پر دیکھئے۔
ترجمہ: میرا دل جگر زخمی ہے پھر ایسے زخمی دل کون فروخت کرتا ہے؟ اور ایسا جگر نہیں جو مجروح نہ ہو لوگوں نے اس کے خریدنے سے انکار کردیا کیوں کہ صحیح اور عمدہ کے بدلے بیمار کو کون خریدتا ہے؟
ایک مرتبہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کسی وادی میں شیطان کو زارو قطار روتے دیکھا۔ آپ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگا جس نے عرصہ دراز تک رب العالمین کی عبادت کی ہو پھر وہ اکارت جائے تو وہ کیوں نہ روئے؟ آپ نے فرمایا پھر تو مخلوق خدا کو بہکانے سے باز آ! وہ کہنے لگا یا نبی ﷲ! آپ یہ بتائیے میں تو مخلوق خدا کو گمراہ کرتا ہوں مجھے کس نے گمراہ کیا؟ آپ نے فرمایا پھر تو اپنے رب کی طرف رجوع کر۔ وہ بولا بہت اچھا ذرا اپنے رب کے حضور میری سفارش تو فرما دیجئے۔
چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے عبادت خانہ میں نہایت گریہ وزاری کرتے ہوئےﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے الہٰی! مجھے اس مردود کی تمام کار روائی کا علم ہے اب وہ نادم ہوکر تیرے دروازے پر حاضر ہے کیا اس کے لئے معافی کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئےﷲ تعالیٰ کا سلام پہنچایا اور کہاﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے آپ اپنے کام سے کام رکھئے بصورت دیگر تیرے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اور معاملہ بگڑ سکتا ہے۔چنانچہ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ آپ نے پھر اسے روتے دیکھا دریافت کرنے پر کہنے لگا ایک لاکھ برس اس کے در پر کھڑا رہا مگر جواب ملا تیرے لئے معافی کی کوئی صورت نہیں۔تو توفیق ایزدی سے محروم ہو چکا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام عرض گزار ہوئے الہٰی! کیا سبب ہے اس کی درخواست کو تونے قبول کیوں نہ فرمایا؟حضرت جبرئیل حاضر ہوئے اور کہا اس کا رونا منافقانہ ہے ، اسے آپ حضرت آدم علیہ السلام کی قبر پر سجدہ کا حکم دیں۔ آپ نے ابلیس سے فرمایا اگر معافی کا خواستگار ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کی قبر پر سجدہ کرلو وہ استہزاََ ہنسا اور کہنے لگا میں نے ان کی زندگی میں سجدہ تو کیا نہیں اب کیسے کرسکتاہوں؟
(نزہتہ المجالس)
ابلیس کے وہ چار کفر جس کے سبب وہ ذلیل و رسوا ہوا
نزہتہ المجالس کے صفحہ۱۷۴؍ پر ہے کہ ابلیس نے چار کفر ایسے کئے جو باعث ذلت ورسوائی بنیں
(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نےﷲ تعالی کی طرف ظلم کی نسبت کی چنانچہ کہا میں انسان سے اعلیٰ ہوں تونے مجھے آگ سے بنایا اور اسے خاک سے
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ اس نےﷲ تعالی کے نبی کی توہین کی اور جو نبی کی توہین وتحقیر کامرتکب ہوتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے۔
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ اس نے اجماع (ملائکہ) کی مخالفت کی اور جو اجماع امت کی مخالفت کرتا ہے وہ بھی کافر ہوجاتا ہے۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس پر اڑا رہا۔ کیوں کہ اسے تو بالصراحت سجدے کا حکم فرمایا جارہا ہے مگر وہ اپنے غلط قیاس میں پھنسارہا اور کفر پر ہٹ دھرمی دکھائی لہذا نص کے مقابل قیاس پر عمل کفر ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالی عنھما فرماتے ہیں سب سے پہلے محض قیاس پر عمل کرنے والا ابلیس ہے کیوں کہ اسی نے کہا آگ خاک سے بہتر ہے حالانکہ آگ کے مقابل خاک چار اعتبار سے افضل ہے اس لئے کہ خاک کے جواہر ہیں۔متانت، تحمل و وقار، حلم، حیا، تواضع ہے اور یہی اوصاف حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ کا باعث بنے اور آگ میں تیزی ،سبکی، بلندی اور اضطراب ایسے جوہرہیں اور یہی ابلیس کے ترک سجدہ کے سبب بنے نیز تکبر اور توبہ سے انکار کا ذریعہ ٹھہرے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جنت کی مٹی خوشبودار ہوگی اور وہاں آگ کا گزر تک نہ ہوگا۔ اور یہ بھی ہے کہ آگ عذاب کا سبب ہے جب کہ مٹی باعث عذاب نہیں۔ نیز خاک آگ سے بے نیاز ہے مگر آگ تو کسی نہ کسی جگہ کی محتاج ہوگی لہذا خاک برتر ہے ۔ آگ خاک کی محتاج ہے۔
امام قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آگ پر خاک کی فضیلت یوں بھی نمایاں ہے کہ خاک سے ساجد بنے ہیں اور طہارت کا سبب ہے جب کہ آگ میں خوف و عذاب ہے۔
حضرت آدم و حوا علیھما السلام ، سانپ ، مور اور ابلیس کے آنسو
بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو خشکی میں لونگ اور تری میں لؤلو مرجان بن گئے کیوں کہ آپ صحرا میں اور دریا میں روتے رہے اس لئے کہ آپ باب التوبہ سے اترے تھے۔
حضرت حوا علیھا السلام باب الرحمہ سے زمین پر اتری تھیں اس لئے ان کے آنسو خشکی پر مہدی اور تری میں موتی بن گئے۔ سانپ خشکی اور تری میں رویا اس لئے خشکی پر اس کے آنسو اور تری میں کیکڑا یا مگر مچھ بنے اس لئے کہ وہ باب الغضب سے اترا تھا۔ مور خشکی اور تری میں رویا تو اس کے آنسو خشکی میں کھٹمل اور تری میں جونکیں بن گئے اور وہ بھی باب الغضب سے ہی اترا۔
ابلیس خشکی اور تری میں رویا اس لئے اس کے آنسو خشکی میں کانٹے اور تری میں گھڑیال بن گئے کیوں کہ وہ بھی باب الغضب سے ہی اترا تھا۔
(نزہتہ المجالس )
حکایت
حضرت محمد بن واسع رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں میں ہر صبح و شام اس دعا کو پڑھا کرتا تھا کہ ابلیس مجھے خواب میں دکھائی دیا اور کہنے لگا یہ دعا کسی کو نہ سکھانا میں نے جواباََ کہا میں اس دعا کو کسی مسلمان سے پوشیدہ نہیں رکھوں گا دعا یہ ہے:
{اَللّھُمَّ انک سلطت علینا عدوا بصیراََ بعیوبنا مطلقًا علی اعوذ اتنا یرنا ھو و قبیلہ من حیت لا یراھم فالسہ منا کما استہ من رحمتک وقنطۃ منا کما قنطتہ مناعفو ک وباعد بیننا و بینہٗ کما باعدت بینہ وبین جنتک۔}
ترجمہ: یاالہی! ہم پر ایسا دشمن مسلط ہے جو ہمارے عیوب و نقائص دیکھتا ہے ہماری غلطیوں پر آگاہ ہے۔اور اس کی ذرّیت دیکھتی ہے جہاں ہم نہیں دیکھ پاتے پس اسے ہم سے مایوس کردے جیسے تونے اسے اپنی رحمت سے مایوس کر رکھا ہے اور ہم سے اس کی امید منقطع فرما جیسے تیری ذات سے توڑ چکا ہے ہمارے اور اس شیطان لعین کے درمیان ایسا فاصلہ کردے جیسے اس کے اور تیری جنت کے درمیان فاصلہ ہے۔
ترجمہ: میرا دل جگر زخمی ہے پھر ایسے زخمی دل کون فروخت کرتا ہے؟ اور ایسا جگر نہیں جو مجروح نہ ہو لوگوں نے اس کے خریدنے سے انکار کردیا کیوں کہ صحیح اور عمدہ کے بدلے بیمار کو کون خریدتا ہے؟
ایک مرتبہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کسی وادی میں شیطان کو زارو قطار روتے دیکھا۔ آپ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگا جس نے عرصہ دراز تک رب العالمین کی عبادت کی ہو پھر وہ اکارت جائے تو وہ کیوں نہ روئے؟ آپ نے فرمایا پھر تو مخلوق خدا کو بہکانے سے باز آ! وہ کہنے لگا یا نبی ﷲ! آپ یہ بتائیے میں تو مخلوق خدا کو گمراہ کرتا ہوں مجھے کس نے گمراہ کیا؟ آپ نے فرمایا پھر تو اپنے رب کی طرف رجوع کر۔ وہ بولا بہت اچھا ذرا اپنے رب کے حضور میری سفارش تو فرما دیجئے۔
چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے عبادت خانہ میں نہایت گریہ وزاری کرتے ہوئےﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے الہٰی! مجھے اس مردود کی تمام کار روائی کا علم ہے اب وہ نادم ہوکر تیرے دروازے پر حاضر ہے کیا اس کے لئے معافی کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئےﷲ تعالیٰ کا سلام پہنچایا اور کہاﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے آپ اپنے کام سے کام رکھئے بصورت دیگر تیرے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اور معاملہ بگڑ سکتا ہے۔چنانچہ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ آپ نے پھر اسے روتے دیکھا دریافت کرنے پر کہنے لگا ایک لاکھ برس اس کے در پر کھڑا رہا مگر جواب ملا تیرے لئے معافی کی کوئی صورت نہیں۔تو توفیق ایزدی سے محروم ہو چکا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام عرض گزار ہوئے الہٰی! کیا سبب ہے اس کی درخواست کو تونے قبول کیوں نہ فرمایا؟حضرت جبرئیل حاضر ہوئے اور کہا اس کا رونا منافقانہ ہے ، اسے آپ حضرت آدم علیہ السلام کی قبر پر سجدہ کا حکم دیں۔ آپ نے ابلیس سے فرمایا اگر معافی کا خواستگار ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کی قبر پر سجدہ کرلو وہ استہزاََ ہنسا اور کہنے لگا میں نے ان کی زندگی میں سجدہ تو کیا نہیں اب کیسے کرسکتاہوں؟
(نزہتہ المجالس)
ابلیس کے وہ چار کفر جس کے سبب وہ ذلیل و رسوا ہوا
نزہتہ المجالس کے صفحہ۱۷۴؍ پر ہے کہ ابلیس نے چار کفر ایسے کئے جو باعث ذلت ورسوائی بنیں
(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نےﷲ تعالی کی طرف ظلم کی نسبت کی چنانچہ کہا میں انسان سے اعلیٰ ہوں تونے مجھے آگ سے بنایا اور اسے خاک سے
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ اس نےﷲ تعالی کے نبی کی توہین کی اور جو نبی کی توہین وتحقیر کامرتکب ہوتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے۔
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ اس نے اجماع (ملائکہ) کی مخالفت کی اور جو اجماع امت کی مخالفت کرتا ہے وہ بھی کافر ہوجاتا ہے۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس پر اڑا رہا۔ کیوں کہ اسے تو بالصراحت سجدے کا حکم فرمایا جارہا ہے مگر وہ اپنے غلط قیاس میں پھنسارہا اور کفر پر ہٹ دھرمی دکھائی لہذا نص کے مقابل قیاس پر عمل کفر ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالی عنھما فرماتے ہیں سب سے پہلے محض قیاس پر عمل کرنے والا ابلیس ہے کیوں کہ اسی نے کہا آگ خاک سے بہتر ہے حالانکہ آگ کے مقابل خاک چار اعتبار سے افضل ہے اس لئے کہ خاک کے جواہر ہیں۔متانت، تحمل و وقار، حلم، حیا، تواضع ہے اور یہی اوصاف حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ کا باعث بنے اور آگ میں تیزی ،سبکی، بلندی اور اضطراب ایسے جوہرہیں اور یہی ابلیس کے ترک سجدہ کے سبب بنے نیز تکبر اور توبہ سے انکار کا ذریعہ ٹھہرے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جنت کی مٹی خوشبودار ہوگی اور وہاں آگ کا گزر تک نہ ہوگا۔ اور یہ بھی ہے کہ آگ عذاب کا سبب ہے جب کہ مٹی باعث عذاب نہیں۔ نیز خاک آگ سے بے نیاز ہے مگر آگ تو کسی نہ کسی جگہ کی محتاج ہوگی لہذا خاک برتر ہے ۔ آگ خاک کی محتاج ہے۔
امام قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آگ پر خاک کی فضیلت یوں بھی نمایاں ہے کہ خاک سے ساجد بنے ہیں اور طہارت کا سبب ہے جب کہ آگ میں خوف و عذاب ہے۔
حضرت آدم و حوا علیھما السلام ، سانپ ، مور اور ابلیس کے آنسو
بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو خشکی میں لونگ اور تری میں لؤلو مرجان بن گئے کیوں کہ آپ صحرا میں اور دریا میں روتے رہے اس لئے کہ آپ باب التوبہ سے اترے تھے۔
حضرت حوا علیھا السلام باب الرحمہ سے زمین پر اتری تھیں اس لئے ان کے آنسو خشکی پر مہدی اور تری میں موتی بن گئے۔ سانپ خشکی اور تری میں رویا اس لئے خشکی پر اس کے آنسو اور تری میں کیکڑا یا مگر مچھ بنے اس لئے کہ وہ باب الغضب سے اترا تھا۔ مور خشکی اور تری میں رویا تو اس کے آنسو خشکی میں کھٹمل اور تری میں جونکیں بن گئے اور وہ بھی باب الغضب سے ہی اترا۔
ابلیس خشکی اور تری میں رویا اس لئے اس کے آنسو خشکی میں کانٹے اور تری میں گھڑیال بن گئے کیوں کہ وہ بھی باب الغضب سے ہی اترا تھا۔
(نزہتہ المجالس )
حکایت
حضرت محمد بن واسع رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں میں ہر صبح و شام اس دعا کو پڑھا کرتا تھا کہ ابلیس مجھے خواب میں دکھائی دیا اور کہنے لگا یہ دعا کسی کو نہ سکھانا میں نے جواباََ کہا میں اس دعا کو کسی مسلمان سے پوشیدہ نہیں رکھوں گا دعا یہ ہے:
{اَللّھُمَّ انک سلطت علینا عدوا بصیراََ بعیوبنا مطلقًا علی اعوذ اتنا یرنا ھو و قبیلہ من حیت لا یراھم فالسہ منا کما استہ من رحمتک وقنطۃ منا کما قنطتہ مناعفو ک وباعد بیننا و بینہٗ کما باعدت بینہ وبین جنتک۔}
ترجمہ: یاالہی! ہم پر ایسا دشمن مسلط ہے جو ہمارے عیوب و نقائص دیکھتا ہے ہماری غلطیوں پر آگاہ ہے۔اور اس کی ذرّیت دیکھتی ہے جہاں ہم نہیں دیکھ پاتے پس اسے ہم سے مایوس کردے جیسے تونے اسے اپنی رحمت سے مایوس کر رکھا ہے اور ہم سے اس کی امید منقطع فرما جیسے تیری ذات سے توڑ چکا ہے ہمارے اور اس شیطان لعین کے درمیان ایسا فاصلہ کردے جیسے اس کے اور تیری جنت کے درمیان فاصلہ ہے۔
(نرہتہ المجالس)
( جاری ہے )
( جاری ہے )
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ترسیل دعوت: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی
ترسیل دعوت: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی