Type Here to Get Search Results !

علم انسانی فلاح و بہبود کا ضامن


علم انسانی فلاح و بہبود کا ضامن
••────────••⊰❤️⊱••───────••
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے 
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات 
علم اس کِرمَکِ شَب تاب (جگنو) کی مانند ہے،کہ اگر ہمسفر ہے تو تاریک سے تاریک رات میں بھی بغیر مشعلِ راہ کے اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ممکن ہے۔اور اگر خدا نخواستہ کوئی بندۂ خدا اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہے، تو آنکھیں ہونے کے باجود بھی وہ اس دیدۂ کور کی طرح ہے جس کے لیے سورج کے شعائیں بھی بےسود ہوتی ہیں۔
چودہ سو سال کی ضرب المثل تاریخ آج بھی لوگوں کی ذہن سازی کر رہی ہے،کہ علم انسان کی شخصیت کو اپنے ہم عصر میں ممتاز کرتی ہے۔علم کی بنیاد پر ہی معاشرے تشکیل پاتے ہیں،اقوام عروج و ارتقا کی منازل طے کرتی ہیں۔لیکن افسوس صد افسوس اپنے ان مسلمان بھائیوں پر جو علم جیسی عظیم دولت سے تہی دامن نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اقراْ باسم ربك الذی خلق خلق الانسان من علق۔
(سورۂ علق،آیت۵،پارہ۳۰)
ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ (کنز الایمان)
نوعِ انسانی(امت مسلمہ) کی اس سے بڑھ کر اور کیا معراج ہوگی کہ جب اس کا خالق اس سے ہم کلام ہوتا ہے ،تو سب سے پہلے حصولِ علم کا حکم دیتا ہے۔چونکہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے کہ اگر انسانی فلاح و بہبود کی ضامن کوئی بات ہوگی تو وہ علم ہے-
 حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ اسلم نے ارشاد فرمایا " عنقریب فتنے ہوں گے، صبح انسان مومن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائےگا، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ زندہ رکھا۔
(صحيح مسلم،جلد 7)
اس پر فتن دور میں جہاں قدم قدم پر ایمان فروش لوگ خیمہ زن ہیں۔وہیں فتنہ و فساد کا وہ بازار گرم ہے کہ انسانی زندگی اخروی سعادت سے کوسوں میل دور نظر آتی ہے۔مذکورہ بالا حدیث قدسی کو آپ! سامنے رکھ کر اطراف و اکناف کا جائزہ لیں، تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ واقعی وہ دور آگیا ہے جس دور کی خبر مخبر صادق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل دے دی تھی۔کہ لوگ صبح کو مومن ہوں گے اور شام کو کافر، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی ساتھ زندہ رکھا ہے۔
علم و ہنر سے پاتی ہے انسانیت فروغ
انسان زندہ لاش ہے تعلیم کے بغیر 
کیا آپ اس شخص کو نہیں دیکھتےجو علم سے کورہ ہے۔؟وہ کفریہ عقائد و نظریات پر دھڑلے سے یقین کر لیتا ہے۔جبکہ سچی باتیں اس کے دل پر اثر نہیں کرتیں ۔حد تو یہ ہے کہ لوگ کفریہ کلمات اور گانے اتنے ذوق و شوق کے ساتھ سنتے ہیں جیسے ان کی فلاح و نجات کا سامان اسی میں پوشیدہ ہو۔
مان لیتے ہیں کہ وقتی طور پر وہ کفریہ گانے ان کے اطمینان دل کا سامان فراہم کرتے ہوں گے۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہی کفریہ گانے انھیں جہنم سے قریب کر رہے ہیں۔ہاں اگر انھیں علم ہوتا تو وہ خوب جانتے اور بچتے اور اللہ کی پناہ مانگتے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔
(پ۳۰، سورۂ العلق)
ترجمہ: پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم،جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔
اسی آیت مبارکہ میں دوسری مرتبہ پھر حکم ہوا۔کہ "پڑھو"۔ غور و خوض کا مقام یہ ہے کہ خالق کا مخلوق سے ایک مرتبہ کسی بات کا حکم دے دینا کافی تھا۔لیکن دوسری مرتبہ کیوں حکم دیا؟
 تو بات واضح ہے کہ جب بات میں زور اور تاکید پیدا کرنا مقصود ہوتی ہے،تب ایک بات دوسری مرتبہ کہی جاتی ہے-خالق نے مخلوق کو دوسری مرتبہ حکم دے کر یہ بتا دیا کہ علم سیکھنا کتنا ضروری ہے،اور اسلام میں اس کی کتنی اہمیت ہے-اللہ تعالی آگے ارشاد فرماتا ہے کہ تمہارا رب کریم ہے!یعنی اگر بندہ محنت کرے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے حق میں بہتری فرمائے گا۔
آرام طلب جو ہوتا ہے وہ علم کی دولت کھوتا ہے
جو علم کا طالب ہوتا ہے وہ رات کو دن کر دیتا ہے
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو سب سے پہلے انھیں تمام اشیا کا علم دیا، تاکہ ان کی ذات بابرکت فرشتوں میں ممتاز ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
 و علم ادم الاسمآء كلها ثم عرضهم على الملئكة فقال انبؤنی باسمآء هؤلآء ان كنتم صدقین۔
 (پ۱،سورۂ البقرہ،۳۱)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیا کے) نام سکھائے پھر سب (اشیا) کو ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(ترجمہ کنز الایمان)
فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السلام کے مقابل اپنی کم علمی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے جو اللہ عزوجل کے سامنے عرض کیا اس کو قرآن خود بیان فرماتا ہے: 
قالوا سبحنك لا علم لناۤ الا ما علمتنا انك انت العلیم الحكیم
(پ۱،سورۂ البقرہ،۳۲)
ترجمہ:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔
(کنز الایمان)
پتہ چلا حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر جو فضیلت حاصل ہوئی وہ علم کی بنیاد پر ہے۔یہی علم ہے جس کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السلام کو وہ مقام حاصل ہوا۔جس کو شیطان ایک لمحہ برداشت نہ کر سکا اور خدا کا نافرمان ہوکر راندۂ بارگاہ ہوا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں ارشاد فرمایا:
يا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آية من كتاب الله، خير لك من أن تصلي مائة ركعة، ولأن تغدو فتعلم بابا من العلم، عمل به أو لم يعمل، خير من أن تصلي ألف ركعة۔
(سنن ابن ماجہ،۲۱۹)
ترجمہ :ابوذر! اگر تو صبح کو( علم سیکھنے کے لئے) نکلے اور اللہ کی کتاب کی ایک آیت سیکھ لے، یہ تیرے لئے سو رکعت (نفل) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ اور اگر تو صبح نکل کر علم کا ایک باب سیکھ لے، خواہ اس پر عمل کر سکے یا نہ کر سکے، یہ تیرے لیے ہزار رکعت (نفل) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
یہ حدیث ان جہلا کی خام خیالی کا رد کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں،کہ علم تو سیکھ لیا لیکن جب اس پر عمل نہ کر سکے تو علم سیکھنے سے کیا فائدہ ہوا۔شاید انھیں اس بات کا علم نہیں کہ علم کی روشنی کبھی بھی انسان کو تاریکیوں میں نہیں لے جاتی ہے۔
حدیث پاک پڑھ کر ایک دو سوال ذہن میں قائم ہوتے ہیں کہ سو رکعت نماز نفل پڑھنے پر ایک آیت قرآن کی سیکھ لینے کو ترجیح کیوں دی گئی ہے۔؟پھر فرمایا ہزار رکعت (نفل)نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ تو علم کا ایک باب سیکھ لے! اب جو بات قابلِ توجہ ہے وہ یہ کہ معلم کائنات نے فرمایا: خواہ اس پر عمل کر سکے یا نہ کر سکے۔
آئیے! ان سوالات کے جوابات کے لئے ایک اقتباس میں بغور مطالعہ کرتے ہیں۔
"ایک روز عصر کے بعد شیطان نے اپنا تخت بچھایا اور دیگر شیاطین نے اپنی اپنی کارگزاری کی رپورٹ پیش کرنا شروع کر دی، کسی نے کہا: میں نے اتنی شرابیں پلائیں، کسی نے کہا: میں نے اتنے زنا کرائے، غرض ہر شیطان نے اپنے کرتوت اپنے سردار کو پیش کیے۔ ابلیس سب کی سنتا رہا اور شاباشی دیتا رہا اتنے میں ایک چھوٹا شیطان آیا اور اس نے کہا آج میں نے ایک طالب علم کو پڑھنے سے باز رکھا۔ اس نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے اس چھوٹے شیطان کو شاباشی دی اور کہا " أَنْتَ اَنْتَ " تو نے کام کیا ہے تو نے کام کیا ہے۔ دوسرے شیطان یہ کیفیت دیکھ کر جل گئے کہ انہوں نے اتنے بڑے بڑے کام کیے انھیں اس طرح نہ سراہا گیا جتنا اس معمولی کام کرنے سے خوش ہوا ہے۔ شیطان نے اپنے چیلوں سے کہا: تمھیں معلوم نہیں جو کچھ بھی کام تم نے کیا ہے، یہ سب کام اس کام کی وجہ سے پائے تکمیل تک پہنچے ہیں۔ اگر انھیں علم ہوتا تو وہ گناہ نہیں کرتے، لو میں تمھیں دکھاتا ہوں وہ کون سی جگہ ہے جہاں بڑا عابد رہتا ہو مگر وہ عالم نہ ہو اور قریب ہی عالم دین بھی رہتا ہو انھوں نے ایک جگہ کا نام لیا۔ صبح کو طلوع آفتاب سے قبل دیگر شیاطین کو لے کر شیطان اس مقام پر پہنچا دیگر شیاطین مخفی رہے۔ یہ انسان کی شکل بن کر راستے میں کھڑا ہو گیا عابد صاحب تہجد کی نماز کے بعد فجر کی نماز کیلئے تشریف لا رہے تھے راستہ میں شیطان انسانی صورت میں کھڑا تھا۔"
"السلام علیکم ۔ وعلیکم السلام۔ حضرت! مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے. عابد صاحب نے کہا: جلدی پوچھو۔ مجھے نماز کے لیے مسجد جانا ہے ۔شیطان نے جیب سے ایک شیشی نکالی اور سوال کیا کہ اللہ تعالی قادر ہے کہ یہ سارے آسمانوں اور زمینوں کو اس چھوٹی سی شیشی میں داخل کر دے۔عابد صاحب نے شیشی کو دیکھا اور کہاکہ: کہاں آسمان وزمین اور کہاں یہ چھوٹی سی شیشی۔ شیطان جلدی سے بولا :بس یہی پوچھنا تھا جناب! تشریف لے جائیے۔ اور دیگر شیاطین سے کہا: دیکھو میں نے اس کی راہ مار دی اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہی نہیں باقی عبادات کس کام کی؟ دوسری جانب ایک عالم دین جلدی جلدی مسجد کی جانب تشریف لا رہے تھے، انھیں روکا۔ السلام علیکم وعلیکم السلام ۔ مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے ۔ جلدی پوچھیں، شیشی دکھائی اور وہی سوال کیا ۔ عالم نے فرمایا: ملعون تو شیطان معلوم ہوتا ہے۔ ارے! وہ رب عز وجل قادر ہے، یہ شیشی تو بہت بڑی ہے میرا رب عز و جل اگر چاہے تو ایک سوئی کے ناکے کے اندر سے کروڑوں آسمان اور زمین داخل کر دے۔ کیونکہ "ان اللہ علی کل شئ قدیر" عالم دین کے تشریف لے جانے کے بعد شیطان نے دیگر شیاطین کی طرف دیکھا اور کہا:یہ علم ہی کی برکت ہے۔
 جس نے طالب علم کو پڑھنے سے روکا اس نے بہت بڑا کام کیا تا کہ وہ علم حاصل نہ کر سکے اور نہ عالم بن سکے۔"
(ملفوظات اعليحضرت صفحه ۲۱،۲۲ مطبوعه: مكتبة المدينه كراچي)
اس لیے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے علم کاسیکھنا ہر اک پر فرض قرار دیا اور ارشاد فرمایا:
 طلب العلم فريضة على كل مسلم، وواضع العلم عند غير أهله كمقلد الخنازير الْجوهر واللؤلؤ والذهب»
ترجمہ : علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور علم کو نااہلوں کے سامنے رکھنے والا ایسے ہے جیسے خنزیروں کو جواہرات، موتیوں اور سونے کے ہار پہنانے والا۔‘‘
حدیث پاک میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہوئی کہ مرد کے لیے فرض ہے اور عورت کے لیے نہیں،بلکہ دونوں کے لیے علم کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا۔لہذا مرد و زن سب حصول علم کے لیے کوشاں رہیں۔جہاں تک مجھے محسوس ہوا ہے،وہ یہ کہ مرد سے زیادہ عورت کو حصولِ علم کے لیے سرگرداں رہنا چاہئے۔چونکہ اس کی آغوش میں اس کے بچوں کا مستقبل پروان چڑھتا ہے،اگر وہ علم و عمل کے زیور سے مزین ہوگی تو بچوں کی پرورش عمدہ پیرائے میں ہوگی۔چونکہ عمر کا وہ حصہ جس میں بچے بالکل اس پودے کی مانند ہوتے ہیں جس کو ہر دن مالی کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر مالی بے توجہی کا شکار ہو جائے اور وقت پر پودے کو پانی نہ دے اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے،تو ظاہر ہے وہ پودا ہرا بھرا ہونے سے قبل ہی مرجھا جائے گا۔اسی طرح اگر کمسنی میں بچے کی اچھی تربیت نہ ہو،تو پھر جوانی تو جوانی بڑھاپا بھی جہالت کی تاریکیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے-
طالب علم کی وجہ سے والد کا قبر کے عذاب کو نور سے بدل دیا گیا
"حضرت عیسی علیہ السلام ایک قبر پر گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ قبر میں عذاب ہو رہا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد اسی قبر کے پاس سے آپ علیہ السلام کا دوبارہ گزر ہوا تو ملاحظہ فرمایا قبر میں نور ہی نور ہے اور رحمت الہی عزو جل کی برسات ہو رہی ہے۔آپ علیہ السلام حیران ہوے اور بارگاہ رب العزت میں عرض گزار ہوے اے میرے رب عز و جل ! مجھے اس قبر کے راز سے آشنا فرمادے۔ارشاد ہوا اسے روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام یہ بندہ سخت گناہ گار اور بد کردار تھا اس وجہ سے اس پر قبر میں عذاب ہورہا تھا لیکن موت سے قبل اس نے اپنی بیوی کو حاملہ چھوڑا تھا جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا اور آج وہ علم کی طلب میں مکتب بھیجا گیا ہے۔ اس کے استاد نے آج اسے ”بسم اللہ پڑھائی ہے مجھے حیا آتی ہے کہ میں اسے عذاب دوں جس کی اولاد مجھے " الرحمن الرحیم کہہ رہی ہے"۔
(تفسیر کبیر جلد اول ، اردو ، ص ۴۰۱)
مسلمانو! ذرا توجہ دو کہ ایک سخت گنہگار کو عذاب قبر سے بچنے کے لئے کوئی ممکنہ صورت نظر نہیں آتی ہے-لیکن جب اس کی شریکِ حیات اس کی اولاد کو جنتی ہے اور وہ مکتب کا رخ کرتا ہے اللہ عز و جل کو رحیم کہہ کر اس کی رحمت کا طالب ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ کو حیا آتی ہے کہ جس کی اولاد مجھے رحیم کہے میں اس پر عذاب مسلط کروں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی قبر رحمت و نور کی کیاری بن جاتی ہے-
محسن انسانیت ارشاد فرماتے ہیں:
يوزن يوم القيامة مداد العلماء ودم الشهداء فيرجح مداد العلماء علی دم الشهداء رواه الديلمي.
(أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، ۵/ ٤٨٦، الرقم/ ٤٨٨،)
ترجمہ:روز قیامت علما کے قلم کی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا تو علما کے قلم کی سیاہی شہدا کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔
سبحان اللہ! جہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا وہاں ایک علم حاصل کرنے والے کا یہ مقام و مرتبہ ہوگا،کہ اس کے قلم کی سیاہی کا وقار و معیار شہدا کے خون سے بھی زیادہ منفرد و ممتاز ہوگا۔اب اس سے بڑھ کر اور کیا حصول علم میں سرگرداں رہنے والے کے لیے مسرت و شادمانی کا مقام ہو سکتا ہے-
ایک اور حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں!
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
 من سلك طريقا يلتمس فیه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة قال أبو عيسى هذا حديث حسن۔
(جامع ترمذی،٢٦٤٦)
ترجمہ: جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان(وہموار) کر دیتا ہے۔
معلوم چلا اگر ہم حصولِ علم کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو وہ جنت ہم سے قریب ہو جاتی ہے۔جس کے لیے ہمارے بہت سے اعمال کارگر ثابت نہیں ہوتے۔تو ہم پر لازم و ضروری ہے کہ ہم حصول علم کے لیے ہمہ وقت متحرک فعال رہیں۔تاکہ بروزِ حشر ہمیں بھی مژدۂ جاں فزا سنایا جائے اور ہم جنت کے حقدار بن سکیں۔
بفضلہ تعالیٰ یہ بات ممکنات میں سے ہو سکتی ہے کہ اب ہم نے خود کو حصولِ علم کے لیے آمادہ کر لیا ہو۔تو پھر ہمیں چاہیے کہ جو علم سیکھیں وہ دین کی سربلندی کے لیے سیکھیں،اور اگر اس کے سوا کوئی اور مقصد آڑے آئے گا،تو ہمارا سیکھنا اور نہ سیکھنا برابر ہے۔اور ہم دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو کر اٹھائے جائیں گے۔
چونکہ آقائے کائنات کا فرمان عالیشان ہے:
جو شخص علم (اس لیے ) طلب کرے تاکہ بحث و گفتگو میں علما کرام سے برابری کرے یا جاہلوں اور بے وقوفوں کے ساتھ جھگڑا کرے یا اس لیے کہ لوگوں کے منہ اپنی جانب پھیرے اللہ تبارک و تعالی اسے دوزخ میں ڈالے گا۔
(اشعة اللمعات فی شرح مشكوة)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:
"جس شخص نے وہ علم سیکھا جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے مگر وہ اپنے رضائے الہی عزوجل کے لیے نہیں ( سیکھتا ) بلکہ ذلیل دنیا جمع کرنے کے لیے سیکھے، تو ایسا شخص بروز قیامت جنت کی ہوا بھی نہیں پائے گا۔
 (اشعة اللمعات فی شرح مشكوة)
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ 
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ 
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ 
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
لہذا اخلاص و للہیت کے ساتھ حصول علم میں سرگرداں رہیں،تاکہ کامیابیاں ہمارے قدم چومیں۔نیز علم ایک دریا ہے اس میں ہم جتنا غوطہ زن ہوں گے اتنے علمی و ادبی موتی اپنے دامن میں سمیٹیں گے،لیکن ہماری زندگی ہمیشہ ایک طالب علم کی طرح بسر ہو،اسی میں فلاح و نجات کا راز مضمر ہے-
حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو!
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے کی توفیق بخشے-
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
_________(❤️)_________ 
تحریر: شمس تبریز خاکی ظہوری مرکزی
 خانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف
رابطہ: 8630830445
(۱۹جنوری،۲۰۲۴/جمعہ)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area