شیطان سے اولاد کی حفاظت کس طرح کریں ؟ قسط : پانزدہم
_________(❤️)_________
ازقلم: شیرمہاراشٹر ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
ازقلم: شیرمہاراشٹر ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے تو اس صحبت سے جو اولاد پیدا ہوگی اس کو ہرگز شیطان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا دعا یہ ہے ۔
{بسمِ اﷲِ اَللّٰھُمّ جنبنا الشیطٰنٰ و جنب الشیطان مارزقتنا}
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہی بچہ کا رونا شیطان کے تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔حضرت علامہ سید سعادت علی قادری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
درحقیقت شیطان کی پیدائش ہی اس لئے ہے کہ وہ انسان کو بہکائے اور انسان نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پناہ لے کر اس کے وسوسوں سے بچے اسی لئے جب یہ نیک لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے تو وہ اس کا شکار ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کی دکھائی ہوئی راہ نہ چل کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی کرتے ہیں اور وسوسہ ان کے لئے مہلک بن جانے کے بجائے ان کے ایمان کے کمال کی علامت ونشانی بن جاتے ہیں۔ (یاایھاالذین اٰمنوا)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کا حکم صراحتاََ قرآن مجید میں آیا ہے۔ارشاد باری ہے۔
{اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَﷲَ فَاتّبِعْونی یُحِیْکُمَﷲَ}
ترجمہ: اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اﷲ کو دوست رکھتے ہوتو میرے فرماں بردار ہوجاؤﷲ تمہیں دوست رکھے گا۔
خالص ایمان
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اﷲ! ہم لوگ اپنے دلوں میں ایسے برے برے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص انہیں زبان تک پر لانا ناپسند اور بہت ہی برا سمجھتا ہے آپ نے فرمایا واقعی ایسا ہے کہ تم ان خیالات کو مکروہ جانتے ہو تو عرض کرنے لگے ہاں۔تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو یہ خالص ایمان کی نشانی ہے۔اس حدیث شریف کی وضاحت حضرت علامہ سید سعادت علی قادری نے خوب کی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔اگر انسان شیطان کے وسوسہ کو سمجھے اسے بر اجانے تو یہ اس کے کمال ایمان کی علامت ہے کیوں کہ چور وہیں پہنچتا ہے جہاں مال ہوتا ہے۔اسی طرح شیطان بھی وہیں اپنا کام کرنا چاہتا ہے جہاں ایمان ہوتا ہے وہی مالک عقلمند ہے جو شیطان سے اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔
آپ اس حقیقت کی وضاحت کے لئے حضرت قاسم بن محمد کا ایک واقعہ بھی اسی صفحہ پر لکھتے ہیں۔کہ حضرت قاسم بن محمد سے ایک شخص نے کہا کہ مجھے نماز میں اکثر وہم ہوجاتا ہے جو مجھے بہت ناگوار ہوتا ہے آپ نے فرمایا اسی حالت میں نماز ادا کرتے رہو کہ بے شک وہ (شیطان) تم سے دور نہ ہوگا یہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہوکر بھی یہی کہوگے کہ میں نے اپنی نماز مکمل نہ کی۔ مزید آپ اپنی کتاب مستطاب ’’یا ایھاالذین امنوا‘‘ میں اشعۃ اللمعات کے حوالہ سے ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔کہ نماز کے دوران ایک بزرگ کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا کہ آپ یہ نماز دوبارہ ادا کریں کہ آپ نے اچھی طرح نہ پڑھی آپ نے جواب دیا۔ میں یہ نماز نہ لوٹاؤں گا جیسی پڑھ سکتا ہوں پڑھ لی۔ بسﷲ کے دربار میں اپنی کوتاہی کی معذرت کرلوں گا۔ شیطان بولا۔ دیکھئے آپ لاپرواہی نہ کریں یہ نماز کا معاملہ ہے لاپرواہی کا موقع نہیں بزرگ نے پھر جواب دیا جو ہونا تھا ہوگیا میں نماز دوبارہ نہ لوٹاؤں گا۔ شیطان اصرار کرتے ہوئے۔بولا جناب! میں آپ کا ہمدرد و ناصح ہوں نماز ایک عظیم عبادت ہے اورﷲ کے یہاں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے آپﷲ کے قریب ہیںﷲ ایسی نماز قبول نہیں کرتا اس سے آپ کے مرتبے میں کمی ہوسکتی ہے اس کو دوبارہ پڑھ لیجئے۔ اب بزرگ اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔ میں جانتا ہوں کہ تم شیطان ہو ہر گز ہمارا ہمدرد وناصح نہیں جب کہﷲ رحیم وکریم ہے اگر میری نماز ناقص بھی ہے تو وہ اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائے گا۔ تو دفع ہوجا! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے بالآخر شیطان ذلیل وخوار ہوکر چلا گیا۔
(یاایھاالذین آمنواجلد اول)
اﷲ تبارک تعالیٰ نے انسان کو وسوسہ شیطان سے بچنے کے لئے قرآن مقدس میں پوری دوسورت نازل فرمایا جسے سورۂ معوذ تین کہتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ سورۂ معوذتین کو کثرت سے تلاوت کرتے رہیں تاکہ وہ مکر جن وانس سے محفوظ رہیں۔اور جو شیطان نماز میں خلل اندازی کرتا ہے اسے حنزب یا خنزب کہتے ہیں ۔
تین سو پردے
حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو اعوذ پڑھتا ہے تو اﷲ اس کے اور شیطان کے درمیان تین سو پردے حائل کرتا ہے یعنی وہ شخص شیطان کے وسوسہ سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے تعوذ کے ذریعہ پناہ کے لئے جو الفاظ مروی ہیں وہ یہ ہیں۔
{اعوذباﷲ من الشیطن الرجیم}
ترجمہ: میںﷲ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے
شیاطین کی گرفتاری
احادیث کریمہ میں آیا ہے کہ
رمضان المبارک برکات و حسنات کا مہینہ ہے جس مہینہ میں شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے اس تعلق سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تین حدیثیں ملاحظہ ہو۔
۱؎ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔
۲؎ یہ حدیث بھی حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث اور مذکورہ بالا حدیث میں چنداں الفاظ کا فرق ہے یہاں
{بسمِ اﷲِ اَللّٰھُمّ جنبنا الشیطٰنٰ و جنب الشیطان مارزقتنا}
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہی بچہ کا رونا شیطان کے تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔حضرت علامہ سید سعادت علی قادری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
درحقیقت شیطان کی پیدائش ہی اس لئے ہے کہ وہ انسان کو بہکائے اور انسان نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پناہ لے کر اس کے وسوسوں سے بچے اسی لئے جب یہ نیک لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے تو وہ اس کا شکار ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کی دکھائی ہوئی راہ نہ چل کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی کرتے ہیں اور وسوسہ ان کے لئے مہلک بن جانے کے بجائے ان کے ایمان کے کمال کی علامت ونشانی بن جاتے ہیں۔ (یاایھاالذین اٰمنوا)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کا حکم صراحتاََ قرآن مجید میں آیا ہے۔ارشاد باری ہے۔
{اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَﷲَ فَاتّبِعْونی یُحِیْکُمَﷲَ}
ترجمہ: اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اﷲ کو دوست رکھتے ہوتو میرے فرماں بردار ہوجاؤﷲ تمہیں دوست رکھے گا۔
خالص ایمان
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اﷲ! ہم لوگ اپنے دلوں میں ایسے برے برے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص انہیں زبان تک پر لانا ناپسند اور بہت ہی برا سمجھتا ہے آپ نے فرمایا واقعی ایسا ہے کہ تم ان خیالات کو مکروہ جانتے ہو تو عرض کرنے لگے ہاں۔تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو یہ خالص ایمان کی نشانی ہے۔اس حدیث شریف کی وضاحت حضرت علامہ سید سعادت علی قادری نے خوب کی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔اگر انسان شیطان کے وسوسہ کو سمجھے اسے بر اجانے تو یہ اس کے کمال ایمان کی علامت ہے کیوں کہ چور وہیں پہنچتا ہے جہاں مال ہوتا ہے۔اسی طرح شیطان بھی وہیں اپنا کام کرنا چاہتا ہے جہاں ایمان ہوتا ہے وہی مالک عقلمند ہے جو شیطان سے اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔
آپ اس حقیقت کی وضاحت کے لئے حضرت قاسم بن محمد کا ایک واقعہ بھی اسی صفحہ پر لکھتے ہیں۔کہ حضرت قاسم بن محمد سے ایک شخص نے کہا کہ مجھے نماز میں اکثر وہم ہوجاتا ہے جو مجھے بہت ناگوار ہوتا ہے آپ نے فرمایا اسی حالت میں نماز ادا کرتے رہو کہ بے شک وہ (شیطان) تم سے دور نہ ہوگا یہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہوکر بھی یہی کہوگے کہ میں نے اپنی نماز مکمل نہ کی۔ مزید آپ اپنی کتاب مستطاب ’’یا ایھاالذین امنوا‘‘ میں اشعۃ اللمعات کے حوالہ سے ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔کہ نماز کے دوران ایک بزرگ کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا کہ آپ یہ نماز دوبارہ ادا کریں کہ آپ نے اچھی طرح نہ پڑھی آپ نے جواب دیا۔ میں یہ نماز نہ لوٹاؤں گا جیسی پڑھ سکتا ہوں پڑھ لی۔ بسﷲ کے دربار میں اپنی کوتاہی کی معذرت کرلوں گا۔ شیطان بولا۔ دیکھئے آپ لاپرواہی نہ کریں یہ نماز کا معاملہ ہے لاپرواہی کا موقع نہیں بزرگ نے پھر جواب دیا جو ہونا تھا ہوگیا میں نماز دوبارہ نہ لوٹاؤں گا۔ شیطان اصرار کرتے ہوئے۔بولا جناب! میں آپ کا ہمدرد و ناصح ہوں نماز ایک عظیم عبادت ہے اورﷲ کے یہاں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے آپﷲ کے قریب ہیںﷲ ایسی نماز قبول نہیں کرتا اس سے آپ کے مرتبے میں کمی ہوسکتی ہے اس کو دوبارہ پڑھ لیجئے۔ اب بزرگ اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔ میں جانتا ہوں کہ تم شیطان ہو ہر گز ہمارا ہمدرد وناصح نہیں جب کہﷲ رحیم وکریم ہے اگر میری نماز ناقص بھی ہے تو وہ اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائے گا۔ تو دفع ہوجا! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے بالآخر شیطان ذلیل وخوار ہوکر چلا گیا۔
(یاایھاالذین آمنواجلد اول)
اﷲ تبارک تعالیٰ نے انسان کو وسوسہ شیطان سے بچنے کے لئے قرآن مقدس میں پوری دوسورت نازل فرمایا جسے سورۂ معوذ تین کہتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ سورۂ معوذتین کو کثرت سے تلاوت کرتے رہیں تاکہ وہ مکر جن وانس سے محفوظ رہیں۔اور جو شیطان نماز میں خلل اندازی کرتا ہے اسے حنزب یا خنزب کہتے ہیں ۔
تین سو پردے
حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو اعوذ پڑھتا ہے تو اﷲ اس کے اور شیطان کے درمیان تین سو پردے حائل کرتا ہے یعنی وہ شخص شیطان کے وسوسہ سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے تعوذ کے ذریعہ پناہ کے لئے جو الفاظ مروی ہیں وہ یہ ہیں۔
{اعوذباﷲ من الشیطن الرجیم}
ترجمہ: میںﷲ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے
شیاطین کی گرفتاری
احادیث کریمہ میں آیا ہے کہ
رمضان المبارک برکات و حسنات کا مہینہ ہے جس مہینہ میں شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے اس تعلق سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تین حدیثیں ملاحظہ ہو۔
۱؎ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔
۲؎ یہ حدیث بھی حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث اور مذکورہ بالا حدیث میں چنداں الفاظ کا فرق ہے یہاں
{ابواب الجھنم وسلسلت الشیاطین} کے الفاظ ہیں۔
۳؎ یہ حدیث بھی حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔(ترمذی)
ذکر الہٰی سے شیطان دور ہوجاتا ہے
ذکر الہٰی ہزار دولت و ثروت سے بہترہے چونکہ اس سے شیطانی وسوسوں کا تدراک ہوتا ہے اور جب کوئی بندہ ذکر الہٰی سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے بخاری شریف کی حدیث ہے۔ شیطان ابن آدم کے دل سے چپکا ہوا ہے لیکن جب وہﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ الگ ہوجاتا ہے اور جب ابن آدم ذکر الہٰی سے غافل ہوجاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔اور حضرت انس رضیﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہﷲ کا ذکر ایمان کی علامت ہے۔ اور نفاق سے برأت ہے۔ اور شیطان سے حفاظت ہے اور جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔
یہی وہ منافع ہے جس کی وجہ سے ذکر الہٰی کوبہت سی عبادتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔
ارشادباری ہے۔ {اَلَابذ کرﷲِ تَطْمَیِنُّ الْقُلُوْبِ۔}
ترجمہ: سن لو کہﷲ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے (سورہ رعد آیت ۲۸؎) بالخصوص شیطان کے تسلط سے بچنے میں اس کو خاص دخل ہے ایک اور حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ شیطان گھٹنے جمائے ہوئے آدمی کے دل پر مسلط رہتا ہے جب وہ اﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ عاجز و ذلیل ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب آدمی غافل ہوتا ہے تو یہ وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔
(سنی فضائل اعمال)
شیطان بشکل مچھر
ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ انہوں نے ﷲ جل شانہ سے دعا کی کہ شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی صورت ان پر منکشف ہوجائے کہ کس طرح ڈالتا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ دل کے بائیں طرف مونڈھے کے پیچھے مچھر کی شکل میں بیٹھا ہے ایک لمبی سونڈ منھ پر ہے جس کو سوئی کی طرح سے دل کی طرف لے جاتا ہے جب اس کو ذاکر پاتا ہے تو جلدی سے اس سونڈ کو کھینچ لیتا ہے غافل پاتا ہے تو اس سونڈ کے ذریعہ سے وسوسوں اور گناہوں کا زہر انجکشن کے ذریعہ سے دل میں بھر دیتا ہے۔
جناب سفیان بن عنیہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے۔کہ جب کوئی جماعت ذکر خدا کے لئے جمع ہوتی ہے تو شیطان اور دنیا علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر شیطان دنیا سے کہتا ہے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ یہ کیا کررہے ہیں؟ دنیا کہتی ہے انہیں چھوڑ دے جونہی یہ ذکر الہٰی سے فارغ ہوں گے میں انہیں گردنوں سے پکڑ کر تیرے حوالے کردوں گی۔
(سنی فضائل اعمال)
(جاری ہے)
۳؎ یہ حدیث بھی حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔(ترمذی)
ذکر الہٰی سے شیطان دور ہوجاتا ہے
ذکر الہٰی ہزار دولت و ثروت سے بہترہے چونکہ اس سے شیطانی وسوسوں کا تدراک ہوتا ہے اور جب کوئی بندہ ذکر الہٰی سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے بخاری شریف کی حدیث ہے۔ شیطان ابن آدم کے دل سے چپکا ہوا ہے لیکن جب وہﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ الگ ہوجاتا ہے اور جب ابن آدم ذکر الہٰی سے غافل ہوجاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔اور حضرت انس رضیﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہﷲ کا ذکر ایمان کی علامت ہے۔ اور نفاق سے برأت ہے۔ اور شیطان سے حفاظت ہے اور جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔
یہی وہ منافع ہے جس کی وجہ سے ذکر الہٰی کوبہت سی عبادتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔
ارشادباری ہے۔ {اَلَابذ کرﷲِ تَطْمَیِنُّ الْقُلُوْبِ۔}
ترجمہ: سن لو کہﷲ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے (سورہ رعد آیت ۲۸؎) بالخصوص شیطان کے تسلط سے بچنے میں اس کو خاص دخل ہے ایک اور حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ شیطان گھٹنے جمائے ہوئے آدمی کے دل پر مسلط رہتا ہے جب وہ اﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ عاجز و ذلیل ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب آدمی غافل ہوتا ہے تو یہ وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔
(سنی فضائل اعمال)
شیطان بشکل مچھر
ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ انہوں نے ﷲ جل شانہ سے دعا کی کہ شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی صورت ان پر منکشف ہوجائے کہ کس طرح ڈالتا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ دل کے بائیں طرف مونڈھے کے پیچھے مچھر کی شکل میں بیٹھا ہے ایک لمبی سونڈ منھ پر ہے جس کو سوئی کی طرح سے دل کی طرف لے جاتا ہے جب اس کو ذاکر پاتا ہے تو جلدی سے اس سونڈ کو کھینچ لیتا ہے غافل پاتا ہے تو اس سونڈ کے ذریعہ سے وسوسوں اور گناہوں کا زہر انجکشن کے ذریعہ سے دل میں بھر دیتا ہے۔
جناب سفیان بن عنیہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے۔کہ جب کوئی جماعت ذکر خدا کے لئے جمع ہوتی ہے تو شیطان اور دنیا علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر شیطان دنیا سے کہتا ہے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ یہ کیا کررہے ہیں؟ دنیا کہتی ہے انہیں چھوڑ دے جونہی یہ ذکر الہٰی سے فارغ ہوں گے میں انہیں گردنوں سے پکڑ کر تیرے حوالے کردوں گی۔
(سنی فضائل اعمال)
(جاری ہے)
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ترسیل دعوت : محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی
ترسیل دعوت : محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی