ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
آج ایک پوسٹ کو دیکھ کر نہایت افسوس ہوا
آج ایک پوسٹ کو دیکھ کر نہایت افسوس ہوا
کہ ایک عالم کی عقل پر اس طرح کیسے پردہ پڑ سکتا ہے کہ کسی کے قول کی اپنی طرف سے غلط بنیاد بنالے اور اُسے توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق پیش کرے جبکہ قائل خود موجود ہے اور وہ بھی صاحبِ مرجع، فقیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
وہ پوسٹ یہ ہے:
"دور حاضر کے لحاظ سے بھارت میں بحیثیت فقیہ و مفتی، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ و فضلہ و کرمہ سے زیادہ، کوئی قابل اعتبار ہے ہی نہیں اور بر سبیل تنزل، اگر کوئی صرف بعض مسائل میں خطا کرنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہ جاتا، تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ سے لے کر، اس انانیت کے زمانہ تک، شاید ہی کسی کو قابل اعتبار، فقیہ و مفتی مانا جائے، کیوں کہ بعض مسائل میں تقریبا ہر فقیہ و مفتی، بعض فقیہ و مفتی کے نزدیک خاطی ہے۔"
(ازہار امجدی مصباحی ازہری)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ناقابلِ اعتبار کا مطلب کیا ہے؟
کیا ناقابل اعتبار ہونا صرف مسئلے میں خطا کی وجہ سے ہوتا ہے؟مولانا ازہار نے بزعم خود حضور محدث کبیر دامت فیوضہم کے قول سے جو مفہوم نکالا ہے، کیا وہی مفہوم حضور محدث کبیر کے قول سے نکلتا ہے؟
نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ مولانا ازہار کی پوسٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں ابھی تک اردو سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اگر محض یہ بنیاد رکھی جائے کہ کسی فقیہ سے کسی مسئلے میں کوئی ایک غلطی ہو جائے تو وہ ناقابل اعتبار ہو جائے، تب تو کوئی بھی امام قابل اعتبار نہ ہوگا جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جب بھی کسی فقیہہ یا امام سے کسی مسئلہ میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو کوئی یہ نہیں دکھا سکتا کہ حق واضح ہو جانے کے بعد انہوں نے رجوع نہ کیا ہو اور حق کو قبول نہ کیا ہو۔
وہ پوسٹ یہ ہے:
"دور حاضر کے لحاظ سے بھارت میں بحیثیت فقیہ و مفتی، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ و فضلہ و کرمہ سے زیادہ، کوئی قابل اعتبار ہے ہی نہیں اور بر سبیل تنزل، اگر کوئی صرف بعض مسائل میں خطا کرنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہ جاتا، تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ سے لے کر، اس انانیت کے زمانہ تک، شاید ہی کسی کو قابل اعتبار، فقیہ و مفتی مانا جائے، کیوں کہ بعض مسائل میں تقریبا ہر فقیہ و مفتی، بعض فقیہ و مفتی کے نزدیک خاطی ہے۔"
(ازہار امجدی مصباحی ازہری)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ناقابلِ اعتبار کا مطلب کیا ہے؟
کیا ناقابل اعتبار ہونا صرف مسئلے میں خطا کی وجہ سے ہوتا ہے؟مولانا ازہار نے بزعم خود حضور محدث کبیر دامت فیوضہم کے قول سے جو مفہوم نکالا ہے، کیا وہی مفہوم حضور محدث کبیر کے قول سے نکلتا ہے؟
نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ مولانا ازہار کی پوسٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں ابھی تک اردو سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اگر محض یہ بنیاد رکھی جائے کہ کسی فقیہ سے کسی مسئلے میں کوئی ایک غلطی ہو جائے تو وہ ناقابل اعتبار ہو جائے، تب تو کوئی بھی امام قابل اعتبار نہ ہوگا جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جب بھی کسی فقیہہ یا امام سے کسی مسئلہ میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو کوئی یہ نہیں دکھا سکتا کہ حق واضح ہو جانے کے بعد انہوں نے رجوع نہ کیا ہو اور حق کو قبول نہ کیا ہو۔
لہذا مولانا ازہار نے اپنی اس پوسٹ کے ذریعے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت دیگر ائمہ کرام پر سخت طعن و تشنیع کی ہے اور ان پر جھوٹا الزام رکھا ہے۔
یہاں حضور محدث کبیر نے مسائل میں خطا کی وجہ سے مفتی نظام الدین کو ناقابل اعتبار نہیں فرمایا ہے* بلکہ غلطی کے بعد جب حق واضح ہو جائے، تب بھی اس غلطی پر کوئی شخص اَڑا رہے، تو اُسے ہٹ دھرم کہا جاتا ہے اور ایسی ہی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہیں ناقابل اعتبار کہا گیا ہے۔ نیز ناقابل اعتبار ہونے کے کئی وجوہ ہو سکتے ہیں نہ کہ صرف مسائل میں خطا جیسا کہ مولانا ازہار نے اپنی کج فہمی اور کم عقلی کی وجہ سے لکھ مارا۔
اس لیے کہ جب بھی کوئی شخص اکابرین کے متفق علیہ مسئلے سے الگ موقف اختیار کرکے دلائل پیش کرتا ہے تو اُن دلائل کا تمام اعتراضات سے محفوظ ہونا ضروری ہوتا ہے یا کم از کم سامنے والے کو اس کا جواب دینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ سیمنار میں جب کوئی شخص اپنا نیا موقف رکھتا ہے تو اُسے اس موقف پر ہونے والے تمام اعتراضات کے جوابات دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
اس لیے کہ جب بھی کوئی شخص اکابرین کے متفق علیہ مسئلے سے الگ موقف اختیار کرکے دلائل پیش کرتا ہے تو اُن دلائل کا تمام اعتراضات سے محفوظ ہونا ضروری ہوتا ہے یا کم از کم سامنے والے کو اس کا جواب دینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ سیمنار میں جب کوئی شخص اپنا نیا موقف رکھتا ہے تو اُسے اس موقف پر ہونے والے تمام اعتراضات کے جوابات دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
آپ دیکھیں کہ جب مفتی نظام الدین صاحب نے چاند کے مسئلے میں الگ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موبائل وغیرہ جدید ذرائع ابلاغ سے خبرِ استفاضہ ثابت ہو جائے گا، لہٰذا موبائل سے چاند کی گواہی جائز ہے تو اس پر حضور تاج الشریعہ نے ایک پورا رسالہ تحریر فرمادیا۔
مفتی نظام الدین صاحب سے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑا! اسی طرح اس خبر استفاضہ پر ٢١ سوالات و اعتراضات بھی قائم کیے گئے، اس کا بھی اب تک کوئی جواب نہیں ہے۔
یوں ہی عبیداللہ کے مسئلے میں جب انہوں نے اپنا الگ موقف اختیار کیا اور خود اپنے (سابقہ) صحیح فتویٰ کی مخالفت کی تو اُن پر سوالات قائم کرکے ان کے نام رجسٹری کی گئی لیکن آج تک کوئی جواب نہیں آیا اور ان اعتراضات کے بارے میں کچھ بھی نہ کہا جبکہ مفتی نظام الدین صاحب پر لازم تھا کہ وہ ان اعتراضات کے جواب دیتے ورنہ اپنے غلط فتویٰ سے رجوع کرتے، لیکن ہٹ دھرمی کا کیا علاج ہے ؟
اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم کہیں کہ لکھنؤ جانے کے لیے جو عام راستہ ہے اس کے علاوہ ہم ایک نیا راستہ بتاتے ہیں، اس پر چلیے تو فورا سامنے والا سوالات کے ڈھیر لگا دے گا کہ اس راستے میں کوئی پریشانی یا دقت تو نہیں؟ سڑک کی حالت اچھی ہے یا خستہ ہے؟ کھانے پینے کے ہوٹل وغیرہ ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ تو ہمیں اس کے تمام سوالات کے جوابات دینا ضروری ہوگا ورنہ اس نئے راستے پر چلنے کیلئے نہ کوئی تیار ہوگا نہ اس کی اجازت دے گا اور اگر نئے راستے کی خرابیاں اور خطرات جان لینے کے باوجود کوئی اُس پر چلے گا تو یہ اُس کی ہٹ دھرمی اور نادانی کہلائے گی جس طرح دیہاتی زبان میں کہا جاتا ہے کہ "پنچوں کی بات تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن کھونٹا یہیں گڑے گا!"
خود مولانا ازہار سے پوچھیے کہ جب عبیداللہ والے مسئلہ میں علامہ صاحب قبلہ نے عرس فقیہ ملت کے موقع پر برسر اسٹیج مفتی نظام الدین صاحب کا کھل کر رد کیا اور فرمایا کہ یہاں ایمان و کفر کا مسئلہ ہے اس لیے ہم اس سے گریز نہیں کرسکتے تو اس وقت مولانا ازہار صاحب نے کیوں نہیں کہا کہ حضرت آپ غلط فرما رہے ہیں؟
دنیا جانتی ہے کہ عرسِ شارح بخاری کے موقع پر جبکہ اساتذہ اشرفیہ اسٹیج پر موجود تھے،علامہ صاحب نے ان کی موجودگی میں عبیداللہ کے مسئلے کو لے کر مفتی نظام الدین صاحب کا رد فرمایا اور (عبیداللہ کی کفری تقریر کو ایمان کی علامت قرار دینے والے فتویٰ پر) جن لوگوں کے دستخط تھے، ان کا بھی رد فرمایا لیکن کسی کے منہ میں زبان نہیں تھی کہ کچھ کہتا یا حضور محدث کبیر کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات اساتذہ اشرفیہ دیتے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم کہیں کہ لکھنؤ جانے کے لیے جو عام راستہ ہے اس کے علاوہ ہم ایک نیا راستہ بتاتے ہیں، اس پر چلیے تو فورا سامنے والا سوالات کے ڈھیر لگا دے گا کہ اس راستے میں کوئی پریشانی یا دقت تو نہیں؟ سڑک کی حالت اچھی ہے یا خستہ ہے؟ کھانے پینے کے ہوٹل وغیرہ ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ تو ہمیں اس کے تمام سوالات کے جوابات دینا ضروری ہوگا ورنہ اس نئے راستے پر چلنے کیلئے نہ کوئی تیار ہوگا نہ اس کی اجازت دے گا اور اگر نئے راستے کی خرابیاں اور خطرات جان لینے کے باوجود کوئی اُس پر چلے گا تو یہ اُس کی ہٹ دھرمی اور نادانی کہلائے گی جس طرح دیہاتی زبان میں کہا جاتا ہے کہ "پنچوں کی بات تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن کھونٹا یہیں گڑے گا!"
خود مولانا ازہار سے پوچھیے کہ جب عبیداللہ والے مسئلہ میں علامہ صاحب قبلہ نے عرس فقیہ ملت کے موقع پر برسر اسٹیج مفتی نظام الدین صاحب کا کھل کر رد کیا اور فرمایا کہ یہاں ایمان و کفر کا مسئلہ ہے اس لیے ہم اس سے گریز نہیں کرسکتے تو اس وقت مولانا ازہار صاحب نے کیوں نہیں کہا کہ حضرت آپ غلط فرما رہے ہیں؟
دنیا جانتی ہے کہ عرسِ شارح بخاری کے موقع پر جبکہ اساتذہ اشرفیہ اسٹیج پر موجود تھے،علامہ صاحب نے ان کی موجودگی میں عبیداللہ کے مسئلے کو لے کر مفتی نظام الدین صاحب کا رد فرمایا اور (عبیداللہ کی کفری تقریر کو ایمان کی علامت قرار دینے والے فتویٰ پر) جن لوگوں کے دستخط تھے، ان کا بھی رد فرمایا لیکن کسی کے منہ میں زبان نہیں تھی کہ کچھ کہتا یا حضور محدث کبیر کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات اساتذہ اشرفیہ دیتے۔
اب ہمیں بتائیے کیا یہ ہٹ دھرمی نہیں ہے ؟
اب یہ لوگ جھانسا دیتے ہوئے کہیں گے کہ وہ ہمارے بڑے تھے، اس لیے ہم نے ان کا جواب نہیں دیا، ان کا احترام کیا۔
اب یہ لوگ جھانسا دیتے ہوئے کہیں گے کہ وہ ہمارے بڑے تھے، اس لیے ہم نے ان کا جواب نہیں دیا، ان کا احترام کیا۔
تو بتایا جائے! اس وقت آپ کا یہ ادب کیا گھاس چرنے گیا تھا جب عبیداللہ برسرِ منبر حضور محدث کبیر کی جانب غلط غلط باتیں منسوب کر رہا تھا؟ اس وقت اساتذۂ اشرفیہ بھی اسٹیج پر موجود تھے، پھر بھی کوئی روک ٹوک نہ کی؟
میں تو کہتا ہوں کہ مفتی نظام الدین صاحب کو چھوڑیے، جو ان کے حامی ہیں یا مولانا ازہار صاحب سے ہی کہیے کہ انہوں نے جو نیا موقف اختیار کیا ہے، اُس پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں، ان کے جوابات دیں!
کیا جوابات دینے کے لیے کچھ دم خم ہے؟
اگر نہیں دے سکتے تو حق واضح ہو جانے کے بعد اس کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے بلکہ ایک مومن کی شان یہی ہے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اُسے ضرور قبول کرے اور *اگر نہیں کرے گا تو اُسے ہٹ دھرم کہا جائے گا اور اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے اُسے ناقابلِ اعتبار بھی بتایا جائے گا اور جو اس کی حمایت کرے گا وہ اور بھی زیادہ ناقابلِ اعتبار ہوگا جیسے کہ یہاں مولانا ازہار خود ان سے زیادہ ناقابلِ اعتبار اور الزام تراش نظر آرہے ہیں۔
مولانا ازہار کی یہ نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ حرکت ہے کہ انہوں نے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خطاے اجتہادی کے سامنے مفتی نظام الدین صاحب یا آج کے مفتیان کرام کو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ نہایت ہی جرات کی بات ہے۔ کوئی صاحبِ علم شخص اس طرح کی بے تکی بات ہرگز نہیں کر سکتا!
❓کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ مولانا ازہار صاحب بلفظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت سارے ائمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا؟(معاذاللہ)
کم سے کم آپ اپنی اوقات تو دیکھ لیتے!
میں تو کہتا ہوں کہ مفتی نظام الدین صاحب کو چھوڑیے، جو ان کے حامی ہیں یا مولانا ازہار صاحب سے ہی کہیے کہ انہوں نے جو نیا موقف اختیار کیا ہے، اُس پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں، ان کے جوابات دیں!
کیا جوابات دینے کے لیے کچھ دم خم ہے؟
اگر نہیں دے سکتے تو حق واضح ہو جانے کے بعد اس کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے بلکہ ایک مومن کی شان یہی ہے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اُسے ضرور قبول کرے اور *اگر نہیں کرے گا تو اُسے ہٹ دھرم کہا جائے گا اور اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے اُسے ناقابلِ اعتبار بھی بتایا جائے گا اور جو اس کی حمایت کرے گا وہ اور بھی زیادہ ناقابلِ اعتبار ہوگا جیسے کہ یہاں مولانا ازہار خود ان سے زیادہ ناقابلِ اعتبار اور الزام تراش نظر آرہے ہیں۔
مولانا ازہار کی یہ نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ حرکت ہے کہ انہوں نے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خطاے اجتہادی کے سامنے مفتی نظام الدین صاحب یا آج کے مفتیان کرام کو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ نہایت ہی جرات کی بات ہے۔ کوئی صاحبِ علم شخص اس طرح کی بے تکی بات ہرگز نہیں کر سکتا!
❓کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ مولانا ازہار صاحب بلفظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت سارے ائمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا؟(معاذاللہ)
کم سے کم آپ اپنی اوقات تو دیکھ لیتے!
اور حضور محدث کبیر کا علمی قد تو دیکھتے کہ حضرت کی مراد کیا ہے اور حضرت کس وجہ سے ان کو ناقابل اعتبار کہہ رہے ہیں؟؟؟
یہ استاد و شاگرد کے درمیان کا معاملہ ہے تو شاگرد کو استاد بہتر جانے گا کہ آپ جانیں گے جو آپ جج بن کر ان بڑوں کے درمیان کود پڑے؟
آپ چار دنوں سے مفتی نظام الدین صاحب کو جاننے لگے تو بے جا قصیدے پڑھے جا رہے ہیں اور حضور محدث کبیر دام ظلہ نے تو انہیں پڑھایا، مدرس اور دیگر مقام پر فائز کیا اور ایک زمانے تک مفتی نظام الدین صاحب حضور محدث کبیر دامت فیوضہم کی بارگاہ میں رہے تو حضور محدث کبیر ان کے بارے میں زیادہ جانیں گے یا آپ؟
مولانا ازہار کو خود سوچنا چاہیے کہ ان کے والد گرامی فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ دینی مسائل ہوں یا معاملات ہوں، ان سب میں کس قدر محتاط تھے؟ کیا آپ کو اس کا کچھ خیال ہے ؟
اگر مولانا ازہار حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے نہ ہوتے تو بہت سخت لب و لہجہ استعمال کرنے کی ضرورت تھی جو انہوں نے اس طرح کی شنیع حرکت کی ہے۔
لہذا مولانا ازہار پر لازم ہے کہ ثابت کریں کہ علامہ صاحب نے مفتی نظام الدین صاحب کو مسائل میں خطا ہی کی وجہ سے غیر معتبر کہا ہے اور یہ بھی واضح کریں کہ غیر معتبر ہونے کا مطلب کیا ہے اور کسی کو غیر معتبر کب کہا جاتا ہے؟؟؟
اگر واقعی مولانا ازہار کسی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں تو مفتی نظام الدین صاحب سے کہیں کہ ان کی نئی تحقیقات پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں، ان کے جوابات پیش کریں ورنہ وہ خود ہی پیش کریں اور اگر نہیں پیش کر سکتے تو ضرور آپ بھی ہٹ دھرم اور ناقابل اعتبار قرار دیے جائیں گے۔
جس طرح مولانا ازہار نے چار چھ سطر لکھ کر جملہ بازی اور لفاظی کی ہے، اس طرح ہر کوئی کر سکتا ہے۔ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کی چاپلوسی اور خوشنودی کے لیے اپنے ہی صحیح فتویٰ کی مخالفت کرے وہ ضرور ناقابلِ اعتبار اور خاطی ہے!
---------------------------------------
یہ استاد و شاگرد کے درمیان کا معاملہ ہے تو شاگرد کو استاد بہتر جانے گا کہ آپ جانیں گے جو آپ جج بن کر ان بڑوں کے درمیان کود پڑے؟
آپ چار دنوں سے مفتی نظام الدین صاحب کو جاننے لگے تو بے جا قصیدے پڑھے جا رہے ہیں اور حضور محدث کبیر دام ظلہ نے تو انہیں پڑھایا، مدرس اور دیگر مقام پر فائز کیا اور ایک زمانے تک مفتی نظام الدین صاحب حضور محدث کبیر دامت فیوضہم کی بارگاہ میں رہے تو حضور محدث کبیر ان کے بارے میں زیادہ جانیں گے یا آپ؟
مولانا ازہار کو خود سوچنا چاہیے کہ ان کے والد گرامی فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ دینی مسائل ہوں یا معاملات ہوں، ان سب میں کس قدر محتاط تھے؟ کیا آپ کو اس کا کچھ خیال ہے ؟
اگر مولانا ازہار حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے نہ ہوتے تو بہت سخت لب و لہجہ استعمال کرنے کی ضرورت تھی جو انہوں نے اس طرح کی شنیع حرکت کی ہے۔
لہذا مولانا ازہار پر لازم ہے کہ ثابت کریں کہ علامہ صاحب نے مفتی نظام الدین صاحب کو مسائل میں خطا ہی کی وجہ سے غیر معتبر کہا ہے اور یہ بھی واضح کریں کہ غیر معتبر ہونے کا مطلب کیا ہے اور کسی کو غیر معتبر کب کہا جاتا ہے؟؟؟
اگر واقعی مولانا ازہار کسی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں تو مفتی نظام الدین صاحب سے کہیں کہ ان کی نئی تحقیقات پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں، ان کے جوابات پیش کریں ورنہ وہ خود ہی پیش کریں اور اگر نہیں پیش کر سکتے تو ضرور آپ بھی ہٹ دھرم اور ناقابل اعتبار قرار دیے جائیں گے۔
جس طرح مولانا ازہار نے چار چھ سطر لکھ کر جملہ بازی اور لفاظی کی ہے، اس طرح ہر کوئی کر سکتا ہے۔ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کی چاپلوسی اور خوشنودی کے لیے اپنے ہی صحیح فتویٰ کی مخالفت کرے وہ ضرور ناقابلِ اعتبار اور خاطی ہے!
---------------------------------------