Type Here to Get Search Results !

کیا موجودہ دور میں عام لوگوں پر جہاد کرنا فرض ہے؟

 (سوال نمبر 4907)
کیا موجودہ دور میں عام لوگوں پر جہاد کرنا فرض ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ موجودہ وقت و صورتحال میں جبکہ جہاد فرض ھو چکا ھے مگر افسوس صد افسوس ھمارے حکمران عیش و بےغیرتی میں اندھے ھوۓ ھوۓ ھیں اور اعلانِ جہاد نہیں کر رہے مگر قوم تو تیار ھے کہ کب جہاد کا باقائدہ بجانبِ ریاست اعلان ہوگا تو کیا اِس صورت میں پوری قوم گناہگار و مستحق عذابِ نار ہوگی یا پھر صرف بدون غیرت حکمران کیونکہ قوم تو حکمرانوں کے زیر ہے۔
سائل:- عبدالمصطفیٰ محمد عمر از پاکستان,راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقت بدلا زمانہ بدلے اور جہاد کے طریقہ کار بدل گئے جہاد کے کچھ شرائط ہیں وہ پورے ہونے پر جہاد فرض ہے موجودہ صورتحال میں اگر عوام الناس جہاد کے لیے نکلے بھی تو غیر ایک بم سے سارے عوام الناس کو اڑا سکتے ہیں اس لیے موجودہ دور میں یہ کام مسلم حکومت کی ہے اگر وہ نہیں کرتے اپنے فوج جدید ساز و سامان کے ذریعے جنگ، تو عاصی وہ ہیں عوام نہیں۔
چونکہ جنگ کے لئے کچھ ظاہری ساز و سامان اور قوت ہونا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے چاہنے پر بھی صلح حدیبیہ کے موقع پر آقا علیہ السلام نے جنگ نہیں کئے بلکہ صلح کی ۔
البتہ جس گانوں اور ملک میں لاتھی تلواروں سے جنگ جیتی جا سکتی ہو وہاں اب بھی ملک و دین جان و عزت بچانے کے لیے عوام الناس پر بھی جنگ فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  
تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تم پر دشوار ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم پر کوئی چیز شاق گزرے اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہارے نزدیک اچھی ہو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ ہی کو علم ہے اور تمہیں علم نہیں ہے۔ (البقرہ )
جہاد کا لغوی معنی ہے 
 اللہ کے دشمنوں سے جہاد جنگ کرنے میں اپنی پوری وسعت اور طاقت کو خرچ کرنا 
 اور جہاد کا شرعی معنی ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کفار سے جنگ میں اپنی پوری طاقت اور وسعت کو خرچ کرنا۔ 
جہاد کی دو قسمیں ہیں 
فرض عین اور فرض کفایہ اسلام کی تبلیغ کے لیے کافروں کو اسلام کی دعوت دینا اور اگر وہ اسلام کو قبول نہ کریں تو پھر ان کو جزیہ ادا کرنے کے لیے کہنا اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد کرنا فرض کفایہ ہے 
اور اگر کسی اسلامی شہر پر کافر حملہ کریں تو اس شہر کے مسلمان پر اپنے شہر کے دفاع کے لیے جہاد کرنا فرض عین ہے اور اگر اس شہر کے مسلمان اپنا دفاع نہ کرسکیں تو اس کے قریب کے شہر والوں پر جہاد کرنا فرض عین ہوجائے گا۔ علی ھذا القیاس اگر ایک اسلامی ملک اپنے دفاع کی اسطاعت نہ رکھے تو اس کے قریب کے ملک پر جہاد کرنا فرض عین ہوگا۔ 
علامہ کا سانی حنفی نے لکھا ہے 
اگر جہاد کے لیے روانہ ہونے کا مسلمانوں کو عام حکم دیا جائے تو جہاد فرض عین ہے اور اگر عام حکم نہ ہو تو جہاد فرض کفایہ ہے
 اور بعض مسلمانوں کے جہاد کرنے سے باقی مسلمانوں سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔
(بدائع الصنائع ج ٧ ص ٩٨‘ مطبوعہ ایچ۔ ایم۔ سعید اینڈ کمپنی ‘ ١٤٠٠ ھ) 
(تبیان القرآن سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 216)

یاد رہے موجودہ صورتحال میں ہم دعا کریں ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں احتجاج کرکے حکومت پر دبائو بنائے کہ وہ حکومتی سطح پر مسلم کنٹری کا جس طور پر بھی ہو سپورت کرے ضرورت پڑے تو اپنی فوج بھیج کر جہاد کرے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area