Type Here to Get Search Results !

کیا ہر فارغ اور سند یافتہ عالم ہے وارث نبی ہے؟


 ایک غلط فہمی کا ازالہ
(1) عالم کسے کہتے ہیں؟
(2) عالم ہونے کے لئے کسی دارالعلوم میں داخلہ لے کر سند حاصل کرنا ضروری و لازمی ہے؟
(3)‌ کیا ہر فارغ اور سند یافتہ عالم ہے وارث نبی ہے؟
(4) کیا عالم کے لئے مشہور اساتذہ سے پڑھنا یا ان کے لئے ان کا مشہور تلامذہ ہونا ضروری ہے؟
(5)‌ کیا دار العلوم سے عالم کی سند لینے والا ہی عالم کہلائے گا؟
(6) علم حاصل کرنے کا کون طریقہ ہے؟
(7) باقاعدہ تعلیم سے کیا مراد ہے؟ کیا دارالعلوم میں جاکر ہی تعلیم حاصل کرنے کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کو عالم کہتے ہیں؟
(8) آج کل ایک بات اور پھیلی ہوئی ہے کہ جو عالم قرآن شریف معروف سے نہیں پڑھتے ہیں وہ امام کے لائق نہیں ہے کیا معروف سے پڑھنا ضروری ہے اور اگر کوئی مجہول پڑھتا ہے تو وہ امامت کے لائق نہیں ہے کیونکہ قرآن شریف معروف نہ پڑھنے کی وجہ سے قاری حضرات عالم کو امامت سے ہٹا دیتے ہیں کیا یہ کام صحیح ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کے ایک جگہ یہ بات ہورہی تھی کہ فارغ شدہ عالم ہی عالم کہلانے کے حقدار ہے باقی نہیں اور عالم ہونے کے لئے سند ضروری ہے اور ہر فارغ شدہ عالم ہی وارث نبی ہے اس پر کسی نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے سوال طلب یہ ہے کیا ہر سند یافتہ عالم یا ہر فارغ شدہ عالم ہی وارث نبی ہے اور کیا عالم کے لئے سند ضروری ہے جس کے پاس عالم یا مفتی کی سند نہیں ہے اور وہ علم دین رکھتا ہے تو کیا وہ عالم یا مفتی نہیں کہلائے گا؟
سائل:- محمد ثناء اللہ انصاری سرور پور مقیم حال لدھیانہ 
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب :-
 دارالعلوم سے فارغ شدہ عالم ہی عالم کہلانے کے حقدار ہے یا مشہور اساتذہ سے پڑھنے والے ہی کو عالم کہا جائے یہ دونوں شرعا غلط خیال ہے اگر عالم کے معیار کے لئے اس قاعدہ کو قبول کرلیا جائے تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے لہذا یہ اسی کا قول ہوگا جو اسلاف کی کتابوں اور ان کی حالات زندگی کے مطالعہ سے غافل ہوگا اگر وہ اپنے قول میں سچا ہے تو کسی مستند کتاب سے اس قول پر حوالہ پیش کریں ورنہ حسد کی آگ میں نہ جلے ۔ ہاں دنیاوی اعتبار سے آج کل یہی طریقہ رائج ہے کہ پہلے مکتب پھر مدرسہ پھر دارالعلوم میں داخلہ لے کر علم دین حاصل کیا جاتا ہے لیکن یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے اور نہ یہ کوئی ضروری و لازمی اصول ہے بلکہ عالم اسے کہا جاتا ہے جو کسی استاذ سے باقاعدہ علم حاصل کرے اور اس علم پر عمل کرے اور خدا سے ڈرے ہاں علم دین حاصل کرنا ہے خواہ وہ مدرسہ میں داخلہ لے کر یا کسی عالم کے پاس جاکر یا پھر اپنے گھر میں کسی عالم کو رکھ کر علم حاصل کرے اور اس علم نافع پر عمل کرے کہ علم سے افضل عمل ہے 
 فتاوی مرکز تربیت افتاء میں سوال ہے کہ 
(1) عالم دین کسے کہتے ہیں یا یہ کہ عالم کی صحیح تعریف کیا ہے؟
(2)دوسرا سوال یہ ہے کہ 
فی زمانہ مدارس اسلامیہ کی جانب سے بکثرت طلبہ کو عالمیت و فضیلت کی دستار و سند سے نوازا جارہا ہے۔کیا یہ سب عالم دین کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں علماے دین کے جو فضائل و مناقب قرآن و حدیث میں آئے ہوئے ہیں کیا وہ سب ان پر صادق آتے ہیں ۔اگر نہیں تو کیوں؟
الجواب :-
عالم دین وہ ہے جو دین کے عقائد اور اعمال سے آگاہ ہو اور اپنی ضرورت کے مسائل خود کتابوں سے نکال سکے اب اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اپنے علم پر عامل بھی ہو تو وہ وارث نبی ہے
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم ص 513 514) 
اب آپ غور کریں کہ اس عبارت میں یہ کہیں منقول نہیں ہے کہ عالم دین وہ ہے جو صرف مدرسہ میں پڑھ کر سند حاصل کرلے یا اس کے مشہور اساتذہ ہوں یا اس کے تلامذہ بھی ہو یا وہ سند یافتہ ہوں بلکہ عالم دین وہ ہے جو دین کے عقائد اور اعمال سے آگاہ ہو اور اپنی ضرورت کے مسائل خود کتابوں سے نکال سکے اب اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اپنے علم پر عامل بھی تو وہ وارث نبی ہے؟
اس حساب سے واضح ہوا کہ ہر عالم وارث نبی نہیں ہے بلکہ جو اپنے علم نافع پر عامل یعنی باعمل عالم ہو وہ وارث نبی ہے ورنہ بے عمل عالم وارث نبی نہیں ہے 
اسی کتاب فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان اس حدیث کی شرح میں جس کا ایک جز "ان العلماء ورثۃ الانبیاء "ہے تحریر فرماتے ہیں کہ عالم دین سے وہ شخص مراد ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد فرانض و سنن مؤکدہ کو بجا لائے ضروری عبادتیں کرے یعنی بے عمل نہ ہو اور حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ 
حاصلہ ان العلم یورث الخشیۃ وھو تنتج التقوی وھو موجب الاکرمیۃ والافضلیۃ وفیہ اشارۃ الی من لم یکن علمہ کذالک فھو کالجاھل بل ھو جاھل۔
یعنی آیت مبارکہ "انما یخشی اللہ من عبادہ العلما" کا خلاصہ یہ ہے کہ علم دین خشیت الٰہی پیدا کرتا ہے جس سے تقوی حاصل ہوتا ہے اور وہی عالم کی اکرمیت و افضلیت کا سبب ہے اور آیت کریمہ میں اس بات کا اشارہ ہے کہ جس شخص کا علم ایسا نہ ہو وہ جاہل کے مثل ہے بلکہ وہ جاہل ہے۔
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم ص 514 بحوالہ مرقات شرح مشکوٰۃ ج 1 ص 231)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ اگر وہ عالم پابند شرع نہیں ہے تو وہ جاہل ہے اور وہ وارث نبی نہیں ہے اگرچہ اس کے پاس سند ہو پس معلوم ہوا کہ عالم وہی ہے جسے خشیت الٰہی حاصل ہے اور پابند شرع ہے 
کیا عالم کے لئے کسی دارالعلوم سے سند لینا ضروری ہے؟
(2) فتاویٰ فقیہ ملت میں ایک سوال ہے کہ کیا ہر سند یافتہ عالم کا وارث ہونا ثابت ہے ؟ 
اس کے جواب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 
انما یخشی اللہ من عبادہ العلما
یعنی اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور امام شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا 
انما العالم من خشی اللہ عزوجل
یعنی عالم وہ شخص ہے جسے خدا عزوجل کی خشیت حاصل ہو
اور امام ربیع ابن انس علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا ۔
من لم یخشی اللہ فلیس بعالم۔
 یعنی جسے خشیت الٰہی حاصل نہ ہو وہ عالم نہیں۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد دوم ص 362 بحوالہ تفسیر خازن و معالم التنزیل جلد پنجم ص 302)
ان عبارت سے واضح ہوا کہ عالم وہ ہے جسے خشیت الٰہی حاصل ہے اور جسے خشیت الٰہی حاصل نہ ہو وہ عالم نہیں ہے اور خشیت الٰہی حاصل کرنے کے لئے کسی دارالعلوم کی ضرورت نہیں ہے کسی سند حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اب فتاویٰ فقیہ ملت کی اسی جلد اور اسی صفحہ کی یہ عبارت پڑھیں کہ 
لہذاحدیث مذکورہ سے ہر سند یافتہ عالم کا وارث انبیاء ہونا ہر گز ثابت نہیں اس لئے کہ مراد صرف وہ علماء ہیں جو حقیقت میں عالم باعمل اور اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور علم حاصل کرنے کے بعد فرائض و سنن مؤکدہ ضروری عبادات کرتے ہیں۔ 
اور علم کی نشر واشاعت اور دین کی ترویج میں لگے رہتے ہیں ۔چاہے وہ سند یافتہ ہوں یا نہ ہوں کہ سند کوئی چیز نہیں علم ضروری ہے۔ (فتاویٰ فقیہ ملت جلد دوم)
اس عبارت سے صاف صاف واضح ہوا کہ
عالم ہونے کے لئے سند کوئی چیز نہیں ہے بلکہ علم ضروری ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ علم کس طرح حاصل کیا جائے 
تو اس سوال کا جواب بھی ہم آپ کو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کی تحریر ہی سے دے رہے ہیں تاکہ کسی کو رونے کی یا سمجھنے کی یا حسد کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ 
ملاحظہ فرمائیں
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ 
سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے۔
یہ قول میرا نہیں ہے بلکہ امام اہل سنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ سند کوئی چیز نہیں علم ضروری ہے اور یہ قول حدیث کے مطابق بھی ہے کہ اصل علم دین ہے  
حدیث شریف میں "العلم حیاۃ الاسلام" رواہ ابو شیخ یعنی علم دین اسلام کی زندگی ہے۔ ( کنز العمال ج 10 ص 76)
حدیث شریف میں ہے
"العلم میراثی و میراث الانبیاء قبلی" یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم دین میرا میراث ہے اور جو مجھ سے پہلے انبیاء گزرے ہیں ان کی میراث ہے۔
( کنز العمال ج دہم ص 77)
علم دین کا سیکھنا فرض ہے خواہ مدرسہ میں داخلہ لے کر یا کسی عالم کے پاس جاکر اور اسی پر قیاس کرکے کسی عالم کو اپنے یہاں بحال کرکے سیکھے اور اگر علم دین سیکھ کر عمل نہ کرے تو جاہل ہے اور وارث نبی نہیں ہے جیسا کہ ملا علی قاری نے فرمایا "بل ھو جاہل" یعنی بلکہ وہ جاہل ہے ہاں اور باعمل ہے تو وارث نبی ہے
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا علم مدرسہ یا دارالعلوم میں جاکر ہی حاصل کرنا ضروری ہوگا یا کوئی طریقہ بھی ہے 
تو یہ فقیر اس سوال کا جواب بھی امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کی تحریر سے دے رہا ہے کسی کو اب اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے اور دینی مذہبی فقہی کام کرنے والے سے لوگوں کو اس بنیاد پر گمراہ کرنے کا راستہ نہ ملے بلکہ راستہ ہی بند ہو جائے امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 
سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر اور جس نے بے قاعدہ تعلیم پائی وہ جاہل محض سے بدتر نیم ملا خطرہ ایمان ہوگا ایسے شخص کو فتویٰ نویسی پر جرات حرام ہے۔
حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: 
من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض۔
یعنی جو بے علم فتویٰ دے اس پر آسمان وزمین کے فرشتوں کی لعنت ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 716 اور فتاوی رضویہ جلد قدیم نہم نصف آخر ص 308) (فتاوی فقیہ ملت جلد دوم ص 362 ) 
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) سند کوئی چیز نہیں ہے
(2) ہاں باقاعدہ علم دین پانا ضروری ہے
(3) اور باقاعدہ علم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں
(الف) اول کسی مدرسہ میں جاکر علم دین حاصل کرے 
(ب) یا کسی عالم کے مکان پر جاکر علم حاصل کرے 
اب آپ بتائیں کہ باقاعدہ علم حاصل کرنے کے لیے کسی عالم کے گھر جاکر بھی ان سے تعلیم باقاعدہ حاصل کرنے والے کو عالم کہنا جائز ہوا یا نہیں؟ بلکہ اسے عالم کہنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں خشیت الٰہی ہو اگر وہ متقی پرہیز گار نہ ہو عمل صالح کرنے والا نہ ہو فرائض، واجبات، سنن مؤکدہ پر قائم نہ ہو اگرچہ سند یافتہ عالم ہوں وہ ہر گز وارث نبی نہیں ہے ۔اب کوئی اپنے اعلیٰ حضرت پیشوائے اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات نہ مانے وہ کیسا ماننے والا کہلائے گا خود غور کریں 
اور ذرا حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تحریر کو بھی پڑھیں کہ حضور اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
 سند کوئی چیز نہیں۔بہترے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی ان کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتوں میں نہیں ہوتی ہے علم ہونا چاہیے۔ اور علم الفتوی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدت ہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہوں مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیل بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 682)
اس تحریر سے واضح ہوا کہ
(1)‌سند کوئی چیز نہیں
(2) آج کل کے بہیترے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں۔
(3) بلکہ جنہوں نے سند نہ لی ان کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتوں میں نہیں ہوتی۔
(4) علم الفتوی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو۔
(5) بلکہ مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس و تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء میں حاضر رہتے اور تحقیق مسائل ان کا شغل تھا تو فقیر نے یعنی امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیل سے بدرجہا زائد تھے۔
(6) اس حکم میں کل فارغ التحصیل سند یافتہ عالم یا مفتی شامل نہیں ہے اسی لئے حضور اعلٰی حضرت عظیم البرکت نے کل عالم نہ کہا بلکہ بعض عالم سے زائد علم رکھتے ہیں یعنی بعض عالم فرمایا
اب ان عبارتوں سے خلاصہ ہوگیا کہ بعض بے سند عالم بعض سند یافتہ عالم سے علم میں زائد ہوتے ہیں۔
لہذا عالم ہونے کے لئے سند کو معیار نہیں بنانا چاہیے بلکہ علم کامل ہونا چاہئے خواہ سند یافتہ ہوں یا نہ ہوں اور عالم اور وارث نبی کہلانے کے لئے علم کے علاؤہ عمل صالح کی ضرورت ہے 
آج کل کے فارغین مدرسہ کے بارے میں حضور فقیہ الہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ملاحظہ فرمائیں حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
اس زمانے میں عالم اور عالم نما غیر عالم میں تمیز مشکل ہے عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کا ہر فارغ عالم ہے حالانکہ یہ بنیادی غلطی ہے۔
(نزھۃ القاری جلد نہم ص 242)
آج کل کے فارغین حضرات اس عبارت کو سمجھ کر پڑھیں کہ مدارس کا ہر فارغ عالم ہے حالانکہ یہ بنیادی غلطی ہے اس لئے اپنے آپ کو عالم سمجھنا اور دوسرے کی توہین کرنا کس قدر غلط خیال ہوگا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ" ثلثۃ لا یستخف بحقھم الا منافق بین النفاق ذوالعلم و ذوالشیںۃ فی الاسلام و امام مقسط"
یعنی تین شخصوں کا حق ہلکا نہ جانے گا مگر جو منافق کھلا منافق ہو عالم اور جسے اسلام میں بڑھاپا آیا اور سلطان اسلام عادل ۔اس لئے کسی عالم کی یا کسی ضعیف مسلمان کی توہین نہ کرے بلکہ ادب سے پیش آئے خیر اب اس کے بعد پھر شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس قول کی تائید میں تحریر فرمارہے ہیں کہ 
اولا آج کل دینی مدارس کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے مدارس والے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے فارغین کی تعداد بڑھانے کے لئے ہر کس ناکس کو پگڑی باندھ دیتے ہیں اور سند دے دیتے ہیں حالانکہ 
درس نظامی کی تکمیل خود عالم ہونے کی دلیل نہیں۔ واقعی جس شخص نے محنت کے ساتھ کما حقہ درس نظامی پڑھ بھی لیا تو وہ صرف اتنی استطاعت رکھتا ہے کہ عالم ہوسکے درس نظامی عالم ہونے کا پہلا زینہ ہے عالم ہونے کے لئے ابھی بہت کچھ باقی رہ جاتا ہے۔کثرت مطالعہ اصول و فروع کا قدر معتدبہ استحضاء پھر خدا ترسی ۔استقامت ۔حق گوئی اور دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا پرواہ نہ کرنے کی عادت ۔ذہانت ۔فطانت ۔معاملہ فہمی ۔وغیرہ ایسے امور ہیں کہ ان سب کا اجتماع شاید باید کسی میں پاتا ہے۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد نہم ص 342.343)
 حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی ان تمام باتوں پر وہ لوگ غور کریں جو اپنے آپ کو سند والے عالم یا سند والے مفتی کہتے ہیں اور دوسرے کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں کیا آپ خود اس معیار پر ہے خود اپنے آپ کو دیکھیں پھر دوسرے پر اعتراض کریں ہاں ایسا بھی نہیں ہے کہ سند لایعنی چیز ہے بلکہ اس کا بھی ایک دستور آرہا ہے جیسے سند حدیث سند فقہ وغیرہ اسی لئے دینی مدارس کھولے جاتے ہیں جہاں غرباء مساکین امراء بچے علم دین حاصل کرتے ہیں اور مدرسہ کھولنا ثواب کا کام ہے اس کی مدد کرنی بھی کار ثواب ہے لیکن یہ کوئی ضروری و لازمی چیز نہیں ہے کیونکہ مدرسہ کھولنا مستحب ہے اور علم دین سیکھنا فرض ہے اب وہ علم دین مدرسہ میں حاصل کرے یا کسی عالم سے حاصل کرے اور ظاہر سی بات ہے کہ جو کسی عالم کے گھر جاکر علم حاصل کرے گا اسے سند حاصل نہیں ہوگی ہاں وہ عالم اپنی سند دے سکتا ہے جو رائج ہے ہاں گورنمنٹ کی نوکری پانے کے لیے گورنمنٹ کے ادارہ سے سند لینا ضروری ہوگا ورنہ نوکری نہیں ملے گی بس نوکری کے لئے سند کی ضرورت ہے اور عالم یا مفتی کے لئے سند ضروری نہیں ہے اور جو مفتی یا عالم کے لئے سند کو معیار بناتا ہے یہ اس کی بنیادی غلطی ہے ہاں وارث نبی کہلانے کے لئے علم نافع و عمل صالح اور خشیت الٰہی ہے اگر عمل صالح اور خشیت الٰہی نہیں ہے تو وہ جاہل ہے اگرچہ با سند ہو اور فارغ شدہ ہو   
الحاصل علم دین خشیت الٰہی پیدا کرتا ہے جس سے تقوی حاصل ہوتا ہے جس کا علم ایسا ہے وہی عالم اور وارث نبی ہے اگر نہیں ہے تو وہ وارث نبی نہیں ہے اگرچہ سند یافتہ ہو 
اور اگر وہ عالم دین جو متقی ہے وہ وارث نبی ہے اگرچہ اس کے پاس سند نہ ہو یعنی عالم کے لئے سند کوئی ضروری نہیں ہے اور وہی عالم وارث نبی ہے جو متقی ہے حدیث شریف میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں عالم اگر اپنے علم پر عمل کرے جب اس کی مثال شمع کی طرح ہے کہ آپ جلے اور تمہیں روشنی دے  
یہ بھی خیال رہے کہ علم تین ہے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
"کل العلوم سوی القرآن مشغلۃ ۔الا الحدیث وعلم الفقہ فی الدین " یعنی قرآن وحدیث اور فقہ دینی کے علاؤہ تمام علوم ایک مشغلہ ہیں" فقیہ ابو اللیث قال من اشتغل بالکلام محی اسمہ من العلماء "یعنی مشہور فقیہ ابو اللیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو علم کلام میں مشغول رہے اس کا نام دفتر علماء سے مٹ گیا. 
یہ تحریر سند یا بے سند کے متعلق ہے لیکن یہ خیال رہے کہ عالم دین باعمل ہر مسلمان کے حق میں عموما اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصا نائب حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے جو ہم نے اس تحریر میں بیان کیا ہے وہ اہل دانش کے لئے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا عالم ہے
حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ ۔کیا واعظ کا عالم ہونا ضروری ہے ؟ 
آپ نے ارشاد فرمایا غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ہے
پھر سوال ہوا کہ عالم کی کیا تعریف ہے،؟
 ۔حضور اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے ارشاد فرمایا عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو ۔اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے 
پھر سوال ہوا کہ کتب بینی ہی سے علم ہوتا ہے؟
 ارشاد فرمایا یہی نہیں بلکہ افواہ رجال سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
(الملفوظ سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلد اول ص 5.4)
آپ حضرات افواہ رجال پر غور فرمائیں کہ افواہ رجال سے بھی عالم ہوسکتا ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے بھی کسی بزرگ نے فرمایا کہ افواہ رجال سے علم حاصل ہوتا ہے ؟
ہاں حضور سلطان المحققین حضرت مخدوم جہان شیخ شرف الدین احمد یحی منیری رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
العلم یؤخذ من افواہ الرجال۔
یعنی علم اہل علم کے انفاس طیبہ یعنی ان سے کلام کرکے حاصل کیا جاتا ہے (یعنی افواہ رجال سے)  
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا ۔علوم میں اس درجہ پر آپ کیسے پہنچے ؟ فرمایا جو میں نہیں جانتا ہوں اس کے پوچھنے میں کسی سے میں نے شرم نہیں کی 
بپرس ہر چند ندانی کہ ذل پرسیدن ۔دلیل راہ تو گرد وبعز ودانائی
 یعنی جس کا تجھے علم نہیں وہ جاننے والے سے پوچھ ۔کیوں کر پوچھنے کی ذلت تیری عزت و دانائی کا چراغ راہ ہوگا۔
(مکتوبات دو صدی مترجم ص 115)
بس اے لوگوں علم دین حاصل کر خواہ مدرسہ میں جاکر یا کسی عالم کے گھر جاکر یا کسی عالم کو اپنے پاس رکھ کر یا کتب بینی کر کر یا علماء سے پوچھ پوچھ کر یہ مت دیکھ کہ وہ ہم سے کم ڈگریاں رکھتا ہے یہ مت دیکھ کہ وہ ہم سے کم عمر والا ہے کیا تم نے نہیں سنا کہ 
یقین میداں کہ شیران شکاری
دریں رہ خواستند از مور یاری
یعنی یقین کرو کہ شکاری شیروں نے اس راہ میں چیونٹی سے مدد لی ہے بس علم والوں سے علم حاصل اور اس علم پر عمل کر کیوں کہ علم ہی تجھے مقرب بنادے گا تم نے نہیں دیکھا کہ عالم باعمل کی قدر ہوتی ہے اور بے عمل کی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے
جو شخص سند یافتہ یا بے سند یافتہ عالم ہے اور عمل صالح سے دور ہے ایسے عالم کےمتعلق سرکار سلطان المحققین حضرت مخدوم جہان شیخ شرف الدین احمد یحی منیری رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا کہ وہ لوگ جو آج اپنی خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ہم عالم ہیں ۔ان بزرگوں کے نزدیک ابھی تک ایسے ہی ہیں کہ ماں کے شکم میں باپ کے صلب سے بھی نہیں پہنچے ۔
اے بھائی ! بزرگوں کا قول ہے کہ جس کسی تک انبیاء کی میراث نہیں پہنچی ہے وہ اب تک پیدا ہی نہیں ہوا ہے اگرچہ وہ دانشوری کے کمال تک پہنچ چکا ہو ( یعنی بڑی سے بڑی ڈگریاں رکھتا ہو) ( ( مکتوبات دو صدی مترجم ص 112.113) یعنی وہ عالم کی ڈگری رکھتا ہے مگر بے عمل ہے تو وہ وارث نبی نہیں ہے
*کیا جو سند یافتہ یا کسی دارالعلوم میں جاکر باقاعدہ علم حاصل نہیں کیا وہ جاہل ہے*.؟
الجواب ۔یہ غلط بات ہے کیونکہ اس اصول و قاعدہ کو مان لیا جائے تو بہت اکابرین پر سوال اٹھ جائے گا کیونکہ 
جاہل کا معنی 
ان پڑھ ۔ناخواند ۔وحشی ۔بداخلاق ۔بے ادب ۔گستاخ ۔نادان ۔اناڑی ۔ناواقف ۔بے خبر ۔انجان ( فیروز اللغات ص 448)
بلکہ عالم کے لئے سند ضروری نہیں ہے ہاں باقاعدہ علم حاصل کرنا چاہئے خواہ مدرسہ میں رہ کر یا اپنے گھر پر یا کسی عالم کے پاس جاکر ہاں جو عالم باعمل نہیں وہ جاہل ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں" بل ھو جاھل" بکہ وہ جاہل ہے اور جو عالم باعمل ہے وہی اصل عالم ہے
 (7)
*باقاعدہ تعلیم سے کیا مراد ہے؟ کیا دارالعلوم میں جاکر ہی تعلیم حاصل کرنے کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کو کہتے ہیں*.؟
الجواب ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
سند کوئی چیز نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر اور جس نے بے قاعدہ تعلیم پائی وہ محض جاہل ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 716)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدرسہ ہی میں جاکر تعلیم پانے کو باقاعدہ تعلیم پانا نہیں کہا جاتا ہے بلکہ کسی عالم کے مکان پر جاکر ان سے باقاعدہ تعلیم پانے کو بھی باقاعدہ تعلیم پانا کہا جائے گا 
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
تحصیل زر کے لئے علماء و مسلمین پر بیجا حملہ کرنے والا ظالم ہے اور ظلم قیامت کے دن ظلمات قاضی مذکور جیسے امام کے پیچھے بلاوجہ شرعی نماز ترک کرنا تفریق جماعت یا ترک جماعت ہے اور دونوں حرام و ناجائز ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 717)
الجواب سوال دوم ۔
نماز میں یا غیر نماز میں قرآن شریف معروف پڑھنا ضروری نہیں ہے اگر کوئی اسے ضروری قرار دیتا ہے تو اس کی یہ بنیادی غلطی ہے ۔مجہول پڑھیں یا معروف پڑھیں مگر شرط یہ ہے کہ اس سے معنی فاسد نہ ہو اور ادائیگی درست ہو ترتیل سے پڑھیں تو نماز ہوجاتی ہے
حضور بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
معروف ۔مجہول ۔لحن خفی ۔لحن جلی ۔یہ سب قاری حضرات کی اصطلاحیں ہیں جن کی رعایت وہ حضرات تلاوت قرآن کے وقت ملحوظ رکھتے ہیں اور اس سے قرآن پاک کی تلاوت میں حسن و خوبی اور زیب و زینت پیدا ہوتی ہے ۔اور یہ امر مستحسن ہے ۔لیکن نماز و امامت کی صحت کا دار مدار ان پر نہیں۔ صدر الشریعہ مولانا شاہ امجد علی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب بہار شریعت حصہ سوم ص 105 میں فرماتے ہیں:
اس باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے تو نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں ۔(فتاوی بحرالعلوم جلد اول ص 331)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 5 جمادی الثانی 1444
مطابق 29 دسمبر 2022

بواسطہ:- محمد جنید عالم شارقؔ مصباحی بیتاہی؛ مدرسہ رضویہ فیض العلوم، فیض نگر پرسا، پریہار، سیتامڑھی بہار

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area