Type Here to Get Search Results !

کتابیں جو تعارف کا تقاضہ کرتی ہیں!


 کتابیں جو تعارف کا تقاضہ کرتی ہیں!
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
تنویرالعلماء خدمات وشخصیات
_________(❤️)_________ 
ازقلم:- محمد قمر انجم قادری فیضی ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف
 شخصیت (Personality) کی ایک جامع تعریف کرنا بہت مشکل ہے سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes) کا مجموعہ ہے۔ مثلًا اگر کوئی کسی سے پوچھے کہ تمھارے دوست کی شخصیت کیسی ہے؟ تو اگر مثبت جواب دینا ہو تو شاید وہ یہ کہے کہ اس کی چند صفات یہ ہیں کہ وہ محنتی، وقت کا پابند، ذہین اور مخلص ہے
،اور منفی کہنا تو اس کے کاہل، لاپرواہ اور غیر ذمے دار ہونا بیان کیا جا سکتا ہے۔
شخصیت: فرد کے ذہنی ،جسمانی ،شخصی ،برتاؤ ،رویوں ،اوصاف اور کردار کے مجموعہ کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر اگر سہل انداز میں شخصیت کی تعریف کی جائے تو یہ انسان کے ظاہری و باطنی صفات ،نظریات اخلاقی اقدار ،افعال احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ ظاہری حسن و جمال وقتی طور پر کسی کی توجہ تو مبذول کرسکتا ہے لیکن کردار کا دائمی حسن ہی انسان کو زندہ جاوید بناتا ہے۔ تعمیر کردار میں فکر و نظریات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ اس لیے شخصیت کا عمومًا دار و مدار کسی کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے ہوتا ہے، جو اس کی حقیقی فطرت اور اس کی طرز زندگی اور سوچ پر محمول ہوتا ہے۔
بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ رب ذوالجلال نے اسے دوسری مخلوقات پر یہ فوقیت علم کی بنا پر عطا کی ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک علمی، مذہبی، انقلابی، عبقری شخصیت، مفتی اعظم مندسور علامہ عبدالمنان بسمل قادری رضوی نوری بستوی رحمۃ المنان کا ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یاد رکھنا بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ 
انہی مقاصد کے پیش نظر مشہور قلمکار معروف ادیب حضرت علامہ مولانا بلال احمد نظامی مندسوری صاحب قبلہ مدظلہ و طال اقبالہ علاقہءِ مالوہ کے مندسور گردو نواح میں علمی ادبی اور مذہبی انقلاب برپا کرنے والی عظیم شخصیت تنویرالعلماء حضرت علامہ مفتی عبدالمنان بسمل قادری رضوی نوری بستوی مندسوری [1963-2020ء]کی اولین سوانح بنام تنویر العلماء حیات وخدمات ترتیب دی ہے۔۔
 ریحانة العصر شیخ العلماء حضرت علامہ تنویرالعلماء مفتی عبدالمنان بسمل قادری رضوی نوری بستوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی 2020ء/ عصرِ حاضر کی ان چند منتخب اور برگزیدہ شخصیتوں میں سے تھے، جن کو ربِ دوجہاں نے کسی دور میں علاقہ مالوہ والوں کے فیض رسانی کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ ملک ہندوستان کے علماء و فضلاء میں ان کی ذات علم و فضل، تقدس و تقوی اور جہد و عمل کا ایسا پیکر جمیل تھی، جس کے آگے اپنے و پرائے سب سربہ خم تھے۔ حضرت تنویرالعلماء نوراللہ مرقدہ اس کاروانِ دعوت و عزیمت کے ایک فرد تھے، جس نے مندسور میں دین حق کی شمع روشن رکھنے کے لیے عہد آفریں کارنامہ انجام دیا ہے۔
حضرت تنویرالعلماء مفتی عبدالمنان بسمل قادری علیہ الرحمہ نے درس و تدریس، تصنیف وتالیف، اصلاحِ باطن اور تزکیہٴ قلوب کے جو تابناک نقوش اور ہدایت افزا آثار چھوڑے ہیں، اُن سے آج ایک عَالَم اکتسابِ نور کر رہا ہے۔ اپنے عہد کی اسی عبقری و انقلابی شخصیت کی حیات، خدمات اور کارناموں کے تَذکار کے لیے "تنویرالعلماء حیات و خدمات“یہ ادیب شہیر حضرت علامہ بلال نظامی مندسوری کا یہ حسنِ انتخاب ہے، جو انہوں نے اپنی اس خصوصی اشاعت کے ذریعہ پیش کی ہے، مولانا محمد بلال نظامی صاحب، اور ان کی یہ حسین پیش کش ترتیب، تہذیب، آرائش و زیبائش، تقدیم، تقریظ، ہر اعتبار سے لائقِ تحسین و آفرین ہے، اس کتاب میں حضرت تنویرالعلماء کی متنوع ،علمی، و عملی، ادبی، انقلابی زندگی کے ہر گوشے کو صحیح طور پر نمایاں کرنے کی سعی مشکور کی گئی ہے۔ عنوانات کی ترتیب میں اصحابِ علم و قلم کی عظمت و شہرت کی بجائے مضامین کی افادیت کا لحاظ کیا گیا ہے جو بلاشبہ ایک مستحسن طریقہ ہے غرضے کہ ”تنویرالعلماء" کی یہ خصوصی اشاعت ہر اعتبار سے ایک مجموعہ ءِ حسن و خوبی ہے، جس پر علامہ بلال احمد نظامی صاحب بجا طور پر جملہ ارباب علوم و فنون کی طرف سے مستحقِ مبارک باد ہے ”ایں کار از تو آید، مرداں چنیں کنند“
قارئین کرام کے پیش نظر تنویرالعلماء کی مختصر خدمات پیش کی جاتی ہیں، 
ولادت باسعادت :
آپ کی ولادت باسعادت 15/ جنوری 1963ء/ کو بکھرا بازار ضلع بستی(موجودہ خلیل آباد) یوپی میں شیخ یاسین نوری مرحوم کے یہاں ہوئی، اور اپنے والد گرامی و دادا مرحوم کے زیر سایہ رہ کر علمی و دینی ماحول میں پرورش پائی، آپ کا نام عبدالمنان رکھا گیا تھا، آپ تنویر العلماء، مفتی اعظم مندسور کے لقب سے مشہور و معروف ہوئے، 
شاعری میں آپ کا تخلص'بسمل'تھا۔
تنویرالعلماء کی ابتدائی تعلیم گھر میں دادا مرحوم کے زیر سایہ ہوئی اور فراغت اہلسنت والجماعت کے مشہور و معروف درسگاہ دارالعلوم تنویرالسلام امر ڈوبھا سے ہوئی، 
آپ کے اساتذہ کرام میں، شیخ الصوفیاء خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی مفتی نظام الدین برکاتی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم تنویرالاسلام امرڈوبھا سے وابستہ رہ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔۔[تنویرالعماء حیات وخدمات ص18َ]
دینی وعلمی خدمات:

اندھیرے میں چراغ روشن کرنا__
آپ کی دینی وعلمی خدمات کے بارے میں مرتب مولانا بلال احمد نظامی صاحب لکھتے ہیں:
بنے بنائے ماحول میں،تعمیر شدہ اداروں میں، جہاں پہلے سے تھوڑی ہی صحیح، لیکن علمی اور عملی ماحول سازی ہو، علمی کرنوں سے کچھ نہ کچھ روشنی ہو، ایسے مقامات پر عملی دینی مذہبی، فلاحی کام کرنا قدرے آسان ہے،
 اس لیے کہ یہاں چراغ سے چراغ روشن کرنا ہے لیکن جہاں علمی اور مذہبی اعتبار سے تاریکی ہی تاریکی ہو ایسی اندھیرے میں چراغ روشن کرنا اور ظلمت جہل کو دور کر کے نور علم کی کرنوں کو پھیلانا کسی مرد قلندر مرد مجاہد عزم و استقلال اور صبر و جفا والے عالی ہمت مومن ہی کا کام ہو سکتا ہے۔۔انھیں عالی ہمت افراد میں حضرت تنویر العلماء کی ذات گرامی بھی ہے انہوں نے مندسور کی سنگلاخ و بنجر زمین پر دین و سنیت اور علم ادب کی کاشت کر کے علاقہءِ مندسور کو بہار علم و عمل سے مالا مال کر دیا۔۔
 جو علم و عمل اور دین و سنیت کی جو بھی بہار ہے وہ آپ کی کاوشوں اور جگر کاویوں کا منھ بولتا ثبوت ہے یہ اعتراف حقیقت ہے اس میں مبالغہ اور غلو نہیں ہے ہر منصف مزاج شخص جب یہاں کے 1980ء/ سے 1990ء/ تک کے حالات کا جائزہ لیتا ہے تو اس پر یہ حقائق آشکارا ہو جاتے ہیں،
 روداد غم:
 حضرت تنویر العلماء کی مندسور آمد بڑے ہی سازازگار حالت میں ہوئی، خاص کر آپ کو ابتدائی دور میں بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا، آپ کی جانب بارہا اپنوں اور غیروں کی طرف سے غم و اَلم کی اندھیاں اٹھائی گئیں مگر آپ مرد میداں بن کر ڈٹے رہے۔انہیں غم و الام کے چند جھلکیاں
قارئین کرام کو نظر کی جاتی ہیں، تاکہ انہیں کچھ اندازہ ہو جائے کہ آج کی اِن علمی دینی اور ادبی بہاروں کے قیام کے لیے کتنی باد سموم کو سہنا پڑا ہے۔۔
 تنویرالعلماء مندسور میں کسی مدرسے (مکتب نما) میں بہ حیثیت مدرس تشریف لائے تھے لیکن اہل مدرسہ نے ناقدری کرتے ہوئے کچھ ماہ بعد کہہ دیا کہ ہم آپ کا انتظام و انتصرام نہیں کر سکتے، 
 آپ لکھتے ہیں__
 منتظمین نے دامن جھاڑ دیا ،معاملہ بڑی کشمکس کا سامنے آگیا، کروں تو کیا کروں؟ چونکہ میں باضابطہ 1500/ روپیہ ماہ وار علاوہ قیام و طعام کے طے کر کے آیا تھا مگر سب کچھ الٹا ہو گیا،[تنویر العلماء کی ڈائری] 
مذکورہ اقبتاس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کمیٹی نے آپ کو بلا کر دھوکہ دیا لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اہل کمیٹی کون تھے۔
اس لیے مذکورہ اقتباس سے پہلے کی تحریر دستیاب نہ ہو سکی اہل کمیٹی کے اس عمل کا آپ پر جو اثر ہوا، اسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں__
 آخر کار دل اچاٹ ہو گیا اور یہ ہوا کہ 
واپس چلو ،اور ارادہ مکمل ہو گیا کہ اب نہیں رہنا ہے، مگر جب خوش اخلاقی اور فیاضی بھرے خاندان [محمد حسین ممبر صاحب کپڑے والے اور فاروق نظامی] کو معلوم ہوا کہ جا رہے ہیں تو ان لوگوں نے پوری طاقت سے ہمہ جہت کی سہولتوں کے ساتھ روک لیا ،اور مدرسہ دین محمدی میں صِرف پڑھانے کے لیے رہ گیا۔[ایضاً] 
 یہاں بھی منتظمین کی بد عہدی نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا، 
اگے آپ لکھتے ہیں__
 پھر جب مہینہ پورا ہوا،تنخواہ کی رقم ہاتھ میں آئی تو بےحد صدمہ ہوا کہ طے شدہ رقم 1500/ روپے کی جگہ چھے سو 600/ روپے دیا، جب حاجی ولی محمد تالے چابی والے سے بات ہوئی تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ بات تو ہوئی تھی مگر ہم اس سے زیادہ نہیں دے سکتے.. 
 خیر صبر و قناعت کے بھروسے یہ سوچ کر کام جاری رکھا کہ مولی تعالی کوئی راستہ ضرور نکالے گا مگر بڑی مشکل سے ساڑھے تین ماہ گزرے ۔
ان نامساعد حالات میں آپ نے محض رضائے الہی اور فضائے مندسور میں علم و ادب کی خوشبوبکھیرنے کی خاطر اس تلخ نوائی اور منافقانہ [یہاں مناقفانہ ہوگیا ہے] رویوں کو بھی برداشت کر لیا لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ__
 مرض بڑھتا گیاجوں جوں دوا کی__
 منتظمین مدرسہ نے ایک ایسی حرکت کر دی جس سے آپ دل برداشتہ ہو گئے اور مدرسہ دین محمدی سے مستعفی ہو گئے، 
آپ لکھتے ہیں:
 اُسی زمانے میں امام اہل سنت سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کے عرس کا موسم آیا اسٹاف نے یعنی قاری عبدالرشید مرحوم اور مولانا صابر حسین شاہ ملتانی نے پروگرام رچایا اور فاتحہ کا اہتمام کیا، 
بعد نماز ظہر جب میں مدرسہ پہنچا تو شور و غل اور جھگڑا ہوتا ہوا پایا، معلوم کرنے کے بعد پتہ چلا کہ عرس اعلی حضرت کے اہتمام سے حاجی والی محمد ناراض ہو گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ،ہم نہیں جانتے کسی عالی حضرت، اعلی حضرت کو، کوئی عرس پھرس نہیں ہوگا…
اس طرح کے جملے سنتے ہی پاؤں تلے زمین کھسک گئی اور دل کسی طرح راضی نہ ہوا کہ اب اس جگہ کام کروں، بالٓاخر استعفی دے دیا اور ڈیڑھ دو مہینے کی تنخواہ بھی لینے نہیں گیا۔[ ایضاً] 
(ص44 سے47َ)
 آپ کے عہد شباب کی یہ مشکلیں اور صبر و قناعت کا پیکر بن کر خدمت دین کرنا، دین و مذہب کے لئے ماحول سازی کرنا، یقیناً یہ آپ ہی کا خاصہ تھا مگر آپ کا دورِ غم یہیں پر ختم نہیں ہوا[ ص47]
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا 
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے یہ 
میر تقی میر
[اصل شعر اس طرح ہے] 
مدرسہ دین محمدی سے مستعفی ہونے کے بعد آپ کے پاس ذریعہ معاش کچھ نہیں بچا تھا، پھر وطن لوٹنے کا خیال آیا، لیکن محمد حسین کپڑے والے، ممبر صاحب، اور فاروق بھائی نظامی کی محبتوں نے پاؤں کی بیڑیاں بن کر آپ کو روک لیا۔
آپ کا قیام انجمن اسلام کی بلڈنگ میں تھا، اس وقت انجمن اسلام ایک ویران عمارت کی شکل میں قائم تھا، 
وہاں موذی جانوروں کا بسیرا تھا، پاس پڑوس آبادی بھی بہت کم تھی، سنسان علاقہ تھا مگر پھر بھی وہاں آپ قیام پذیر رہے، اس امید کے ساتھ کہ اج نہیں تو کل امید کی کرن پھوٹے گی اور ہر سو روشنی ہی روشنی ہوگی۔۔
آپ انجمن کی ہی بلڈنگ میں خاندانی پیشہ 'سلائی' کا کام کرکے گذر بسر کا سامان کرتے اور فی سبیل اللہ بعد نماز مغرب اور بعد نماز عشاء محفک درس، سجاتے، جس میں نوجوان اور بڑی عمر کے حضرات شریک ہوتے، اا طرح آپ مستقبل کے لئے منصوبہ سازی اور ماحول سازی میں لگے رہے، جس کے نتیجے میں "دارالعلوم گلشن طیبہ" وجود میں آیا__
کہتے ہیں کہ جب دین و مذہب کی سرفرازی اور اشاعت حق جے کے لئے کوئی مرد قلندر عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تو اسے ہر چہار جانب سے فتنے گھیر لیتے ہیں، اور اسکے راستے میں قسم قسم کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں، شیطان اپنے تمام حربوں سے اس کے پائے استقلال کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب مرد حق آگاہ اپنے رب تعالی پر توکل کرتے ہوئے اپنے مشن سے لگا رہتا ہے تو قدرت غیبی سے بھی اس کی امداد کے سامان فراہم ہوتے ہیں ۔۔
 حضرت تنویرالعلماء کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب ادارہ بعد قیام عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کرنا لگا تو فتنہ انگیزوں نے اس قدر شر اور فتنے پھیلائے کہ کوئی کمزور دل اور نازک مزاج شخص اسے برداشت نہ کرسکے۔
لیکن حضرت تنویرالعلماء کو مندسور کے لئے اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا تھا، اس لئے آپ کو قدرت سے تائید غیبی حاصل ہوتی رہی اور آپ کوہ عزم و استقلال بن کر سرفرازئی دین کے لئے کمر بستہ رہے ۔۔
آپ جب ادارہ قائم کرنے کے لئے شہر کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی ایک میٹنگ رکھی اور اس میں قیام ادارہ کا منصوبہ پیش کیا تو اکثر حضرات نے دل خراش باتیں کیں، 
ایک صاحب نے کہا کہ "کیا اب یہاں ملا مولوی کی جماعت تیار کریں گے؟" ایسے دل خراش اور افسوسناک جملے سن کر آپ کو ازحد صدمہ پہنچا، البتہ آپ کے چند محبین نے کہا کہ آپ کام شروع کیجئے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ نے ان مددگاروں کے ساتھ ادارے کی بنیاد رکھدی، جس کے فیضان سے نہ صرف مندسور بلکہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے بہت سارے اضلاع فیضیاب ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں ۔
قیام ادارہ کے بعد فتنہ پروروں کی فتنہ پروری اور شر انگیزی عروج پر پہنچ گئی، انھوں نے آپ کی ذات اور ادارے کی ساکھ کو داغ دار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن 
جسے خدا رکھے اس کون چکھے، 
آپ نے کافی مشقیں، طعن و وتشنیع برداشت کئے اور اپنے مستحکم ارادوں پر ڈٹے رہے یہاں تک آپ علاقہ مندسور کی فضاؤں میں علمی ادبی ماحول بنانے میں کامیاب و کامران ہوگئے۔
ہم نے طے کی اس طرح سے منزلیں
گر پڑے گر کر اٹھے پھر چل پڑے 
۔الحاصل آپ کی زندگی کے شب و روز کو پڑھ کر علماء کرام، ائمہ کرام، و دیگر فیلڈ میں کام کرنے والوں کو درس عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ کامیابی ایسے آسانی سے نہیں میسر ہوجاتی بلکہ اس کے لئے جہد مسلسل، شب بیداری، خلوص و للہیت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
قارئین کرام: مطالعے کے باب میں اپنے لیے درست سمت کے تعین اور مفید طرز کے انتخاب کی صورت یہ ہے کہ جن شخصیات نے اپنی زندگی کے شب وروز علم دین، شریعت اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کیلئے وقف کردی ہو، اپنا آپ کتابوں میں کھپا دیا ہو، دنیا اور اس کے تنعمات کو حصول علم کیلئے تج دیا ہو اور خود کو”فکر ایں وآں“سے آزاد کر کے دین و سنیت قوم وملت ہی کے ہو کر رہ گئے ہوں، ان سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی اور مشوروں کی روشنی میں جادۂ خدمت طے کیا جائے۔لیکن معلوم ہے کہ ہر شخص مقدر کا ایسا سکندر اور قسمت کا اتنا دھنی نہیں ہوتا کہ اسے ایسی شخصیات تک براہِ راست رسائی حاصل ہو، لہٰذا اس گتھی کے سلجھاؤ کی سب سے عمدہ صورت بس یہی رہ جاتی ہے کہ ایسی علمی شخصیات کے احوال، تجربات، مشاہدات اور تجاویز پر مشتمل کتب تالیف کی جائیں تا کہ تازہ واردانِ بساطِ مطالعہ ان کی روشنی میں اپنا مطالعاتی سفر اس راہ میں در پیش مشکلات سے بچتے ہوئے جاری رکھ سکیں۔۔۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area