(سوال نمبر 4961)
بدون وجہ شرعی امام صاحب کو مستعفی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے کہ ایک شخص خود کو متولی سمجھ کر جمعہ کے دن تقریر میں مسجد کے امام صاحب و حافظ قرآن جو ۲۳ سال سے نماز تراویح پڑھا رھا ھے اس کو دوران خطاب بلا ثبوت بلا جواز الزام اور بہتان لگا کر جماعت کے سامنے انتہائی تحقیر اور تذلیل کر کے امامت سے ھٹا سکتا ھے؟
جو الزام لگائے ان کا تعلق مسجد کے معاملات سے نھی؟
سائل:- محمد پریل انڑ نوابشاہ سندھ پاکستان دارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جمعہ کے دن دوران خطاب امام کی تحقیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے بدون وجہ شرعی تذلیل و الزام و بہتان گناہ کبیرہ اور حرام یے متولی امام صاحب سے معافی مانگے۔ اور توبہ کرے
اگر امام صاحب میں شرعی غلطی نہیں اور متولی مسجد اور محلے کے آدھے سے زیادہ عوام امام کو پسند نہ کرے اور امام کے رہنے سے فتنہ کا خوف ہو تو باعزت مستعفی کر سکتے ہیں۔
یعنی اگر موجودہ امام کے اندر اگر موجب کراہت کوئی بات نہیں ہے مسجد کی کمیٹی کو اور اکثر مصلیان کو بھی موجودہ امام سے کوئی شکایت نہیں ہے اور امام، اوصاف امامت سے متصف ہیں تو بلاوجہ ان کو ہٹانا نہیں چاہیے
البتہ امام قرآن صحیح نہ پڑھتا ہو یا اس کا عقیدہ صحیح نہ ہو یا وہ داڑھی مونڈاتا ہو یا دیگر منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرتا ہو تو ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسے معزول کیا جاسکتا ہے۔۔
یا اگر واقعۃ امام صاحب منصب امامت اور طے شدہ ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتے ہیں اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو مسجد کمیٹی کو اختیارہے کہ وہ کسی قابل اور ذمہ دار شخص کو یہ منصب اور ذمہ داریاں حوالے کرے۔
الفتاوى الهندية میں ہے
وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان۔
(الفتاوى الهندية (4/ 458)
والله ورسوله اعلم بالصواب
بدون وجہ شرعی امام صاحب کو مستعفی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے کہ ایک شخص خود کو متولی سمجھ کر جمعہ کے دن تقریر میں مسجد کے امام صاحب و حافظ قرآن جو ۲۳ سال سے نماز تراویح پڑھا رھا ھے اس کو دوران خطاب بلا ثبوت بلا جواز الزام اور بہتان لگا کر جماعت کے سامنے انتہائی تحقیر اور تذلیل کر کے امامت سے ھٹا سکتا ھے؟
جو الزام لگائے ان کا تعلق مسجد کے معاملات سے نھی؟
سائل:- محمد پریل انڑ نوابشاہ سندھ پاکستان دارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جمعہ کے دن دوران خطاب امام کی تحقیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے بدون وجہ شرعی تذلیل و الزام و بہتان گناہ کبیرہ اور حرام یے متولی امام صاحب سے معافی مانگے۔ اور توبہ کرے
اگر امام صاحب میں شرعی غلطی نہیں اور متولی مسجد اور محلے کے آدھے سے زیادہ عوام امام کو پسند نہ کرے اور امام کے رہنے سے فتنہ کا خوف ہو تو باعزت مستعفی کر سکتے ہیں۔
یعنی اگر موجودہ امام کے اندر اگر موجب کراہت کوئی بات نہیں ہے مسجد کی کمیٹی کو اور اکثر مصلیان کو بھی موجودہ امام سے کوئی شکایت نہیں ہے اور امام، اوصاف امامت سے متصف ہیں تو بلاوجہ ان کو ہٹانا نہیں چاہیے
البتہ امام قرآن صحیح نہ پڑھتا ہو یا اس کا عقیدہ صحیح نہ ہو یا وہ داڑھی مونڈاتا ہو یا دیگر منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرتا ہو تو ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسے معزول کیا جاسکتا ہے۔۔
یا اگر واقعۃ امام صاحب منصب امامت اور طے شدہ ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتے ہیں اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو مسجد کمیٹی کو اختیارہے کہ وہ کسی قابل اور ذمہ دار شخص کو یہ منصب اور ذمہ داریاں حوالے کرے۔
الفتاوى الهندية میں ہے
وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان۔
(الفتاوى الهندية (4/ 458)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/11/2023
12/11/2023