Type Here to Get Search Results !

حضرت علقمہ کی ماں کا واقعہ؟

 (سوال نمبر 4963)
حضرت علقمہ کی ماں کا واقعہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضرت علقمہ صحابی رسول کے بارے میں مقررین بیان کرتے ہیں اور کچھ کتب میں بھی یہ واقعہ لکھا ہوا ہے 
حضرت علقمہ صحابی رسول پر ماں ناراض تھی یا ماں کی نافرمانی کی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا صحابہ لکڑیاں اکھٹے کرو اس علقمہ کو آگ میں ڈال دو۔
 کیا یہ واقعہ درست ہے اس کو مجمع عام میں بیان کرنا صحیح ہے۔ ؟
اس مسئلہ پر تحریری جواب درکار ہے معتبر کتب کے حوالہ جات کے ساتھ مہربانی فرماکر مجھے اس سوال کا جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقعہ عنایت فرمائیں جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاھور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ واقعہ میں عند المحدثین بہت اختلاف یے بعض نے اس حدیث کو بہت ضعیف اور بعض نے حدیث ہی نہیں مانے ہیں اس لیے مناسب ہے اسے بیان نہ کی جایے حقوق والدین پر صحیح روایات بیان کی جائے۔ 
یاد رہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت کے لیے معیار حق ہیں جنہوں نے امت کو قرآن و حدیث اور آقا علیہ السلام اکی حیات طیبہ پوری امانت کے ساتھ پہنچائی ہے، اور خود متبع شرع رہیں ہیں وہ تمام اسلام کے اولین جانثار ہیں اور ان کی تعریف خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمائی ہے اور جن کی اللہ تعالی تعریف فرمائے، ایسی برگزیدہ ہستیوں کا تذکرہ ایسے واقعات سے نہ کی جائے جس میں ان کی نقص ظاہر ہو۔
صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں 
 تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے ، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔
(بہار شریعت ح 1 ص 254 مکتبہ المدینہ)
مذکورہ واقعہ سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی والدہ کا نافرمان تھے اس لئے اسے بیان نہ کی جائے۔
مکمل واقعہ کچھ یوں ہے۔حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”علقمہ “ نامی ایک شخص جو نماز روزہ کا بہت پابند تھا جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا۔ علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی۔ آپ نے دریافت کیا : علقمہ کےوالدین زندہ ہیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے۔ آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمہارے پاس آؤں۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی، بلکہ خود ہی حاضر ہوتی ہوں۔ چنانچہ بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا، تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلے میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ اس لیے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے فرمایا : اگر تو اس کی خطا معاف کردے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اس نے انکار کیا۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلادو۔ بڑھیا یہ سن کر گھبرائی اور اس نے دریافت کیا کہ کیا میرے بچے کو آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کے عذاب کے مقابلے میں یہ ہمارا عذاب ہلکا ہے۔ خدا کی قسم جب تک تو اس سے ناراض ہے، نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے۔ بڑھیا نے کہا میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کے قصور معاف کردیا۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : دیکھو، علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا یا نہیں؟ لوگوں نے بیان کیا یا رسول اللہ ﷺ علقمہ کی زبان پر کلمۂ شہادت جاری ہوگیا اورکلمۂ شہادت کے ساتھ اس نے انتقال کیا۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے گئے۔ علقمہ کو دفن کرنے کے بعد فرمایا :
مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی، تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اس کی رضا ماں کی رضا مندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے۔
اس واقعہ کو طبرانی کے علاوہ چند اور محدثین نے فائد بن عبدالرحمن کی سند سے نقل کیا ہے۔
ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ۔
فائد بن عبدالرحمن اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال بیان کرتے ہیں 
١/ امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔
ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ
٢/ ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ
٣/ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے، اس کی روایات نہ لکھی جائیں، ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ۔
٤/ امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ: ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ 8/256)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area