•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
واقعہ نصبِ حجر اسود اور سچے خوابوں سے آثار وحی کی ابتدا
_________(❤️)_________
سیرت النبی ﷺ قسط نمبر نہم
••────────••⊰❤️⊱••───────••
آخر وہ سب بیت اللہ میں جمع ہوئے-ان لوگوں میں ابوامیہ بن مغیرہ تھا۔اس کانام حذیفہ تھا۔ قریش کے پورے قبیلے میں یہ سب سے زیادہ عمر والا تھا۔ یہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا باپ تھا-قریش کے انتہائی شریف لوگوں میں سے تھا۔ مسافروں کو سفر سامان اور کھانا وغیرہ دینے کے سلسلے میں بہت مشہور تھا۔ جب کبھی سفر کرتا اپنے ساتھیوں کے کھانے پینے کا سامان خود کرتا تھا-
اس وقت اس شدید جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے اس نےایک حل پیش کیا- اس نے سب سےکہا:
اے قریش کے لوگو اپنا جھگڑا ختم کرنے کےلیے تم یوں کرو کہ حرم کے صفا نامی دروازے سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو، اس سے فیصلہ کرا لو۔ وہ تمہارے درمیان جو فیصلہ کرے، وہ سب اس کومان لیں،،-
یہ تجویز سب نے مان لی۔ آج اس دروازے کو باب السلام کہاجاتاہے۔ یہ دروازہ رکن یمانی اور رکن اسود کے درمیانے حصے کے سامنے ہے۔
اللہ کی قدرت کہ اس دروازے سے سب سے پہلےحضورنبی ﷺ تشریف لائے۔ قریش نے جیسے ہی آپ ﷺ کودیکھا، پکار اٹھے:
’’یہ تو امین ہیں، یہ تو محمد ﷺْ ہیں، ہم ان پر راضی ہیں۔‘‘
اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش اپنے آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ ﷺ ہی سے کرایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کسی کی بے جا حمایت نہیں کرتے تھے، نہ بلا وجہ کسی کی مخالفت کرتے تھے۔
پھر ان لوگوں نے اپنے جھگڑے کی تفصیل آپ ﷺ کو سنائی۔ ساری تفصیل سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ایک چادر لے آؤ۔‘‘
وہ لوگ چادر لے آئے۔ آپ ﷺ نے اس چادر کو بچھایا اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر قبیلے کے لوگ اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑلیں، پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چادر کو اٹھائے ہوئے وہ اس مقام تک آگئے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود کو اٹھاکر اس کی جگہ رکھنا چاہا، لیکن عین اسی وقت ایک نجدی شخص آگے بڑھا اور تیز آواز میں بولا:
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ایک کم عمر نوجوان کو اپنا راہنما بنالیا ہے، اس کی عزت افزائی میں لگ گئے ہو، یاد رکھو، یہ شخص سب کو گروہوں میں تقسیم کردے گا، تم لوگوں کو پارہ پارہ کردے گا۔‘‘
قریب تھا کہ لوگوں میں اس کی باتوں سے ایک بار پھر جھگڑا ہوجائے، لیکن پھر خود ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ لڑانے والا نہیں، لڑائی ختم کرنے والا ہے، چنانچہ حجر اسود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
مورخوں نے لکھا ہے، یہ نجدی شخص دراصل ابلیس تھا جو اس موقع پر انسانی شکل میں آیا تھا۔
جب کعبے کی تعمیر مکمل ہوگئی تو قریش نے اپنے بتوں کو پھر سے اس میں سجادیا - کعبے کی یہ تعمیر جو قریش نے کی، چوتھی تعمیر تھی - سب سے پہلے کعبے کو فرشتوں نے بنایا تھا - بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی کے اوپر تھا، جب عرش کو پانی پر ہونے کی وجہ سے حرکت ہوئی تو اس پر یہ کلمہ لکھا گیا:
💞لَا إِِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰه 💞
اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ تعالٰی کے رسول ہیں -
اس کلمے کے لکھے جانے کے بعد عرش ساکن ہوگیا - پھر جب اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے پانی پر ہوا کو بھیجا - اس سے پانی میں موجیں اُٹھنے لگیں، اور بخارات اٹھنے لگے - اللہ تعالیٰ نے ان بخارات یعنی بھاپ سے آسمان کو پیدا فرمایا - پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی جگہ سے پانی کو ہٹادیا، جگہ خشک ہوگئی، چنانچہ یہی بیت اللہ کی جگہ ساری زمین کی اصل ہے اور اس کا مرکز ہے - یہی خشکی بڑھتے بڑھتے سات براعظم بن گئی - جب زمین ظاہر ہوگئی تو اس پر پہاڑ قائم کیے گئے - زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے -
پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا:
"زمین پر میرے نام کا ایک گھر بناؤ تاکہ آدم کی اولاد اس گھر کے ذریعے میری پناہ مانگے - انسان اس گھر کا طواف کریں، جس طرح تم نے میرے عرش کے گرد طواف کیا ہے، تاکہ میں ان سے راضی ہوجاؤں -"
فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی - پھر آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی - اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی - اس طرح قریش کے ہاتھوں یہ تعمیر چوتھی بار ہوئی تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی تو وحی کے آثار شروع ہوگئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے۔ آپ ﷺ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچے خوابوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ اچانک فرشتے کی آمد سے کہیں آپ ﷺ خوفزدہ نہ ہوجائیں۔ ان دنوں ایک بار آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’جب میں تنہائی مٰیں جاکر بیٹھتا ہوں تو مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے، اے محمد ﷺ ۔۔۔۔ اے محمد ﷺ۔۔۔‘‘
ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا:
’’مجھے ایک نور نظر آتا ہے، یہ نور جاگنے کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مجھے ڈر ہے، اس کے نتیجے میں کوئی بات نہ پیش آجائے۔‘‘
ایک بار آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
’’اللہ کی قسم! مجھے جتنی نفرت ان بتوں سے ہے، اتنی کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘
وحی کے لئے آپ ﷺ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے اسرافیل کو آپ ﷺ کا ہم دم بنادیا تھا۔ آپ ﷺ ان کی موجودگی کو محسوس تو کرتے تھے، مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح آپ ﷺ کو نبوت کی خوش خبریاں دی جاتی رہیں۔ آپ ﷺ کو وحی کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل میں تنہائی کا شوق پیدا فرمادیا تھا، چنانچہ آپ ﷺ کو تنہائی عزیز ہوگئی۔ آپ ﷺ غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں وقت گزارتے۔ اس پہاڑ سے آپ ﷺ کو ایک بار آواز بھی سنائی دی تھی:
’’میری طرف تشریف لائیے۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ۔‘‘
اس غار میں آپ ﷺ مسلسل کئی کئی راتیں گزارتے۔ اللہ کی عبادت کرتے۔ کبھی آپ ﷺ تین راتوں تک وہاں ٹھہرے رہتے، کبھی سات راتوں تک۔ کبھی پورا مہینہ وہاں گزار دیتے۔ آپ ﷺ جو کھانا ساتھ لے جاتے تھے، جب ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے جاتے، یہ کھانا عام طور پر زیتون کا تیل اور خشک روٹی ہوتا تھا۔ کبھی کھانے میں گوشت بھی ہوتا تھا۔ غار حرا میں قیام کے دوران کچھ لوگ وہاں سے گزرتے اور ان میں کچھ مسکین لوگ ہوتے تو آپ ﷺ انہیں کھانا کھلاتے۔
غار حرا میں آپ ﷺ عبادت کس طرح کرتے تھے۔ روایات میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ علما کرام نے اپنا اپنا خیال ضرور ظاہر کیا ہے۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ آپ ﷺ کائنات کی حقیقت پر غور وفکر کرتے تھے اور یہ غور وفکر لوگوں سے الگ رہ کر ہی ہوسکتا تھا۔
پھر آخر کار وہ رات آگئی جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت اور رسالت عطا فرمادی۔ آپ ﷺ کی نبوت کے ذریعہ اپنے بندوں پر عظیم احسان فرمایا۔ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور تاریخ سترہ تھی۔ بعض علما نے یہ لکھا ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ تھا، کیوں کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ آتھویں اور تیسری تاریخ بھی روایات میں آئی ہے اور یہ پہلا موقع تھا جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آپ ﷺ کی خدمت مین حاضر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آپ ﷺ کے پاس نہیں آئے تھے۔ جس صبح جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے، وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
’’پیر کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا، پیر کے دن ہی مجھے نبوت ملی۔‘‘
بہر حال اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک کا چالیس واں سال تھا۔ آپ ﷺ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لے آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑا تھا اور اس کپڑے میں ایک کتاب تھی۔
جاری ہے...............
سیرت_النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قدم بہ قدم
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:-
حضرت علامہ مولانا وزیر احمد ھزاروی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی