Type Here to Get Search Results !

بیوٹی پارلر کی دکان کھولنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 4988)
کیا میں اپنا بیوٹی پارلر کھول سکتی ہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا میں اپنا بیوٹی پولر کھول سکتی ہوں ؟
جس میں ہیئر کٹنگ صرف شولڈر سے نیچے تک اور eye brow نہ بنواؤں رہنمائی فرما دیں
سائلہ:- سیدہ ھاجرہ فیصل آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جائز کاموں کے لئے بیوٹی پارلر کھولنا جائز ہے اور ناجایز کاموں کے لئے کھولنا شرعا جائز نہیں ہے۔
چونکہ بیوٹی پارلرز میں بہت سے خلاف شر ع امور کئے جا تے ہیں جیسے خوبصورتی لانے کے لیے آئی برو بنانا جس میں بھنوؤں کے بالوں کو اکھیڑا جاتا ہےاورعورتوں کے بھنووں کے بالوں کواکھیڑنے یا اکھڑوانے کو حدیث شریف میں باعثِ لعنت قرار دیا گیا ہے ،مردوں کی طرح عورتوں کے بال چھوٹے چھوٹے کاٹے جاتے ہیں جس سے عورت مرد کے مشابہ معلو م ہوتی ہے اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت والا یہ کام بھی باعثِ لعنت ہے،عورت کا مرد کی تزیین یا مرد کا عورت کی تزیین کرنا وغیرہ، البتہ ان میں بعض کام جائز بھی ہوتے ہیں مثلاً چہرے کے زائد بالوں کی صفائی مختلف کریمز اورآئی شیڈز وغیرہ کے ذریعہ میک اپ کرکے چہرے کو خوبصورت بنانا،سیاہ مائل رنگت کو نکھارنا،ہاتھوں پاؤں میں مہندی لگانا،بالوں کو سنوارناوغیرہابھنووں کے بال بہت بدصورت ہوں تو ان کی فقط بدنمائی کو دور کرنا 
وغیرہ جا ئز میک اپ ۔تو اگر بیوٹی پارلر میں صرف جائز کام کیے جائیں خلاف شر ع امور سے با لکل اجتناب کیا جائے تو بیوٹی پارلر کا کام کر نا ، جائز ہے اوراس کی آمدنی بھی جائز ومباح جبکہ اجارے کی دیگر شرائط یعنی کام کا وقت یا کام معین ہو۔اور اگر خلاف شر ع امور کا بھی ارتکاب کرنا پڑتا ہو تو پھر یہ کام جا ئز نہیں اور ان نا جائز کا موں کی آمدنی بھی نا جائز ہو گی ۔(ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
 ولو استأجر مشاطۃ لتزین العروس مباح قالوا لا یطیب لھا الاجر الا ان یکون علی وجہ الھدیۃ من غیرِشرط، وقیل ینبغی أن تجوز الاجارۃ اذا کانت مؤقتۃ أو کان العمل معلوماً ولم ینقش التماثیل علی وجہ العروس ویطیب لھا الاجر لان تزیین العروسِ مباح،
اور اگر کسی نے دلہن سجانے والی کو اجارہ پر لیا تو یہ جائز ہے ،بعض فقہاء نے فرمایا کہ اس کی اجرت جائز نہیں مگر یہ کہ کام کے بعد اس کو بطورِ تحفہ کچھ دے دیا جائے جبکہ کسی قسم کی کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو ،اور بعض فقہاء نے فرمایا کہ اس کا وقت اگر معلوم ہے یا کام معلوم ہے تو اس کا 
اجارہ جائز اور اجرت پاک ہے کیونکہ دلہن کو سجانا مباح امر ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دلہن کے چہرے پر کسی قسم کے نقش و نگار یا تصویریں نہ بنائے۔
(فتاویٰ عالمگیری ج 4 ص 526 مطبوعہ پشاور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
1411/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area