(سوال نمبر 4989)
بچے کو گود لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہماری اولاد نہیں ہے اس لیے میرے بھائی بہن اپنا بچہ ہمیں دینا چاہتے ہیں کیا ہم وہ لے سکتے ہیں اور مفتی اکمل صاحب کا یہ کلپ کی وجہ سے بات رکی ہوئی ہے رہنمائی فرمائیں۔
بچے کو گود لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہماری اولاد نہیں ہے اس لیے میرے بھائی بہن اپنا بچہ ہمیں دینا چاہتے ہیں کیا ہم وہ لے سکتے ہیں اور مفتی اکمل صاحب کا یہ کلپ کی وجہ سے بات رکی ہوئی ہے رہنمائی فرمائیں۔
سائلہ:- مسز وقاص عطاری کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں کچھ شرعی قیود و شروط کے ساتھ بچے کو گود لینا شرعا جائز ہے
اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو لےکر پالنا چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے
١/ ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں، اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں، البتہ گود میں لینے والے کو پرورش تعلیم وتربیت اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،
٢/ اس میں اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔ البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا یا گود لینے والے بچے کو اس عورت کی بہن دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بچی گود لی ہو تو شوہر کی بیوی یا بہن وغیرہ اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے ۔
واضح رہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔
جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا اور لوگ ان کو زید بن محمد پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا [الأحزاب: 4، 5]
اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ کسی بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو لے کر اس غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت وپروش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے تو یہ جائز ہے۔
شرعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔یعنی لے پالک کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے چونکہ شریعتِ مطہرہ نے استحقاقِ وراثت کا مدار قرابت یعنی نسبی رشتہ داری پر رکھا ہے، پس منہ بولے بچہ سے چوں کہ بنصِ قرآنی نسبی رشتہ داری قائم نہیں ہوتی؛ لہذا منہ بولا بیٹا اپنے حقیقی والد کا تو وارث بنے گا، لیکن جس شخص نے اس کو گود لیا ہے اس کے ترکہ میں اس کا اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوگا، البتہ اپنی زندگی میں بطورِ ہدیہ اسے کوئی چیز دی جاسکتی ہے اور اسی طرح اگر وہ بچہ شرعی وارث نہ بن رہا ہو تو اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ پر حقیقی اولاد کی طرح وراثت میں منہ بولے بیٹا کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے ۔
کما فی الموسوعة الفقهية
أَسْبَابُ الإِْرْثِ: ١٤ - السَّبَبُ لُغَةً مَا يُتَوَصَّل بِهِ إِلَى غَيْرِهِ. وَاصْطِلاَحًا: مَا يَلْزَمُ مِنْ وُجُودِهِ الْوُجُودُ وَمِنْ عَدَمِهِ الْعَدَمُ لِذَاتِهِ. أَسْبَابُ الإِْرْثِ أَرْبَعَةٌ، ثَلاَثَةٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهَا بَيْنَ الأَْئِمَّةِ الأَْرْبَعَةِ، وَالرَّابِعُ مُخْتَلَفٌ فِيهِ. فَالثَّلاَثَةُ الْمُتَّفَقُ عَلَيْهَا: النِّكَاحُ، وَالْوَلاَءُ، وَالْقَرَابَةُ، وَيُعَبِّرُ عَنْهَا الْحَنَفِيَّةُ بِالرَّحِمِ، ( ٣/ ٢٢ الموسوعة الفقهية الكويتية)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
منہ بولابیٹا نہ ایسے شخص کا بیٹا ہوتاہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق ہوتاہے کیونکہ حقیقتوں میں تغیر نہیں ہوتا۔ شرعی طورپروہ اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔ اگردوسرا شخص چاہے تو منہ بولے بیٹے کے حق میں وصیت کردے تاکہ اس کامال اس کے منہ بولے بیٹے کے ہاتھ میں آجائے اوریہ وراثت نہ ہوگی، خبردار! وارث کے لئے وصیت نہیں ہوتی، اور کسی کا منہ بولا بیٹا بن جانا اس کے لئے باپ کی میراث سے مانع نہیں ہوتا۔
(الفتاویٰ الرضویہ ج ٢٦ ص ٣١ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں کچھ شرعی قیود و شروط کے ساتھ بچے کو گود لینا شرعا جائز ہے
اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو لےکر پالنا چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے
١/ ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں، اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں، البتہ گود میں لینے والے کو پرورش تعلیم وتربیت اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،
٢/ اس میں اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔ البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا یا گود لینے والے بچے کو اس عورت کی بہن دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بچی گود لی ہو تو شوہر کی بیوی یا بہن وغیرہ اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے ۔
واضح رہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔
جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا اور لوگ ان کو زید بن محمد پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا [الأحزاب: 4، 5]
اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ کسی بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو لے کر اس غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت وپروش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے تو یہ جائز ہے۔
شرعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔یعنی لے پالک کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے چونکہ شریعتِ مطہرہ نے استحقاقِ وراثت کا مدار قرابت یعنی نسبی رشتہ داری پر رکھا ہے، پس منہ بولے بچہ سے چوں کہ بنصِ قرآنی نسبی رشتہ داری قائم نہیں ہوتی؛ لہذا منہ بولا بیٹا اپنے حقیقی والد کا تو وارث بنے گا، لیکن جس شخص نے اس کو گود لیا ہے اس کے ترکہ میں اس کا اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوگا، البتہ اپنی زندگی میں بطورِ ہدیہ اسے کوئی چیز دی جاسکتی ہے اور اسی طرح اگر وہ بچہ شرعی وارث نہ بن رہا ہو تو اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ پر حقیقی اولاد کی طرح وراثت میں منہ بولے بیٹا کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے ۔
کما فی الموسوعة الفقهية
أَسْبَابُ الإِْرْثِ: ١٤ - السَّبَبُ لُغَةً مَا يُتَوَصَّل بِهِ إِلَى غَيْرِهِ. وَاصْطِلاَحًا: مَا يَلْزَمُ مِنْ وُجُودِهِ الْوُجُودُ وَمِنْ عَدَمِهِ الْعَدَمُ لِذَاتِهِ. أَسْبَابُ الإِْرْثِ أَرْبَعَةٌ، ثَلاَثَةٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهَا بَيْنَ الأَْئِمَّةِ الأَْرْبَعَةِ، وَالرَّابِعُ مُخْتَلَفٌ فِيهِ. فَالثَّلاَثَةُ الْمُتَّفَقُ عَلَيْهَا: النِّكَاحُ، وَالْوَلاَءُ، وَالْقَرَابَةُ، وَيُعَبِّرُ عَنْهَا الْحَنَفِيَّةُ بِالرَّحِمِ، ( ٣/ ٢٢ الموسوعة الفقهية الكويتية)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
منہ بولابیٹا نہ ایسے شخص کا بیٹا ہوتاہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق ہوتاہے کیونکہ حقیقتوں میں تغیر نہیں ہوتا۔ شرعی طورپروہ اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔ اگردوسرا شخص چاہے تو منہ بولے بیٹے کے حق میں وصیت کردے تاکہ اس کامال اس کے منہ بولے بیٹے کے ہاتھ میں آجائے اوریہ وراثت نہ ہوگی، خبردار! وارث کے لئے وصیت نہیں ہوتی، اور کسی کا منہ بولا بیٹا بن جانا اس کے لئے باپ کی میراث سے مانع نہیں ہوتا۔
(الفتاویٰ الرضویہ ج ٢٦ ص ٣١ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/11/2023
14/11/2023