لک الحمد یا اللہ ﷻ
الصلوٰة والسلام علیک یارسول اللہ ﷺ
_______________________________
فضائل اعتکاف اور اس کے احکام !
••────────••⊰❤️⊱••───────••
از شرفِ قلم:-محمد شاہد رضا قادری رضوی منظری
بریلوی اسلام پور اتردیناجپور مغربی بنگال الھند ۔
__________________________________
اعتکاف کی تاریخ !
حضرات گرامی قدر ! اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جو سابقہ امتوں کے ہاں بھی پائی جاتی تھی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
از شرفِ قلم:-محمد شاہد رضا قادری رضوی منظری
بریلوی اسلام پور اتردیناجپور مغربی بنگال الھند ۔
__________________________________
اعتکاف کی تاریخ !
حضرات گرامی قدر ! اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جو سابقہ امتوں کے ہاں بھی پائی جاتی تھی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وعہدنا الیٰ ابراہیم واسماعیل وان طھرا بیتی للطإٓفین والعاکفین والرکع السجود :
ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ طواف والوں ، اور اعتکاف والوں ، اور رکوع و سجود والوں کے لیے میرا گھرخوب ستھرا کرو۔
ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ طواف والوں ، اور اعتکاف والوں ، اور رکوع و سجود والوں کے لیے میرا گھرخوب ستھرا کرو۔
(پارہ ١ ،سورہ بقرة ، آیت ،١٢٥)
اعتکاف کا معنی و مفہوم !
عزیزانِ گرامی ! یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی رحمتں برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ھے،مگر اس کے آخری دس دن ١٠ پہلے بیس ٢٠ دنوں تک زیادہ اہميت اور انفرادی شان رکھتے ہیں ،ان میں شب قدر کو پانے کے لیے اہلِ ایمان اعتکاف بھی کرتے ھیں ، اعتکاف کے لغوی معنی ھیں دھرنا دینا ،مطلب یہ ھےکہ معتکف اللہ تعالی کی بارگاہ میں عبادت پر کمر بستہ ہوکر مسجد میں بیٹھ جاتا ہے ڈیرے ڈال دیتا ہےکہ اس کی یہی آرزو ہوتی ھےکہ کسی طرح پرودگار عالم ﷻ مجھ سے راضی ہوجاۓ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کا سورج ڈوبتے ہی اعتکاف کا وقت شروع ہوجاتاہے ، دنیا کے سارے کاروبار چھوڑ کر رمضان شریف کے آخری دنوں میں اللہ تعالی کی قرب واطاعت کی غرض سے مرد حضرات کی مسجد اور خواتین حضرات اپنے گھروں میں گوشہ نشینی کا نام اعتکاف ہے اعتکاف کی تعریف کرتے ہوۓ علماۓ کرام فرماتے ھیں کہ مسجد میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے ٹہرنا اعتکاف ہے اور اس کے مسلمان کا عاقل اور جنابت و حیض ونفاس سے پاک ہونا شرط ھے ، بلوغت شرط نہیں بلکہ وہ نابالغ جو نماز و مسجد کے آداب کی سوجھ بوجھ رکھتا ھو اگر بانیت اعتکاف مسجد میں ٹہرے تو اس کا یہ اعتکاف بھی صحیح ہے ،مزید علماۓ کرام اعتکاف کے بارے میں فرماتے ہیں
عزیزانِ گرامی ! یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی رحمتں برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ھے،مگر اس کے آخری دس دن ١٠ پہلے بیس ٢٠ دنوں تک زیادہ اہميت اور انفرادی شان رکھتے ہیں ،ان میں شب قدر کو پانے کے لیے اہلِ ایمان اعتکاف بھی کرتے ھیں ، اعتکاف کے لغوی معنی ھیں دھرنا دینا ،مطلب یہ ھےکہ معتکف اللہ تعالی کی بارگاہ میں عبادت پر کمر بستہ ہوکر مسجد میں بیٹھ جاتا ہے ڈیرے ڈال دیتا ہےکہ اس کی یہی آرزو ہوتی ھےکہ کسی طرح پرودگار عالم ﷻ مجھ سے راضی ہوجاۓ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کا سورج ڈوبتے ہی اعتکاف کا وقت شروع ہوجاتاہے ، دنیا کے سارے کاروبار چھوڑ کر رمضان شریف کے آخری دنوں میں اللہ تعالی کی قرب واطاعت کی غرض سے مرد حضرات کی مسجد اور خواتین حضرات اپنے گھروں میں گوشہ نشینی کا نام اعتکاف ہے اعتکاف کی تعریف کرتے ہوۓ علماۓ کرام فرماتے ھیں کہ مسجد میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے ٹہرنا اعتکاف ہے اور اس کے مسلمان کا عاقل اور جنابت و حیض ونفاس سے پاک ہونا شرط ھے ، بلوغت شرط نہیں بلکہ وہ نابالغ جو نماز و مسجد کے آداب کی سوجھ بوجھ رکھتا ھو اگر بانیت اعتکاف مسجد میں ٹہرے تو اس کا یہ اعتکاف بھی صحیح ہے ،مزید علماۓ کرام اعتکاف کے بارے میں فرماتے ہیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اول واجب، دوم سنت مؤکدہ ۔۔ اور سوم مستحب اگر کسی نے اعتکاف کی نزر و منت مانی تو اس پر اعتکاف واجب ھے، رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علیٰ الکفایہ ھے اور واجب اور سنت مؤکدہ کے علاوہ جو اعتکاف ہو مستحب ہے ۔۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف!
برادران اسلام! ہم اہلِ ایمان پر خالق کائنات ﷻ کا انعام ،اکرام اور کرم بالاۓ کرم ھے کہ ، وہ ذاتِ اقدس ﷻ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہمیں خوب نیکیوں اور بھلائیوں کا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس عشرے میں مسلمان طلبِ ثواب ، شبِ قدر کی تلاش اور اس کے حصول کےلیے اعتکاف کرتے ہیں ۔۔ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ بھی ہرسال اعتکاف کیاکرتے تھے ،، حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ : حضور نبئ کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے یا یہاں تک کہ اللہ تعالی سے جاملے ، پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں "
اعتکاف کی فضیلت!
رفیقانِ ملت اسلاميہ! رحمت کونین ﷺ خود اعتکاف کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغيب دلاتے ،کہ جو اہلِ ایمان رمضان کریم کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ھیں انہيں دو٢حج،، اور دو ٢ عمروں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ھےکہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان میں دس ١٠ دن اعتکاف کیا ۔۔ وہ ایسا ہے جیسے اس نے دو ٢ حج اور دو ٢ عمرے کیے ۔۔ اورحضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے نافع کہتے ھیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کرتے تھے ۔۔۔
آقاۓ نعمت ﷺ نے ارشاد فرمایا :
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف!
برادران اسلام! ہم اہلِ ایمان پر خالق کائنات ﷻ کا انعام ،اکرام اور کرم بالاۓ کرم ھے کہ ، وہ ذاتِ اقدس ﷻ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہمیں خوب نیکیوں اور بھلائیوں کا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس عشرے میں مسلمان طلبِ ثواب ، شبِ قدر کی تلاش اور اس کے حصول کےلیے اعتکاف کرتے ہیں ۔۔ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ بھی ہرسال اعتکاف کیاکرتے تھے ،، حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ : حضور نبئ کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے یا یہاں تک کہ اللہ تعالی سے جاملے ، پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں "
اعتکاف کی فضیلت!
رفیقانِ ملت اسلاميہ! رحمت کونین ﷺ خود اعتکاف کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغيب دلاتے ،کہ جو اہلِ ایمان رمضان کریم کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ھیں انہيں دو٢حج،، اور دو ٢ عمروں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ھےکہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان میں دس ١٠ دن اعتکاف کیا ۔۔ وہ ایسا ہے جیسے اس نے دو ٢ حج اور دو ٢ عمرے کیے ۔۔ اورحضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے نافع کہتے ھیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کرتے تھے ۔۔۔
آقاۓ نعمت ﷺ نے ارشاد فرمایا :
جو شخص رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں خلوص کے ساتھ اعتکاف کرے اللہ تعالی ﷻ اس کے نامہ اعمال میں ہزار ١٠٠٠ سال کی عبادت کا ثواب درج فرمائے گا اور اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے ساۓ میں جگہ عنایت فرمائے گا ۔۔
اعتکاف میں کیے جانے والے اعمال !
رفیقانِ گرامی! ویسے تو ہم اعتکاف میں عبادت کا کوئی بھی کام کرسکتے ھیں ۔۔ مگر مندرجہ ذیل مخصوص اعمال کریں تو بہتر ہے۔
1 نماز پنجگانہ کی باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی کریں۔۔
2 عمامہ شریف باندھ کر نماز پڑھیں ۔۔
3 روزانہ کم از کم تین ٣ پارے قرآن مقدس کی تلاوت کریں ۔۔ تاکہ اعتکاف ختم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن بھی ختم ہوجاے۔
4 قرآن مقدس کا ترجمہ اور تفسیر کنزالایمان سے مطالعہ کریں۔
5 مقررہ وقت میں علماۓ اہلسنت کی چند مخصوص کتابوں کا مطالعہ کریں جن کے ذریعہ علمِ دین حاصل ہو۔۔
6 ممکن ہوتو چند مخصوص لوگوں سے مقررہ اوقات میں پندونصیحت کی باتيں کریں ۔۔
7 مخصوص وقت میں درود و شریف کا ورد کریں ۔۔۔
8 رات میں نوافل کی کثرت کریں ۔۔
9 ہرکام سنت کے مطابق کریں ۔۔۔
10 نماز تہجد ،اشراق،چاشت، اوابین وغيرہ نوافل نماز پڑھیں ۔۔
11 اگر ذمہ میں قضا نمازیں باقی ہوں تو انہيں ادا کریں ۔۔
12 توبہ و استغفار کریں ۔۔۔
13 اپنے اور سارے امت مسلمہ کے فلاح و بہود کی دعاکریں ۔۔۔
14 اپنی زندگی میں انقلاب پیدا ہونے اور ساری عمر عشق رسول ﷺ میں گزارنے اور موت کے وقت ایمان پر خاتمہ ہونے کی دعا کریں ۔۔
15 والدین کے لیے ایصال ثواب کریں ۔۔ ان شاء اللہ اعتکاف میں مذکورہ بالا اعمال کرنے کی برکت سے ہم نیکیوں کا ذخيرہ اپنے دامن میں اکٹھا کرلیں گے ۔۔ اور ہمیں عبادت میں لطف بھی آۓ گا ۔۔
رب قدیر کی بارگاہ عالیہ میں دعا ھےکہ ہمیں ان تمام اعمال کی توفيق عطا فرمائے آمین یارب العالمین ﷻ ۔۔
اعتکاف کے چند مساٸل واحکام!
عزیزانِ گرامی قدر ! اعتکاف کا سارا وقت رحمتیں برکتیں سمیٹنے، نیکیوں، بھلائیوں، تلاوتِ قرآن، فرائض و نوافل ،صدقات و خیرات، تراویح، تہجد اور دیگر اعمال صالحہ کی کثرت کا عشرہ ہے ، شبِ قدر پانے کے لیے اس عشرے میں اعتکاف کیاجاتاہے ، لہذا اس کے مسائل واحکام سیکھنا بھی معتکف حضرات پر لازم ہیں ارشاد باری تعالی ہے:
اعتکاف میں کیے جانے والے اعمال !
رفیقانِ گرامی! ویسے تو ہم اعتکاف میں عبادت کا کوئی بھی کام کرسکتے ھیں ۔۔ مگر مندرجہ ذیل مخصوص اعمال کریں تو بہتر ہے۔
1 نماز پنجگانہ کی باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی کریں۔۔
2 عمامہ شریف باندھ کر نماز پڑھیں ۔۔
3 روزانہ کم از کم تین ٣ پارے قرآن مقدس کی تلاوت کریں ۔۔ تاکہ اعتکاف ختم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن بھی ختم ہوجاے۔
4 قرآن مقدس کا ترجمہ اور تفسیر کنزالایمان سے مطالعہ کریں۔
5 مقررہ وقت میں علماۓ اہلسنت کی چند مخصوص کتابوں کا مطالعہ کریں جن کے ذریعہ علمِ دین حاصل ہو۔۔
6 ممکن ہوتو چند مخصوص لوگوں سے مقررہ اوقات میں پندونصیحت کی باتيں کریں ۔۔
7 مخصوص وقت میں درود و شریف کا ورد کریں ۔۔۔
8 رات میں نوافل کی کثرت کریں ۔۔
9 ہرکام سنت کے مطابق کریں ۔۔۔
10 نماز تہجد ،اشراق،چاشت، اوابین وغيرہ نوافل نماز پڑھیں ۔۔
11 اگر ذمہ میں قضا نمازیں باقی ہوں تو انہيں ادا کریں ۔۔
12 توبہ و استغفار کریں ۔۔۔
13 اپنے اور سارے امت مسلمہ کے فلاح و بہود کی دعاکریں ۔۔۔
14 اپنی زندگی میں انقلاب پیدا ہونے اور ساری عمر عشق رسول ﷺ میں گزارنے اور موت کے وقت ایمان پر خاتمہ ہونے کی دعا کریں ۔۔
15 والدین کے لیے ایصال ثواب کریں ۔۔ ان شاء اللہ اعتکاف میں مذکورہ بالا اعمال کرنے کی برکت سے ہم نیکیوں کا ذخيرہ اپنے دامن میں اکٹھا کرلیں گے ۔۔ اور ہمیں عبادت میں لطف بھی آۓ گا ۔۔
رب قدیر کی بارگاہ عالیہ میں دعا ھےکہ ہمیں ان تمام اعمال کی توفيق عطا فرمائے آمین یارب العالمین ﷻ ۔۔
اعتکاف کے چند مساٸل واحکام!
عزیزانِ گرامی قدر ! اعتکاف کا سارا وقت رحمتیں برکتیں سمیٹنے، نیکیوں، بھلائیوں، تلاوتِ قرآن، فرائض و نوافل ،صدقات و خیرات، تراویح، تہجد اور دیگر اعمال صالحہ کی کثرت کا عشرہ ہے ، شبِ قدر پانے کے لیے اس عشرے میں اعتکاف کیاجاتاہے ، لہذا اس کے مسائل واحکام سیکھنا بھی معتکف حضرات پر لازم ہیں ارشاد باری تعالی ہے:
ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المسٰجد : "
جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ،تو عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ " صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس میں بیان ھےکہ اعتکاف میں عورتوں سے قربت اور بوس وکنار حرام ہے ،اور مردوں کے مسجد میں اعتکاف کے لیے
ضروری ہے ۔۔
(پارے دو ٢ ، سورة البقراة ، آیت ١٨٧)
رفیقانِ گرامی ! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ھیں کہ معتکف کے لیے صحیح طریقہ یہ ھےکہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جاۓ ، نہ کسی جنازے میں شرکت کرے، نہ کسی عورت کو چھوۓ ،نہ اس کے ساتھ ملاپ کرے، ناہی ناگزیر ضروریات کے سوا کسی کے لیے باہر نکلے ، اور بغير روزہ کے اعتکاف درست نہیں " اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ علماۓ اہلسنت فرماتے ہیں کہ اعتکاف کے لیے سب سے افضل مقام مسجد حرام ھے ،پھر مسجد نبوی ،پھر مسجد اقصیٰ ، یعنی بیت المقدس ، پھر اس جگہ جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو ، عورت کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے، بلکہ وہ گھر میں ہی ایک جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرے ،، بالغ ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں ، بلکہ ایسا نابالغ جو تمیز اور اچھے برے کا شعور رکھتاہے ، اگر اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹہرے تو اس کا اعتکاف صحیح ہے ، اعتکاف کا وقت بیان کرتے ہوۓ حضور علامہ و مفتی صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ بیسویں ٢٠ روزہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے بہ نیت اعتکاف مسجد میں حاضر ہو اور تیس ٣٠ کے غروب یا انتیس ٢٩ کو عید کا چاند ہونے کے بعد وہاں سے باہر آۓ ۔۔اگر بیس ٢٠ تاریخ کو بعد نماز مغرب اعتکاف کی نیت کی تو یہ اعتکاف سنت مؤکدہ ادا نہ ہوگا ۔۔ رمضان کا اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگااور پورے شہر میں کسی ایک نے کرلیا تو سب برئی الذمہ ہوگیے ۔۔۔
سنت اعتکاف یعنی رمضان شریف کے آخری دس ١٠ دنوں میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے اس میں روزہ شرط ھے ،لہذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفلی اعتکاف ہوا ۔۔ بلاعزر معتکف کو مسجد سے باہر جانا ٹہیک نہیں ۔۔ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ،علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ھیں ، کہ اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بلاعزر نکلنا حرام ہے ، اگر نکلاتو اس کا اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا ۔۔ اگر چہ بھول کر نکلا ہو یونہی اعتکاف سنت بھی بلاعزر مسجد سے باہر نکلنے پر اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔۔ اسی طرح عورت بھی اعتکاف واجب و مسنون میں بلاعزر نہیں نکل سکتی ،،
اگر کسی عزر کے سبب باہر جانا ہو تو اس میں بھی احتياط ضروری ھے ۔۔ علماۓ اہلسنت فرماتے ھیں ،کہ اگر کوئی قضاۓ حاجت کے لیے باہر گیاتھا اور کسی نے اسے باہر روک لیا تو اعتکاف ٹوٹ گیا ۔۔ اور علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے لکھاہے کہ معتکف مسجد ہی میں کھاۓ پیے اور سوۓ ، ان امور کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا۔
ضروری ہے ۔۔
(پارے دو ٢ ، سورة البقراة ، آیت ١٨٧)
رفیقانِ گرامی ! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ھیں کہ معتکف کے لیے صحیح طریقہ یہ ھےکہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جاۓ ، نہ کسی جنازے میں شرکت کرے، نہ کسی عورت کو چھوۓ ،نہ اس کے ساتھ ملاپ کرے، ناہی ناگزیر ضروریات کے سوا کسی کے لیے باہر نکلے ، اور بغير روزہ کے اعتکاف درست نہیں " اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ علماۓ اہلسنت فرماتے ہیں کہ اعتکاف کے لیے سب سے افضل مقام مسجد حرام ھے ،پھر مسجد نبوی ،پھر مسجد اقصیٰ ، یعنی بیت المقدس ، پھر اس جگہ جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو ، عورت کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے، بلکہ وہ گھر میں ہی ایک جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرے ،، بالغ ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں ، بلکہ ایسا نابالغ جو تمیز اور اچھے برے کا شعور رکھتاہے ، اگر اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹہرے تو اس کا اعتکاف صحیح ہے ، اعتکاف کا وقت بیان کرتے ہوۓ حضور علامہ و مفتی صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ بیسویں ٢٠ روزہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے بہ نیت اعتکاف مسجد میں حاضر ہو اور تیس ٣٠ کے غروب یا انتیس ٢٩ کو عید کا چاند ہونے کے بعد وہاں سے باہر آۓ ۔۔اگر بیس ٢٠ تاریخ کو بعد نماز مغرب اعتکاف کی نیت کی تو یہ اعتکاف سنت مؤکدہ ادا نہ ہوگا ۔۔ رمضان کا اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگااور پورے شہر میں کسی ایک نے کرلیا تو سب برئی الذمہ ہوگیے ۔۔۔
سنت اعتکاف یعنی رمضان شریف کے آخری دس ١٠ دنوں میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے اس میں روزہ شرط ھے ،لہذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفلی اعتکاف ہوا ۔۔ بلاعزر معتکف کو مسجد سے باہر جانا ٹہیک نہیں ۔۔ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ،علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ھیں ، کہ اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بلاعزر نکلنا حرام ہے ، اگر نکلاتو اس کا اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا ۔۔ اگر چہ بھول کر نکلا ہو یونہی اعتکاف سنت بھی بلاعزر مسجد سے باہر نکلنے پر اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔۔ اسی طرح عورت بھی اعتکاف واجب و مسنون میں بلاعزر نہیں نکل سکتی ،،
اگر کسی عزر کے سبب باہر جانا ہو تو اس میں بھی احتياط ضروری ھے ۔۔ علماۓ اہلسنت فرماتے ھیں ،کہ اگر کوئی قضاۓ حاجت کے لیے باہر گیاتھا اور کسی نے اسے باہر روک لیا تو اعتکاف ٹوٹ گیا ۔۔ اور علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے لکھاہے کہ معتکف مسجد ہی میں کھاۓ پیے اور سوۓ ، ان امور کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا۔
علماۓ اہلسنت فرماتے ہیں ،کہ معتکف نے دن میں بھول کر کھالیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا ، گالی گلوج یا جھگڑنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
مگر بے نور و بے برکت ہوجاتا ہے ۔۔۔
معتکف کو مسجد نکلنے کے دو ٢ عزر ھیں جن سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا: ایک حاجت طبعی جو مسجد میں پوری نہ ہوسکے ،جیسے پیشاب،پاخانہ ، استنجا ٕ ،وضو،اور غسل کی ضرورت ہوتو غسل، اگر مسجد میں وضو وغسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں : دوسرا : حاجتِ شرعی : مثلا نماز جمعہ کے لیے جانا (جبکہ اس مسجد میں جہاں اعتکاف کیا جمعہ نہ ہوتاھو )یا اذان کہنے کے لیے ( خارج مسجد جانا) جبکہ وہاں جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو ،اور اگر اس کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی جاسکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں ، بُری بات زبان سے نہ نکلنا واجب ھے اور جس بات میں نہ ثواب ھو نہ گناہ ۔۔ یعنی مباح ،جائز بات بھی معتکف کو مکروہ ہے ۔ سواۓ ضرورت کے ۔۔ اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام، نیکیوں کو ایسے کھاتاہے جیسے آگ لکڑی کو ، معتکف قرآن مجید کی تلاوت ، اور حدیث پاک کی قرأت، اور درود و شریف کی کثرت ، علمِ دین کا درس و تدریس ، نبی کریم ﷺ اور دیگر انبیا ٕ کرام علہیم السلام کے سیر واذکار ، اور اولیا ٕ و صالحین کی حکایات ، اور امور دین کی کتابت ،
(تصنيف وتالیف کرے) لہذا جو بھی اعتکاف کرے اسے اعتکاف کے مسائل پہلے ہی سیکھ لینا لازم ھیں ، تاکہ اس کا اعتکاف شریعت مطہرہ کے مطابق ہو۔
(رد المحتار کتاب الصوم ، باب الاعتکاف،ج٦، ص ٤٠٩، بہار شریعت ،اعتکاف کابیان، حصہ پنجم، ٥ ، ١، ص ١٠٢١، الدر المختار، کتاب الصوم،باب الاعتکاف، ج٦، ص ٤٣٩، ٤٤٠)
____________________________________
(دعا ٕ ) اے اللہ اعتکاف کے ارادہ رکھنے والوں کو ، اسے پاۓ تکميل تک پہنچانے کی توفيق مرحمت فرما ، انہيں اس کی برکتوں سے مالا مال فرما، انہيں اور ہم سب کو مساجد کا خوب ادب و احترام کرنے کی سعادت نصیب فرما، اور دیگر تمام فرائض و واجبات کی اداٸگی بحسن و خوبی انجام دینے کی بھی توفيق عطا فرما، آمین یارب العالمین ﷻ۔
معتکف کو مسجد نکلنے کے دو ٢ عزر ھیں جن سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا: ایک حاجت طبعی جو مسجد میں پوری نہ ہوسکے ،جیسے پیشاب،پاخانہ ، استنجا ٕ ،وضو،اور غسل کی ضرورت ہوتو غسل، اگر مسجد میں وضو وغسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں : دوسرا : حاجتِ شرعی : مثلا نماز جمعہ کے لیے جانا (جبکہ اس مسجد میں جہاں اعتکاف کیا جمعہ نہ ہوتاھو )یا اذان کہنے کے لیے ( خارج مسجد جانا) جبکہ وہاں جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو ،اور اگر اس کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی جاسکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں ، بُری بات زبان سے نہ نکلنا واجب ھے اور جس بات میں نہ ثواب ھو نہ گناہ ۔۔ یعنی مباح ،جائز بات بھی معتکف کو مکروہ ہے ۔ سواۓ ضرورت کے ۔۔ اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام، نیکیوں کو ایسے کھاتاہے جیسے آگ لکڑی کو ، معتکف قرآن مجید کی تلاوت ، اور حدیث پاک کی قرأت، اور درود و شریف کی کثرت ، علمِ دین کا درس و تدریس ، نبی کریم ﷺ اور دیگر انبیا ٕ کرام علہیم السلام کے سیر واذکار ، اور اولیا ٕ و صالحین کی حکایات ، اور امور دین کی کتابت ،
(تصنيف وتالیف کرے) لہذا جو بھی اعتکاف کرے اسے اعتکاف کے مسائل پہلے ہی سیکھ لینا لازم ھیں ، تاکہ اس کا اعتکاف شریعت مطہرہ کے مطابق ہو۔
(رد المحتار کتاب الصوم ، باب الاعتکاف،ج٦، ص ٤٠٩، بہار شریعت ،اعتکاف کابیان، حصہ پنجم، ٥ ، ١، ص ١٠٢١، الدر المختار، کتاب الصوم،باب الاعتکاف، ج٦، ص ٤٣٩، ٤٤٠)
____________________________________
(دعا ٕ ) اے اللہ اعتکاف کے ارادہ رکھنے والوں کو ، اسے پاۓ تکميل تک پہنچانے کی توفيق مرحمت فرما ، انہيں اس کی برکتوں سے مالا مال فرما، انہيں اور ہم سب کو مساجد کا خوب ادب و احترام کرنے کی سعادت نصیب فرما، اور دیگر تمام فرائض و واجبات کی اداٸگی بحسن و خوبی انجام دینے کی بھی توفيق عطا فرما، آمین یارب العالمین ﷻ۔