(سوال نمبر 4975)
اپنے باپ کو چچا کہہ کر پکارنا اور ہمیشہ چچا ہی کہنا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اپنے باپ کو چچا کہہ کر پکارنا اور ہمیشہ چچا ہی کہنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
اپنے باپ کو چچا کہہ کر پکارنا اور ہمیشہ چچا ہی کہنا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اپنے باپ کو چچا کہہ کر پکارنا اور ہمیشہ چچا ہی کہنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- منیب احمد ساکن ننکانہ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہمارے عرف عام میں باپ الگ ہے اور چاچا الگ ہے باپ کو چچا نہیں کہا جاتا ہے اس لیے باپ کو چچا کہنا جائز نہیں ہاں چچا کو بڑے ابو وغیرہ بولنے میں حرج نہیں ہے کہ عرف میں بڑے ابو سے مراد باپ نہیں۔
اور اگر کوئی پوچھے کس کا بیٹا ہے اور جواب میں چچا کا نام بتا ئے پھر تو یہ حرام ہے کہ نسب بدلنا ہے ۔
البتہ عرب ممالک میں چچا کو بھی باپ بولتے ہیں۔
حکم ربی ہے جب کسی کو پکارو تو اس کے باپ کی طرف نسبت کرکے پکارو۔یعنی باپ کا نام معلوم ہوتے ہوے غیر کے نام کے ساتھ پکارنا گناہ ہے ۔ پھرباپ کو چچا کہنا گویا کہ یہ اس کا بیٹا نہیں ہے
حدیث شریف میں ہے
جس نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا جبکہ اسے پتا یے کہ اس اک باپ نہیں تو جنت اس پر حرام ہے ۔
یاد رہے جو باپ نہیں اسے باپ بنا نا اور جو باپ ہے اس کا انکار کرنا دونوں حرام ہے ۔
خزائن العرفان میں ہے
قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ َالسَّلَام کے چچا کانام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی نے مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘
اس میں حضرت اسماعیل کوحضرت یعقوب کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے با وجودیکہ آپ عَم ہیں
حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ کواَبْ فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس مراد ہیں ( خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱)
لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔
قرآن مجید میں ہے
اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ ۚ فَاِنۡ لَّمْ تَعْلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوٰنُکُمْ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوٰلِیۡکُمْ (ترجمۂ کنز الایمان)
انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشَریت میں تمہارے چچا زادیعنی تمہارے دوست القرآن پارہ21 سورۃالاحزاب،آیت5)
تفسیر نور العرفان میں ہے
یعنی ممانعت کے بعد اگر تم دیدہ دانستہ لے پالکوں کو ان کے مربی کا بیٹا کہو گے تو گناہ گار ہوگے۔(تفسیر نور العرفان ص503 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
حدیث شریف میں ہے
من ادعی الی غیر ابیہ و ھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام
جس نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا حالانکہ اسے علم تھا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہمارے عرف عام میں باپ الگ ہے اور چاچا الگ ہے باپ کو چچا نہیں کہا جاتا ہے اس لیے باپ کو چچا کہنا جائز نہیں ہاں چچا کو بڑے ابو وغیرہ بولنے میں حرج نہیں ہے کہ عرف میں بڑے ابو سے مراد باپ نہیں۔
اور اگر کوئی پوچھے کس کا بیٹا ہے اور جواب میں چچا کا نام بتا ئے پھر تو یہ حرام ہے کہ نسب بدلنا ہے ۔
البتہ عرب ممالک میں چچا کو بھی باپ بولتے ہیں۔
حکم ربی ہے جب کسی کو پکارو تو اس کے باپ کی طرف نسبت کرکے پکارو۔یعنی باپ کا نام معلوم ہوتے ہوے غیر کے نام کے ساتھ پکارنا گناہ ہے ۔ پھرباپ کو چچا کہنا گویا کہ یہ اس کا بیٹا نہیں ہے
حدیث شریف میں ہے
جس نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا جبکہ اسے پتا یے کہ اس اک باپ نہیں تو جنت اس پر حرام ہے ۔
یاد رہے جو باپ نہیں اسے باپ بنا نا اور جو باپ ہے اس کا انکار کرنا دونوں حرام ہے ۔
خزائن العرفان میں ہے
قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ َالسَّلَام کے چچا کانام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی نے مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘
اس میں حضرت اسماعیل کوحضرت یعقوب کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے با وجودیکہ آپ عَم ہیں
حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ کواَبْ فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس مراد ہیں ( خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱)
لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔
قرآن مجید میں ہے
اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ ۚ فَاِنۡ لَّمْ تَعْلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوٰنُکُمْ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوٰلِیۡکُمْ (ترجمۂ کنز الایمان)
انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشَریت میں تمہارے چچا زادیعنی تمہارے دوست القرآن پارہ21 سورۃالاحزاب،آیت5)
تفسیر نور العرفان میں ہے
یعنی ممانعت کے بعد اگر تم دیدہ دانستہ لے پالکوں کو ان کے مربی کا بیٹا کہو گے تو گناہ گار ہوگے۔(تفسیر نور العرفان ص503 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
حدیث شریف میں ہے
من ادعی الی غیر ابیہ و ھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام
جس نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا حالانکہ اسے علم تھا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔
(صحیح بخاری ج 2 ص 533 حدیث6766،مطبوعہ لاھور)
شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ اسی مضمون کی ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
جان بوجھ کر اپنے نسب کو بدلنا حرام و گناہ ہے۔نسب بدلنے کی دو صورتیں ہیں:ایک نفی یعنی اپنے باپ سے نسب کا انکار کرنا،دوسرے اِثبات یعنی جو باپ نہیں اسے اپنا باپ بتانا،دونوں حرام ہیں۔ملخصا۔
(نزھۃ القاری ج 4۔ص 496 مطبوعہ فرید بک سٹال،لاھور)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ اسی مضمون کی ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
جان بوجھ کر اپنے نسب کو بدلنا حرام و گناہ ہے۔نسب بدلنے کی دو صورتیں ہیں:ایک نفی یعنی اپنے باپ سے نسب کا انکار کرنا،دوسرے اِثبات یعنی جو باپ نہیں اسے اپنا باپ بتانا،دونوں حرام ہیں۔ملخصا۔
(نزھۃ القاری ج 4۔ص 496 مطبوعہ فرید بک سٹال،لاھور)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
13/11/2023
13/11/2023