Type Here to Get Search Results !

شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا عشق رسول


شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا عشق رسول
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم: حضرت مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی 
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی

_________(❤️)_________ 
مولانا محمد بخش مسلم اپنے ایک مضمون ’’علامہ اقبال غلام مصطفیٰ ﷺ تھے ‘‘تحریر فرماتے ہیں :’’نگا ہ مصطفیٰ ‘‘علامہ کی التجا اللہ تعالیٰ سے :
  توغنی ازہر دو عالم من فقیر 
روز محشر عذر ہائے من پذیر 
  یا اگر بینی حسابم نا گزیر
 ازنگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
  مکن رسوا،حضور خواجہ مارا حساب من زچشم او پنہاں بگیر 
 اے اللہ! تو ہے غنی بے پروا ، میں ہوں فقیر ،قیامت کے دن میرے عذروں کو قبول فرما ،اگر میرا حساب لازمی ہو تو یہ کرم کر کہ حساب یوں لے کہ مصطفیٰ ﷺ نہ دیکھ لیں ،میرے آقا مجھے حضور کے سامنے رسوانہ فرمانا میرا حساب ان سے چھپا کرلینا ۔
میں نے دیکھا کہ علامہ اپنی کو ٹھی میں گھوم رہے تھے سرکے بولوں کو کھینچ رہے تھے ،آنسوؤں کا مینھ برسا رہے تھے ،اور چلا چلا کر کہہ رہے تھے ،از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر ،از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر ۔یہ اس شخص کا حال تھا جو بہر نوع صاحب کمال تھا ۔آگاہ ماضی تھا ۔آشنائے حال تھا ۔زائر استقبال تھا ۔مسلمانوں کی پستی پر پر ملال تھا ۔
 
[مبلغ تحریک پا کستان ،مولانا محمد بخش مسلم ،بی ،اے ،ص ۲۸]
 علامہ کے عشق رسول کا اندازہ آپ علامہ کے اس شعر سے لگا سکتے ہیں ۔
  محمد عربی کأ بروئے ہر دوسرا است
 کس کہ خاک درش نیست خاک بر سراو 
 محمد عربی ﷺ کی ذات گرامی آبروئے دوعالم ہے جسے آپ کے در کی خاک بننے میں فخر نہیں اس کے سر پہ خاک۔
[مجھے ہے حکم اذاں ،ص۱۵]
 غلام بھیک نیر نگ لکھتے ہیں ’’اقبال کا تعلق حضور سرور کائنات ﷺ کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازک تھا کہ حضور کاذکر آتے ہی ان کی حالت دگرگوں ہوجاتی ، اگرچہ فوراً ضبط کرلیتے تھے ۔ 
 [مضمون ’’اقبال کے بعض حالات ،‘‘مشمولہ رسالہ اقبال لاہور، اکتوبر ۱۹۵۸ء ص۳۰]
 پروفیسر چشتی رقمطراز ہیں :’’ میں اپنے ذاتی مشاہدہ ے کی بناء پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ جب کبھی سر کارد عالم ﷺ کا نام نامی ان کی زبان پر آتا تو معاً ان کی آنکھیں پرنم ہوجاتیں ۔اقبال عشق رسول میں اس قدر ڈوب گئے تھے کہ جب عاشقان رسول کا تذکرہ کرتے اس وقت بھی آبدیدہ ہوجاتے ۔‘‘
[مضمون ، اقبال اورعشق رسول ﷺ مشمولہ ماہنامہ بصیر کراچی مئی ۱۹۸۲ء ،ص۶۸]
  اقبال ، یا در رسول اور درود سلام 
 انہوں نے کہا کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی حضور آقائے دو جہاں ﷺ کی سوانح حیات بیان کرے ۔اور یاد رسول اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب ،نبوت کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سوسال پہلے جو کیفیت حضور سرور کائنات ﷺ کے وجود مقد س سے ہوئی تھی ۔وہ آج ہمارے قلب کے اندر پیدا ہوجائے۔
[آثاراقبال از :دستگیر رشید ،ص ۳۰۶]
  توہین رسول کے خلاف جہاد 
۱۰ ؍ جولائی ۱۹۳۰ء کو لاہور کی شاہی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ’’اصل مقصد تو ہین رسول مقبول ﷺ کا علاج ہے ۔امید ہے کہ آپ اس مقصد کو پیش نظر رکھیں گے اور سب سے پہلے صرف اس کے لیے جد و جہد کریں گے ۔جد وجہد سے پہلے اپنی تمام قوتیں جمع کر لیں ۔‘‘ 
    [جان ہے عشق مصطفیٰ ،ص ۱۹۷؍۱۹۹،رضوی کتاب گھر دہلی بحوالہ :روز گار فقیر جلد دوم ص ۷۲ ]
 حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم 
 اقبال بعد از وصال بھی سرکار علیہ السلام کے لیے حیات ما نتے تھے وہ نیاز الدین خان کے نام ایک خط میں تحریر کرتے ہیں ۔’’ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کر یم ﷺ زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی اس طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طر ح صحابہ کرام ہوا کرتے تھے۔"
[انواراقبال مرتبہ :بشیر احمد ڈار ،ص ۴۵؍۴۶]
 اقبال مدنی آقا کی محبت سے سر شار دل رکھتے تھے ،اور سرور کائنات ﷺ کی ذات کو اپنا معالج گردانتے ۔چنا نچہ صلاح الدین برنی کے نام ۱۳؍ جون ۱۹۳۶ء کے ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ تقریبا ً دو سال سے بیمار تھے ایک شب انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے اپنی شفایابی کے لیے منظوم فریاد کی ۔صبح ہی اسے ان کی آواز میں نمایاں تبدیلی ہوگئی اور رنگ وروپ نکھرنے لگا ۔ 
[ملخصا ، اقبال نامہ حصہ اول ، ص۴۱۴]
 اقبال سرکار علیہ الصلوٰ ۃ اولسلام کی عمر پاک سے زیادہ جینا نہیں چاہتے تھے ۔اور آخر اس عاشق رسول کی تمنا اور دعا قبول ہوئی یعنی وہ ۶۱ ؍برس کی عمر مین فوت ہوئے ۔
[روزگار فقیر جلد دوم ،ص ۸۲]
 یہ تمام واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ وہ [اقبال ]سرکار کے عاشق صادق تھے ۔
 نوٹ :۱۹۳۴ء میں مسجد وزیر خان کے آخری فصلہ کن مناظرے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔حضور حجتہ الاسلام قبلہ قدس سرہ بہ نفس نفیس لاہور تشریف لےگئے تھے ۔اور مولوی اشرف علی تھانوی کو خصوصی دعوت فکر دینے کے لیے ڈبہ رزروکر واکے ان کی آمد کا انتظار کیا گیا تھا لیکن باوجود اصرار کے وہ نہیں آئے ۔اس مو قع پر کسی مقام پر حضرت حجتہ الاسلام قدس سرہ اور ڈاکٹر اقبال مرحوم کی ملاقات ہوئی ۔حضرت موصوف نے اقبال کے سامنے دیوبندیوں کی عبارتیں پڑھیں تو اقبال نے بیساختہ کہا کہ ’’مو لانا یہ ایسی عبارت گستاخانہ ہیں کہ ان لوگوں پر آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا ؟ ان پر تو آسمان ٹوٹ پڑنا چاہئے ۔
[مولانا محمد منشا تابش قصوری ،دعوت فکر ،ص ۳۵ مطبوعہ مرید کے شیخو پورہ پا کستان ۱۹۸۳ء ]
 حواریان دیوبند کے اس عبارات گستاخانہ پر ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا کہ ان لوگوں پر آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا ؟ان پر تو آسمان ٹوٹ پڑنا چاہیے ۔اس سے بڑھ کر ان حواریان دیوبند سے نفرت وبیزاری کیا ہوسکتا ہے۔ یقینا آپ گستاخان رسول سے متنفر تھے ۔اور نبی ﷺ کے عاشق تھے ۔ڈاکٹر اقبال کے بارے میں حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضاخاں کا فرمان ملاحظہ ہو :ایک بار کسی شخص نے سرکار مفتی اعظم سے اقبال کے کفر کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے یہ شعر ۔
  بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
 اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است 
 کہاہو اسے کا فرکیسے کہاجائے۔
[سہ ماہی افکار رضا ،ممبئی اکتوبر تا دسمبر ،۲۰۰۱ ،ص ۱۵]
 ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی مقالہ ’’امام احمدرضا اور ڈاکٹر اقبال ‘‘میں لکھتے ہیں :خود راقم مفتی منظر اسلام مولانا مفتی محمد فاروق صاحب اس بات کے گواہ ہیں کہ اس موقع پر اور صاحبان موجود تھے ویسے مرید رضا ، مانامیاں مرحوم پیلی بھیتی نے لکھا ہے کہ انجمن نعمانیہ ہند لاہور کے ایک اجتماع میں اقبال نے اعلیٰ حضرت سے نیاز حاصل کیا تھا ۔اور اپنی ایک نعت سنائی تھی ۔جسے آپ نے پسند فرمایا تھا ۔ 
[حضرت مانا میاں سوانح اعلیٰ حضرت بریلی ،ص۵۷،مطبو عہ کراچی ،۱۹۷۰۔ملخصا]
 اور محترمہ راجہ رشید محمود صاحب مدیر ماہنامہ ’’نعت ‘‘لا ہور نے اپنی کتاب ’’اقبال اور امام احمد رضا ‘‘میں دونوں حضرات کے اشعار اور واقعات سے دونوں کے عشق رسالت مآب ﷺ میں مماثلت دکھائی ہے ۔اقبال سنی العقیدہ تھے ۔اور ان کا مسلک وہی تھا جو مسلک اعلیٰ حضرت تھا ۔یا جسے آج ہم مسلک اعلیٰ حضرت کہتے ہیں ۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
 ترسیل:- محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری

 رکن اعلیٰ:- افکار اہل سنت اکیڈمی 
پوجانگر میراروڈ ممبئی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area