Type Here to Get Search Results !

کہا شوہر کے فوت ہونے کے بعد بیوی اسے بوسہ دے سکتی ہے؟

 (سوال نمبر 4902)
کہا شوہر کے فوت ہونے کے بعد بیوی اسے بوسہ دے سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ شوہر کے فوت ہونے کے بعد بیوی اسے بوسہ دے سکتی ہے؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ 
سائلہ:- کائنات گل شہر کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں شوہر کے فوت ہونے کے بعد بیوی اسے بوسہ دے سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں یعنی بیوی یا 
میت کے اہل خانہ اور دوستوں وغیرہ کیلئے اس کے چہرے کو بوسہ دینا جائز ہے۔میت کی کسی بھی جگہ کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
النتہ بوسہ شہوت کی بنا پر نہ ہو بلکہ تبرک کیلئے ہو یا رقت اور میت پر شفقت کی بنا پر ہو۔
یاد رہے کہ ہر اس شخص کیلئے میت کو بوسہ دینے اور اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کیلئے اس کی زندگی میں یہ سب جائز تھا۔ اور اس طرح کفن پہنانے کے بعد بھی جائز ہے۔
یعنی آخری بارالوداع کرتے ہوئے شفقت اور رقت کی وجہ سے بیوی کیلئے شوہر کی میت کو چھونے اور اسے بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث پاک میں ہے 
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کی میت کو روتے ہوئے بوسہ دیا۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے آپﷺ کا جسم اطہر کپڑے کے ساتھ لپٹا ہوا تھا ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا اور چہرہ انور کو بوسہ دے کر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا نبی اللہ ﷺ آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اللہ تعالی آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا اور جو موت آپﷺ کیلئے لکھی ہوئی تھی اس کو آپ ﷺ نے فنا کردیا ہے
ہاد رہے جواز کا حکم بیوی کو شامل ہے۔ جب تک کوئی ایسی چیز وارد نہ ہوجائے جو علیحدگی کو واجب کرتی ہے۔ جیسے موت سے پہلے طلاق کا واقع ہونا، یاعورت کا مرتد ہوجانا۔
بوسے کا جواز صرف اس صورت میں ہے کہ یہ بوسہ محبت شفقت اور رقت قلبی کی بنا پر ہو اور شہوت کی بنا پر نہ ہو۔ کیونکہ میت طبعا شہوت کے قابل نہیں ہوتی۔
المرأة المناجیح میں ہے 
خاوند اپنی بیوی کو نہ تو غسل دے سکتا ہے نہ ہاتھ لگا کر کفن پہنا سکتا ہے یہ حضور انور کی خصوصیت ہے کہ اپنی ازواج پاک کو بعد وفات کفن غسل دے سکتے ہیں،اسی طرح حضرت علی بھی اپنی زوجہ فاطمہ کو غسل اور کفن دے سکتے تھے بلکہ دیا اور حضور انور کی وفات کے بعد حضرت علی اور ازواج پاک نے مل کر غسل دیا۔یہ سب اس لیے تھا کہ حضور انور کی وفات یا ازواج پاک کی وفات سے ان کا نکاح نہیں ٹوٹتا قائم رہتا ہے،اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ فاطمہ دنیا و آخرت میں تمہاری بیوی ہیں اوروں کے نکاح موت سے ٹوٹ جاتے ہیں خاوند کی موت سے بیوی کا نکاح کسی قدر باقی رہتا ہے کہ اس پر عدت واجب ہے لہذا وہ ضرورۃً خاوند کو غسل دے سکتی ہے مگر بیوی کی موت سے نکاح بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے کہ وہاں عدت بھی نہیں اس لیے خاوند ضرورت پر بھی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا وہ بالکل ہی اجنبی ہوجاتا ہے۔یہ غلط مشہور ہے کہ خاوند بیوی کے جنازہ کو کندھا بھی نہ دے ضرور دے بلکہ ضرورت پڑنے پر قبر میں وہ ہی اتارے۔نبی کی نیند وضو نہیں توڑتی اور نبی کی وفات نکاح نہیں توڑتی،شہید کی موت غسل نہیں توڑتی۔
(المرأة المناجیح ج 8 ص 216 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area