(سوال نمبر 4877)
کیا خواتیں جمعہ کی نماز مسجد میں امام جمعہ کے ساتھ پڑھ سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے کہ گاوں کی مسجد کے امام صاحب کو عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نے بھی جمعہ پڑھنا ہیں حالانکہ جمعہ عورتوں پر واجب نہیں آیا کہ امام صاحب مردوں کو نیچے اور عورتوں کو مسجد کی چھت پر با پردہ نماز جمعہ پڑھا سکتا ہے؟ کہ مردوں کا فرض ادا ہوجائے گا اور عورتوں کے نفل اور مسجد کی چھت پر کوئی بڑا سوراخ وغیرہ بھی نہیں ہے کیا اس طرح نماز پڑھانا اور عورتوں کو پڑھنا شرعاً درست ہیں ؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- مولانا تنویر پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر عورتوں کو گھر سے نکلنا ہی فتنہ کا باعث ہے۔
مذکورہ صورت جائز نہیں ہے
البتہ اگر مسجد دو منزلہ ہو اوپر بھی چھت ہو اور مرد و زن کا خلط ملط کا امکان بھی نہ ہو حتی کے خروج و دخول کا راستہ بھی مردوں سے بالکل الگ ہو ۔پھر گنجائش ہے کہ امام کا خطاب سنے دو رکعات جمعہ پڑھے اور مردوں کے نکلنے سے پہلے نکل جائے باقی نماز گھر میں ادا کریں۔
حدیث شریف میں ہے
عَنْ عبد اللَّه بن عمر رضي الله عَنْهما، عَنْ النبي ﷺ قال ۔إذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمُ امْرَأَتُهُ إلَى الْمَسْجِدِ، فَلا يَمْنَعُهَا»، قَالَ : فَقَالَ بِلالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : وَاَللَّهِ لَنَمْنَعُهُنَّ، قَالَ : فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ فَسَبَّهُ سَبّاً سَيِّئاً، مَا سَمِعْتُهُ سَبَّهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَقَالَ : أُخْبِرُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَتَقُولُ : وَاَللَّهُ لَنَمْنَعُهُنَّ؟ فِي لَفْظٍ لمسلم : «لا تَمْنَعُوا إمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ [رواه البخاري، كتاب الأذان، باب استئذان المرأة زوجها بالخروج إلى المسجد، برقم 873، دون ذكر القصة، ومسلم، كتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة، وأنها لا تخرج مطيبة، برقم 34- (442)، و35- (442)]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کسی ایک کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے بلال بن عبداللہ نے کہا اللہ کی قسم ہم تو انہیں ضرور روکیں گے حضرت عبداللہ اسکی طرف پلٹے اور انہیں بہت برا بھلا کہا میں نے اس سے پہلے ان سے اس طرح کے کلمات کبھی نہیں سنے تھے کہا میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بات بتاتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ بخدا ہم انہیں ضرور روکیں گے مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔(بخاری و مسلم)
مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا کہ اگر کوئی عورت مسجد میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنے کے لئے اپنے خاوند سے اجازت طلب کرتی ہے تو اسے روکا نہ جائے جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو پاس ہی ان کا بیٹا بلال بیٹھا تھا اس نے کہا ہم تو عورتوں کو مسجد میں جانے سے ضرور روکیں گے کیونکہ حالات وہ نہیں رہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما طیش میں آگئے اور اسے برا بھلا کہنے لگے کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تو اس کے خلاف زبان درازی کر رہا ہے تجھے یہ جرأت کیسے ہوئی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ خود سختی سے سنت پر عمل پیرا ہوتے تھے وہ برداشت ہی نہیں کر سکے کہ کوئی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے منہ سے کوئی بات نکالے۔
مرآة المناجیح میں ہے
اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجد وں میں آنے اور علیٰحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں، مسجدوں میں آکر کچھ دین کے احکام سن لیں گی،عہد فاروقی میں عورتوں کو مطلقًا گھر سے نکلنے کی ممانعت تھی۔ (المرأة ج ٢ ص ٢٨٣ مكتبة المدينة)
ایک حدیث میں ہے مَنْ اَتَی الْجُمُعَۃَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
اس لیئے جمعہ میں عورتوں کو آنا بھی مستحب ہے، مگر اب زمانہ خراب ہے عورتیں مسجدوں میں نہ آئیں۔(مرقاۃ)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں سینماؤں، بازاروں، کھیل تماشوں، اسکولوں، کالجوں میں جائیں، صرف مسجد میں نہ جائیں گھروں میں رہیں،بلاضرورت شرعیہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔اسی لیئے فقیر کا یہ فتویٰ ہے کہ اب عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے سے نہ روکو اگر ہم انہیں روکیں تو یہ وہابیوں، مرزائیوں، دیوبندیوں کی مساجد میں پہنچتی ہیں جیسا کہ تجربہ ہوا۔ان لوگوں نے عورتوں کے لیئے بڑے بڑے انتظامات اپنی اپنی مسجدوں میں کیئے ہوئے ہیں عورتوں کو گمراہ کرکے ان کے خاوندوں اور بچوں کو بہکاتے ہیں۔
کیا خواتیں جمعہ کی نماز مسجد میں امام جمعہ کے ساتھ پڑھ سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے کہ گاوں کی مسجد کے امام صاحب کو عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نے بھی جمعہ پڑھنا ہیں حالانکہ جمعہ عورتوں پر واجب نہیں آیا کہ امام صاحب مردوں کو نیچے اور عورتوں کو مسجد کی چھت پر با پردہ نماز جمعہ پڑھا سکتا ہے؟ کہ مردوں کا فرض ادا ہوجائے گا اور عورتوں کے نفل اور مسجد کی چھت پر کوئی بڑا سوراخ وغیرہ بھی نہیں ہے کیا اس طرح نماز پڑھانا اور عورتوں کو پڑھنا شرعاً درست ہیں ؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- مولانا تنویر پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر عورتوں کو گھر سے نکلنا ہی فتنہ کا باعث ہے۔
مذکورہ صورت جائز نہیں ہے
البتہ اگر مسجد دو منزلہ ہو اوپر بھی چھت ہو اور مرد و زن کا خلط ملط کا امکان بھی نہ ہو حتی کے خروج و دخول کا راستہ بھی مردوں سے بالکل الگ ہو ۔پھر گنجائش ہے کہ امام کا خطاب سنے دو رکعات جمعہ پڑھے اور مردوں کے نکلنے سے پہلے نکل جائے باقی نماز گھر میں ادا کریں۔
حدیث شریف میں ہے
عَنْ عبد اللَّه بن عمر رضي الله عَنْهما، عَنْ النبي ﷺ قال ۔إذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمُ امْرَأَتُهُ إلَى الْمَسْجِدِ، فَلا يَمْنَعُهَا»، قَالَ : فَقَالَ بِلالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : وَاَللَّهِ لَنَمْنَعُهُنَّ، قَالَ : فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ فَسَبَّهُ سَبّاً سَيِّئاً، مَا سَمِعْتُهُ سَبَّهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَقَالَ : أُخْبِرُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَتَقُولُ : وَاَللَّهُ لَنَمْنَعُهُنَّ؟ فِي لَفْظٍ لمسلم : «لا تَمْنَعُوا إمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ [رواه البخاري، كتاب الأذان، باب استئذان المرأة زوجها بالخروج إلى المسجد، برقم 873، دون ذكر القصة، ومسلم، كتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة، وأنها لا تخرج مطيبة، برقم 34- (442)، و35- (442)]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کسی ایک کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے بلال بن عبداللہ نے کہا اللہ کی قسم ہم تو انہیں ضرور روکیں گے حضرت عبداللہ اسکی طرف پلٹے اور انہیں بہت برا بھلا کہا میں نے اس سے پہلے ان سے اس طرح کے کلمات کبھی نہیں سنے تھے کہا میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بات بتاتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ بخدا ہم انہیں ضرور روکیں گے مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔(بخاری و مسلم)
مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا کہ اگر کوئی عورت مسجد میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنے کے لئے اپنے خاوند سے اجازت طلب کرتی ہے تو اسے روکا نہ جائے جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو پاس ہی ان کا بیٹا بلال بیٹھا تھا اس نے کہا ہم تو عورتوں کو مسجد میں جانے سے ضرور روکیں گے کیونکہ حالات وہ نہیں رہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما طیش میں آگئے اور اسے برا بھلا کہنے لگے کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تو اس کے خلاف زبان درازی کر رہا ہے تجھے یہ جرأت کیسے ہوئی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ خود سختی سے سنت پر عمل پیرا ہوتے تھے وہ برداشت ہی نہیں کر سکے کہ کوئی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے منہ سے کوئی بات نکالے۔
مرآة المناجیح میں ہے
اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجد وں میں آنے اور علیٰحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں، مسجدوں میں آکر کچھ دین کے احکام سن لیں گی،عہد فاروقی میں عورتوں کو مطلقًا گھر سے نکلنے کی ممانعت تھی۔ (المرأة ج ٢ ص ٢٨٣ مكتبة المدينة)
ایک حدیث میں ہے مَنْ اَتَی الْجُمُعَۃَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
اس لیئے جمعہ میں عورتوں کو آنا بھی مستحب ہے، مگر اب زمانہ خراب ہے عورتیں مسجدوں میں نہ آئیں۔(مرقاۃ)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں سینماؤں، بازاروں، کھیل تماشوں، اسکولوں، کالجوں میں جائیں، صرف مسجد میں نہ جائیں گھروں میں رہیں،بلاضرورت شرعیہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔اسی لیئے فقیر کا یہ فتویٰ ہے کہ اب عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے سے نہ روکو اگر ہم انہیں روکیں تو یہ وہابیوں، مرزائیوں، دیوبندیوں کی مساجد میں پہنچتی ہیں جیسا کہ تجربہ ہوا۔ان لوگوں نے عورتوں کے لیئے بڑے بڑے انتظامات اپنی اپنی مسجدوں میں کیئے ہوئے ہیں عورتوں کو گمراہ کرکے ان کے خاوندوں اور بچوں کو بہکاتے ہیں۔
(المرأة ج ٢ ص ٦٠٩ مكتبة المدينة)
جس طرح خواتین بازاروں شادیوں مردوں کی محافل مجالس میں باپردہ جاتی ہیں اگر کسی مسجد میں اتنے انتظامات ہوں کہ دخول و خروج کا راستہ الگ ہوں مسجد کی دیواریں اس طرح ہوں کہ مرد و زن ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں پھر ان قیود و شروط کے ساتھ جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔
جس طرح خواتین بازاروں شادیوں مردوں کی محافل مجالس میں باپردہ جاتی ہیں اگر کسی مسجد میں اتنے انتظامات ہوں کہ دخول و خروج کا راستہ الگ ہوں مسجد کی دیواریں اس طرح ہوں کہ مرد و زن ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں پھر ان قیود و شروط کے ساتھ جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
04/11/2023