(سوال نمبر 4796)
تشہد میں کلمہ شہادت پر انگلیاں اٹھانے کے بعد انگلیاں زانوں پر رکھ دے یا اٹھائے رکھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ
جب التحیات میں رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتے ہیں ہاتھوں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے جب اشھد ان لالہ الا اللہ پڑھتے ہیں تو انگلیوں کا حلقہ بناتے ہوئے شھادت کی انگلی کو اٹھا کر اللہ پر ہاتھ کو کھول دیتے ہیں کیا ایسا عمل کسی حدیث سے ثابت ہے حالانکہ دیو بندی اور اہل حدیث اس مسئلہ کی مخالفت کرتے ہیں آخر تک حلقہ بنائے رکھتے ہیں اصل مسئلہ کیا ہے؟
مہربانی فرماکر بحوالہ مدلل جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید حسن علی نقوی بخاری شاھدرہ لاھور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
تشہد میں لا پر حلقہ باندھے اور انگشت شہادت اوپر اٹھا کر اشارہ کرے إلا اللہ پر انگلی گرالے اور حلقہ کھول دے
غنیہ میں ہے
المراد من العقد المذکور فی روایۃ مسلم، العقد عند الإشارۃ لا فی جمیع التشہد ألا یری ما في الروایۃ الأخری لمسلم: ’’وضع کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ کلہا وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام‘‘۔ ولا شک ¬أن وضع الکف لا یتحقق حقیقۃ مع قبض الأصابع فالمراد وضع الکف ثم قبض الأصابع بعد ذلک عند الإشارۃ۔
اس عبارت میں جو دو جگہ تصریح ہے ایک جگہ فرمایا العقد عند الإشارۃ۔ حلقہ اشارہ کے وقت ہے۔ دوسری جگہ ہے :ثم قبض الأصابع بعد ذلک عند الإشارۃ۔ پھر انگلیوں کو سمیٹنا ہے اشارے کے وقت یہ دونوں عبارتیں اس پر نص ہیں کہ انگلیوں کا حلقہ صرف اشارے کے وقت ہوگا نہ پہلے ہوگا نہ بعد میں اس لیے کہ جب کوئی حکم کسی حالت کے ساتھ مقید ہوتا ہے تو اس حالت کے ساتھ خاص ہوتا ہے، اس کے قبل یا اس کے بعد ممنوع ہوتا ہے۔ اس لیے اشارہ کے بعد حلقہ باندھے رہنا جیسا کہ دیوبندیوں میں یہ بدعت پھیلی ہوئی ہے خلاف سنت ہے ۔ علما نے قعدہ خواہ اولیٰ ہو یا ثانیہ کی سنتوں میں یہ شمار فرمایا کہ داہنا ہاتھ داہنی ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھے اور ہاتھ کو کھلا رکھے۔
عالمگیری میں ہے
ووضع یدیہ علی فخذیہ وبسط أصابعہ، کذا في الہدایۃ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قعدہ کی اصل سنت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں رانوں پر کھلی ہوئی رہیں اب اگر تشہد کے بعد تک انگلیوں کا حلقہ باندھے رہیں گے تو اس سنت کا ترک لازم آئے گا اگر تشہد کے بعد تک انگلیوں کا حلقہ باندھے رہنا مشروع ہوتا تو علما یہاں بطور استثنا کے ضرور ذکر فرماتے جیسا کہ اشارے کے وقت حلقہ باندھنے کو ذکرفرمایا باوجود مقتضیٰ ذکر نہ کرنا مشروع نہ ہونے کی دلیل ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ کتب فقہ پر غائر نظر ڈالنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انگلیوں کا حلقہ صرف ’’لا إله إلا اللہ‘‘ تک رہے گا اس کے بعد کھول دیا جائے گا۔
(حاشیہ: حضرت علامہ سید احمد طحطاوی مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ إلا اللہ پر انگلی گرانے کے بعد حلقہ کھول دیں۔ والعقد وقت التشہد فقط فلا یعقد قبل ولا بعد وعلیہ الفتوی۔
تشہد میں کلمہ شہادت پر انگلیاں اٹھانے کے بعد انگلیاں زانوں پر رکھ دے یا اٹھائے رکھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ
جب التحیات میں رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتے ہیں ہاتھوں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے جب اشھد ان لالہ الا اللہ پڑھتے ہیں تو انگلیوں کا حلقہ بناتے ہوئے شھادت کی انگلی کو اٹھا کر اللہ پر ہاتھ کو کھول دیتے ہیں کیا ایسا عمل کسی حدیث سے ثابت ہے حالانکہ دیو بندی اور اہل حدیث اس مسئلہ کی مخالفت کرتے ہیں آخر تک حلقہ بنائے رکھتے ہیں اصل مسئلہ کیا ہے؟
مہربانی فرماکر بحوالہ مدلل جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید حسن علی نقوی بخاری شاھدرہ لاھور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
تشہد میں لا پر حلقہ باندھے اور انگشت شہادت اوپر اٹھا کر اشارہ کرے إلا اللہ پر انگلی گرالے اور حلقہ کھول دے
غنیہ میں ہے
المراد من العقد المذکور فی روایۃ مسلم، العقد عند الإشارۃ لا فی جمیع التشہد ألا یری ما في الروایۃ الأخری لمسلم: ’’وضع کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ کلہا وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام‘‘۔ ولا شک ¬أن وضع الکف لا یتحقق حقیقۃ مع قبض الأصابع فالمراد وضع الکف ثم قبض الأصابع بعد ذلک عند الإشارۃ۔
اس عبارت میں جو دو جگہ تصریح ہے ایک جگہ فرمایا العقد عند الإشارۃ۔ حلقہ اشارہ کے وقت ہے۔ دوسری جگہ ہے :ثم قبض الأصابع بعد ذلک عند الإشارۃ۔ پھر انگلیوں کو سمیٹنا ہے اشارے کے وقت یہ دونوں عبارتیں اس پر نص ہیں کہ انگلیوں کا حلقہ صرف اشارے کے وقت ہوگا نہ پہلے ہوگا نہ بعد میں اس لیے کہ جب کوئی حکم کسی حالت کے ساتھ مقید ہوتا ہے تو اس حالت کے ساتھ خاص ہوتا ہے، اس کے قبل یا اس کے بعد ممنوع ہوتا ہے۔ اس لیے اشارہ کے بعد حلقہ باندھے رہنا جیسا کہ دیوبندیوں میں یہ بدعت پھیلی ہوئی ہے خلاف سنت ہے ۔ علما نے قعدہ خواہ اولیٰ ہو یا ثانیہ کی سنتوں میں یہ شمار فرمایا کہ داہنا ہاتھ داہنی ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھے اور ہاتھ کو کھلا رکھے۔
عالمگیری میں ہے
ووضع یدیہ علی فخذیہ وبسط أصابعہ، کذا في الہدایۃ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قعدہ کی اصل سنت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں رانوں پر کھلی ہوئی رہیں اب اگر تشہد کے بعد تک انگلیوں کا حلقہ باندھے رہیں گے تو اس سنت کا ترک لازم آئے گا اگر تشہد کے بعد تک انگلیوں کا حلقہ باندھے رہنا مشروع ہوتا تو علما یہاں بطور استثنا کے ضرور ذکر فرماتے جیسا کہ اشارے کے وقت حلقہ باندھنے کو ذکرفرمایا باوجود مقتضیٰ ذکر نہ کرنا مشروع نہ ہونے کی دلیل ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ کتب فقہ پر غائر نظر ڈالنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انگلیوں کا حلقہ صرف ’’لا إله إلا اللہ‘‘ تک رہے گا اس کے بعد کھول دیا جائے گا۔
(حاشیہ: حضرت علامہ سید احمد طحطاوی مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ إلا اللہ پر انگلی گرانے کے بعد حلقہ کھول دیں۔ والعقد وقت التشہد فقط فلا یعقد قبل ولا بعد وعلیہ الفتوی۔
(ص:۱۴۷)۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری)
حدیث شریف میں
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں صحیح مسلم ،جامع ترمذی ، سنن نسائی ودیگر کتبِ صحاح و سنن میں ہے،: ”عن عامر بن عبد اللہ بن الزبير، عن أبيه، قال:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى“ترجمہ:حضرت عامر اپنےوالد حضرت عبدا للہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قعدہ میں تشہد پڑھنے کےلیے بیٹھتے ،تواپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیان والی اُنگلی پر رکھتے(یعنی انگوٹھے اور انگلی کا حلقہ بنا لیتے )۔
حدیث شریف میں
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں صحیح مسلم ،جامع ترمذی ، سنن نسائی ودیگر کتبِ صحاح و سنن میں ہے،: ”عن عامر بن عبد اللہ بن الزبير، عن أبيه، قال:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى“ترجمہ:حضرت عامر اپنےوالد حضرت عبدا للہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قعدہ میں تشہد پڑھنے کےلیے بیٹھتے ،تواپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیان والی اُنگلی پر رکھتے(یعنی انگوٹھے اور انگلی کا حلقہ بنا لیتے )۔
(الصحیح لمسلم، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الجلوس فی الصلا ة ، جلد 1 ، صفحہ 260 ، مطبوعہ لاھور )
تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت نہ دینے کے متعلق سُنَنْ ابی داؤد ، سنن نسائی ،سنن کبری للبیہقی ، شرح السنۃ للبغوی وغیرہاکتبِ احادیث میں ہے، واللفظ للاول :”عن عبد اللہ بن الزبير، أنه ذكر، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان يشير بأصبعه إذا دعا، ولا يحركها، قال ابن جريج: وزاد عمرو بن دينار،قال:أخبرني عامر، عن أبيه، أنه رأى النبي صلى اللہ عليه وسلم يدعو كذلك“ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب دعاکرتے(یعنی تشہد میں کلمہ شہادت پر پہنچتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور اُنگلی کوباربار ہلایا نہیں کرتے تھے۔ابنِ جریج کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مزید یہ ارشاد فرمایاکہ مجھے عامر نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق یہ خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس طرح (اُنگلی کو حرکت دیے بغیر) اشارہ کرتے ہوئے دیکھاہے۔
تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت نہ دینے کے متعلق سُنَنْ ابی داؤد ، سنن نسائی ،سنن کبری للبیہقی ، شرح السنۃ للبغوی وغیرہاکتبِ احادیث میں ہے، واللفظ للاول :”عن عبد اللہ بن الزبير، أنه ذكر، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان يشير بأصبعه إذا دعا، ولا يحركها، قال ابن جريج: وزاد عمرو بن دينار،قال:أخبرني عامر، عن أبيه، أنه رأى النبي صلى اللہ عليه وسلم يدعو كذلك“ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب دعاکرتے(یعنی تشہد میں کلمہ شہادت پر پہنچتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور اُنگلی کوباربار ہلایا نہیں کرتے تھے۔ابنِ جریج کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مزید یہ ارشاد فرمایاکہ مجھے عامر نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق یہ خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس طرح (اُنگلی کو حرکت دیے بغیر) اشارہ کرتے ہوئے دیکھاہے۔
(سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ ، باب الاشارة فی التشھد،جلد 1 ، صفحہ 150، مطبوعہ لاھور)
حدیث پاک میں مذکور لفظ” ولايحرّكها “ کے تحت شارحِ مصابیح علامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:727ھ) لکھتے ہیں: ”اختلف في تحريك الاصبع إذا رفعها للاشارة، الأصح أنه إذا رفعها يضعها من غير تحريك “ ترجمہ: جب نمازی اشارہ کےلیے انگلی اٹھائے ، تو انگلی کو حرکت دیتے رہنے کے متعلق اختلاف ہے،اصح قول یہ کہ جب شہادت پر انگلی اٹھائے تو اسے بغیر ہلائے، رکھ دے ۔
حدیث پاک میں مذکور لفظ” ولايحرّكها “ کے تحت شارحِ مصابیح علامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:727ھ) لکھتے ہیں: ”اختلف في تحريك الاصبع إذا رفعها للاشارة، الأصح أنه إذا رفعها يضعها من غير تحريك “ ترجمہ: جب نمازی اشارہ کےلیے انگلی اٹھائے ، تو انگلی کو حرکت دیتے رہنے کے متعلق اختلاف ہے،اصح قول یہ کہ جب شہادت پر انگلی اٹھائے تو اسے بغیر ہلائے، رکھ دے ۔
( المفاتیح شرح المصابیح ، جلد2 ، صفحہ 158 ، مطبوعہ دار النور)
محیطِ برہانی فتاوی تاتار خانیہ،فتح القدیراور دیگر کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للآخر: ”وعن الحلواني يقيم الأصبع عند”لا إله “ ويضعها عند ”إلا اللہ“ ليكون الرفع للنفي والوضع للاثبات وينبغي أن يكون أطراف الأصابع على حرف الركبة“ ترجمہ:امام شمس الائمہ حلوانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ نمازی لا الہ کے وقت انگلی اٹھائے گااور الااللہ پر گرا دے گا،تاکہ انگلی اٹھانا نفی شریک الٰہی کےلیے اور رکھنا اثباتِ وحدانیت کے لیے ہو جائے اور چاہیے کہ انگلیوں کےپورے گھٹنوں کے کنارے پر رکھے ۔
محیطِ برہانی فتاوی تاتار خانیہ،فتح القدیراور دیگر کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للآخر: ”وعن الحلواني يقيم الأصبع عند”لا إله “ ويضعها عند ”إلا اللہ“ ليكون الرفع للنفي والوضع للاثبات وينبغي أن يكون أطراف الأصابع على حرف الركبة“ ترجمہ:امام شمس الائمہ حلوانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ نمازی لا الہ کے وقت انگلی اٹھائے گااور الااللہ پر گرا دے گا،تاکہ انگلی اٹھانا نفی شریک الٰہی کےلیے اور رکھنا اثباتِ وحدانیت کے لیے ہو جائے اور چاہیے کہ انگلیوں کےپورے گھٹنوں کے کنارے پر رکھے ۔
(فتح القدیر ، کتاب الصلاۃ ، باب ، جلد 1، صفحہ 321 ، مطبوعہ کوئٹہ )
علامہ ابنِ عابدین شامی دمشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:” أنها سنة، يرفعها عند النفي ويضعها عند الاثبات، وهو قول أبي حنيفة ومحمد، وكثرت به الآثار والاخبار فالعمل به أولى، فهو صريح في أن المفتى به هو الاشارة بالمسبحة مع عقد الأصابع على الكيفية المذكورة لا مع بسطها فإنه لا إشارة مع البسط عندنا، ولذا قال في منية المصلي: فإن أشار يعقد الخنصر والبنصر ويحلق الوسطى بالابهام ويقيم السبابة“ ترجمہ:التحیات میں شہادت کی انگلی اٹھانا سنت ہے،نفی پر اٹھائے اور اثبات یعنی ’’الا اللہ ‘‘پر رکھ دے ،یہی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما کا قول ہے ،اِسی پر کثیر احادیث و آثار مروی ہیں ،لہٰذا اِسی پر عمل اولیٰ ہےاوریہ روایات اس بات میں صریح ہیں کہ مفتی بہ قول یہ ہے کہ بقیہ انگلیوں کو بیان کردہ کیفیت کے مطابق بند کرکے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے ،نہ کہ ہاتھ کوپھیلا کر ،کیونکہ ہمارے نزدیک ہاتھ پھیلا کر اشارہ نہیں کیا جائے گا،اسی وجہ سے منیۃ المصلّی میں کہا :جب اشارہ کرے تو چھوٹی اور اس کےساتھ والی انگلی کو بند کر ے ،انگوٹھے اور درمیان والی انگلی سے حلقہ بنا ئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دمشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:” أنها سنة، يرفعها عند النفي ويضعها عند الاثبات، وهو قول أبي حنيفة ومحمد، وكثرت به الآثار والاخبار فالعمل به أولى، فهو صريح في أن المفتى به هو الاشارة بالمسبحة مع عقد الأصابع على الكيفية المذكورة لا مع بسطها فإنه لا إشارة مع البسط عندنا، ولذا قال في منية المصلي: فإن أشار يعقد الخنصر والبنصر ويحلق الوسطى بالابهام ويقيم السبابة“ ترجمہ:التحیات میں شہادت کی انگلی اٹھانا سنت ہے،نفی پر اٹھائے اور اثبات یعنی ’’الا اللہ ‘‘پر رکھ دے ،یہی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما کا قول ہے ،اِسی پر کثیر احادیث و آثار مروی ہیں ،لہٰذا اِسی پر عمل اولیٰ ہےاوریہ روایات اس بات میں صریح ہیں کہ مفتی بہ قول یہ ہے کہ بقیہ انگلیوں کو بیان کردہ کیفیت کے مطابق بند کرکے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے ،نہ کہ ہاتھ کوپھیلا کر ،کیونکہ ہمارے نزدیک ہاتھ پھیلا کر اشارہ نہیں کیا جائے گا،اسی وجہ سے منیۃ المصلّی میں کہا :جب اشارہ کرے تو چھوٹی اور اس کےساتھ والی انگلی کو بند کر ے ،انگوٹھے اور درمیان والی انگلی سے حلقہ بنا ئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب صفۃ الصلاۃ، جلد2، صفحہ266، مطبوعہ کوئٹہ) ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اس (یعنی اشارہ کرنے کے)باب میں احادیث و آثار بکثرت وارد، ہمارے محققین کا بھی مذہبِ صحیح و معتمد علیہ (یہی)ہے،…علّامہ بدرالدین عینی نے تحفہ سے اس کا استحباب نقل فرمایا اور صاحب ِمحیط وملّا قہستانی نے سنّت کہا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ150،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نماز کی سُنَن بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” شہادت پر اشارہ کرنا(سنت ہے)، یوں کہ چھنگلیا اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کا حلقہ باندھے اور” لَا “پر کلمہ کی انگلی اٹھائے اور” اِلَّا “پررکھ دے اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلے۔
سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اس (یعنی اشارہ کرنے کے)باب میں احادیث و آثار بکثرت وارد، ہمارے محققین کا بھی مذہبِ صحیح و معتمد علیہ (یہی)ہے،…علّامہ بدرالدین عینی نے تحفہ سے اس کا استحباب نقل فرمایا اور صاحب ِمحیط وملّا قہستانی نے سنّت کہا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ150،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نماز کی سُنَن بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” شہادت پر اشارہ کرنا(سنت ہے)، یوں کہ چھنگلیا اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کا حلقہ باندھے اور” لَا “پر کلمہ کی انگلی اٹھائے اور” اِلَّا “پررکھ دے اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلے۔
(بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ530، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/10/2023
24/10/2023