(سوال نمبر 4890)
یا اللہ تو آجا ہم تیرے پاؤں پکر لیں گے ہاتھ پکر لیں گے
یا اللہ تو آجا ہم تیرے پاؤں پکر لیں گے ہاتھ پکر لیں گے
تجھے منا لیں گے کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی دعا مانگتے وقت اس طرح کے الفاظ کہے یا اللہ تو آجا ہم تیرے پاؤں پکر لیں گے، ہاتھ پکر لیں گے۔تجھے منا لیں گے۔۔اور بظاہر عالمِ دین بھی ہوتو کیا حکم ہوگا؟
رہنمائی فرما دیجئے۔
سائلہ:- اُمِ حسان رضا باب المدینہ کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ تمام جملے اگر قائل نے اس عقیدے سے کہا ہے کہ انسانوں کی طرح ہاتھ پیر اللہ تعالی کو ہے اور رضا و رغبت سے کہا ہے اور اپنی بات پر قائم ہے پھر کفر ہے توبہ و استغفار و تجدید ایمان و نکاح نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ لازم و ضروری ہے۔اور اگر مذکورہ عقیدہ نہیں پھر بھی توبہ و استغفار لازم ہے ۔چونکہ اللہ تعالیٰ جسم واعضاء سے منزہ ہے یعنی اس کے آنکھ ناک کان ہمارے آنکھ ناک کان کی طرح نہیں ہیں سننا، دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے جس کے لیے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قابل سماعت یا قابل روٴیت چیز کا ہونا ضروری ہے وہ مخلوق کے تمام اعضاء سے پاک و منزہ ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سی صفات ذاتیہ اور فعلیہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض صفات صفات متشابہات کہلاتی ہیں یعنی ان کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے مثلاً لفظ ید ہاتھ کما في قولہ تعالی ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ وغیرہم
اللہ تعالی کے لیے قرآن میں روحی، نور ،ہاتھ ،چہرہ ،آیا، عرش پر ، پہلو، ہہ سب الفاط وارد ہیں جو کہ آیات متشابہات میں سے ہیں مفسرین نے ان سب کی تاویلیں کی ہیں یہ تمام الفاظ اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے
بہار شریعت میں ہے
نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔(بہار شریعت ح 1)
متاخرین کے بیان کردہ متشابہات کے معانی کی مثالیں حسب ذیل ہیں
١/ (آیت) ونفخت فیہ من روحی (الحجر : ٢٩)
اس کا ظاہری معنی ہے اور میں اس میں اپنی روح سے پھونک دوں ۔
متاخرین نے اس میں تاویل کی اور میں اس میں اپنی پیدا کی ہوئی روح سے پھونک دوں۔
٢/ (آیت) اللہ نور السموات والارض (النور : ٣٥)
اس کا ظاہری معنی ہے
اللہ آسمانوں اور زمینوں کی روشنی ہے.
اس کی تاویل ہے.
اللہ آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرنے والا ہے۔
٣/ (آیت) یداللہ فوق ایدیھم ۔ (الفتح ١٠)
ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس کی تاویل ہے ان کی قدرتوں پر اللہ کی قدرت ہے۔
٤/ (آیت) فثم وجہ اللہ (البقرہ : ١١٥)
سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے ۔
اس کی تاویل ہے . سو وہیں اللہ کی ذات ہے۔
٥/ (آیت) وجاء ربک (القمر ٢٢) اور آپ کا رب آیا اس کی تاویل ہے اور آپ کے رب کا حکم آیا۔
٦/ (آیت) الرحمن علی العرش استوی (طہ : ٥)
رحمن عرش پر قائم ہے۔ اس کی تاویل ہے عرش پر اللہ کی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔
٧/ (آیت) یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ (الزمر ٥٦)
ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے پہلو میں کیں۔ یعنی اللہ کی جوار رحمت میں اللہ کے حضور کے قرب میں یا اللہ کے متعلق۔
(تبیان القرآن سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 7)
والله ورسوله اعلم بالصواب
رہنمائی فرما دیجئے۔
سائلہ:- اُمِ حسان رضا باب المدینہ کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ تمام جملے اگر قائل نے اس عقیدے سے کہا ہے کہ انسانوں کی طرح ہاتھ پیر اللہ تعالی کو ہے اور رضا و رغبت سے کہا ہے اور اپنی بات پر قائم ہے پھر کفر ہے توبہ و استغفار و تجدید ایمان و نکاح نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ لازم و ضروری ہے۔اور اگر مذکورہ عقیدہ نہیں پھر بھی توبہ و استغفار لازم ہے ۔چونکہ اللہ تعالیٰ جسم واعضاء سے منزہ ہے یعنی اس کے آنکھ ناک کان ہمارے آنکھ ناک کان کی طرح نہیں ہیں سننا، دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے جس کے لیے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قابل سماعت یا قابل روٴیت چیز کا ہونا ضروری ہے وہ مخلوق کے تمام اعضاء سے پاک و منزہ ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سی صفات ذاتیہ اور فعلیہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض صفات صفات متشابہات کہلاتی ہیں یعنی ان کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے مثلاً لفظ ید ہاتھ کما في قولہ تعالی ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ وغیرہم
اللہ تعالی کے لیے قرآن میں روحی، نور ،ہاتھ ،چہرہ ،آیا، عرش پر ، پہلو، ہہ سب الفاط وارد ہیں جو کہ آیات متشابہات میں سے ہیں مفسرین نے ان سب کی تاویلیں کی ہیں یہ تمام الفاظ اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے
بہار شریعت میں ہے
نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔(بہار شریعت ح 1)
متاخرین کے بیان کردہ متشابہات کے معانی کی مثالیں حسب ذیل ہیں
١/ (آیت) ونفخت فیہ من روحی (الحجر : ٢٩)
اس کا ظاہری معنی ہے اور میں اس میں اپنی روح سے پھونک دوں ۔
متاخرین نے اس میں تاویل کی اور میں اس میں اپنی پیدا کی ہوئی روح سے پھونک دوں۔
٢/ (آیت) اللہ نور السموات والارض (النور : ٣٥)
اس کا ظاہری معنی ہے
اللہ آسمانوں اور زمینوں کی روشنی ہے.
اس کی تاویل ہے.
اللہ آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرنے والا ہے۔
٣/ (آیت) یداللہ فوق ایدیھم ۔ (الفتح ١٠)
ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اس کی تاویل ہے ان کی قدرتوں پر اللہ کی قدرت ہے۔
٤/ (آیت) فثم وجہ اللہ (البقرہ : ١١٥)
سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے ۔
اس کی تاویل ہے . سو وہیں اللہ کی ذات ہے۔
٥/ (آیت) وجاء ربک (القمر ٢٢) اور آپ کا رب آیا اس کی تاویل ہے اور آپ کے رب کا حکم آیا۔
٦/ (آیت) الرحمن علی العرش استوی (طہ : ٥)
رحمن عرش پر قائم ہے۔ اس کی تاویل ہے عرش پر اللہ کی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔
٧/ (آیت) یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ (الزمر ٥٦)
ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے پہلو میں کیں۔ یعنی اللہ کی جوار رحمت میں اللہ کے حضور کے قرب میں یا اللہ کے متعلق۔
(تبیان القرآن سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 7)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
05/11/2023