قسط چہارم
لک الحمد یا اللہ۔وصل وسلم علی رسول اللہ
عمر ورزق میں برکت کے متعلق تحقیق انیق مفتی اعظم بہار
مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
تقدیر کسے کہتے ہیں اور تقدیر کی کتنی قسمیں ہیں؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنھما قال سمعت رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول کتب اللہ مقادیر الخلق قبل ان یخلق قبل السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لکھیں اس وقت عرش آلہی پانی ہر تھا۔
(جامع الاحادیث جلد اول ص 115)
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تقدیر کی تین قسمیں ہیں:
(1) مبرم حقیقی
(2) معلق محض
(3) اور معلق شبیہ بہ مبرم
ان میں مبرم حقیقی کا بدلنا ناممکن ہے اور معلق محض اکثر اولیاء کرام کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے اور معلق شبیہ بہ مبرم تک صرف خاص اکابر کی رسائی ہوتی ہے ۔ایک چیز کا کسی انسان کے لئے نہ ملنا اگر مبرم حقیقی میں سے ہے تو کوشش کرنے پر نہیں مل سکتی ہے اور اگر قضائے مبرم حقیقی نہ ہو تو ذکر اذکار یا بزرگوں کی دعاؤں سے مل سکتی ہے اور آنے والی بلا ٹل سکتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
ان الدعا یردالقضاء بے شک دعا قضاء ( تقدیر ) کو ٹال دیتی ہے۔
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول 7)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
تحقیق اس مقام کی یہ ہے کہ
قضاء دو قسم ہے
(1) ایک کہ مبرم کہ؛ جف القلم بما ھو کائن ؛, اس کا بیان ہے
(2) اور دوسرا معلق کہ :
تحقیق اس مقام کی یہ ہے کہ
قضائے معلق دو قسم ہے
(1) ایک معلق محض ۔جس کی تعلیق کا ذکر لوح محو و اثبات یا صحف ملائکہ میں بھی ہے ۔عام
اولیاء جن کے علوم اس سے متجاوز نہیں ہوتے ۔ایسی قضاء کے دفع پر دعا کی ہمت فرماتے ہیں ۔کہ انہیں بوجہ ذکر تعلیق اس کا قابل دفع ہونا معلوم ہوتا ہے ۔
(2) اور دوسری معلق شبیہ بالمبرم ۔کہ علم الہی میں تو معلق ہے ۔مگر لوح محو و اثبات
ودفاتر ملائکہ میں اس کی تعلیق مذکور نہیں ۔وہ ان ملائکہ اور عام اولیاء کے علم میں مبرم ہوتی ہے ۔مگر خواص عباد اللہ کہ انہیں امتیاز خاص ہے بالہام ربانی بلکہ برؤیت مقام ارفع حضرت مخدع اس کی تعلیق واقعی پر مطلع ہوتے ۔اور اس کے دفع میں دعا کا اذن پاتے ہیں ۔یا عام مومنین جنہیں الواح وصحائف پر اطلاع نہیں حسب عادت دعا کرتے ہیں ۔اور بوجہ اس تعلیق کے جو علم الہی میں تھی مندفع ہوجاتی ہے ۔یہ وہ قضائے مبرم ہے جو صالح رد ہے ۔اور اس کی نسبت حضور غوثیت کا ارشاد امجد ۔ولہذا فرماتے ہیں : تمام اولیاء مقام قدر پر پہنچ کر رک جاتے ہیں سوا میرے کہ جب میں وہاں پہونچا میرے لئے اس کا ایک روزن کھولا گیا جس سے داخل ہوکر
نازعت اقدار الحق بالحق للحق
میں نے تقدیرات حق سے حق کے ساتھ حق کے لئے منازعت کی ۔مرد وہ ہے جو مزاعت کرے نہ کہ تسلیم۔
(احسن الوعا لآداب الدعا ص 80)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ
(1)؛ قضاء معلق شبیہ بالمبرم تک عام اولیاء کی رسائی نہیں ہے صرف سرکار سیدی غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہنچ ہے اسی لئے سرکار سیدی غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب اولیا قضائے معلق کو روکتے ہیں اور میں قضائے مبرم کو رد فرماتا ہوں
(2) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عام مومنین جنہیں الواح اور صحف ملائکہ کی خبر نہیں کہ کس کی تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے لیکن وہ حسب عادت کثرت سے دفع بلا کی دعا یا مطلوب حاصل ہونے کی دعا کرتے ہیں تو وہ پالیتے ہیں اسی لئے دعا کثرت سے کرنا چایئے اور اس کی دلیل حدیث شریف میں بھی موجود ہے کہ دعا قضائے مبرم کو رد کردیتی ہے
اسی قضاء معلق شبیہ بالمبرم کے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ
اکثر من الدعا فان الدعا یرد القضاء المبارم
یعنی دعا بکثرت سے مانگ کہ وہ دعا قضائے مبرم کو رد کردیتی ہے
(2) اور دوسری حدیث شریف میں ہے
الدعا جند من اجناد اللہ مجند یرد القضاء بعد ان یبرم
یعنی دعا اللہ تعالیٰ کے لشکروں سے ایک لام باندھا لشکر ہے کہ قضاء کو رد کردیتا ہے بعد مبرم ہونے کے (احسن الوعا لآداب الدعا ص 80)
الحاصل کہ صلہ رحمی یا اچھا سلوک کرنے یا نیکی کرنے یا کثرت سے دعا مانگنے سے عمر بڑھ جاتی ہے اور رزق میں وسعت اور برکت پیدا ہوتی ہے اور یہ سب اس کے لئے نیک تدبیر اور سبب ہے اور تدبیر اور سبب بھی تقدیر ہی سے ہے
جیسے شفا بیماری کے لئے دوائی کھانا حدیث شریف میں ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم : الدواء من القدر ینفع من یشاء لمس یشاء رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
دوائی خود بھی تقدیر سے ہے ۔اللہ تعالیٰ جسے چاہے جس دوا سے چاہے نفع پہونچا دیتا ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس رضوی قدس سرہ کے زبان پاک سے الملفوظ میں ایک واقعہ نقل ہے کہ عرض برکت رزق کی کوئی دعا حضور ارشاد فرمائیں میں آج کل بہت پریشان ہوں
ارشاد ایک صحابی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی ہے ۔فرمایا ۔کیا تمہیں وہ تسبیح یاد نہیں جو تسبیح ملائکہ کی ہے اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے خلق دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل و خوار ہوکر ۔طلوع فجر کے ساتھ سو (100) بار کہا کر
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم وبحمدہ استغفر اللہ۔ان صحابی رضی اللہ علیہ تعالیٰ عنہ کو سات دن گزرے تھے کہ خدمت اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : حضور دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی کہ میں حیران ہوں کہاں اٹھاوں ۔کہاں رکھوں اس تسبیح کا آپ بھی ورد رکھیں حتی الامکان طلوع صبح صادق کے ساتھ ہو ورنہ صبح سے پہلے جماعت قائم ہوجایے تو اس میں شریک ہوکر بعد کو عدد ہورا کیجئے اور جس دن قبل نماز نہ بھی ہوسکے تو خیر طلوع شمس سے پہلے ( الملفوظ جلد اول 61)
دیکھیں ! ایک صحابی تنگی رزق کی وجہ سے پریشان تھے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تسبیح ملائکہ پڑھنے کا حکم۔ فرمایا اور سات (7): دن میں وہ اس قدر دولت مند ہوگئے کہ مال رکھنے کی جگہ نہیں کہ کہاں رکھوں چلا پتہ کہ یہ بھی ایک سبب ہے جو تقدیر کے موافق ہے
ایک حدیث شریف میں روزہ رکھو تندرست ہو جاؤگے
دوسری حدیث میں ہے کہ حج کرو غنی ہو جاوگے۔
(الملفوظ سیدی اعلی حضرت بریلی شریف جلد اول ص 29..29)
الحاصل کہ سبب سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اسی طرح صلہ رحمی بھی عمر میں اضافہ اور رزق میں کشادگی کے لئے مجرب سبب ہے
حصول مدعا و دفع بلا کے لئے دعا ایک سبب ہے وہ سبب بھی تقدیر سے ہے جیسے
دیکھو ! رزق حاصل کرنے کا سبب تجارت ۔کاروبار اور نوکری ہے اگر کوئی یہ کام نہ کریں اور صرف دعا مانگے کہ اے اللہ مجھے کثیر رزق عطا فرما تو صرف دعا مانگنے سے روزی نہیں ملے گی چونکہ حصول رزق کا سبب کمانا ہے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ؛ اللہ تعالیٰ چھ شخصوں کی دعا قبول نہیں فرماتا ان میں ایک وہ ہے جو اپنے گھر میں مونھ پھیلائے بیٹھا رہے ۔کہ اے رب میرے مجھے روزی دے اللہ عزوجل فرماتا ہے ؛ کیا میں نے تجھے رزق ڈھونڈھنے کا حکم نہ دیا ۔کیا تم نے میرا ارشاد نہ سنا ۔
فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ
پھیل جاؤ زمین میں اور ڈھونڈھو فضل اللہ کا۔
(احسن الوعا لآداب الدعا ص 49)
اسی طرح درازی عمر اور وسعت رزق کے لئے صلہ رحمی ایک سبب ہے جو مجربات میں سے ہے خواہ حقیقتا اضافہ ہو یا برکت ہو برکت کا دوسرا نام اضافہ ہی ہے
قضاء معلق میں یہ لکھا ہوگا کہ فلاں کی عمر ساٹھ سال ہے اور اگر صلہ رحمی کیا تو صلہ رحمی کی برکت سے اسی سال عمر ہوجایے گی یا فلاں نیک کام کرے گا یا دعا مانگے گا تو اس کی عمر بڑھ جائے گی اور آسی طرح رزق کا معاملہ ہے کہ فلاں کو اتنی روزی ملے گی اگر صلہ رحمی کیا یا کوئی نیک کام کیا یا دعا مانگی یا برکت کی دعا کا ورد کیا تو روزی بڑھ جائے گی ۔قضاء مبرم میں کوئی تبدیل نہیں اور قضاء معلق اور قضاء معلق شبیہ بالمبرم میں تبدیل ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے کہ
خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔
یمحوا اللہ مایشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب
یعنی اللہ عزوجل جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا ( لکھتا )ہے اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے ( کنز الایمان پارہ 13 الرعد 39)
حضور حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
تاقیامت جو کچھ ہونے والا وہ سب سے پہلے ہی لکھا جاچکا ہے بار بار ہر واقعہ کی تحریر نہیں ہوتی ۔تقدیر تین قسم کی ہے
مبرم معلق، اور معلق مشابہ مبرم، تقدیر مبرم میں ترمیم تبدیل ناممکن ہے مگر تقدیر معلق میں سب کچھ ہوتا رہتا ہے تقدیر مبرم علم آلہی سے اور معلق لوح محفوظ کی تحریر اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے یمحوا اللہ مایشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب خیال رہے کہ تدبیر بھی تقدیر میں اچکی ہے لہذا تدبیر سے غافل نہ رہو۔
(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 7 ص ۔118)
مدارک التنزیل میں ہے کہ
یمحوا اللہ مایشاء
یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس کو منسوخ کرنا چاہتا ہے اسے منسوخ کردیتا یے ( نسخ کا معنی ہے : کسی چیز کے حکم کی اختتامی مدت کو بیان کرنا )
ویثبت اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے یعنی اس کو بغیر منسوخ کے ترک کردیتا ہے
یااللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فرشتوں کے دفتر ناموں سے مٹا دیتا ہے اور اس کے علاؤہ ثابت رکھتا ہے یا توبہ کرنے والوں کا کفر مٹا دیتا ہے اوران کے ایمان کو ثابت رکھتا ہے
یاجس کی موت کا وقت آجاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مار دیتا ہے اور اس کا برعکس بھی کردیتا ہے ( اور نافع مدنی ۔ابن عامر شامی ۔حمزہ اور علی کسائی کی قراءت میں ( یثبت ) بجائے تخفیف کے ثا مفتوح اور با مشدد مکسور باب تفعیل سے ) یثبت ہے ۔
وعندہ ام الکتاب اور کتاب کی اصل اس کے پاس ہے یعنی ہر کتاب کی اصل اسی کے پاس ہے اور وہ لوح محفوظ ہے ۔اس لئے کہ ہر ہونے والا کام اس میں لکھا ہوا ہے۔
(تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل سوری رعد جلد دوئم ص 229)
اس تفسیر مدارک میں اس آیت کے تحت کئی مطالب منقول ہے جن میں ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ
یا جس کی موت کا وقت آجاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مار دیتا ہے اور اس کے برعکس بھی کردیتا ہے۔
یعنی موت کو ٹال دیتا ہے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موت کا وقت ٹلتا بھی ہے اللہ تعالیٰ رب قدیر ہے جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے جس کو موت دے یا جس کی عمر کو بڑھا دے یعنی صلہ رحمی و نیکی اور دعا کی برکت سے موت کا وقت ٹال دے اور عمر کو بڑھا دے
قرآن شریف میں ہے
وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتاب ۔ان ذلک علی اللہ یسیر
یعنی اور کسی عمر رسیدہ کی عمر نہیں بڑھائی جاتی اور نہ اس کی عمر میں سے کچھ کمی کی جاتی ہے مگر ایک کتاب میں تحریر ہوچکا ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے
وما یعمر من معمر
یعنی کسی شخص کی عمر میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور اسے معمر اس لئے کہا کہ آخر کار اس نے بڑھاپے کی عمر کی طرف لوٹ جاتا ہے
ولا ینقص من عمرہ الا فی کتاب
اور نہ اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر ایک کتاب میں تحریر ہوچکا ہے یعنی لوح محفوظ میں یا انسان کے صحیفہ میں تحریر ہوچکا ہے(سورہ فاطر)
علامہ شیخ اسماعیل حقی حنفی تفسیر روح البیان میں اس آیت مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
(1) بعض علماء نے فرمایا کہ ایک ہی انسان کی عمر مختلف اسباب کی وجہ سے بڑھتی گھٹتی ہے ۔جیسا کہ لوح محفوظ میں لکھ دیاجاتا ہے کہ فلاں آدمی نے اگر حج پڑھا( اگر حج کیا ) تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی ورنہ چالیس سال کی عمر میں مرجائے گا ۔اس سے ثابت ہوا کہ اس کی انتہائی ساٹھ سال کی حج نہ پڑھنے ( نہ کرنے ) کی وجہ سے چالیس ہوئی ۔ایسے ہی عمر کو معلق کیا جاتا ہے کہ اگر اس نے صدقہ دیا یا صلہ رحمی کی تو اس کی عمر اسی سال ہوگی ورنہ پچاس سال ہوگی
(2) حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ اور صلہ رحمی علاقے آباد کرتے ہیں اور زندگیاں بڑھاتے ہیں
(3) جب کوئی آدمی صلہ رحمی کرتا ہے تو اس سے پہلے اس کی عمر کے صرف تین دن باقی رہتے ہوں گے
لیکن صلہ رحمی کی برکت سے اس کی عمر بڑھا کر تیس سال کردی جاتی ہے ۔ایسے ہی جب کوئی آدمی صلہ رحمی نہیں کرتا تو اس کی عمر تیس سال سے کم کرکے صرف تین دن کردی جاتی ہے
(4):والدین کی خدمت گزاری عمر کو بڑھاتی ہے ۔جھوٹ رزق کو گھٹاتا ہے اور دعا تقدیر کو تبدیل کردیتی ہے (یہ تقدیر معلق کی بات ہے جس میں تبدیل ہوتی ہے لیکن تقدیر مبرم میں تبدیل نہیں ہوتی کہ وہ اٹل ہوتی ہے)
(تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل جلد سوم ص 188 کے نیچے حاشیہ میں بحوالہ تفسیر روح البیان مترجم 21 پارہ ۔ ص 470 ۔مطبوعہ مکتبہ اوسیہ رضویہ بہالہور)
حضور خاتم المحققین رئیس الاتقیا حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نقی علی خان صاحب بریلوی قدس سرہ نے بھی اس آیت مبارکہ سے قضاء معلق مراد لیتے ہیں جیسا کہ احسن الوعا لآداب الدعا ص 79 میں ہے
حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
اولاد کے حق میں باپ کی دعا قبول ہے اور بدعا بھی والد سے مراد ماں باپ دونوں ہیں دادا بھی اس میں داخل ہے ۔کہ بالواسطہ وہ بھی والد ہے ۔ماں کی دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ جلد سوم ص 301)
*الحاصل کہ بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ صلہ رحمی ۔ خدمت والدین یا حج کرنے یا نیک کام کرنے سے حقیقت میں عمر بڑھتی ہے اور گناہ کرنے سے عمر گھٹتی ہے اسی طرح ان اسباب سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہ کی وجہ سے رزق میں تنگی بھی آتی ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ عمر بڑھتی نہیں ہے مگر ان اسباب سے عمر میں اتنی برکت ہوجاتی ہے کہ جو شخص اسی سال جتنا کام کرے گا صلہ رحمی کرنے والا ساٹھ سال میں اتنا ہی یا اس سے زائد کام کرلے گا یہ برکت رزق اور عمر دراز ہے تیسرا قول یہ بھی واضح ہوا کہ ان اسباب کے عامل کے مرنے کے بعد لوگوں میں اس کا ذکر خیر سے نام لیا جائے گا اس کا مطب یہ ہوا کہ ذکر کا باقی رہنا بھی درازی عمر کی دلیل ہے اور یہ سب اقوال دلائل میں اپنی قوت پر ہے
اور اس فقیر ثناءاللہ خان کی تحقیق میں یقینا ان اسباب یعنی صلہ رحمی۔ صدقہ ۔خدمت والدین اور نیک نیتی سے نیک عمل کرنے والے سب کی عمر بڑھتی ہے ورنہ اس باب میں حدیث متعدد بار تاکید کے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی اصل بات یہ ہے کہ شارع نے جو بیان کردیا ہے اور جس طرح فرمایا ہے بس اسی پر ایمان لانا اور اعتقاد رکھنا چاہئے جس طرح وجود ہر شی کا کسی سبب سے مربوط ہے ۔اسی طرح ہر چیز کے روکنے اور دفع کرنے اور حصول مدعا کے لئے بھی ایک سبب مقرر ہے بس *صلہ رحمی ۔والدین کی خدمت عمر کو بڑھاتی ہے اور یہی ان حصول مدعا کے لئے صلہ رحمی سبب ہے اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ بعض اسباب سے عمر میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور وہ بھی لوح محفوظ میں لکھی ہے پس قضاء میں تغیر قضاء کے مطابق روا ہے*.
اور سب سے آخری دلیل کہ خدا تعالیٰ سے جو جیسا گمان رکھے گا وہی پائے گا اگر اضافہ کا گمان ہے تو اضافہ ہوگا اور برکت کا گمان ہے تو برکت ہوگی یہ فقیر خدا تعالیٰ سے طویل عمر خیر عمل صالح اور وسعت رزق کے ساتھ گمان رکھتا ہے اور ان دونوں میں بے شمار برکتیں اور پھر اس سے فائدہ اور نفع حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے چونکہ میرا گمان
ان ظن عبدی بی کے مطابق ہے اور ارشاد نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر یقین ہے کہ صلہ رحمی اور خدمت والدین سے عمر بڑھتی ہے اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 16 ذی القعدہ 1444
6 جون 2023
ازقلم:-
حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی۔
ترسیل:-
محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی۔
اسمائے اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک سیتا مڑھی بہار۔
اور اسمائے اراکین تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست:-
حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی۔
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی۔
(2) رکن خصوصی:-
شیخ طریقت ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھوٹونہ نیپال۔
(3)*رکن خصوصی:-
جامع معقولاٹ و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی
(5) حضرت سراج العلماء مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی۔
(6) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
(7)پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی زین اللہ خاں ثنائی صدر دارالافتاء شاخ حضور مفتی اعظم بہار خلیفہ سرکار مفتی اعظم بہار مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرہاوی سیتا مڑھی بہار۔
نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر۔
(8) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند رضا شارق بتاہی امام جامعہ مسجد کوئلی سیتامڑھی۔
(9) ناصر قوم و ملت حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص ایٹہروی کنہولی۔
(10) استاذ الحفاظ ممتاز القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی کچور۔
(11) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی۔
(12) خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھوٹونوی نیپال۔
(13) ماہر تعویذات ہمدرد قوم و ملت حضرت علامہ مولانا
محمد عثمان احمد قادری اشرفی رضوی برکاتی
مقام برکاتی نگر گھور گھورا ضلع سیتا مڑھی بہار
(14) شاعر اسلام مداح رسول کائنات ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد شمیم انجم نیپالی موہن پور نیپال۔
(15) مقرر عالی شان ۔خطیںب ہند و نیپال ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد قطب الدین صاحب۔
خطیب و امام موہن ہور نیپال۔
(16) عاشق مسلک سیدی اعلی حضرت بےمثال خطیب حضرت علامہ مولانا محمد اویس رضا قادری مینا پور شیوہر۔
(17) عامل تعویزات حضرت علامہ مولانا غلام مصطفی ثنائی مرہا۔
(18) شاعر اسلام مداح رسول الثقلین حضرت علامہ مولانا محمد غلام رسول احمد ضیاء مرغیاچک۔