Type Here to Get Search Results !

شوہر کے وفات پر بیوی کتنے دن عدت گزارے گی؟

 
شوہر کے وفات پر بیوی کتنے دن عدت گزارے گی؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید جو عمر کا بیٹا ہے جس کی شادی کی تاریخ متعین ہو چکی ہے اور تاریخ آگے بڑھا بھی نہیں سکتے لیکن اچانک زید کے والد صاحبزادے کا انتقال ہو گیا اب زید کی والدہ عدت میں ہے،کیا عدت کی حالت میں زید کی والدہ شادی میں شریک ہو سکتی ہے ۔جب کہ شادی فنکشن ہال میں ہے ۔اور کیا ضرورت کے تحت عدت والی عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں خواب دیں مہربانی ہوگی؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب:-
دوران عدت بلا عذرِ شرعی بیوہ کا باہر نکلنا شرعاً جائز نہیں ہے،البتہ اگر کوئی سخت مجبوری درپیش ہو تو اس کے لیے باہر نکلنا جائز ہے، مثلاً شدید بیماری میں علاج کے غرض سے ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، یا مثلاً گھر کی چھت گرنے کا امکان ہو، یا کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے مکان خالی کرنا پڑے وغیرہ، جب کہ شادی میں شرکت کرنا ایسا عذر نہیں ہے، جس کی وجہ سے نکلنے کی گنجائش ہو۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں عدت کے دوران زید کی والدہ محترمہ زید کی شادی میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہیں، البتہ گھر کے اندر رہتے ہوئے بغیر زیب و زینت اختیار کیے شادی میں آئے ہوئے مہمانوں(محرم مردوں اور عورتوں) سے ملاقات کرسکتی ہے، اور اگر زید اپنی شادی میں ان کی شرکت کو ضروری سمجھتے ہوں،تو شادی کو مؤخر کرکے بعد عدت کی کوئی تاریخ مقرر کریں۔
کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن الکریم:
"وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنكُمۡ وَيَذَرُونَ أَزۡوَٰجٗا ‌يَتَرَبَّصۡنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرۡبَعَةَ أَشۡهُرٖ وَعَشۡرٗاۖ فَإِذَا بَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيمَا فَعَلۡنَ فِيٓ أَنفُسِهِنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٞo"
(سورۃ البقرۃ الآیۃ:234)
ترجمہ:"اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو اے (عدت) والیو تم پر مواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔"(کنز الایمان)
مذکورہ بالا آیت کے تحت خزائن العرفان فی ہے:"جس کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار ماہ دس روز ہے اس مدت میں نہ وہ نکاح کرے نہ اپنا مسکن چھوڑے نہ بے عذر تیل لگائے نہ خوشبو لگائے نہ سنگار کرے نہ رنگین اور ریشمیں کپڑے پہنے نہ مہندی لگائے نہ جدید نکاح کی بات چیت کھل کر کرے"۔
(خزائن العرفان)
وکما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید:
"لَا تُخْرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ"(سورۃ الطلاق الآیۃ:01)
ترجمہ:"عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں مگر یہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں"
(کنز الایمان)
اسی آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان فی ہے:"اے لوگو!عدت کے دنوں میں عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ اس دوران وہ خود اپنی رہائش گاہ سے نکلیں کیونکہ یہ رہائش محض شوہر کا حق نہیں ہے ،جو اس کی رضامندی سے ساقط ہوجائے ،بلکہ یہ شریعت کا حق بھی ہے۔“
(تفسیرصراط الجنان،ج10،ص197)
اور علامہ محمد امین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:”لاتخرج المعتدہ عن طلاق أوموت الالضرورة“یعنی جس عورت کو طلاق ہوجائے یا جس کا شوہر فوت ہو جائے ، وہ دورانِ عدت کسی ضروت کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔"
(ردالمحتار،کتاب الطلاق،فصل فی الحداد، ج:05،ص:229)
اسی میں ہے:"وتعتدان أی معتدة طلاق وموت في بیت وجبت فیہ ولا یخرجان منہ إلا أن تُخْرَجَ أو یہتدم المنزل أو تخاف انہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذلک من الضرورات"اھ (درمختار مع الشامی،ج:05ص:225)
صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:”موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی ، اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑ کر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کر سکتی مگر بضرورت آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں، وہ یہاں مراد نہیں، بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔“
(بہار شریعت،حصہ:08،ص:245)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- 
اسیر حضور تاج الشریعہ تلمیذ حضور محدث کبیر احقر العباد مفتی نور محمد قادری امجدی دیناجپوری
خادم تدریس:-
دارالعلوم نور الاسلام حشمت پیٹ حیدرآباد تلنگانہ۔
04/ربیع الاول 1445ھ
20/ستمبر 2023ء
الجواب صحیح:-
فاضلِ علوم و فنون ماہر درسیات عالم نبیل فاضلِ جلیل 
حضرت علامہ مفتی طیب حسین امجدی مدظلہ العالی
مدرس ۔۔ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی یوپی ۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
ممتاز القلم عالم نبیل فاضلِ جلیل خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین عبدالرشید امجدی‌ اشرفی دیناجپوری
_خادم سنی حنفی دارالافتا_

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area