سود خور کے گھر میں کھانا کھانے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جامع مسجد کےایک امام اپنی جماعت کے لوگوں کے بارے میں تقریباً سب کچھ جانتے ہیں کون سود کھاتے ہیں کون نہیں کھاتے ہیں اور اگر وہی امام ایک سود خور کے گھر میں جان بوجھ کر کھانا کھاتے ہیں اور معلوم ہوجائے تو کیا اس امام کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں ہو گی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جامع مسجد کےایک امام اپنی جماعت کے لوگوں کے بارے میں تقریباً سب کچھ جانتے ہیں کون سود کھاتے ہیں کون نہیں کھاتے ہیں اور اگر وہی امام ایک سود خور کے گھر میں جان بوجھ کر کھانا کھاتے ہیں اور معلوم ہوجائے تو کیا اس امام کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں ہو گی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔
سائل:- محمد منیر الدین چوپڑا اتر دیناجپور بنگال۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں سود کے ذریعہ حاصل روپئے حرام ہے جس سے لیا اسے واپس کردے سود کھانا حرام ہے اسے ثواب سمجھ کر خیرات میں دینا حرام ہے اس سے سامان خریدنا بھی حرام ہے لیکن فقہاء کرام کے نزدیک ۔ حرام مال سے کچھ خریدے تو اس کی پانچ صورتیں ہیں جن میں صورت اول و ۔دوم کے ذریعہ مال کھانا جائز نہیں۔اور باقی تین صورتیں میں اختلاف علماء کے باوجود بھی امام کرخی کے قول پر جائز ہے ردالمحتار میں ہے کہ فی التتارخانیہ رجل اکتسب مالا من حرام ثم اشتری فھذا علی خمسۃ اوجہ اما ان دفع تلک الدراھم الی البائع اولا ثم اشتری منھما اواشتری قبل الدفع بھاؤ دفع غیرھا۔اواشتری مطلقا و دفع تلک الدراھم او اشتری بدراھم اخروٹ دفع تلک الدراھم۔
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں سود کے ذریعہ حاصل روپئے حرام ہے جس سے لیا اسے واپس کردے سود کھانا حرام ہے اسے ثواب سمجھ کر خیرات میں دینا حرام ہے اس سے سامان خریدنا بھی حرام ہے لیکن فقہاء کرام کے نزدیک ۔ حرام مال سے کچھ خریدے تو اس کی پانچ صورتیں ہیں جن میں صورت اول و ۔دوم کے ذریعہ مال کھانا جائز نہیں۔اور باقی تین صورتیں میں اختلاف علماء کے باوجود بھی امام کرخی کے قول پر جائز ہے ردالمحتار میں ہے کہ فی التتارخانیہ رجل اکتسب مالا من حرام ثم اشتری فھذا علی خمسۃ اوجہ اما ان دفع تلک الدراھم الی البائع اولا ثم اشتری منھما اواشتری قبل الدفع بھاؤ دفع غیرھا۔اواشتری مطلقا و دفع تلک الدراھم او اشتری بدراھم اخروٹ دفع تلک الدراھم۔
یعنی تاتارخانیہ میں ہے کہ کسی نے حرام مال کمایا پھر اس سے کچھ خریدا تو اس کی پانچ صورتیں ہیں۔
پہلی:- یہ کہ یہ حرام دراھم بائع کو دیا پھر اس کے عوض کچھ خریدا
دوم:- یہ کہ دینے سے قبل خریدا اور عوض میں وہی حرام دیا۔
سوم:- یہ کہ دینے سے قبل خریدا اور عوض میں اور مال دیا۔
چہارم:- یہ کہ مطلقا خریداری کی اور ادائیگی میں یہ مال دیا ۔
پنجم:- یہ کہ دوسرے دراھم سے خریدا اور ادائیگی میں یہ دراھم دیئے۔
قال ابونصر یطیب کہ ولایجب لہ ان یتصدق الا فی الوجہ الاول، والیہ ذھب الفقیہ ابو اللیث لکن ھذا خلاف ظاہر الروایۃ فانہ نص فی الجامع الصغیر اذا غضب الفافاشتری بھا جاریۃ و باعھا بالیقین تصدق بالربح۔
پہلی:- یہ کہ یہ حرام دراھم بائع کو دیا پھر اس کے عوض کچھ خریدا
دوم:- یہ کہ دینے سے قبل خریدا اور عوض میں وہی حرام دیا۔
سوم:- یہ کہ دینے سے قبل خریدا اور عوض میں اور مال دیا۔
چہارم:- یہ کہ مطلقا خریداری کی اور ادائیگی میں یہ مال دیا ۔
پنجم:- یہ کہ دوسرے دراھم سے خریدا اور ادائیگی میں یہ دراھم دیئے۔
قال ابونصر یطیب کہ ولایجب لہ ان یتصدق الا فی الوجہ الاول، والیہ ذھب الفقیہ ابو اللیث لکن ھذا خلاف ظاہر الروایۃ فانہ نص فی الجامع الصغیر اذا غضب الفافاشتری بھا جاریۃ و باعھا بالیقین تصدق بالربح۔
یعنی ابونصر نے کہا پہلی صورت کے بغیر تمام صورتوں میں خریدا ہوا مال طیب ہے اور صدقہ کرنا بھی واجب نہیں اسی کو ابواللیث نے اختیار کیا ہے لیکن یہ ظاہر روایت کے خلاف ہے کیونکہ جامع صغیر میں نص ہے کہ اگر کسی نے ہزار غضب کیا اور اس کے عوض لونڈی خریدی اور دو ہزار میں فروخت کی تو نفع صدقہ کرے۔
وقال الکرخی فی الوجہ والثانی لایطیب ۔و فی الثلاث آلا خیرۃ یطیب ۔یعنی امام کرخی نے فرمایا کہ اول و ثانی میں طیب نہ ہوگا اور آخری تین صورتوں میں طیب ہے
وقال ابوالبکر لایطیب فی الکل یعنی اور ابو بکر نے فرمایا تمام صورتوں میں طیب نہیں۔
لیکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس۔
وقال الکرخی فی الوجہ والثانی لایطیب ۔و فی الثلاث آلا خیرۃ یطیب ۔یعنی امام کرخی نے فرمایا کہ اول و ثانی میں طیب نہ ہوگا اور آخری تین صورتوں میں طیب ہے
وقال ابوالبکر لایطیب فی الکل یعنی اور ابو بکر نے فرمایا تمام صورتوں میں طیب نہیں۔
لیکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس۔
یعنی لیکن آج کل فتویٰ امام کرخی کے قول پر ہے تاکہ لوگوں سے حرج کا ازالہ ہوسکے۔(ردالمحتار )
امام اہل سنت مجدد اعظم سرکار امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حرام مال مثل زر غضب ورشوت وسرقہ واجرت معاصی وغیرہ سے جو چیز خریدی جائے اس کی چند صورتیں ہیں
(1) مثلا صلی فروش کے سامنے (حرام ) روپیہ ڈال دیا کہ اس کے گیہوں دے دے۔ اس نے دے دیئے یا بزاز کو روپیہ پہلے دیا (یعنی بعینہ مال حرام ) کہ اس کا کپڑا دے یہ گیہوں و کپڑا حرام ہے۔
(2). دوسرے یہ کہ روپیہ پہلے تو نہیں دیا مگر عقد ونقد دونوں اس پر جمع کئے یعنی خاص اس روپیے کی تعین سے اس کے عوض خریدا ۔اور یہی روپیہ (یعنی مال حرام ) قیمت میں ادا کیا ۔مثلا غلہ فروش کو یہ حرام روپیہ دکھا کر کہا اس روپیہ کے گیہوں دے دے اس نے دے دیا ۔اس نے یہی روپیہ (حرام ) اسے دے دیا ۔اس صورت میں گیہوں حرام ہے۔
(3) تیسرے یہ کہ نہ روپیہ پہلے دیا نہ اس پر عقد و نقد جمع کئے ۔اس کی بھی تین شکلیں ہیں۔
(1) یہ کہ اس سے کہا ( یعنی دوکاندار سے ) کہ ایک روپیہ کا گیہوں دے دے ۔کچھ روپیہ کی تخصیص نہ کی کہ اس کے بدلے دے ۔جب اس نے تول دیئے اس نے زر ثمن میں جو بعوض گندم اس کے ذمہ واجب ہوا تھا، یہ حرام روپیہ دے دیا مگر عقد کسی خاص روپیہ پر نہ ہوا
(2) یہ کہ پہلے اسے حلال روپیہ دکھا کر اس کے بدلے گیہوں لیئے ۔جب اس نے دے دیئے اس نے وہ روپیہ حلال اٹھا لیا اور قیمت میں زر حرام دے دیا ۔اس صورت میں عقد زر حلال پر ہوا ور نقد حرام۔
(3) سوم یہ کہ اس کا عکس یعنی پہلے اس حرام روپیہ کو دکھا کر کہا ۔اس کے گیہوں دے دے پھر دیتے وقت حلال روپیہ دیا ۔اس صورت میں عقد زر حرام پر ہوا اور نقد حلال پر۔
بہر حال تینوں صورتوں میں عقد و نقد زر حرام پر جمع نہ ہوئے نہ پہلے سے زر حرام دے کر چیز خریدی کہ حقیقۃ یہ بھی اجتماع عقد و نقد کی عورت تھی ان تینوں صورتوں میں بھی بڑا قوی مذہب ہمارے ائمہ کا یہ ہے کہ وہ گیہوں حرام ہوں گے۔ مگر زمانہ کا حال دیکھ کر ائمہ متاخرین نے امام کرخی کا قول اختیار کیا کہ ان شکلوں میں وہ چیز حرام نہ ہوگی
(1) مثلا صلی فروش کے سامنے (حرام ) روپیہ ڈال دیا کہ اس کے گیہوں دے دے۔ اس نے دے دیئے یا بزاز کو روپیہ پہلے دیا (یعنی بعینہ مال حرام ) کہ اس کا کپڑا دے یہ گیہوں و کپڑا حرام ہے۔
(2). دوسرے یہ کہ روپیہ پہلے تو نہیں دیا مگر عقد ونقد دونوں اس پر جمع کئے یعنی خاص اس روپیے کی تعین سے اس کے عوض خریدا ۔اور یہی روپیہ (یعنی مال حرام ) قیمت میں ادا کیا ۔مثلا غلہ فروش کو یہ حرام روپیہ دکھا کر کہا اس روپیہ کے گیہوں دے دے اس نے دے دیا ۔اس نے یہی روپیہ (حرام ) اسے دے دیا ۔اس صورت میں گیہوں حرام ہے۔
(3) تیسرے یہ کہ نہ روپیہ پہلے دیا نہ اس پر عقد و نقد جمع کئے ۔اس کی بھی تین شکلیں ہیں۔
(1) یہ کہ اس سے کہا ( یعنی دوکاندار سے ) کہ ایک روپیہ کا گیہوں دے دے ۔کچھ روپیہ کی تخصیص نہ کی کہ اس کے بدلے دے ۔جب اس نے تول دیئے اس نے زر ثمن میں جو بعوض گندم اس کے ذمہ واجب ہوا تھا، یہ حرام روپیہ دے دیا مگر عقد کسی خاص روپیہ پر نہ ہوا
(2) یہ کہ پہلے اسے حلال روپیہ دکھا کر اس کے بدلے گیہوں لیئے ۔جب اس نے دے دیئے اس نے وہ روپیہ حلال اٹھا لیا اور قیمت میں زر حرام دے دیا ۔اس صورت میں عقد زر حلال پر ہوا ور نقد حرام۔
(3) سوم یہ کہ اس کا عکس یعنی پہلے اس حرام روپیہ کو دکھا کر کہا ۔اس کے گیہوں دے دے پھر دیتے وقت حلال روپیہ دیا ۔اس صورت میں عقد زر حرام پر ہوا اور نقد حلال پر۔
بہر حال تینوں صورتوں میں عقد و نقد زر حرام پر جمع نہ ہوئے نہ پہلے سے زر حرام دے کر چیز خریدی کہ حقیقۃ یہ بھی اجتماع عقد و نقد کی عورت تھی ان تینوں صورتوں میں بھی بڑا قوی مذہب ہمارے ائمہ کا یہ ہے کہ وہ گیہوں حرام ہوں گے۔ مگر زمانہ کا حال دیکھ کر ائمہ متاخرین نے امام کرخی کا قول اختیار کیا کہ ان شکلوں میں وہ چیز حرام نہ ہوگی
اور اس کا کھانا پہنا تصرف میں لانا جائز ہوگا اس آسان فتویٰ کی بنا پر ان حرام روپیہ والوں کے یہاں کا کھانا یا پان وغیرہ کھانا یینا مسلمانوں کو روا ہے کہ وجہ حرام سے ان لوگوں کا بعینہ کھانا نہیں آتا ۔بلکہ روپیہ آتا ہے ۔یہ اس کے عوض اشیاء خرید کر کھنا تیار کراتے ہیں، اور خریدا ری میں عام طریقہ شائعہ کے طور پر عقد و نقد کا اجتماع نہیں ہوتا بلکہ غالب بیع و شرا صورت ثالثہ کی شکل اول پر واقع ہوتی ہے۔
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد پنجم ص318)
پھر جن صورتوں میں وہ کھانا ان دونوں مذہب پر حرام ہے ۔یعنی دو صورت پیش ان میں اگر بسم اللّٰہ کہ کر کھایا ۔برا کیا ۔مگر کافر ہر گز نہیں کہا جائے گا، اس کی حرمت ضروریات دین سے ہونا درکنار اجماع بھی نہیں
الحاصل یہ کھانا اس امام کے لئے حرام نہیں ہے جب حرام نہیں تو وہ امام فاسق معلن بھی نہیں ہوا ویسے ظاہر سود خور کے یہاں کھانا نہیں کھانا چائیے۔
پھر جن صورتوں میں وہ کھانا ان دونوں مذہب پر حرام ہے ۔یعنی دو صورت پیش ان میں اگر بسم اللّٰہ کہ کر کھایا ۔برا کیا ۔مگر کافر ہر گز نہیں کہا جائے گا، اس کی حرمت ضروریات دین سے ہونا درکنار اجماع بھی نہیں
الحاصل یہ کھانا اس امام کے لئے حرام نہیں ہے جب حرام نہیں تو وہ امام فاسق معلن بھی نہیں ہوا ویسے ظاہر سود خور کے یہاں کھانا نہیں کھانا چائیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
رابطہ نمبر:- 📲6203312595
🌹✅✅الجواب صحیح
🌹✅✅الجواب صحیح
حضرت مولانا مفتی محمد عتیق اللہ فیضی صدیقی صاحب قبلہ
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریا کلاں ڈومریا گنج سدھار تھنگر یوپی
رابطہ نمبر:- 📲7081618182
🌹✅✅الجواب صحیح
حضرت مولانا مفتی محمد تحسین رضا قادری صاحب قبلہ
استاذ دارالعلوم ضیاۓ مصطفی کانپور
رابطہ نمبر:- 📲9794045786
🌹✅✅الجواب صحیح
غیاث الدین قادری
پرنسپل دارالعلوم شہید اعظم دولہا پور پہاڑی انٹیا تھوک گونڈہ یوپی
رابطہ نمبر :- 📲8887740180
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریا کلاں ڈومریا گنج سدھار تھنگر یوپی
رابطہ نمبر:- 📲7081618182
🌹✅✅الجواب صحیح
حضرت مولانا مفتی محمد تحسین رضا قادری صاحب قبلہ
استاذ دارالعلوم ضیاۓ مصطفی کانپور
رابطہ نمبر:- 📲9794045786
🌹✅✅الجواب صحیح
غیاث الدین قادری
پرنسپل دارالعلوم شہید اعظم دولہا پور پہاڑی انٹیا تھوک گونڈہ یوپی
رابطہ نمبر :- 📲8887740180