شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی نظر میں فاتحہ و شیرنی تقسیم کرنا کیسا ہے؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور اسمعیل دہلوی فاتحہ کرتے تھے اور اس میں شیرینی وغیرہ بھی تقسیم کرتے تھے اور دوسرے کو بھی کرنے کا حکم دیتے تھے
یہ تمام لوگ فاتحہ، نذر ونیاز کرتے تھے اور شیرینی مالیدہ کھانا وغیرہ بھی تقسیم کرتے تھے آپ ان کی کتب کا مطالعہ کریں سب سمجھ میں آجائے گا کہ حقیقت کیا ہے اور آج کل ان کے ماننے والے کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں جو لوگ فاتحہ کرنے یا شیرینی رکھنے کو بدعت کہتے ہیں وہ ضرور دل سے اس مضمون کو پڑھیں اور سمجھیں
دلیل اول :-
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہادت کہ فاتحہ و ایصال ثواب جائز ہے
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ بر قدرے شیرینی فاتحہ بنام خواجگان چشت عموما بخوانند و حاجت از خدائے تعالیٰ سوال نمایند۔ ہمیں طور ہر روزے مے خواندہ باشند۔
یعنی تھوڑی شیرینی پر عموما خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں ۔اسی طرح روز پڑھتے رہیں۔
دلیل اول :-
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہادت کہ فاتحہ و ایصال ثواب جائز ہے
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ بر قدرے شیرینی فاتحہ بنام خواجگان چشت عموما بخوانند و حاجت از خدائے تعالیٰ سوال نمایند۔ ہمیں طور ہر روزے مے خواندہ باشند۔
یعنی تھوڑی شیرینی پر عموما خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں ۔اسی طرح روز پڑھتے رہیں۔
(الانتباہ فی سلاسل الاولیاء ذکر طریقہ ختم خواجگان چشت برقی پریس دہلی ص 100)
اس عبارت سے تین باتوں کا علم ہوا
اول فاتحہ کرنا جائز ہے۔
دوم:- فاتحہ میں شیرینی رکھنا جائز ہے کیونکہ منقولہ الفاظ ہے
بر قدرے شیرینی فاتحہ یعنی تھوڑی شیرینی پر فاتحہ پڑھیں
سوم:- اور ہر روز اسی طرح کرنے کا حکم دے رہے ہیں
اب آج کل جو لوگ فاتحہ اور تقسیم شیرینی کو بدعت کہتے ہیں ان کے نزدیک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر کیا حکم لگے گا ؟ اس کا فیصلہ آپ لوگ خود کریں
دلیل دوم:-
یہی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی انفاس العارفین میں اپنے والد شاہ عبد الرحیم سے نقل کرتے ہیں
می فرمودند در ایام وفات حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم چیزے فتوح نشد کہ نیاز آں حضرت طعام پختہ شود ۔قدرے نخو و برہاں وقند سیاہ نیاز کردم۔
یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد شاہ عبد الرحیم فرماتے ہیں کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کے ایام وفات میں کچھ میسر نہ ہوا کہ آں حضرت کی نیاز کا کھانا پکایا جائے تھوڑے سے بھنے ہوئے چنے اور قند سیاہ (گڑ) پر نیاز کیا۔
اس عبارت سے تین باتوں کا علم ہوا
اول فاتحہ کرنا جائز ہے۔
دوم:- فاتحہ میں شیرینی رکھنا جائز ہے کیونکہ منقولہ الفاظ ہے
بر قدرے شیرینی فاتحہ یعنی تھوڑی شیرینی پر فاتحہ پڑھیں
سوم:- اور ہر روز اسی طرح کرنے کا حکم دے رہے ہیں
اب آج کل جو لوگ فاتحہ اور تقسیم شیرینی کو بدعت کہتے ہیں ان کے نزدیک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر کیا حکم لگے گا ؟ اس کا فیصلہ آپ لوگ خود کریں
دلیل دوم:-
یہی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی انفاس العارفین میں اپنے والد شاہ عبد الرحیم سے نقل کرتے ہیں
می فرمودند در ایام وفات حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم چیزے فتوح نشد کہ نیاز آں حضرت طعام پختہ شود ۔قدرے نخو و برہاں وقند سیاہ نیاز کردم۔
یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد شاہ عبد الرحیم فرماتے ہیں کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کے ایام وفات میں کچھ میسر نہ ہوا کہ آں حضرت کی نیاز کا کھانا پکایا جائے تھوڑے سے بھنے ہوئے چنے اور قند سیاہ (گڑ) پر نیاز کیا۔
(انفاس العارفین حضور کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت ص 106)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) فاتحہ میں شیرینی وغیرہ رکھنا جائز ہے
(2) شاہ عبد الرحیم صاحب والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کے ایام وفات میں کھانا پکواکر نیاز کرتے تھے
(3) ایک سال کچھ میسر نہیں ہوا تو بھنے ہوئے چنے اور گڑ پر نیاز کئے
اب آج کل جو لوگ سوم، تیجہ ، چہلم کو بدعت کہتے پھرتے ہیں ان کے نزدیک شاہ عبد الرحیم اور شاہ ولی اللہ محدث پر کیا فتویٰ لگے گا؟
اس کا فیصلہ آپ لوگ خود کریں
کیونکہ شاہ عبد الرحیم صاحب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ایام وفات میں کھانا پکاکر نیاز کرتے تھے جس کی تائید ان کے لڑکے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرمارہے ہیں آج سنی حضرات کسی کے ایام وفات میں فاتحہ و نذر ونیاز کرتے ہیں تو کچھ لوگ بدعت کہتے ہیں
(3) دلیل سوم:-
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی گواہی
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں
حضرت امیر و ذریۃ طاہرہ اور اتمام امت برمثال پیران ومرشداں می پرستند و امور تکوینیہ را وابستہ بالیشان می دانند و فاتحہ ودرود وصدقات ونذر و منت بنام ایشاں رائج و معمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است۔
یعنی مولانا شاہ عبد العزیز صاحب تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی مرتضی اور ان کی اولاد پاک کو تمام امت؛ پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتی ہے اور امور تکوینیہ ان سے وابستہ جانتی ہے اور ان کے نام فاتحہ و درود اور صدقات معمول ہے اور ایسے ہی تمام اولیاء اللہ کے ساتھ یہی معاملہ ہے (تحفہ اثناء عشریہ باب ہفتم در امامت ص 214)
شاہ عبد العزیز صاحب کی یہ عبارت سراپا بشارت جس کا ایک ایک حرف مخالف کے سر پر برق خاطف یا تباہ کن آگ بگولا ہے
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) تمام امت حضرت امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور ان کی اولاد پاک کو امور تکوینیہ ان سے وابستہ جانتی ہے
(2) حضرت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولادوں کا عالم وجود کے امور پر باذن اللہ دخل ہے مخالفین کو الفاظ امور تکوینیہ کو خیال میں رکھنا چاہئے
(3) ان حضرات قدسیہ کے نام سے فاتحہ، درود اور صدقات کیا کرتے ہیں ۔
(4) اور اسی طرح تمام اولیا بھی اللہ کے ساتھ معاملہ ہے یعنی تمام اولیاء اللہ کی نذر ونیاز امت محمدیہ دیتے ہیں
اب آج کل جو لوگ اولیاء اللہ کے لئے نذر ونیاز کو بدعت کہتے پھرتے ہیں وہ شاہ عبد العزیز صاحب پر کیا فتویٰ لگائیں گے
(4) دلیل چہارم:-
مولوی اسماعیل دہلوی خود فرماتے ہیں کہ
اگر شخصے بزے راخانہ پرورکند تاگوشت او خوب شود ۔اورا ذبح کردہ وپختہ فاتحہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خواندہ بخور اند خللے نیست۔
مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بکری کو گھر میں پالے تاکہ اس کا گوشت عمدہ ہو ۔اس کو ذبح کرکے اور پکا کر حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ پڑھ کر کھلائے تو کوئی خلل نہیں۔
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) فاتحہ میں شیرینی وغیرہ رکھنا جائز ہے
(2) شاہ عبد الرحیم صاحب والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کے ایام وفات میں کھانا پکواکر نیاز کرتے تھے
(3) ایک سال کچھ میسر نہیں ہوا تو بھنے ہوئے چنے اور گڑ پر نیاز کئے
اب آج کل جو لوگ سوم، تیجہ ، چہلم کو بدعت کہتے پھرتے ہیں ان کے نزدیک شاہ عبد الرحیم اور شاہ ولی اللہ محدث پر کیا فتویٰ لگے گا؟
اس کا فیصلہ آپ لوگ خود کریں
کیونکہ شاہ عبد الرحیم صاحب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ایام وفات میں کھانا پکاکر نیاز کرتے تھے جس کی تائید ان کے لڑکے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرمارہے ہیں آج سنی حضرات کسی کے ایام وفات میں فاتحہ و نذر ونیاز کرتے ہیں تو کچھ لوگ بدعت کہتے ہیں
(3) دلیل سوم:-
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی گواہی
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں
حضرت امیر و ذریۃ طاہرہ اور اتمام امت برمثال پیران ومرشداں می پرستند و امور تکوینیہ را وابستہ بالیشان می دانند و فاتحہ ودرود وصدقات ونذر و منت بنام ایشاں رائج و معمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است۔
یعنی مولانا شاہ عبد العزیز صاحب تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی مرتضی اور ان کی اولاد پاک کو تمام امت؛ پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتی ہے اور امور تکوینیہ ان سے وابستہ جانتی ہے اور ان کے نام فاتحہ و درود اور صدقات معمول ہے اور ایسے ہی تمام اولیاء اللہ کے ساتھ یہی معاملہ ہے (تحفہ اثناء عشریہ باب ہفتم در امامت ص 214)
شاہ عبد العزیز صاحب کی یہ عبارت سراپا بشارت جس کا ایک ایک حرف مخالف کے سر پر برق خاطف یا تباہ کن آگ بگولا ہے
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) تمام امت حضرت امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور ان کی اولاد پاک کو امور تکوینیہ ان سے وابستہ جانتی ہے
(2) حضرت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولادوں کا عالم وجود کے امور پر باذن اللہ دخل ہے مخالفین کو الفاظ امور تکوینیہ کو خیال میں رکھنا چاہئے
(3) ان حضرات قدسیہ کے نام سے فاتحہ، درود اور صدقات کیا کرتے ہیں ۔
(4) اور اسی طرح تمام اولیا بھی اللہ کے ساتھ معاملہ ہے یعنی تمام اولیاء اللہ کی نذر ونیاز امت محمدیہ دیتے ہیں
اب آج کل جو لوگ اولیاء اللہ کے لئے نذر ونیاز کو بدعت کہتے پھرتے ہیں وہ شاہ عبد العزیز صاحب پر کیا فتویٰ لگائیں گے
(4) دلیل چہارم:-
مولوی اسماعیل دہلوی خود فرماتے ہیں کہ
اگر شخصے بزے راخانہ پرورکند تاگوشت او خوب شود ۔اورا ذبح کردہ وپختہ فاتحہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خواندہ بخور اند خللے نیست۔
مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بکری کو گھر میں پالے تاکہ اس کا گوشت عمدہ ہو ۔اس کو ذبح کرکے اور پکا کر حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ پڑھ کر کھلائے تو کوئی خلل نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم ص 578 بحوالہ رسالہ زبدۃ النصائح)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1)سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے گھر میں بکری پال سکتے ہیں یا بکری پالے تاکہ گھر کا کھانا کھاکر اس بکری کا گوشت عمدہ ہوجائے
(2) پھر اس بکری کو ذبح کرکے اور پکاکر سرکار غوث اعظم شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ کی فاتحہ پڑھ کر لوگوں کو کھلا دے تو کوئی حرج نہیں یعنی جائز و درست ہے
(3) اس عبارت کا جملہ بکری کے گوشت پر فاتحہ پڑھ کر لوگوں کو کھلائے قابل یاد رکھنے کی بات ہے۔
(4) خود امام الطائفہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں یہ بات بھی قابل حفظ ہے اور یاد رکھنے کے لئے مناسب ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی خود شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غوث اعظم مان رہے ہیں کہہ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں اور غوث اعظم کا معنی بہت بڑے فریاد رس ہے بہت بڑے مددگار ہے۔ اب جو لوگ غوث اعظم کہنے سے چڑھتے ہیں وہ اپنے امام کو کیا کہیں گے
اب جو لوگ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نذر ونیاز کو بدعت کہتے پھرتے ہیں وہ لوگ اپنے امام اسماعیل دہلوی پر کیا فتویٰ لگائیں گے اس کا فیصلہ آپ خود کریں
(5) دلیل پنجم :-
مولوی خرم علی کے نزدیک گیارھویں شریف اگر ایصال ثواب کے لئے ہو تو منع نہیں
خود مخالف کے ایک مولوی خرم علی بلہوری لکھتے ہیں کہ
حاضری حضرت عباس کی ۔صحنک حضرت فاطمہ کی ۔گیارھویں عبد القادر جیلانی کی ۔مالیدہ شاہ مدار کا ۔سہ منی بو علی قلندر کی ۔ توشہ شاہ عبد الحق کا ۔اگر منت نہیں صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہو تو درست ہے ۔اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔(نصیحۃ المسلمین ص 41)
(6) دلیل ششم :-
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کے بھائی شاہ رفیع الدین دہلوی مرحوم سے ایک سوال ہوا کہ
تخصیص ماکولات در فاتحہ بزرگان مثل "کھچڑا "اور فاتحہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و توشہ در فاتحہ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ذلک ہمچنان تخصیص خورند گان چہ حکم دارد؟. یعنی بزرگوں کے فاتحہ میں کھانوں کو خاص کرنا ۔مثلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فاتحہ میں "کھچڑا" شاہ عبد الحق کے فاتحہ میں توشہ وغیرہ ذلک یوں ہی کھانے والوں کو خاص کرنا ۔ان سب کا کیا حکم ہے ؟
جواب :-
فاتحہ و طعام بلاشبہ از مستحسنات ست و تخصیص کہ فعل مخصص است باختیار اوست کہ باعث منع نمی تواند شد این تخصیصات از قسم عرف وعادت اند کہ بمصالح خاصہ ومناسبت خفیہ ابتداء بطہورہ آمدہ رفتہ رفتہ شیوع یافتہ
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1)سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے گھر میں بکری پال سکتے ہیں یا بکری پالے تاکہ گھر کا کھانا کھاکر اس بکری کا گوشت عمدہ ہوجائے
(2) پھر اس بکری کو ذبح کرکے اور پکاکر سرکار غوث اعظم شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ کی فاتحہ پڑھ کر لوگوں کو کھلا دے تو کوئی حرج نہیں یعنی جائز و درست ہے
(3) اس عبارت کا جملہ بکری کے گوشت پر فاتحہ پڑھ کر لوگوں کو کھلائے قابل یاد رکھنے کی بات ہے۔
(4) خود امام الطائفہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں یہ بات بھی قابل حفظ ہے اور یاد رکھنے کے لئے مناسب ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی خود شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غوث اعظم مان رہے ہیں کہہ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں اور غوث اعظم کا معنی بہت بڑے فریاد رس ہے بہت بڑے مددگار ہے۔ اب جو لوگ غوث اعظم کہنے سے چڑھتے ہیں وہ اپنے امام کو کیا کہیں گے
اب جو لوگ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نذر ونیاز کو بدعت کہتے پھرتے ہیں وہ لوگ اپنے امام اسماعیل دہلوی پر کیا فتویٰ لگائیں گے اس کا فیصلہ آپ خود کریں
(5) دلیل پنجم :-
مولوی خرم علی کے نزدیک گیارھویں شریف اگر ایصال ثواب کے لئے ہو تو منع نہیں
خود مخالف کے ایک مولوی خرم علی بلہوری لکھتے ہیں کہ
حاضری حضرت عباس کی ۔صحنک حضرت فاطمہ کی ۔گیارھویں عبد القادر جیلانی کی ۔مالیدہ شاہ مدار کا ۔سہ منی بو علی قلندر کی ۔ توشہ شاہ عبد الحق کا ۔اگر منت نہیں صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہو تو درست ہے ۔اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔(نصیحۃ المسلمین ص 41)
(6) دلیل ششم :-
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کے بھائی شاہ رفیع الدین دہلوی مرحوم سے ایک سوال ہوا کہ
تخصیص ماکولات در فاتحہ بزرگان مثل "کھچڑا "اور فاتحہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و توشہ در فاتحہ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ذلک ہمچنان تخصیص خورند گان چہ حکم دارد؟. یعنی بزرگوں کے فاتحہ میں کھانوں کو خاص کرنا ۔مثلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فاتحہ میں "کھچڑا" شاہ عبد الحق کے فاتحہ میں توشہ وغیرہ ذلک یوں ہی کھانے والوں کو خاص کرنا ۔ان سب کا کیا حکم ہے ؟
جواب :-
فاتحہ و طعام بلاشبہ از مستحسنات ست و تخصیص کہ فعل مخصص است باختیار اوست کہ باعث منع نمی تواند شد این تخصیصات از قسم عرف وعادت اند کہ بمصالح خاصہ ومناسبت خفیہ ابتداء بطہورہ آمدہ رفتہ رفتہ شیوع یافتہ
یعنی فاتحہ اور طعام بلاشبہ مستحسن ہیں ۔اور تخصیص جو متخصص (خاص کرنے والے ) کا فعل ہے ۔وہ اس کے اختیار میں ہے ۔ممانعت کا سبب نہیں ہوسکتا ۔یہ خاص کرلینے کی مثالیں سب عرف اور عادت کی قسم ہے جو ابتداء میں خاص مصلحتوں اور خفی مناسبتوں کی وجہ سے رونما ہوئیں پھر رفتہ رفتہ عام ہوگئیں۔
(فتاویٰ شاہ رفیع الدین)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ (1) فاتحہ اور طعام جائز مستحسن ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے یہ شاہ رفیع الدین صاحب کا فتوی ہے اور فاتحہ میں طعام یا سامنے ہوگا یا بغل میں کیونکہ طعام رزق الہی ہے پیٹھ پیچھے تو رکھا نہیں جائے گا خلاصہ یہ ہے کہ فاتحہ میں طعام کا انتظام مستحسن ہے
(2) حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کے نام سے فاتحہ کرنا جائز ہے اور کھانا کھلانا بھی جائز ہے
(3) توشہ عبد الحق بھی جائز ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اس عبارت سے واضح ہوا کہ (1) فاتحہ اور طعام جائز مستحسن ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے یہ شاہ رفیع الدین صاحب کا فتوی ہے اور فاتحہ میں طعام یا سامنے ہوگا یا بغل میں کیونکہ طعام رزق الہی ہے پیٹھ پیچھے تو رکھا نہیں جائے گا خلاصہ یہ ہے کہ فاتحہ میں طعام کا انتظام مستحسن ہے
(2) حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کے نام سے فاتحہ کرنا جائز ہے اور کھانا کھلانا بھی جائز ہے
(3) توشہ عبد الحق بھی جائز ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
8 جمادی الاخری 1445
22 دسمبر 2023
22 دسمبر 2023