(سوال نمبر 4822)
سیونگ اکاؤنٹ سود ہے یا نہیں؟ انشورنس کرانا کیسا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
سیونگ اکاؤنٹ سود ہے یا نہیں نیز انشورنس کروانا جائز ہے یا نہیں۔
مفصل جواب عنایت فرمائیں
سائلہ:- نسیم شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ پہلی بات پاکستان میں اسلامی بینک کوئی بھی نہیں ہے جو اصول اسلام پر گامزن ہوں
در اصل اکاؤنٹ کھلانے والا رقم بطور قرض بینک کو دیتا ہے ساتھ ہی اس رقم کی حفاظت بھی ہو اب دینے کے وقت میں اصل رقم واپسی کے ساتھ کوئی زیادتی رقم لینے کی شرط نہیں ہے اس لئے بینک جو اصل سے زائد رقم دے گی وہ سود نہیں ہے اب اس اصل اور زیادتی کو اپنے لئے یا کسی بھی مصرف مسجد و مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں۔ اب سود کی تعریف پیش خد مت ہے
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے
لغت میں ربا کا معنی زیادتی بڑھوتری اور بلندی ہے
١/ امام اصفہانی کہتے ہیں
الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں
(المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان)
٢/ ابو منصور محمد بن احمد الازہری فرماتے ہیں
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔
زیادتی دو قسم پر ہےحرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ بطور شرط حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔(تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروت)
٣/ امام الجزری لکھتے ہیں
هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔(ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2 192، المکتبة العلمیة بیروت)
٤/ احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں
هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض
جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔(جصاص، أحکام القرآن، 2 189، دار احیاء التراث العربي بیروت)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ بینک اگر خود اصل کے علاوہ اپنی مرضی سے دے اور رقم جمع کرانے والے کوئی شرط نہ لگائے تو وہ ہبہ ہے اور اسے لینا جائز ہے ۔
البتہ اگر رقم رکھنے کے وقت شرط لگائی کہ اتنے زیادہ اصل رقم کے علاوہ دینے ہوں گے پھر ناجائز ہے ۔پھر اس رقم کو مسجد یا اپنے لئے صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید وضاحت:-
مسلم بینک میں ملنے والا اضافہ نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ ملتا ہے تو وہ سود نہیں ہے۔ اس پر تو کسی کا کلام ہی نہیں ہے
اس کے برعکس اگر مذکورہ رقم سودی کھاتے میں رکھوائی گئی ہے جس پے طے شدہ شرح کے ساتھ اضافی رقم ملتی ہے تو یہ سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اس اضافی رقم کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھاتے (ACCOUNT) کی قسم سے ہوگا۔
غیر مسلم بینک جیسے انڈیا تو یہاں کے کافر حربی ہیں عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ـ مثلاً ـ ایک روپیہ کے بدلے ان سے دو روپیہ خرید لے یا انکے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالے کہ اس طریقہ پر مسلمان سے روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور یہاں کے کافر سے حاصل کر سکتے ہیں؛ اور کافر حربی و مسلمانوں کے درمیان سود نہیں؛
جیساکہ حدیث شریف میں ہے
لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب؛ اس حدیث میں فی دارالحرب کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں؛
لیکن یہاں کے کافروں سے نفع لینا جائز ہے (دیــنــا مــنـــع هے)
ردالمختار ج 4 ص 188میں ہے
ان مرادھم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم ۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا (اگر زید عمرو کو دس روپے کا نوٹ قرض دے اور اس وقت یا کچھ دنوں کے بعد عمر و بارہ روپے نقد ادا کرے تو اس پر سود کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں اور زید و عمر و گنہگارہوئے یانہیں؟ ) اس کے جواب میں فرماتے ہیں
اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی تو بے شک سود و حرام قطعی و گنا ہ ِ کبیر ہ ہے ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے۔
مفصل جواب عنایت فرمائیں
سائلہ:- نسیم شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ پہلی بات پاکستان میں اسلامی بینک کوئی بھی نہیں ہے جو اصول اسلام پر گامزن ہوں
در اصل اکاؤنٹ کھلانے والا رقم بطور قرض بینک کو دیتا ہے ساتھ ہی اس رقم کی حفاظت بھی ہو اب دینے کے وقت میں اصل رقم واپسی کے ساتھ کوئی زیادتی رقم لینے کی شرط نہیں ہے اس لئے بینک جو اصل سے زائد رقم دے گی وہ سود نہیں ہے اب اس اصل اور زیادتی کو اپنے لئے یا کسی بھی مصرف مسجد و مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں۔ اب سود کی تعریف پیش خد مت ہے
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے
لغت میں ربا کا معنی زیادتی بڑھوتری اور بلندی ہے
١/ امام اصفہانی کہتے ہیں
الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں
(المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان)
٢/ ابو منصور محمد بن احمد الازہری فرماتے ہیں
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔
زیادتی دو قسم پر ہےحرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ بطور شرط حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔(تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروت)
٣/ امام الجزری لکھتے ہیں
هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔(ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2 192، المکتبة العلمیة بیروت)
٤/ احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں
هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض
جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔(جصاص، أحکام القرآن، 2 189، دار احیاء التراث العربي بیروت)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ بینک اگر خود اصل کے علاوہ اپنی مرضی سے دے اور رقم جمع کرانے والے کوئی شرط نہ لگائے تو وہ ہبہ ہے اور اسے لینا جائز ہے ۔
البتہ اگر رقم رکھنے کے وقت شرط لگائی کہ اتنے زیادہ اصل رقم کے علاوہ دینے ہوں گے پھر ناجائز ہے ۔پھر اس رقم کو مسجد یا اپنے لئے صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید وضاحت:-
مسلم بینک میں ملنے والا اضافہ نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ ملتا ہے تو وہ سود نہیں ہے۔ اس پر تو کسی کا کلام ہی نہیں ہے
اس کے برعکس اگر مذکورہ رقم سودی کھاتے میں رکھوائی گئی ہے جس پے طے شدہ شرح کے ساتھ اضافی رقم ملتی ہے تو یہ سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اس اضافی رقم کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھاتے (ACCOUNT) کی قسم سے ہوگا۔
غیر مسلم بینک جیسے انڈیا تو یہاں کے کافر حربی ہیں عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ـ مثلاً ـ ایک روپیہ کے بدلے ان سے دو روپیہ خرید لے یا انکے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالے کہ اس طریقہ پر مسلمان سے روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور یہاں کے کافر سے حاصل کر سکتے ہیں؛ اور کافر حربی و مسلمانوں کے درمیان سود نہیں؛
جیساکہ حدیث شریف میں ہے
لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب؛ اس حدیث میں فی دارالحرب کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں؛
لیکن یہاں کے کافروں سے نفع لینا جائز ہے (دیــنــا مــنـــع هے)
ردالمختار ج 4 ص 188میں ہے
ان مرادھم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم ۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا (اگر زید عمرو کو دس روپے کا نوٹ قرض دے اور اس وقت یا کچھ دنوں کے بعد عمر و بارہ روپے نقد ادا کرے تو اس پر سود کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں اور زید و عمر و گنہگارہوئے یانہیں؟ ) اس کے جواب میں فرماتے ہیں
اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی تو بے شک سود و حرام قطعی و گنا ہ ِ کبیر ہ ہے ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے۔
(فتاوی رضویہ ج17 ص 278 رضا فاؤنڈیشن لاھور)
٢/ اگر اپ کی مالی حالت اچھی ہے اور اپ معینہ مدت تک جمع کروا سکتے ہیں تو جائز ہے ورنہ نہیں۔چونکہ مکمل قسط نہ جمع کروانے پر رقم کبھی کبھی ظبط کر لیتا ہے اس لئے صاحب استطاعت کے لئے چائز ہے سب کے لئے نہیں۔مذکورہ صورت میں دو سال یا ایک سال کے بعد اصل رقم پر منافع لینا جائز ہے ۔
فتاوی مرکز تربیت جلد دوم ص ٢٧٣ پر بحوالہ صحیفہ فقہ اسلامی ص نمبر ٣٢ ہے
لائف انشورنس ایل آئی سی یعنی زندگی بیمہ کرانا جائز ہے مگر ہر شخص کو اجازت نہیں صرف اسی کو اجازت ہے جس کو اپنی موجودہ مالی حالت کے ساتھ تین سال کی مقررہ یا جو بھی مدت متعین ہو یا اس کے بعد کی مدت موسعہ تک تین سال کی تمام قسطیں جمع کرنے کا ظن غالب ملحق بالیقین ہو اور جس کی موجودہ مالی حالت مدت موسعہ تک تین سال کی پالیسی قائم رکھنے کے قابل نہیں اسکا کا ظن غالب ملحق بالیقین نہیں تو ایسے شخص کو بیمہ پالیسی کی اجازت نہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
٢/ اگر اپ کی مالی حالت اچھی ہے اور اپ معینہ مدت تک جمع کروا سکتے ہیں تو جائز ہے ورنہ نہیں۔چونکہ مکمل قسط نہ جمع کروانے پر رقم کبھی کبھی ظبط کر لیتا ہے اس لئے صاحب استطاعت کے لئے چائز ہے سب کے لئے نہیں۔مذکورہ صورت میں دو سال یا ایک سال کے بعد اصل رقم پر منافع لینا جائز ہے ۔
فتاوی مرکز تربیت جلد دوم ص ٢٧٣ پر بحوالہ صحیفہ فقہ اسلامی ص نمبر ٣٢ ہے
لائف انشورنس ایل آئی سی یعنی زندگی بیمہ کرانا جائز ہے مگر ہر شخص کو اجازت نہیں صرف اسی کو اجازت ہے جس کو اپنی موجودہ مالی حالت کے ساتھ تین سال کی مقررہ یا جو بھی مدت متعین ہو یا اس کے بعد کی مدت موسعہ تک تین سال کی تمام قسطیں جمع کرنے کا ظن غالب ملحق بالیقین ہو اور جس کی موجودہ مالی حالت مدت موسعہ تک تین سال کی پالیسی قائم رکھنے کے قابل نہیں اسکا کا ظن غالب ملحق بالیقین نہیں تو ایسے شخص کو بیمہ پالیسی کی اجازت نہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/10/2023
27/10/2023