Type Here to Get Search Results !

کیا سالی سے نکاح یا زنا کرنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی یا نہیں؟


کیا سالی سے نکاح یا زنا کرنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی یا نہیں؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا سالی سے نکاح یا زنا کرنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی یا نہیں؟ کیا بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی؟
کیا بہنوئی کے ساتھ حلالہ کے لئے نکاح کرسکتی ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں کہ کیا سالی سے زنا یا نکاح کرنے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے ؟ اس کی تین صورتیں ہیں
(1) صرف سالی سے زنا کرنے کی وجہ سے
 جواب:- اس صورت میں بیوی سے صحبت حرام نہ ہوگی لیکن زنا کرنا سخت حرام ہے زنا کرتے وقت مومن مومن نہیں رہتا یعنی کامل مومن نہیں رہتا ہے اس پر فرض ہے کہ اسے ہاتھ نہ لگائے اور فورا چھوڑ دے 
(2) صرف سالی سے فقط نکاح کیا اور جماع نہیں کیا 
الجواب:- اس صورت میں بھی بیوی حرام نہ ہوگی لیکن سالی سے نکاح حرام ہے۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سالی سے نکاح یا زنا کرنے سے زوجہ مطلقہ نہیں ہوتی نہ سالی سے زنا کے سبب زوجہ سے جماع حرام۔
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد سوم ص 353)
(3) سالی سے نکاح اور بعد نکاح جماع واقع ہونا 
الجواب:- اس صورت میں بیوی اس کے اپنے دولہا کے لئے وہ حرام ہوگئی جب تک وہ سالی کو نہ چھوڑ دے اور سالی کو چھوڑ دے پھر عدت نہ گزر جائے اس وقت تک بھی بیوی حرام ہوگی ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں کہ زید کا اپنی سالی سے نکاح حرام قطعی ہوا ۔قال اللہ تعالیٰ وان تجمعوا بین الختین 
اس پر فرض ہے کہ فورا اسے چھوڑ دے پھر اگر ابھی سالی سے صحبت نہیں کی جب ہندہ اس کے لئے حلال ہے اور اگر اس سے صحبت کرلی تو اب اپنی منکوحہ ہندہ کے پاس بھی جانا حرام ہوگیا ۔جب تک سالی کو چھوڑ کر اس کی عدت نہ گزر جائے ۔جب اسے چھوڑے گا اور اس کی عدت گزر جائے گی اس وقت ہندہ کو ہاتھ لگانا جائز ہوگا۔
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد سوم ص 358)
 ان تمام جوابات کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
صورت اول کہ سالی سے زنا کرنے سے بیوی سے وطی حرام ہے یا نہیں ؟
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف فرماتے ہیں کہ سالی کے ساتھ زنا حرام مگر عورت کو حرام نہیں کرتا۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 388)
 ۔سالی سے زنا اشد حرام لیکن اس بد فعلی کی وجہ سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی نہ اس کے نکاح سے نکلی اور نہ ہی اس پر کچھ کفارہ دینا آتا ہے جیسا کہ فتاویٰ یورپ ص 371 پر ہے ۔
صورت دوم اور سوم کا جواب کہ بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن یعنی اپنی سالی سے صرف نکاح کیا اور صحبت نہ کی تو کیا بیوی سے ہم بستری حرام ہے ؟ یا بعد نکاح صحبت بھی کی تو اب بیوی حرام ہوئی یا نہیں ؟ 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
بموجودی زوجہ سالی سے نکاح حرام ہے۔ اور اس پر فرض ہے کہ اسے ہاتھ نہ لگائے اور فورا چھوڑ دے اور زنا تو ہر حال حرام ہی ہے مگر سالی سے نکاح یا زنا کرنے سے زوجہ مطلقہ نہیں ہوتی ۔نہ سالی سے زنا کے سبب زوجہ سے جماع حرام ہو۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 353)
پھر فرماتے ہیں کہ نہ سالی کے ساتھ فقط نکاح کرنے سے جماع زوجہ ممنوع ہوجاے 
جب تک سالی سے جماع واقع نہ ہو۔ ہاں اگر بعد نکاح سالی سے جماع کرلیا تو اب زوجہ سے جماع حرام ہوگیا۔یہاں تک کہ سالی کو چھوڑ دے اور اس کی عدت گزر جائے اس وقت زوجہ سے جماع جائز ہوگا یونہی اگر بے نکاح سالی سے جماع کیا مگر دیدہ و دانستہ زنا نہ کیا بلکہ شبہ اور دھوکے سے جماع واقع ہو تو بھی زوجہ سے جماع حرام ہوگیا جب تک اس جماع شبہ کے سبب سالی پر عدت لازم آتی ہے ختم ہو جائے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 353)
جمع بین الاختین حرام ہے لہذا بیوی کی موجودگی میں سالی کے ساتھ یا بہن کی موجود گی میں اپنے بہنوئی کے ساتھ نکاح نہیں ہوسکتا ہے ۔ تاحیات زوجہ جب تک اسے طلاق ہوکر عدت نہ گزر جائے س کی بہن سے جو اس کی باپ کے نطفے یا ماں کے پیٹ سے یا دودھ شرک ہے نکاح حرام ہے 
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس کی بہن اس کے بہنوئی کے نکاح میں ہے ۔اس سے نکاح نہیں ہوسکتا۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد دوم صفحہ 61)
لہذا بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن یعنی سالی سے نکاح جائز نہیں ہے یعنی جب تک بہن بہنوئی کے نکاح میں یے اس سے کسی دوسری بہن کا نکاح حرام ہے اسی طرح حلالہ بھی جائز نہیں۔
بہار شریعت میں ہے کہ دو عورتیں جن کو جمع کرنا حرام ہے اگر دونوں سے بیک عقد نکاح کیا تو کسی سے نکاح نہ ہوا فرض ہے دونوں کو فورا جدا کردے اور دخول نہ ہوا ہو تو مہر بھی واجب نہیں نہ ہوا 
اور اگر دونوں سے دو عقد کے ساتھ کیا تو پہلی سے نکاح ہوا اور دوسری کا نکاح باطل لہذا پہلی سے وطی جائز مگر جب کہ دوسری سے وطی کرلی تو اب جب تک اس کی عدت نہ گزر جائے تو پہلی سے بھی وطی حرام ہے۔
(بہار شریعت جلد ہفتم ص 24)
جب بیوی کی موجودگی میں سالی سے نکاح باطل ہے تو حلالہ کے لئے نکاح کیوں کر جائز ہوگا ؟ اور حلالہ کے لئے ہم بستری بھی شرط ہے اگر سالی سے صحبت کی تو وہ نرا زنا ہوگا اور جب زنا ہوگا تو پھر بہنوئی سے حلالہ کے لئے نکاح کی اجازت کیسے دی جائے گی اول کہ بہنوئی سے بہن کی موجودگی میں نکاح قطعی حرام و باطل ہے اور صحبت زنا ہے جب کہ حلالہ میں نکاح صحیح اور صحبت شرط ہے نہ کہ زنا اور زنا تو ہمیشہ حرام ہی ہوتا ہے 
حلالہ کو صحیح ہونے کے لئے ہم بستری شرط ہے نہ کہ زنا۔
قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
اگر شوہر نے تین طلاق دے دی تو عورت شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ عورت دوسرے شوہر سے صحبت نہ کرے 
دیکھیئے قرآن نے مطلقہ ثلاثہ کے شوہر اول پر حلال ہونے کی وہی ترکیب بتائی جس کو آج کل حلالہ کہا جاتا ہے اور اس کے لئے صحبت شرط ہے۔
حدیث رفاعہ میں ہے : انہوں نے اپنی عورت کو طلاق دے دی عورت نے کسی دوسرے صاحب سے نکاح کرلیا پھر دربار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں آئیں اور کہا ۔میرا دوسرا شوہر عورت کے لائق نہیں ہے اس پر رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی ہو عورت بولی ہاں حضور نے فرمایا جب تک یہ دوسرا شوہر تم سے صحبت نہ کرے ایسا نہیں ہوسکتا
حلالہ کے لئے مباشرت کی حد کیا ہے؟
الجواب:- اگر وطی میں حشفہ داخل ہوگیا ہو تو عورت اپنے شوہر اول کے لئے حلال ہوگئی۔
(فتاوی بحر العلوم جلد سوم ص 448)
اور جب حلالہ صحیح کے بغیر اس سے نکاح پڑھا لیا تو یہ ناجائز و حرام ہوا ۔اور جان بوجھ کر جتنے لوگ اس میں شریک ہوئے سب مجرم و گنہگار ہوئے۔ اور امام صاحب جنہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے نکاح پڑھایا اور گواہ بھی اگر ان کا حال بھی یہی ہو سب پر توبہ واستغفار لازم ہے ہندہ کسی دوسرے سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ صحبت کرے اور طلاق دے مزید عدت کے بعد ۔شوہر اول کے لئے حلال ہوگی ۔اگر نہیں کرتا ہے تو مسلمان ان کا بائیکاٹ کریں جیسا کہ فتاویٰ بحر العلوم کی عبارت سے واضح ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 25 شوال المکرم 1444
بمطابق 16 مئی 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area