مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
فلسطین میں دو ریاست یا ایک ریاست
فلسطین میں دو ریاست یا ایک ریاست
••────────••⊰❤️⊱••───────••
(1)29:نومبر1947 کو امریکہ،برطانیہ ودیگر مغربی ممالک کی سازش کے سبب اقوام متحدہ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ایک حصہ یہودیوں کو دیا گیا اور دوسرا حصہ فلسطینی مسلمانوں کے لئے خاص کیا گیا۔یہودیوں نے 14:مئی 1948 کو یہودی ملک کے قیام کا اعلان کیا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔قتل وغارت گری دیکھ کر سات لاکھ سے زائد فلسطینی مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔یہودیوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھ کر اس پاس کے مسلم ممالک(مصر،جارڈن،شام،لبنان وعراق) نے یہودیوں پر حملہ کر دیا۔1949 میں امن معاہدوں کے ذریعہ جنگ بندی ہو گئی۔گرچہ قانونی طور پر جنگ بندی ہو چکی تھی،لیکن 1948سے آج تک اسرائیلی یہودی مسلمانوں کو قتل کرتے رہے ہیں اور ان کے گھروں پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔
1948 میں یہودیوں نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے نام سے ایک ملک قائم کر لیا۔فلسطینی مسلمانوں کے پاس کوئی عظیم قائد نہ تھا جو تمام فلسطینیوں کو منظم کر سکے،نیز فلسطین کو ملنے والے حصوں پر مصر،جارڈن،شام اور اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔
بہت سے مسلم ممالک اور دیگر ممالک آج تک اسرائیل کو ایک ملک نہیں مانتے،کیوں کہ فلسطینیوں کی زمین پر باہر کے یہودیوں کو بسا دیا گیا اور فلسطینیوں کو ان کے ملک سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں آغاز امر سے ہی دو ریاستی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فلسطین میں ایک ملک فلسطینی مسلمانوں کا ہو گا اور دوسرا ملک یہودیوں کا ہو گا،لیکن فلسطین کو ایک ملک کی شکل دینے کے واسطے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
13:ستمبر 1993 کو اسرائیل اور فلسطینی حکم رانوں کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا۔فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کو ایک ملک تسلیم کر لیا،لیکن اسرائیلی یہودیوں نے فلسطین کو ایک ملک بننے نہ دیا،بلکہ یہودی حکومت ہمیشہ کی طرح فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ بڑھاتی رہی اور ان مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کو بساتی رہی۔فلسطین کو ایک ملک بننے کی راہ میں اسرائیل ہمیشہ رکاوٹ ڈالتا رہا اور اقوام متحدہ میں امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا۔
اب ساری دنیا کی مخالفت کے سب امریکہ کہتا ہے کہ فلسطین کو فوج اور ہتھیار سے خالی ملک بنایا جائے،یعنی فلسطین میں نہ فوج ہو،نہ ہی دفاعی ہتھیار ہو،تاکہ اسرائیل کو کوئی خطرہ نہ ہو،حالاں کہ فوج سے خالی فلسطین بنایا جائے تو اسرائیل جب چاہے گا،فلسطین پر حملہ کر کے اسے تباہ وبرباد کر دے گا اور فلسطینیوں پر ظلم ڈھائے گا۔اہل فلسطین ایسا فلسطین نہیں چاہتے ہیں،لہذا امریکہ واسرائیل کی کوشش ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر اس قدر ظلم وجبر کیا جائے کہ وہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور کوئی فلسطین کا دعویدار باقی نہ رہے،اسی لئے فلسطینی مسلمانوں پر قہر ڈھایا جا رہا ہے۔ہٹلر نے یہودیوں کاقتل عام کیا تھا اور اب یہودی حکومت مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا تو وہ غلط فہمی میں ہے۔اگر اسرائیل نیم مردہ بھی ہو جائے گا تو امریکہ ومغربی ممالک اسے سہارا دے کر اٹھائیں گے۔اسرائیل کوئی ملک نہیں،بلکہ مشرق وسطی کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ و مغربی ممالک کا ایک فوجی اڈہ ہے،جس کو ایک ملک کی شکل دی گئی ہے۔
(1)29:نومبر1947 کو امریکہ،برطانیہ ودیگر مغربی ممالک کی سازش کے سبب اقوام متحدہ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ایک حصہ یہودیوں کو دیا گیا اور دوسرا حصہ فلسطینی مسلمانوں کے لئے خاص کیا گیا۔یہودیوں نے 14:مئی 1948 کو یہودی ملک کے قیام کا اعلان کیا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔قتل وغارت گری دیکھ کر سات لاکھ سے زائد فلسطینی مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔یہودیوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھ کر اس پاس کے مسلم ممالک(مصر،جارڈن،شام،لبنان وعراق) نے یہودیوں پر حملہ کر دیا۔1949 میں امن معاہدوں کے ذریعہ جنگ بندی ہو گئی۔گرچہ قانونی طور پر جنگ بندی ہو چکی تھی،لیکن 1948سے آج تک اسرائیلی یہودی مسلمانوں کو قتل کرتے رہے ہیں اور ان کے گھروں پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔
1948 میں یہودیوں نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے نام سے ایک ملک قائم کر لیا۔فلسطینی مسلمانوں کے پاس کوئی عظیم قائد نہ تھا جو تمام فلسطینیوں کو منظم کر سکے،نیز فلسطین کو ملنے والے حصوں پر مصر،جارڈن،شام اور اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔
بہت سے مسلم ممالک اور دیگر ممالک آج تک اسرائیل کو ایک ملک نہیں مانتے،کیوں کہ فلسطینیوں کی زمین پر باہر کے یہودیوں کو بسا دیا گیا اور فلسطینیوں کو ان کے ملک سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں آغاز امر سے ہی دو ریاستی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فلسطین میں ایک ملک فلسطینی مسلمانوں کا ہو گا اور دوسرا ملک یہودیوں کا ہو گا،لیکن فلسطین کو ایک ملک کی شکل دینے کے واسطے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
13:ستمبر 1993 کو اسرائیل اور فلسطینی حکم رانوں کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا۔فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کو ایک ملک تسلیم کر لیا،لیکن اسرائیلی یہودیوں نے فلسطین کو ایک ملک بننے نہ دیا،بلکہ یہودی حکومت ہمیشہ کی طرح فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ بڑھاتی رہی اور ان مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کو بساتی رہی۔فلسطین کو ایک ملک بننے کی راہ میں اسرائیل ہمیشہ رکاوٹ ڈالتا رہا اور اقوام متحدہ میں امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا۔
اب ساری دنیا کی مخالفت کے سب امریکہ کہتا ہے کہ فلسطین کو فوج اور ہتھیار سے خالی ملک بنایا جائے،یعنی فلسطین میں نہ فوج ہو،نہ ہی دفاعی ہتھیار ہو،تاکہ اسرائیل کو کوئی خطرہ نہ ہو،حالاں کہ فوج سے خالی فلسطین بنایا جائے تو اسرائیل جب چاہے گا،فلسطین پر حملہ کر کے اسے تباہ وبرباد کر دے گا اور فلسطینیوں پر ظلم ڈھائے گا۔اہل فلسطین ایسا فلسطین نہیں چاہتے ہیں،لہذا امریکہ واسرائیل کی کوشش ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر اس قدر ظلم وجبر کیا جائے کہ وہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور کوئی فلسطین کا دعویدار باقی نہ رہے،اسی لئے فلسطینی مسلمانوں پر قہر ڈھایا جا رہا ہے۔ہٹلر نے یہودیوں کاقتل عام کیا تھا اور اب یہودی حکومت مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا تو وہ غلط فہمی میں ہے۔اگر اسرائیل نیم مردہ بھی ہو جائے گا تو امریکہ ومغربی ممالک اسے سہارا دے کر اٹھائیں گے۔اسرائیل کوئی ملک نہیں،بلکہ مشرق وسطی کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ و مغربی ممالک کا ایک فوجی اڈہ ہے،جس کو ایک ملک کی شکل دی گئی ہے۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:دسمبر 2023
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:دسمبر 2023