نور عین لطافت ہیں میرے نبی
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم:- حضرت مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
پوجانگر میراروڈ ممبئی
ازقلم:- حضرت مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
پوجانگر میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ہمیں حیرت ہے ان لوگوں پر جو علم کو نور قرار دیتے ہیں
ہمیں حیرت ہے ان لوگوں پر جو علم کو نور قرار دیتے ہیں
لیکن جس ذات مقدس کی حیات ، اخلاق اور سیرت کے جاننے کو علم کہتے ہیں اس ذات مبا رکہ کو نور کہنے میں انہیں دلائل میں ضعف نظر آتا ہے لیکن حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو دل مضطر نور کی ٹھنڈک سے قرار پاتا ہے کہ ہم اس نبی کی امت سے ہیں جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا کیا جو اس کے شایان شان ہے ۔ہم اہل سنت کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم جہاں بشر ہیں وہیں خیر البشر بھی ہیں ۔ خیر بشر کا معنی اور مفہوم ہی یہ ہے کہ خلائق میں آپ جیسا کوئی نہیں اور جو آپ کو اپنا جیسا بشر کہتا ہے وہ یقیناً گمراہ ہے کہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واضح فرمان ہے ’’ ایکم مثلی ‘‘تم میں مجھ جیسا کو ن ہے ؟۔یقینا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک جتنے انسان ہوئے یا ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے اس لئے کہ تمام مخلوق کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ہے، آپ ظاہراً بشر ہیں اور حقیقتاً نور ہیں بلکہ ہمارے علمائے اہل سنت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عین نور قرار دیتے ہیں اور یہ باتیں وہ اپنی طر ف سے نہیں کہتے ہیں بلکہ اس پر قرآن و حدیث سے دلیل لاتے ہیں ، آپ نور ہیں یہ امر قرآن مقدس کی آیت کریمہ ’’قد جاء کم من اللہ نوروکتاب مبین ‘‘سے ثابت ہے ۔اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے ۔
فقیہ ابولیث سمر قندی حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ قرآن بھی مراد لیتے ہیں نور وہ ہے جس سے اشیا ظاہر ہوتی ہیں اور آنکھیں اس کی حقیقت کو دیکھتی ہیں ۔
(تفسیر سمر قندی ،ج ۱ ، ص۴۲۴)
جمہور مفسرین اس آیت کریمہ میں ’’نور ‘‘سے مراد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی لیتے ہیں اور’’ کتاب مبین ‘‘سے قرآن مجید مراد لیتے ہیں ۔امام فخرالدین محمد بن عمر رازی لکھتے ہیں :اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں ۔بعض نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو لیتے ہیں ،بعض نور سے اسلام مراد لیتے ہیں اور بعض نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن لیتے ہیں ،لیکن یہ قول ضعیف ہے کہ قاعدہ کے مطابق عطف تغایر کو چاہتا ہے اس لئے یہ ظاہرہوگیا کہ نور سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مرادلی جائے اور کتاب سے قرآن مراد لیا جائے اور قرآن پر نور کا اطلاق کیاجانا جائز ہے ۔
فقیہ ابولیث سمر قندی حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ قرآن بھی مراد لیتے ہیں نور وہ ہے جس سے اشیا ظاہر ہوتی ہیں اور آنکھیں اس کی حقیقت کو دیکھتی ہیں ۔
(تفسیر سمر قندی ،ج ۱ ، ص۴۲۴)
جمہور مفسرین اس آیت کریمہ میں ’’نور ‘‘سے مراد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی لیتے ہیں اور’’ کتاب مبین ‘‘سے قرآن مجید مراد لیتے ہیں ۔امام فخرالدین محمد بن عمر رازی لکھتے ہیں :اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں ۔بعض نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو لیتے ہیں ،بعض نور سے اسلام مراد لیتے ہیں اور بعض نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن لیتے ہیں ،لیکن یہ قول ضعیف ہے کہ قاعدہ کے مطابق عطف تغایر کو چاہتا ہے اس لئے یہ ظاہرہوگیا کہ نور سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مرادلی جائے اور کتاب سے قرآن مراد لیا جائے اور قرآن پر نور کا اطلاق کیاجانا جائز ہے ۔
(تفسیر کبیر ، ج۳، ص ۳۸۴)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :آیت میں نور سے مراد نور عظیم ہے جو تمام انوار کا نور ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے ، زجاج کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔
(روح المعانی ، جز ۶،ص ۹۷)
ملاعلی بن سلطان محمد القاری حنفی لکھتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نور کا اطلاق کیا گیا چو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی وہ ذات مقدس ہے جو بندگان خدا کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتاہے اور آپ یہاں تک لکھتے ہیں کہ اس سے کیا چیز مانع ہے کہ نور اور کتاب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفات کا بیان ہورہا ہو یقیناً آپ نورِ عظیم ہیں ، کہ انوار میں آپ کا کامل ظہور ہے اور آپ ہی کتا ب مبین ہیں ، جامع الاسرار آپ ہی کالقب ہے اور آپ احکام الٰہی کے احوال واخبار کے ظاہر کر نے والے ہیں ۔
علامہ سید محمود آلوسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :آیت میں نور سے مراد نور عظیم ہے جو تمام انوار کا نور ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے ، زجاج کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔
(روح المعانی ، جز ۶،ص ۹۷)
ملاعلی بن سلطان محمد القاری حنفی لکھتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نور کا اطلاق کیا گیا چو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی وہ ذات مقدس ہے جو بندگان خدا کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتاہے اور آپ یہاں تک لکھتے ہیں کہ اس سے کیا چیز مانع ہے کہ نور اور کتاب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفات کا بیان ہورہا ہو یقیناً آپ نورِ عظیم ہیں ، کہ انوار میں آپ کا کامل ظہور ہے اور آپ ہی کتا ب مبین ہیں ، جامع الاسرار آپ ہی کالقب ہے اور آپ احکام الٰہی کے احوال واخبار کے ظاہر کر نے والے ہیں ۔
(شر ح الشفا ،علی ھامش نسیم الر یا ض ، ج۱، ص ۱۱۴)
شاعر مشرق عاشق رسول قلندر لاہوری ڈاکٹر محمد اقبال اسی راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ:
لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ ر نگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب
شوکت سنجرو سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدو بایزید تیرا جمال بے نقاب
تیری نگاہ ناز سے دونو ں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
حضرات مفسرین میں اکثر کا مختار مذہب یہی ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد ہما رے آقا احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ،آپ جہاں نور ہدایت ہیں، نور معنوی ہیں وہیں نور حسی بھی ہیں ۔علامہ ابوعبد اللہ محمد بن محمد فاسی مالکی المعروف ابن حاج لکھتے ہیں :
امام ابو عبدالرحمن الصقلی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الدلات ‘‘میں نقل کیا ہے کہ اللہ عزوجل نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہ کی جو اس کو اس امت سے زیادہ محبوب ہو اور نہیں نبی مکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عزت و عظمت والا ہے ،حضور کی تخلیق کا حال تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نور پیدا کیااور وہ نور عرش کے ستون کے سامنے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتا رہا پھر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورسے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کے نور سے باقی انبیا علیہم السلام کے نور کوپیدا کیا اس طرح تمام انبیائے کرام علیہم السلام آپ ہی کے نور سے فیض یافتہ ہیں ۔
حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں :سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا گیا ، کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی ۔
شاعر مشرق عاشق رسول قلندر لاہوری ڈاکٹر محمد اقبال اسی راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ:
لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ ر نگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب
شوکت سنجرو سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدو بایزید تیرا جمال بے نقاب
تیری نگاہ ناز سے دونو ں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
حضرات مفسرین میں اکثر کا مختار مذہب یہی ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد ہما رے آقا احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ،آپ جہاں نور ہدایت ہیں، نور معنوی ہیں وہیں نور حسی بھی ہیں ۔علامہ ابوعبد اللہ محمد بن محمد فاسی مالکی المعروف ابن حاج لکھتے ہیں :
امام ابو عبدالرحمن الصقلی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الدلات ‘‘میں نقل کیا ہے کہ اللہ عزوجل نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہ کی جو اس کو اس امت سے زیادہ محبوب ہو اور نہیں نبی مکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عزت و عظمت والا ہے ،حضور کی تخلیق کا حال تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نور پیدا کیااور وہ نور عرش کے ستون کے سامنے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتا رہا پھر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورسے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کے نور سے باقی انبیا علیہم السلام کے نور کوپیدا کیا اس طرح تمام انبیائے کرام علیہم السلام آپ ہی کے نور سے فیض یافتہ ہیں ۔
حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں :سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا گیا ، کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی ۔
(خزائن العرفان ، ص ۱۷۶)
جب ہمارے علما معناً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کا باپ قرار دیتے ہیں تو بعض سلفی ، دیوبندی ، وہابی وغیرہ چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام حضرت آدم کے معنوی با پ ہوں تو ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ علامہ ابن الحاج کی یہ تحریریں پڑھیں وہ لکھتے ہیں : حضرت آدم علیہ السلام نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے وہ !جو معناً میرے باپ ہیں اور صورتاً میرے بیٹے ہیں ،امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نےعرض کیا : یارسول اللہ ! آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی ؟فرمایا :ابھی آدم روح اورجسد کے درمیان تھے ۔
(المدخل ، ج ۲ ، ص ۳۳)
ان کی نبوت ان کی ابوت ہے سب کو عام
ام البشر عروس انہیں کے پسرکی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ سد ابو البشر کی ہے
(حضرت رضا بریلوی)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں : نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذر یعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔
(خازن ، ج ۱ ، ص ۴۷۷)
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لفظ ’’نور ‘‘کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : نور سے مراد نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
(جلالین ، ص ۹۷)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نور ہونا خودہی ظاہر فرمایا امام عبد الرزاق رحمتہ اللہ علیہ جو امام بخاری اور امام مسلم کے دادا استاد ہیں آپ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کر تے ہیں :
جب ہمارے علما معناً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کا باپ قرار دیتے ہیں تو بعض سلفی ، دیوبندی ، وہابی وغیرہ چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام حضرت آدم کے معنوی با پ ہوں تو ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ علامہ ابن الحاج کی یہ تحریریں پڑھیں وہ لکھتے ہیں : حضرت آدم علیہ السلام نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے وہ !جو معناً میرے باپ ہیں اور صورتاً میرے بیٹے ہیں ،امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نےعرض کیا : یارسول اللہ ! آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی ؟فرمایا :ابھی آدم روح اورجسد کے درمیان تھے ۔
(المدخل ، ج ۲ ، ص ۳۳)
ان کی نبوت ان کی ابوت ہے سب کو عام
ام البشر عروس انہیں کے پسرکی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ سد ابو البشر کی ہے
(حضرت رضا بریلوی)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں : نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذر یعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔
(خازن ، ج ۱ ، ص ۴۷۷)
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لفظ ’’نور ‘‘کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : نور سے مراد نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
(جلالین ، ص ۹۷)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نور ہونا خودہی ظاہر فرمایا امام عبد الرزاق رحمتہ اللہ علیہ جو امام بخاری اور امام مسلم کے دادا استاد ہیں آپ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کر تے ہیں :
قال سئلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اول شئی خلقہ اللہ تعالیٰ ؟ فقال ھو نور نبیک یاجابر خلقہ اللہ۔
یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شئی کو پیدا فر مایا ؟ارشاد فرمایا ۔اے جابر ! وہ تیرے نبی کا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ۔
(الجزالمفقود من المصنف عبدالرزاق ، کتاب الایمان ، با ب فی تخلیق نور محمد ، ص ۶۳)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تمام آیات جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری و مساوات معلوم ہوتی ہو وہ متشابہات کے مثل ہیں جیسے اللہ تعالیٰ اپنے نور کی مثال یوں دیتا ہے۔ ’’مثل نورہ کمشکاۃ فیہا مصباح‘‘(النور :۳۵)
اس کا نور ایسا ہے جیسے تاقچہ میں چراغ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نور الٰہی چراغ جیسا ہے ، اسی طرح کوئی یہ نہیں سوچ سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ہم جیسے بشر ہیں ۔
محمد بشر لاکالبشر
بل ھو یا قوت بین الحجر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں مگر عام بشر نہیں ، آپ کی مثال ایسی ہے جیسے پتھروں میں یاقوت ۔
مرزا اسد اللہ خاں غالب کہتے ہیں :
حق جلوہ گرز طرز بیان محمد است
آرے کلام حق بزبان محمد است
محمد کے طرز و بیان سے حق ظاہر ہوتاہے ،کلام حق تعالیٰ آپ کی ہی زبان مبارک سے ظاہر ہے ۔
رسول اکرم ارواحنا فداہ صلی اللہ علیہ وسلم آئینہ حق ہیں جس کے دو رخ ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات کی حقیقت بے معنی ہوتی اور اس کا قالب بے فیض ہوتا ۔ آئینہ کا ایک رخ اللہ کی طرف ہے جہاں سے ارشاد ہوتا ہے ’’وما ینطق عن الھوی ان ھوا لا وحی یو حی ‘‘(النجم :۳،۴)
وہ اپنی خواہش اور مرضی سے کچھ نہیں فرماتے ، ان سے تو جوکچھ اللہ فرماتا ہے وہ وہی فرماتے ہیں ۔
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
اگر چہ از حلقوم عبد اللہ بود
یعنی اللہ تعالیٰ کے حبیب کا بولنا گویا اللہ ہی کا بولنا ہے اگر چہ زبان تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پہ کلام اللہ ہی کا جاری ہوتا ہے۔
اور دوسرا رخ مخلوق کی طرف ہے جس سے ارشاد ہوتا ہے ’’انما انا بشر مثلکم ‘‘(الکہف :۱۱۰)
(الجزالمفقود من المصنف عبدالرزاق ، کتاب الایمان ، با ب فی تخلیق نور محمد ، ص ۶۳)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تمام آیات جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری و مساوات معلوم ہوتی ہو وہ متشابہات کے مثل ہیں جیسے اللہ تعالیٰ اپنے نور کی مثال یوں دیتا ہے۔ ’’مثل نورہ کمشکاۃ فیہا مصباح‘‘(النور :۳۵)
اس کا نور ایسا ہے جیسے تاقچہ میں چراغ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نور الٰہی چراغ جیسا ہے ، اسی طرح کوئی یہ نہیں سوچ سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ہم جیسے بشر ہیں ۔
محمد بشر لاکالبشر
بل ھو یا قوت بین الحجر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں مگر عام بشر نہیں ، آپ کی مثال ایسی ہے جیسے پتھروں میں یاقوت ۔
مرزا اسد اللہ خاں غالب کہتے ہیں :
حق جلوہ گرز طرز بیان محمد است
آرے کلام حق بزبان محمد است
محمد کے طرز و بیان سے حق ظاہر ہوتاہے ،کلام حق تعالیٰ آپ کی ہی زبان مبارک سے ظاہر ہے ۔
رسول اکرم ارواحنا فداہ صلی اللہ علیہ وسلم آئینہ حق ہیں جس کے دو رخ ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات کی حقیقت بے معنی ہوتی اور اس کا قالب بے فیض ہوتا ۔ آئینہ کا ایک رخ اللہ کی طرف ہے جہاں سے ارشاد ہوتا ہے ’’وما ینطق عن الھوی ان ھوا لا وحی یو حی ‘‘(النجم :۳،۴)
وہ اپنی خواہش اور مرضی سے کچھ نہیں فرماتے ، ان سے تو جوکچھ اللہ فرماتا ہے وہ وہی فرماتے ہیں ۔
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
اگر چہ از حلقوم عبد اللہ بود
یعنی اللہ تعالیٰ کے حبیب کا بولنا گویا اللہ ہی کا بولنا ہے اگر چہ زبان تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پہ کلام اللہ ہی کا جاری ہوتا ہے۔
اور دوسرا رخ مخلوق کی طرف ہے جس سے ارشاد ہوتا ہے ’’انما انا بشر مثلکم ‘‘(الکہف :۱۱۰)
بے شک میں تم جیسا بشر ہوں ۔
حضرت شاہ ابو علی قلندر پانی پتی قدس سرہ فرماتے ہیں :
تو بودی معنی آدم عزا زیلے اگر داند
ز اول روز تا محشر نمی برداشت پیشانی
آپ آدم اور آدمیت کا سر ہیں ، اگر شیطان کو یہ معلوم ہوجاتا تو وہ قیامت تک سجدہ سے پیشانی نہ اٹھاتا۔
نہ پچیدہ سرازطاعت اگر ابلیس دانستے
کہ مثل چوں فرزند یست در ذریت آدم
اگر شیطان کو پتا چل جاتا کہ حضرت آدم کی اولاد میں آپ جیسی ہستی ہوگی تووہ ان کو سجدہ کرنے سے کبھی ا نکار ہی نہیں کرتا ۔
(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار ، ص ۳۷؍۳۸)
شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانی قدس سرہ النورانی فرما تے ہیں : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا تو اسے حکم ہوا جملہ نور انبیا کو دیکھے چنانچہ اللہ عزوجل نے تمام انبیا کے نور کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی :مو لیٰ ! کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟تو اللہ عزوجل نے فرمایا کہ یہ عبد اللہ کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔
حضرت شاہ ابو علی قلندر پانی پتی قدس سرہ فرماتے ہیں :
تو بودی معنی آدم عزا زیلے اگر داند
ز اول روز تا محشر نمی برداشت پیشانی
آپ آدم اور آدمیت کا سر ہیں ، اگر شیطان کو یہ معلوم ہوجاتا تو وہ قیامت تک سجدہ سے پیشانی نہ اٹھاتا۔
نہ پچیدہ سرازطاعت اگر ابلیس دانستے
کہ مثل چوں فرزند یست در ذریت آدم
اگر شیطان کو پتا چل جاتا کہ حضرت آدم کی اولاد میں آپ جیسی ہستی ہوگی تووہ ان کو سجدہ کرنے سے کبھی ا نکار ہی نہیں کرتا ۔
(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار ، ص ۳۷؍۳۸)
شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانی قدس سرہ النورانی فرما تے ہیں : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا تو اسے حکم ہوا جملہ نور انبیا کو دیکھے چنانچہ اللہ عزوجل نے تمام انبیا کے نور کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی :مو لیٰ ! کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟تو اللہ عزوجل نے فرمایا کہ یہ عبد اللہ کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔
(مواھب لدنیہ ، ج۱ ، ص۲۳)
امام المفسرین علامہ ابن جریر لکھتے ہیں :کہ نور سے مراد اس آیت کریمہ میں ذات پاک محمد مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و الثناہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حق کو روشن کردیا ، اسلام کو ظاہر فرمایا ، شرک کو نیست و نابود کیا ۔ حضور نور ہے مگر اس کے لئے جو اس نور سے دل کی آنکھوں کو روشن کرنا چاہے۔
(تفسیر ابن جریر، بحوالہ :تفسیر ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۵۳ ۴)
اہل سنت کے حکیم حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی قدس سرہ فرما تے ہیں :
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں ، ظاہری جسم شریف بشر ہیں اور حقیقت نور ہیں۔ (رسالہ نور مع رسائل نعیمیہ ، ص ۳۹)
(تفسیر ابن جریر، بحوالہ :تفسیر ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۵۳ ۴)
اہل سنت کے حکیم حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی قدس سرہ فرما تے ہیں :
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں ، ظاہری جسم شریف بشر ہیں اور حقیقت نور ہیں۔ (رسالہ نور مع رسائل نعیمیہ ، ص ۳۹)
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ترسیل:- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی ثنائی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ:- شیرمہاراشٹراتعلیمی فاؤنڈیشن میراروڈ ممبئی
ترسیل:- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی ثنائی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ:- شیرمہاراشٹراتعلیمی فاؤنڈیشن میراروڈ ممبئی