(سوال نمبر 4798)
کیا میت کا عقیقہ کرنا جائز ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلے ذیل کے بارے میں کہ میت کی طرف سے حصول ثواب کیلئے عقیقہ کرانا درست ہے یا نہیں اور اس کے گوشت کا کیا حکم ہے تفصیل کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:-محمد زاہد مہراجگنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
میت کا عقیقہ نہیں اس کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ و خیرات کریں البتہ میت کے نام قربانی کر سکتے ہیں۔
یاد رہے عقیقہ کے گوشت کا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا یے ۔
واضح رہے کہ انتقال کے بعد عقیقہ نہیں۔ کیوں کہ عقیقہ بطور شکرانِ نعمت کیا جاتا ہے،انتقال چونکہ زوال نعمت ہے اور نعمت کے زائل ہونے کے بعد اس کا محل ہی باقی نہ رہا ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
عقیقہ بعد موت پسر نہیں کہ وہ شکر ولادت ہے (ج۸ص۵۴۵ )
نیز اسی میں ہے
اور عقیقہ شکر نعمت ہے،بعد زوال نعمت اس کا محل نہیں (حوالہ سابق)
اور فتاوی امجدیہ میں ہے
مردہ کا عقیقہ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے (ج۳ ص ۳۳۶) (ایسا ہی فتاوی مسائل ورلڈ میں ہے)
اب تفصیلات ملاحظہ کریں
صاحبِِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں کرنا مستحب ہے اور اس کا مستحب وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
سنن ترمذی میں ہے
عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين‘‘
کیا میت کا عقیقہ کرنا جائز ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلے ذیل کے بارے میں کہ میت کی طرف سے حصول ثواب کیلئے عقیقہ کرانا درست ہے یا نہیں اور اس کے گوشت کا کیا حکم ہے تفصیل کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:-محمد زاہد مہراجگنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
میت کا عقیقہ نہیں اس کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ و خیرات کریں البتہ میت کے نام قربانی کر سکتے ہیں۔
یاد رہے عقیقہ کے گوشت کا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا یے ۔
واضح رہے کہ انتقال کے بعد عقیقہ نہیں۔ کیوں کہ عقیقہ بطور شکرانِ نعمت کیا جاتا ہے،انتقال چونکہ زوال نعمت ہے اور نعمت کے زائل ہونے کے بعد اس کا محل ہی باقی نہ رہا ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
عقیقہ بعد موت پسر نہیں کہ وہ شکر ولادت ہے (ج۸ص۵۴۵ )
نیز اسی میں ہے
اور عقیقہ شکر نعمت ہے،بعد زوال نعمت اس کا محل نہیں (حوالہ سابق)
اور فتاوی امجدیہ میں ہے
مردہ کا عقیقہ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے (ج۳ ص ۳۳۶) (ایسا ہی فتاوی مسائل ورلڈ میں ہے)
اب تفصیلات ملاحظہ کریں
صاحبِِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ اس کی زندگی میں کرنا مستحب ہے اور اس کا مستحب وقت پیدائش کا ساتواں دن ہے اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
سنن ترمذی میں ہے
عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدي و عشرين‘‘
(أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)
صورتِ مسئولہ میں جو پیدائش سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا زندہ پیدا ہونے کے بعد عقیقہ سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا، مرحومین کے نام پر عقیقہ کرنے کا احادیث سے ثبوت نہیں ملتا، البتہ مرحومین کی طرف سے نفلی قربانی کی جا سکتی ہے، لہذا عقیقہ کرنے کے بجائے نفلی قربانی کرلی جائے۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے
ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور (٢/ ٢١٣)
والله ورسوله اعلم بالصواب
صورتِ مسئولہ میں جو پیدائش سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا زندہ پیدا ہونے کے بعد عقیقہ سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا، مرحومین کے نام پر عقیقہ کرنے کا احادیث سے ثبوت نہیں ملتا، البتہ مرحومین کی طرف سے نفلی قربانی کی جا سکتی ہے، لہذا عقیقہ کرنے کے بجائے نفلی قربانی کرلی جائے۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے
ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور (٢/ ٢١٣)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/10/2023
24/10/2023