Type Here to Get Search Results !

کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟ قسط سوم

خطابات و القابات قسط سوم
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری المعروف بہ مفتی اعظم بہار
ناشر: -تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی 
 باہتمام:- دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتا مڑھی بہار  
••────────••⊰❤️⊱••───────••
بقیہ
 کسی کو کوئی لقب یا خطاب نہیں مل سکتا کہ ہر علم والے پر علم والا ہے۔
اور پورے بہار میں سب سے زیادہ کس کو علم ہے اس کا اندازہ لگانا بہت ہی مشکل کام ہے!
(الحاصل )
کیا افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کو خطاب و لقب دیا جا سکتا ہے۔
(جواب)1 ہاں کیونکہ لقب رکھنے کے لئے معنی لغوی کے ساتھ ادنی مناسبت کافی ہوتی ہے. من کل الوجوہ اس کاصدق لازم نہیں.  
(2) خطابات و القابات عہدوں کے مثل ہوتے ہیں کہ ان کے تلفظ میں معنی حقیقی لغوی مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ معنی حقیقی اور مسمی کے کسی وصف پر مناسبت کی بنا ہر بولتے ہیں اگرچہ وہ مناسبت برائے نام ہو!!!! 
(3) علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " کبھی مفضول میں ایسی فضلیت پائی جاتی ہے جو افضل میں نہیں پائی جاتی ہے جیسے حضرت سلمان فارسی تو وہ صحابی ہونے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں لیکن علم، اجتہاد ،نظر دین اور تدوین احکام میں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح نہیں تھے
پتہ چلاکہ کبھی مفضول میں ایسی فضیلت پائی جاتی ہے جو افضل میں نہیں پائی جاتی۔
(فتاوٰی شامی قولہ " من اعظم معجزات المصطفی مقولہ 372)
(2) سوال کیا افضل کی موجودگی میں مفضول کی تقلید جائز ہے؟  
جواب. علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ " التحریر " اور اس کی شرح میں ذکر کیا گیا ہے کہ " افضل کی موجودگی میں مفضول کی تقلید جائز ہے۔ یہی قول احناف اور اکثر حنابلہ اور شافعیہ کا ہے۔
(فتاویٰ شامی مقولہ 323)
(3) کیا افضل کی موجودگی میں مفضول امام ہوسکتا ہے؟  
جواب: جی ہاں 
فضیلت دینے کا معیار
اللہ عزوجل فرماتا ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فضلیت دینے کا معیار اور طریقہ ارشاد فرمایا کہ فضیلت کسے اور کس طرح دینی چاہئیے چناچہ فرماتے ہیں ۔
قل ان الفضل بید اللہ یؤتیہ من یشاء
تم فرما دو کہ فضیلت اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرماتا ہے (پارہ تین ال عمران آیت 73)
اس آیت کریمہ سے مسلمانوں کو دو ہدایتیں ہوئیں :
(1) یہ کہ مقبولات بارگاہ احدیت میں اپنی طرف سے ایک کو افضل دوسرے کو مفضول نہ بنائے کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔
(2) یہ کہ جب دلیل مقبول سے ایک کی فضیلت ثابت ہو تو نفس کی خواہش اپنے ذاتی علاقہ نسب یا نسبت شاگردی یا مریدی وغیرہ کو اصلا دخل نہ دے کہ فضل ہمارے ہاتھ نہیں کہ اپنے آباد و اساتذہ و مشائخ کو اوروں سے افضل ہی کریں جسے خدا نے افضل کیا وہی افضل ہے اگرچہ ہمارا ذاتی علاقہ اس سے کچھ نہ ہو اور جسے مفضول کیا وہی مفضول ہے اگرچہ ہمارے سب علاقہ اس سے ہو 
یہ اسلامی شان ہے مسلمان کو اسی پر عمل چاہئیے ۔اکابر خود رضا الہی میں فنا تھے جسے اللہ عزوجل نے ان سے افضل کیا 
کیا وہ ان پر خوش ہوں گے کہ ہمارے متوسل ہمیں اس سے افضل بتائیں ۔حاش للہ ! وہ سب سے پہلے اس پر ناراض اور سخت غضب ناک ہوں گے تو اس سے کیا فائدہ کہ اللہ عزوجل کی عطا کا بھی خلاف کیا جائے اور اپنے اکابر کو بھی ناراض کیا جائے! 
(حضور غوث اعظم اور عقائد نظریات ص 140 ۔مصنف استاذ الحدیث والفقہ حضرت علامہ مولانا مفتی ہاشم خان العطاری المدنی ناشر امام احمد رضا اکیڈمی صالح نگر بریلی شریف)
پس اس سے اچھی طرح واضح ہوا کہ جسے کوئی لقب یا خطاب کسی۔ مشائخ یا کسی سے ملے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور اس کا خلاف کرے گا گویا وہ عطا کرنے والے کو ناراض کیا ۔یہ۔ بھی بات واضح ہوئی کہ کسی نے استاد یا پیر یا دوسرت یا تعلقاتی کو کوئی لقب نہیں ملا اور دوسرے کو مل گیا تو اب شاگرد کو یا اس مرید کو یا اس تعلقاتی کو خلاف نہیں کرنا چاہیئے اور نہ افضل اور نہ مفضول کا سہارا لے کر اس کے خلاف و شکوہ کرنا چاہیئے بلکہ خدا تعالیٰ کی اس عطا کو قبول کرنا چاہیئے یاد رکھیں کہ لقب و خطاب فضل الٰہی سے ہے جس کے نصیب جو ملنا ہوتا ہے اسے مل جاتا ہے لہذا خلاف کرکے حسد کی آگ میں نہ جلے کہ حاسدین کی حسد اس کی تمام نیکیوں کو کھا جاتی ہے!!! 
ایک مثال سے سمجھیں:-
بعد انبیاء علیھم السلام حضرت امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے لیکن خود ایک حدیث شریف میں امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے وارد 
لو کان بعدی نبی کان عمر بن الخطاب
یعنی میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ہوتا ۔(جامع الترمذی ۔ابواب المناقب ۔مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلد دوم ص 209 ۔المستدرک للحاکم ۔کتاب معرفہ الصحابۃ۔جلد تین ص 85 ۔المعجم الکبیر ج 4 ص 154. مسند امام احمد بن حنبل ۔ج 4 ص 154)
جبکہ افضلیت کے اعتبار سے امیر المومنین حضرت عمر رضی آللہ تعالیٰ عنہ کا نام آنا چاہیئے تھا لیکن خلفائے راشدین میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں !!! 
(4) کیا خطابات و القابات عطا کرنے کے لئے بلاک یا ضلع یا صوبہ یا ملک کا سروے کرکے دیا جائے؟  
جواب:- نہیں! کیونکہ جب اعلی حضرت کو مجدد کا خطاب دیا گیا تو ہند و عرب کا سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہر ملک کے علمائے کرام سے مشورہ لیا گیا اور جب حضور جیلانی میاں رحمة اللہ علیہ کو مفسر اعظم ہند کا خطاب دیا گیا تو پورے ہند کا سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی علمائے کرام سے مشورہ لیا گیا اورجب حضور اختر رضا خان رحمة اللہ علیہ کو تاج الشریعۃ کا خطاب دیا گیا تو نہ کوئی سروے کیا گا اور نہ کوئی مشورہ لیا گیا اور جب مفتی اشفاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مفتی اعظم راجستھان کا خطاب دیا گیا تو کوئی سروے. نہیں کیا گیا اور نہ کوئی مشورہ لیا گیا۔ ان تمام باتوں سے پتہ چلا کہ خطاب ولقب دینے کے لئے سروے کر نا یا مشورہ کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ ہاں ان کی دینی خدمات و فقہی مہارت کو دیکھ کر عطا کیا جاتا ہے ۔علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ " ہر شخص کی قدر یعنی اس کا حسن اس چیز کے ساتھ ہوگا جس کا وہ عمدہ کرے گا یہ ' البیضاوی " نے ذکر کیا ہے پس صانع کی قدر اس کی صنعت کی مقدار کے مطابق ہوگی اور جس نے آداب کے علوم کو عمدہ کہا اس کی قدر ان کی قدر کے مطابق ہوگی۔جس نے علم فقہ کو اچھی طرح حاصل کیا اس کی قدر اس کی عظمت کی وجہ سے عظیم ہوگی ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جو کسی کام کو عمدہ کرے گا اس کا مقام اس کی قدر کے مطابق ہوگا۔
(فتاویٰ شامی مقولہ 287 باب مقدمہ)
 کیونکہ فقیہ نیکی اور تقوی کی طرف بہتر قیادت و رہنمائی کرنے والا ہوتا ہے 
( ووزن کل امرء ما کان یحسنہ، والجاھلون لاھل العلم اعداء)
یعنی ہر شخص کی قدر و منزلت اس کے علم کے مطابق ہوتی ہے جس کو اچھی طرح حاصل کرتا ہے جاہل لوگ اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں۔
(ففز بعلم ولا تجھل بہ ابدا، الناس موتی و اھل العلم احیاء )
یعنی پس علم حاصل کرکے کامیاب ہو جا اور علم کے غافل نہ ہو لوگ مردہ ہے اور اہل علم زندہ ہے ( مقدمہ در مختار ) اور کچھ لوگوں کی عادت خواہ مخواہ مخالفت کرنے کی ہوتی ہے۔ قل لمن لم یرالمعاصر شینا
یعنی تم اس شخص کو بتاؤ جو اپنے ہم عصر علماء کو کچھ نہیں سمجھتا!!! 
اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین کرلے کہ ہر آدمی کی پہچان و قدر و منزلت ان کے اپنے کارنامے کے اعتبار سے ہوتی ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے جس کو وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ جس وقت کسی کو کوئی لقب سے یاد کرے اس وقت اس میں اس وصف کا پایا جانا ضروری ہ
الجواب ۔کبھی اس وصف کے حامل کو لقب دیا جاتا ہے کبھی کسی کو کوئی لقب ملتا ہے تو وہ اپنے اندر کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ وہ اس کہنے کا حقدار ہوجائے جیسے امام اعظم ابوحنیفہ قدس سرہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ یہ امام ابوحنیفہ ہیں جو تمام رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور سوتے نہیں آپ نے امام یوسف سے فرمایا :سبحان اللہ ! کیا تم خدا کی شان نہیں دیکھتے کہ اس نے ہمارے لئے اس قسم کا چرچا کردیا اور کیا یہ بری بات نہیں کہ لوگ ہمارے متعلق وہ بات کہیں جو ہم میں نہ ہو ۔لہذا ہمیں لوگوں کے گمان کے مطابق بننا چاہئیے ۔خدا کی قسم ! میرے بارے میں لوگ وہ بات نہ کہیں جو میں نہیں کرتا ۔اپ تمام رات عبادت ودعا آہ وزاری میں گزارنے لگے
(کنز الایمان جنوری 2017 ص 40) 
دیکھا امام اعظم ابوحنیفہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ رات بھر جاگتے نہیں تھے لیکن ایک دن سنا کہ لوگ کہ رہے ہیں کہ یہ امام ابوحنیفہ ہیں جو تمام رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور سوتے نہیں تو اسی دن سے آپ رات بھر جاگ جاگ کر عبادت میں مشغول رہتے ہیں تاکہ لوگوں کی بات جھوٹی ثابت نہ ہو 
اسی طرح ایک مرتبہ کسی ناواقف شخص نے اپنے ایک عریضہ میں امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ کے القاب کے ساتھ : حافظ: کا لفظ لکھ دیا ( حالانکہ آپ اس دن تک حافظ قرآن نہیں تھے ) ۔حسن اتفاق سے اس کا عریضہ 29 انتیس شعبان کو آپ کی خدمت میں پہنچا ۔دوسرے ہی دن سے آپ نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کردیا ۔ہر روز ایک پارہ حفظ کرکے تراویح کی نماز میں آپ سنا دیتے یہاں تک کہ رمضان شریف کی ستائیسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے حفظ قرآن مجید پورا کرلیا اور صرف ایک مہینے کی مختصر مدت میں آپ حافظ ہوگئے ( کنز الایمان جنوری 2017 ص 40)
مذکورہ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ ہمارے اسلاف کرام کو کسی نے ایسے القاب سے نوازا ۔اس وقت جو صفت ان میں موجود نہ تھی ۔تو انہوں نے انتہائی قلیل مدت میں اپنے آپ کو ان صفات سے مزین فرمالیا ۔یعنی انہوں نے لوگوں کی امیدوں اور توقعات پر کھرے اترنے کی صد فی صد کوشش کیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
8 اکتوبر 2019
از شرف قلم:-مصباح ملت شیخ طریقت مفتی محمد ثنا ٕ اللہ خان ثنا ٕ القادری مرپاوی سیتامڑ ھی بہار
زیرسر پرستی: عزة الاسلام ولی ابن ولی خطیب الاسلام شیخ طریقت حضرت علامہ محمد توصیف رضا خان صاحب بریلی شریف

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area